شمائل مہدی علیہ الصلوٰۃ والسلام
آپؑ کے عشق رسول ﷺ کا بیان
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔اے فرماتے ہیں :
’’خاکسار عرض کرتا ہے کہ اگر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے اخلاق ذاتی کا مطالعہ کیا جاوے تو خدا اور اس کے رسول کی محبت ایک نہایت نمایاں حصہ لیے ہوئے نظر آتی ہے۔آپ کی ہر تقریر وتحریر ہر قول و فعل ہر حرکت و سکون اسی عشق و محبت کے جذبہ سے لبریز پا ئے جاتے ہیں ۔اور یہ عشق اس درجہ کمال کو پہنچا ہوا تھا کہ تاریخ عالم میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔دشمن کی ہر سختی کو آپ اس طرح برداشت کرجاتے تھے کہ گویا کچھ ہوا ہی نہیں اور اس کی طرف سے کسی قسم کی ایذا رسانی اورتکلیف دہی اور بدزبانی آپ کے اندر جوش و غیظ وغضب کی حرکت نہ پیدا کر سکتی تھی مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود باجود کے خلاف ذرا سی بات بھی آپ کے خون میں وہ جوش اور ابال پیدا کر دیتی تھی کہ اس وقت آپ کے چہرہ پر جلال کی وجہ سے نظر نہ جم سکتی تھی۔دشمن اور دوست،اپنے اور بیگانے سب اس بات پر متفق ہیں کہ جو عشق و محبت آپ کو سرور کائنات کی ذات والاصفات سے تھا اس کی نظیر کسی زمانہ میں کسی مسلمان میں نہیں پائی گئی۔ایسا معلوم ہوتا تھا کہ آپ کی زندگی کا ستون اور آپ کی روح کی غذا بس یہی محبت ہے۔جس طرح ایک عمدہ قسم کے اسفنج کا ٹکڑ ہ جب پا نی میں ڈال کر نکالا جاوے تو اس کا ہر رگ وریشہ اور ہر خانہ وگوشہ پانی سے بھر پور نکلتا ہے اور اس کا کوئی حصہ ایسا نہیں رہتا کہ جس میں پانی کے سوا کوئی اور چیز ہو ، اسی طرح ہر دیکھنے وا لے کو نظر آتاتھا کہ آپ کے جسم اورروح مبارک کا ہر ذرّہ عشق الٰہی اور عشق رسول ﷺسے ایسا بھر پور ہے کہ اس میں کسی اور چیز کی گنجائش نہیں اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلَیْہِ وَعَلٰی مُطَاعِہٖ مُحَمَّدٍ وَبَارِکْ وَسَلِّم۔‘‘
(سیرت المہدی جلد اوّل روایت نمبر 324)
حضرت اقدس امام مہدی علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سوانح اورآپؑ کے شمائل وخصائل کامطالعہ کرنے والاخواہ وہ سطحی جائزہ لے یا گہرائی میں جاکر۔اگر اس کا قلب و ضمیر زندہ اور انصاف پسند ہے تو اس کو قطعی طور پر یہ نتیجہ نکالنے میں دیر نہیں لگے گی کہ آپ ؑ کی زندگی عشق ِ الٰہی اور عشق رسول ﷺسے عبارت تھی۔آپ ؑ کی تحریر ہو یا تقریر، آپ ؑ کا قول ہو یا فعل، آپ ؑ کی کوئی بھی حرکت ہو یا سکون، انہیں دونوں عشقوں کے رنگ سے رنگین اور اسی عشق کی خوشبو سے معطر جس کی مہک آج بھی کم ہونے نہیں پائی۔اور ہوتی بھی کیوں ! کہ اس محبت بھرے دل کی یہ صدا تھی …!!
اِنِّی اَمُوْتُ وَ لَا یَمُوْتُ مَحَبَّتِیْ
یُدْرٰی بِذِکْرِکَ فِی التُرَابِ نِدَائِی
یعنی میں تومَرجاؤں گا لیکن میری محبت کبھی نہیں مرے گی۔قبرکی مٹی میں بھی تیرے ذکرکے ساتھ میری آوازپہچانی جائے گی۔
خدا کے بعد حضرت محمدمصطفیٰ ﷺ کاعشق تھا کہ جوآپ کے روح وقلب کو ہر وقت مخمور کیے رکھتا تھا …لوگ کچھ بھی کہیں بلاخوف لومۃ لائم اس عشق کا اظہار آپ ؑ کا مذہب اولین تھا۔آپ ؑ فرماتے ہیں کہ
بعد از خدا بعشقِ محمدؐ مخمرم
گر کفر ایں بوَد بخدا سخت کافرم
اپنے محبوب و مقتدا و ممدوح و مطاع کی مدح میں فرماتے ہیں :
’’وہ اعلیٰ درجہ کا نور جو انسان کو دیا گیا یعنی انسان کامل کو وہ ملایک میں نہیں تھا۔نجوم میں نہیں تھا۔قمر میں نہیں تھا۔آفتاب میں بھی نہیں تھا۔وہ زمین کے سمندروں اور دریاؤں میں بھی نہیں تھا۔وہ لعل اور یاقوت اور زمرّد اور الماس اور موتی میں بھی نہیں تھا۔غرض وہ کسی چیز ارضی اور سماوی میں نہیں تھا۔صرف انسان میں تھا یعنی انسان کامل میں جس کا اتم اور اکمل اور اعلیٰ اور ارفع فرد ہمارے سید و مولیٰ سید الانبیاء سیّد الاحیاء محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔سو وہ نور اس انسان کو دیا گیا اور حسب مراتب اُس کے تمام ہم رنگوں کو بھی یعنے ان لوگوں کو بھی جو کسی قدر وہی رنگ رکھتے ہیں … اور یہ شان اعلیٰ اور اکمل اور اتم طور پر ہمارے سیّد ہمارے مولیٰ ہمارے ہادی نبی اُمّی صادق مصدوق محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم میں پائی جاتی تھی۔‘‘
(آئینہ کمالاتِ اسلام روحانی خزائن جلد5صفحہ160-162)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
’’مَیں ہمیشہ تعجب کی نگہ سے دیکھتا ہوں کہ یہ عربی نبی جس کا نام محمدؐ ہے (ہزار ہزار درود اور سلام اس پر) یہ کس عالی مرتبہ کا نبی ہے۔اس کے عالی مقام کا انتہا معلوم نہیں ہوسکتا اور اس کی تاثیر قدسی کا اندازہ کرنا انسان کا کام نہیں۔افسوس کہ جیسا حق شناخت کا ہے اس کے مرتبہ کو شناخت نہیں کیا گیا۔وہ توحید جو دنیا سے گُم ہوچکی تھی وہی ایک پہلوان ہے جو دوبارہ اس کو دنیا میں لایا۔اُس نے خدا سے انتہائی درجہ پر محبت کی اور انتہائی درجہ پر بنی نوع کی ہمدردی میں اس کی جان گداز ہوئی۔اِس لیے خدا نے جو اُس کے دل کے راز کا واقف تھا اُس کو تمام انبیاء اور تمام اوّلین و آخرین پر فضیلت بخشی اور اُس کی مرادیں اس کی زندگی میں اُس کو دیں ۔وہی ہے جو سرچشمہ ہر ایک فیض کا ہے اور وہ شخص جو بغیر اقرار افاضہ اس کے کسی فضیلت کا دعویٰ کرتا ہے وہ انسان نہیں ہے بلکہ ذرّیت شیطان ہے۔کیونکہ ہر ایک فضیلت کی کنجی اس کو دی گئی ہے۔اور ہر ایک معرفت کا خزانہ اُس کو عطا کیا گیا ہے۔جو اُس کے ذریعہ سے نہیں پاتا وہ محروم ازلی ہے۔
ہم کیا چیز ہیں اور ہماری حقیقت کیا ہے۔ہم کافر نعمت ہونگے اگر اس بات کا اقرار نہ کریں کہ توحید حقیقی ہم نے اسی نبی کے ذریعہ سے پائی۔اور زندہ خدا کی شناخت ہمیں اسی کامل نبی کے ذریعہ سے اور اس کے نُور سے ملی ہے اور خدا کے مکالمات اور مخاطبات کا شرف بھی جس سے ہم اس کا چہرہ دیکھتے ہیں ۔اسی بزرگ نبی کے ذریعہ سے ہمیں میسّر آیا ہے۔اس آفتاب ہدایت کی شعاع دھوپ کی طرح ہم پر پڑتی ہے اور اُسی وقت تک ہم منوّر رہ سکتے ہیں جب تک کہ ہم اس کے مقابل پر کھڑے ہیں ۔‘‘
(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد22صفحہ118-119)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
’’ہم جب انصاف کی نظر سے دیکھتے ہیں تو تمام سِلسلئہ نبوت میں سے اعلیٰ درجہ کا جوانمرد نبیؐ اور زندہ نبیؐ اور خدا کا اعلیٰ درجہ کا پیارا نبیؐ صرف ایک مرد کو جانتے ہیں یعنی وہی نبیوں کا سردار رسولوں کا فخر۔تمام مرسلوں کا سرتاج جس کا نام محمد مصطفٰے و احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہے جس کے زیر سایہ دس (10) دن چلنے سے وہ روشنی ملتی ہے جو پہلے اس سے ہزار برس تک نہیں مل سکتی تھی‘‘
(سراج منیر روحانی خزائن جلد12صفحہ82)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
’’جو لوگ ناحق خدا سے بے خوف ہوکر ہمارے بزرگ نبی حضرت محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم کو بُرے الفاظ سے یاد کرتے اور آنجناب پر ناپاک تہمتیں لگاتے اور بدزبانی سے باز نہیں آتے ہیں ۔ان سے ہم کیونکر صلح کریں ۔میں سچ سچ کہتا ہوں کہ ہم شورہ زمین کے سانپوں اور بیابانوں کے بھیڑیوں سے صلح کرسکتے ہیں ۔لیکن ان لوگوں سے ہم صلح نہیں کرسکتے جو ہمارے پیارے نبی پر جو ہمیں اپنی جان اور ماں باپ سے بھی پیارا ہے ناپاک حملے کرتے ہیں ۔خدا ہمیں اسلام پر موت دے۔ہم ایسا کام کرنا نہیں چاہتے جس میں ایمان جاتا رہے۔‘‘
(پیغام صلح روحانی خزائن جلد23صفحہ459)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
’’عیسائی مشنریوں نے ہمارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بے شمار بہتان گھڑے ہیں اور اپنے اس دجل کے ذریعہ ایک خلقِ کثیر کو گمراہ کر کے رکھ دیا ہے۔میرے دل کو کسی چیز نے کبھی اتنا دکھ نہیں پہنچایا جتنا کہ ان لوگوں کے اس ہنسی ٹھٹھا نے پہنچایا ہے جو وہ ہمارے رسول پاکؐ کی شان میں کرتے رہتے ہیں ۔ان کے دل آزار طعن و تشنیع نے جو وہ حضرت خیرُالبشرؐ کی ذات والا صفات کے خلاف کرتے ہیں میرے دل کو سخت زخمی کر رکھا ہے۔خدا کی قسم اگر میری ساری اولاد اور اولاد کی اولاد اور میرے سارے دوست اور میرے سارے معاون و مددگار میری آنکھوں کے سامنے قتل کر دیے جائیں اور خود میرے اپنے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیے جائیں اور میری آنکھ کی پتلی نکال پھینکی جائے اور میں اپنی تمام مرادوں سے محروم کر دیا جاؤں اور اپنی تمام خوشیوں اور تمام آسائشوں کو کھو بیٹھوں تو ان ساری باتوں کے مقابل پر بھی میرے لیے یہ صدمہ زیادہ بھاری ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایسے ناپاک حملے کیے جائیں۔پس اے میرے آسمانی آقا! تو ہم پراپنی رحمت اور نصرت کی نظر فرما اور ہمیں اس ابتلاء عظیم سے نجات بخش۔‘‘
(ترجمہ عربی عبارت آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد5صفحہ15 از سیرت طیبہ صفحہ 42,41)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
’’نوعِ انسان کے لیے روئے زمین پر اَب کوئی کتاب نہیں مگر قرآن۔اور تمام آدم زادوں کے لیے اب کوئی رسول اور شفیع نہیں مگر محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم۔سو تم کوشش کرو کہ سچی محبت اس جاہ و جلال کے نبیؐ کے ساتھ رکھو۔اور اس کے غیر کو اس پر کسی نوع کی بڑائی مت دو تا آسمان پر تم نجات یافتہ لکھے جاؤ۔اور یاد رکھو کہ نجات وہ چیز نہیں جو مرنے کے بعد ظاہر ہوگی بلکہ حقیقی نجات وہ ہے کہ اسی دنیا میں اپنی روشنی دکھلاتی ہے۔نجات یافتہ کون ہے؟ وہ جو یقین رکھتا ہے جو خدا سچ ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس میں اور تمام مخلوق میں درمیانی شفیع ہے۔اور آسمان کے نیچے نہ اس کے ہم مرتبہ کوئی اور رسول ہے اور نہ قرآن کے ہم رُتبہ کوئی اور کتاب ہے اور کسی کے لیے خدا نے نہ چاہا کہ وہ ہمیشہ زندہ رہے مگر یہ برگزیدہ نبی ہمیشہ کے لیے زندہ ہے۔‘‘
(کشتی نوح روحانی خزائن جلد19صفحہ13-14)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
’’میرا مذہب یہ ہے کہ اگر رسول اللہ ﷺ کو الگ کیا جاتا اور کل نبی جو اس وقت تک گزر چکے تھے۔سب کے سب اکٹھے ہو کر وہ کام اوروہ اصلاح کرنا چاہتے۔جو رسول اللہ ﷺ نے کی ہر گز نہ کر سکتے۔ان میں وہ دل وہ قوت نہ تھی جو ہمارے نبیؐ کو ملی تھی۔اگر کوئی کہے کہ یہ نبیوں کی معاذ اللہ سوءِ ادبی ہے تو وہ نادان مجھ پر افترا کرے گا۔میں نبیوں کی عزت اور حرمت کرنا اپنے ایمان کا جزو سمجھتا ہوں ،لیکن نبی کریمؐ کی فضیلت کل انبیاء پر میرے ایمان کا جزو اعظم ہے اور میرے رگ وریشہ میں ملی ہوئی بات ہے۔یہ میرے اختیار میں نہیں کہ اس کو نکال دوں ۔بد نصیب اور آنکھ نہ رکھنے والا مخالف جو چاہے سو کہے۔ہمارے نبی کریم صلعم نے وہ کام کیا ہے جو نہ الگ الگ اور نہ مل مل کر کسی سے ہو سکتا تھا اور یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے۔‘‘
(ملفوظات جلددوم صفحہ174)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
’’ہم نے ایک ایسے نبی کا دامن پکڑا ہے جو خدا نما ہے۔کسی نے یہ شعر بہت ہی اچھا کہا ہے
محمدؐ عربی بادشاہِ ہر دو سرا
کرے ہے روحِ قُدس جس کے در کی دربانی
اسے خدا تو نہیں کہہ سکوں پہ کہتا ہوں
کہ اس کی مرتبہ دانی میں ہے خدا دانی
ہم کس زبان سے خدا کا شکرکریں جس نے ایسے نبی کی پیروی ہمیں نصیب کی جو سعیدوں کی ارواح کے لیے آفتاب ہے جیسے اجسام کے لیے سورج۔وہ اندھیرے کے وقت ظاہر ہوا اور دُنیا کو اپنی روشنی سے روشن کردیا وہ نہ تھکانہ ماندہ ہوا جب تک کہ عرب کے تمام حصہ کو شرک سے پاک نہ کردیا۔وہ اپنی سچائی کی آپ دلیل ہے کیونکہ اُس کا نور ہر ایک زمانہ میں موجود ہے اور اس کی سچی پیروی انسان کو یوں پاک کرتی ہے کہ جیسا ایک صاف اور شفاف دریا کا پانی میلے کپڑے کو۔‘‘
(چشمۂ معرفت روحانی خزائن جلد23صفحہ302-303)
(…………جاری ہے)