خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ 07؍ جون 2019ء
خلاصہ خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 07؍جون2019ءبمقام مسجد مبارک، اسلام آباد ، ٹلفورڈ ،سرے ، یوکے
امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 70؍ جون 9102ء کو مسجدمبارک، اسلام آباد ، ٹلفورڈ ،سرے ، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا ۔ جمعہ کی اذان دینے کی سعادت مکرم شہزاد احمد صاحب کے حصہ میں آئی۔
تشہد،تعوذاورسورۃالفاتحہ کی تلاوت کےبعد امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا آج دوبارہ بدری صحابہ کا ذکر شروع کروں گا۔ سب سے پہلے حضورِ انور نے حضرت عبداللہ بن طارقؓ بلوی کا ذکر فرمایا۔آپؓ،حضرت معتبؓ کے اخیافی بھائی تھے، یہ دونوں بھائی غزوہ بدراوراحد میں شامل ہوئے، اور دونوں نے واقعہ رجیع کے دن شہادت پائی۔ آپؓ کی قبر ظہران میں ہے۔ حضورِ انور نے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے حوالے سے واقعہ رجیع کی بعض تفاصیل بیان فرمائیں۔
دوسرے صحابی جن کا حضورِ انور نے تذکرہ فرمایا ان کا نام حضرت عاقل بن بکیرؓ تھا۔ عاقل قبیلہ بنوسعدبن لیث سے تعلق رکھتے تھے۔ اسلام سے پہلے آپؓ کا نام غافل تھا، تاریخ وسیرت کی کتب میں آپؓ کا نام بکیر یا ابو بکیربھی بیان ہوا ہے۔ آپؓ نے دارِارقم میں اسلام قبول کیا تھا ۔ مدینے ہجرت کے بعد آپؓ کے خاندان نے حضرت رفاعہ بن عبدالمنذر کے ہاں قیام کیا۔ رسول اللہ ﷺنے عاقلؓ کی مؤاخات حضرت مبشر بن عبدالمنذر کے ساتھ قائم فرمائی۔ آپؓ غزوہ بدر میں 34 برس کی عمر میں مالک بن زہیر جشمی کے ہاتھوں شہید ہوئے۔
حضورِ انور نے ابوبکیر کے بیٹوں کے آنحضرتﷺسے اپنی بہن کے لیے رشتہ تجویز کرنے کی درخواست کاواقعہ بیان فرمایا۔ آنحضرتﷺ نے حضرت بلالؓ کا نام تجویز فرمایا جس پر ان بھائیوں کوانقباض ہوا۔ تیسری بارمیں، جب آپؐ نے فرمایا کہ ایسے شخص کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے کہ جو اہلِ جنت میں سے ہے۔اس پر رشتے کےلیے آمادہ ہوگئے۔
اس کے بعد حضورِ انور نے حضرت زید بن حارثہ ؓ کا تفصیلی ذکر فرمایا۔ آپؓ کے والد کا نام حارثہ بن شرحیل یا شرحبیل بیان کیا جاتا ہے۔ والدہ کا نام سُعدٰی بنت ثعلبہ تھا۔ آپؓ کا تعلق یمن کے معزز قبیلے بنوقضاعہ سے تھا۔ بچپن میں آپؓ کو اغوا کرکے غلام بنا کر فروخت کردیا گیا۔ آپؓ کو حکیم بن حزام نے چارسو درہم میں خرید کر اپنی پھوپھی حضرت خدیجؓہ کو پیش کردیا۔زید جو 8 برس کی عمر میں غلام بنالیے گئےتھے، یوں آنحضرتﷺ کے سپرد ہوگئے۔ جب آپؓ کے والد کو زید کے متعلق خبر ملی تو وہ آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور فدیے کے بدلے زید کی آزادی کی درخواست کی۔ حضورﷺ نے زید کی رائے طلب کی تو آپؓ نے آنحضورﷺ کے حسنِ سلوک کے باعث اپنے والد کے ساتھ جانے سے انکار کردیا۔
حضرت مصلح موعودؓ نے حضرت خدیجہؓ کے تمام مال و اسباب اور غلام وغیرہ آنحضورﷺ کے سپرد کردینے پر بصیرت افروز تبصرہ فرمایا ہے۔آپؐ نے سب سے پہلے تمام غلام آزاد کیے۔ آج کل اگر کسی کو اتنا مال و دولت مل جائے تو وہ موٹریں خریدنے،کوٹھی بنانے، یورپ کی سیرکرنے کے منصوبے بنائے۔ لیکن آپؐ نے یہ پسند نہ فرمایا کہ ایک انسان دوسرے انسان کا غلام ہو۔ یوں آنحضرتﷺ نے مال ملنے پر غیرمعمولی سخا کا ثبوت دیا۔
حضورِانور نے حضرت مصلح موعودؓ اور حضرت مرزا بشیراحمدصاحبؓ کے حوالے سے حضرت زیدؓ کے والد کے ساتھ جانے سے انکار اور آپؐ کے خانہ کعبہ میں جاکر زیدؓ کو بیٹا بنانے کےاعلان کا تفصیلی ذکر فرمایا۔
زیدؓ کی خصوصیات میں ایک خصوصیت یہ ہے کہ تمام صحابہ میں سے صرف ان ہی کا نام قرآن شریف میں صراحت کے ساتھ مذکور ہوا۔ حضرت حبلہ جو زیدؓکے بھائی تھے اور ان سے عمر میں بڑے تھے۔ ان سے کسی نے پوچھا کہ آپ دونوں میں سے کون بڑا ہے تو حبلہ نے جواب دیا کہ زید مجھ سے بڑے ہیں مَیں بس ان سے پہلے پیدا ہوگیا تھا۔ صحابہ زیدؓ کو زید بن حارثہ کی جگہ زید بن محمد کہہ کرپکارتےیہاں تک کہ قرآن کریم میں لےپالکوں کو ان کے باپوں کے ناموں سےپکارنے کا حکم نازل ہوگیا۔ روایت کے مطابق آنحضرتﷺ نے حضرت زیدؓ سے فرمایا کہ تم ہمارے بھائی، ہمارے دوست ہو۔ اسی طرح ایک موقعے پر آپؐ نے زیدؓ سے فرمایا کہ اے زید! تو میرا دوست ہے اور مجھ سے ہے اور میری طرف سے ہے،اور تو مجھے سب لوگوں سے زیادہ محبوب ہے۔
حضرت ابنِ عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے حضرت اسامہ بن زیدؓ کا مجھ سے زیادہ وظیفہ مقرر فرمایا۔ جب انہوں نے حضرت عمرؓ سے پوچھا کہ ایسا کیوں کیا گیا تو حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ اسامہ رسولِ خدا ﷺ کو تم سے زیادہ پیار اتھا۔
حضرت علی ؓ سے مروی ہے کہ زید رسول اللہ ﷺ کے آزاد کردہ غلام تھے۔آپؓ مردوں میں سب سے پہلےاسلام لائے اور نماز ادا کی۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہر طبقے کے لوگ آنحضرتﷺ کو عطا فرمادیے تھے۔ عثمان،طلحہ،زبیر وغیرہ مکے کے چوٹی کے خاندانوں سے تھے۔ زید،بلال وغیرہ غربا میں سے تھے۔ حضرت ابو بکرؓ تجربہ کار افراد میں سے تھے۔ چنانچہ کوئی بھی آنحضورﷺ پر اعتراض نہیں کرسکتا تھاکہ آپؐ کو قبول کرنے والے صرف نوجوان ہیں یا غربا ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا ایک بڑا فضل تھا جو رسول کریم ﷺ کے شاملِ حال تھا۔ اسی کا ذکر کرتے ہوئے خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَوَ ضَعْنَا عَنْکَ وِزْرَکَ الَّذِیْ اَنْقَضَ ظَھْرَکَ کہ اے محمد!کیا دنیا کو نظر نہیں آتا کہ جن سامانوں سے دنیا جیتا کرتی ہے وہ سارے سامان ہم نے تیرے لیے مہیا کردیے ہیں۔ تجربہ کار، مال دار، بارسوخ، افراد ہوں یا قربانی اور فدائیت دکھانے والی عوام ہر طرح کے لوگ ہم نے تجھے عطا کیے ہیں۔
10نبوی میں حضرت ابو طالب کی وفات کے بعد آپؐ اہلِ طائف کو تبلیغ کےلیے تشریف لے گئے،اس سفر میں حضرت زیدؓ آپؐ کے ساتھ تھے۔ طائف سرسبز علاقہ تھا جہاں میوے پیدا ہوتےتھے۔ وہاں قبیلہ بنو ثقیف کےلوگ آباد تھے۔ طائف کے سرداروں نے آپؐ کی دعوت کو قبول نہ کیااور آوارہ لوگوں کو آپؐ کے خلاف بھڑکایا۔ وہ آپؐ کو پتھر مارنے لگے یہاں تک کہ آپﷺ کے دونوں قدموں سے خون بہنے لگا۔ حضرت زید بن حارثہؓ رسول اللہ ﷺ پر پھینکے جانے والے پتھروں کو اپنے اوپر لینے کی کوشش کرتے تھے۔ یہاں تک کہ زیدؓ کے سر پر بھی متعددزخم آئے۔
آخر میں حضورِ انور نے فرمایا کہ حضرت زید کے حالات کی مزید تفصیل ابھی باقی ہے جو ان شاءاللّٰہ آئندہ خطبے میں بیان ہوگی۔
٭…٭…٭