خواتین کی زیورِ تعلیم سے آراستگی
ذوات الخمار پر مذہبِ اسلام کا عظیم الشان احسان
زیورِ تعلیم سے آراستگی
سب انبیائے کرام کو خدا ئے رحمان نے خود تعلیم دے کر انسانوں کی تعلیم و تربیت کا کام سونپا۔
تخلیقِ آدم کے ساتھ ہی تعلیمِ آدم کا سلسلہ جاری ہوا
وَعَلَّمَ آدَمَ الْاَسْمَاءَ کُلَّھَا (البقرہ: 32)
اور اس نے آدم کو تمام نام سکھائے ۔ فخر الانبیاء حضرت محمد مصطفی ﷺ سے کلام الٰہی کا آغاز فرمایا تو پہلا لفظ ہی اقراء ( پڑھ ) تھا ۔
پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا ۔ اس نے انسان کو ایک چمٹ جانے والے لوتھڑے سے پیدا کیا ۔ پڑھ اور تیرا رب سب سے زیادہ معزز ہے ۔ جس نے قلم کے ذریعے سکھایا۔انسان کو وہ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا۔(العلق)
پھر علم حاصل کرنے اور اس میں اضافہ کرتے رہنے کے لیے دعا کرتے رہنے کا ارشاد فرمایا
قُلْ رَبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا (طہ:115)
یہ دعا مانگتے رہو کہ اے اللہ میرے علم میں اضافہ فرما۔
حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے توسط سے یہ حکم سب کے لیے ہے ۔ آپؐ الٰہی احکامات پر سب سے زیادہ صدق سے عمل فرماتے تھے ۔ آپؐ نے علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور ہر مسلمان عورت پر فرض قرار دیا
طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیْضَۃٌ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ وَ مُسْلِمَۃٍ (المعجم الاوسط )
اوامر و نواہی کے احکام میں بالعموم صیغہ مذکر استعمال ہوتا ہے جس میں مردو زن دونوں شامل ہوتے ہیں ۔ اس حدیث میں خاص طور پر ‘مسلمان عورت ’کا الگ سے ذکر فرمایا گیا ہے۔ جس سے عورتوں کو خاص طور پر تاکید کی گئی ہے۔
آنحضور ﷺ نے عورتوں کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی ۔اور توجہ دینے کی ہدایت فرما ئی ۔زمانہ جاہلیت میں طبقۂ اناث کو کم تر مخلوق سمجھا جاتا تھا ۔ اسلامی نظام میں ایک نیا معاشرہ تشکیل پا رہا تھا اس میں تعلیم یافتہ عورت کے اہم کردار کا ادراک آپ ﷺ سے بڑھ کر کس کو ہو سکتا تھا ۔ چنانچہ اس کے لیے آپﷺ نے عملی کوشش کی ۔
بھیج درود اس محسؐن پر تو دن میں سَو سَو بار
پاک محمؐد مصطفیٰ نبیوں کا سردار
حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے خواتین کی تعلیم و تربیت کے لیے ایک دن مقرر کیا ہوا تھا۔ حدیثِ مبارکہ ہے کہ
’’ایک مرتبہ عورتوں نے آپؐ سے عرض کیا مرد ہم سے فوقیت لے گئے ہیں (زیادہ استفادہ کر سکتے ہیں ) ہمارے لیے کوئی خاص دن مقرر فرمادیں ۔ آپؐ نے ان سے ایک دن مقرر کرلیا اور انہیں شرع کے احکام بتا تے اور ان کے سوالات کے جواب دیتے ‘‘
(صحیح بخاری کتاب العلم باب 12 )
اللہ پاک نے ان طالبات علم کو ارشاد فرمایا
وَاذْکُرْنَ مَا یُتْلٰی فِیْ بُیُوْتِکُنَّ مِنْ اٰیٰتِ اللّٰہِ وَالْحِکْمَۃِ (الاحزاب :35)
اور یاد رکھو اللہ کی آیات اور حکمت کو جن کی تمہارے گھروں میں تلاوت کی جاتی ہے ۔اس طرح اس نعمت کا شکر ادا کرو جو نبی ؐ کے گھر میں نبیؐ کی تربیت میں رہنے کے نتیجے میں سعادت پائی ہے۔
بالعموم عورتوں کو مرد کے مقابلے میں ناقص العقل یعنی ذہنی صلاحیتوں میں کم تر سمجھا جاتا تھا ۔ آپ ﷺ کی تعلیم سے یہ تأثر دور ہوا اور ثابت ہوا کہ اگر عورتوں کی استعدادوں کو ابھارا جائے تو وہ بعض لحاظ سے مردوں پر بھی غالب آجاتی ہیں۔ امہات المومنینؓ میں اس تعلیم و تربیت کا اثر نمایاں نظر آتا ہے ۔ اس کی پہلی مثال حضرت عائشہؓ ہیں جوآپؐ سے براہِ راست علم حاصل کرکے آگے اُمت کی معلمہ بنیں ۔ آپؐ کو ان کی صلاحیتوں پر بڑا بھروسا تھا ۔
کَانَتْ عاَئِشَۃُ افقہَ الناسِ واَعْلَم الناسِ واَحسنَ الناسِ رایا فی العامۃِ (الاصابہ ۔ حضرت عائشہؓ )
یعنی حضرت عائشہؓ لوگوں میں سب سے زیادہ دینی فہم رکھنے والی ، سب سے زیادہ علم کی مالک اور روز مرہ کے امور میں سب سے اچھی رائے دینے والی تھیں۔
اور حضرت عائشہؓ کے علم کی دوسری عورتوں کے علم پر فضیلت کے بارے میں فرمایا:
’’اگر امت کی عورتوں کا علم جمع کیا جائے تو عائشہؓ کا علم ان تمام عورتوں سے بڑھ جائے‘‘
آپؓ کے علم و فضل اور تفقہ فی الدین کا یہ عالم تھا کہ بڑے بڑے صحابہؓ بھی آپؓ کی طرف رجوع کرتے ۔ آپؓ سے فیض حاصل کرتے اور آپؓ سے فتویٰ پوچھتے ۔حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے بعد صحابہؓ کو کوئی مشکل ایسی پیش نہیں آئی کہ اس کا حل حضرت عائشہؓ کےپاس نہ مل گیا ہو۔
( ترمذی ابواب المناقب باب فضل عائشہؓ)
حضرت عائشہ بنت طلحہؓ کی روایت ہے کہ لوگ حضرت عائشہؓ سے خط لکھ کر بھی سوالات پوچھتے تھے جن کے جواب وہ ان سے لکھواتی تھیں۔
(بخاری ۔ ادب المفرد 382:۱ )
حضرت عروہ بن زبیرؓ بیان کرتے ہیں :
’’میں نے عائشہؓ سے بڑھ کر علم قرآن رکھنے والا۔ حلال حرام کا عالم۔علمِ فقہ۔ شعرو ادب۔ طب کا ماہر۔ تاریخِ عرب اور علم الانساب کا عالم کوئی نہیں دیکھا‘‘
( زرقانی ذکر الازواج ۔ حضرت عائشہؓ )
حضرت عائشہؓ سے 2102؍احادیث مروی ہیں تعداد کے لحاظ سے احادیث روایت کرنے والوں میں آپؓ کا چوتھا نمبر ہے پہلے تین مرد راوی ہیں۔
فرمایا:
نصف دین عائشہؓ سے سیکھو
حضرت عائشہؓ کے فہم قرآن کی مثال نہیں۔ علم دین کے بہت سے مسائل آپؓ کے آنحضور ﷺ سے استفسار کرنے سے واضح ہوئے ۔ خاص طور پر عورتوں کے روزمرہ کے مسائل پر آپؓ کی رائے کو سب پر فضیلت حاصل ہے ۔ فصاحت و بلاغت میں بھی کمال حاصل تھا ۔سب سے حسین مثال آپؓ کا اس سوال کا جواب ہے جب آپؓ سے پوچھا گیا کیا آپ آنحضرت ﷺ کے اخلاق کے بارے میں کچھ بتا سکتی ہیں ۔ اس کا جواب آپؓ نے صرف ایک جملے سے دیا
کَانَ خُلُقُہٗ الْقُرْآن
( الجزء الاول فی کتاب الطبقات الکبیر القسم الثانی ص 89 )
محمد ﷺ اور قرآن ایک سیپ کے دو موتی ہیں ۔ایک ہی چیز کے دو نام ۔ ایک کو دیکھو یا دوسرے کو ایک ہی تصویر نظر آئے گی۔ کیا خوب صورت جواب ہے صرف وہی یہ بات کہہ سکتا ہے جو دونوں کو باریک نظر سے بہ تمام و کمال جان چکا ہو پہچان چکا ہو ۔ سیرت و سوانح کی ساری کتب ایک طرف اور یہ ایک جملہ ایک طرف رکھیں تو یہ آپﷺ کی تصویر کشی میں سب پر بھاری ہے ۔
آنحضور ﷺ کی قوت قدسیہ اور تعلیم و تربیت سے محترم امہات المومنین ؓ اور بعض دوسری خواتین قرآن پاک کے پیغام کی گہری فہم و فراست رکھتی تھیں ۔
ام المومنین حضرت حفصہ بنت عمر فاروقؓ ایک صحابیہ شفا بنت عبد اللہؓ سے لکھنا پڑھنا سیکھ رہی تھیں (ابو داؤد کتاب الطب ما جاء فی الرقی )۔ آنحضور ﷺ سے شادی ہوئی تو آپﷺ نے تعلیم جاری رکھنا پسند فرمایا بلکہ شفا سے فرمایا:
’’انہیں تحریر و خط کی باریکی اور صفائی اور نوک پلک بھی اسی طرح سکھادو جس طرح انہیں لکھنا سکھایا ہے‘‘
( اسلام اور تربیت اولاد جلد 1صفحہ 285)
حضرت حفصہؓ نزولِ وحی کے وقت بعض آیات لکھ لیتی تھیں ۔یہ اعزاز بھی آپؓ کو حاصل ہے کہ آنحضرت ﷺ جو قرآن پاک لکھوایا کرتے تھے اس کی تختیاں آپؓ کے پاس رکھوادی جاتیں جو آپؓ بہت حفاظت اور پیار سے رکھتیں اور ساتھ ساتھ حفظ کرلیتیں۔
(فتح الباری جلد 9 صفحہ 747)
ام المومنین حضرت ام سلمہ ؓ بھی پڑھنا جانتی تھیں ۔مسلمان عورتوں کی تعلیم و تربیت کا شوق رکھتی تھیں ۔آپؓ سے 349 احادیث مروی ہیں۔
حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کی زوجہ صنعت و حرفت سے واقف تھیں ۔سامان تیار کرکے فروخت کرتی تھیں ۔آنحضورﷺ سے دریافت کیا کہ کیا میں اس طرح کما کر شوہر کا اور بچوں کا خرچ چلا سکتی ہوں ؟ آپؐ نے فرمایا ’تمہیں اس کا اجر ملے گا‘۔
(طبقات ابن سعد 212 ۔8)
یعنی ہنر مند عورت کا اپنے ہنر سے کما نا اور گھر کا خرچ چلانا آپؐ نے باعث ثواب قرار دیا۔
خواتین کو تعلیم دینا باعثِ ثواب
امام ترمذی اور ابو داؤد روایت کرتے ہیں حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا
’’جس کی تین لڑکیاں یا تین بہنیں ہوں یا دو لڑکیاں اور دو بہنیں ہوں اور وہ انہیں ادب سکھائے اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے اور ان کی شادی کردے تو ان کے لیے جنت ہے‘‘۔
حضرت عبد اللہؓ سے روایت ہے کہ آنحضور ﷺنے فرمایا:
’’جس کی ایک بیٹی ہو اور اس نے اسے اچھا ادب سکھلایا اور اچھی تعلیم دی اور اس پر ان انعامات کو وسیع کیا جو کہ اللہ نے اس کو دیےتو وہ بیٹی اس کے لیے جہنم سے رکاوٹ اور پردہ بنے گی‘‘۔
( طبرانی۔ المعجم الکبیر 10: 197)
’’جس شخص کے پاس لونڈی ہو اور وہ اسے تعلیم دے اور اچھی طرح سے پڑھائے اور ادب سکھائے اور خوب اچھی طرح سے ادب سکھائے اور پھر اسے آزاد کرکے شادی کردے تو اسے دو اجر ملیں گے‘‘۔
( احمد بن حنبل4: 414 )
تین بیٹیاں۔ دو بیٹیاں۔ایک بیٹی حتی ٰکہ لونڈی کی اچھی تعلیم و تربیت پر جنت کی بشارتیں خواتین میں تعلیم کی اہمیت بخوبی اجاگر کرتی ہیں۔
اسلام کا انحطاط کا دور اور عورتوں کی تعلیم
اسلام میں انحطاط کے طویل دور میں تعلیم بھی متاثر ہوئی۔ خاص طور پر عورتوں میں تعلیم کی شرح میں مردوں کی نسبت کمی کا مسئلہ پرانا ہے ۔ ڈیڑھ دو صدیاں پہلے بر صغیر میں مسلم خواتین کی شرح خواندگی بہت کم تھی۔ اسلام کی اصل تعلیم بھلادی گئی تھی۔ معاشرے پر مردوں کی اجارہ داری تھی پردے کی پابندی میں بھی ناروا سختی کی جاتی ۔ جس کی وجہ سے دیہی علاقوں میں برائے نام اور شہری علاقوں میں معمولی تعلیم کا بھی رواج کم ہو گیا ۔ اعلیٰ تعلیم کے اداروں میں مخلوط نظام تعلیم کی وجہ سے عورتوں کا داخلہ محدود رہا ۔ ایسے تعلیمی اداروں میں داخل کرنے میں اس لیے بھی تامل ہوتا کہ ان میں تعلیم حاصل کرنے والی لڑکیوں کو بالعموم آزاد خیال سمجھا جاتا حتی ٰکہ ان کی پاکیزگی پر بھی شک کیا جاتا ۔ ان سے شادیاں کرنے میں تذبذب ہوتا ۔ بزرگوں کو ڈر ہوتا کہ کوئی بدنامی نہ گلے پڑے اس لیے واجبی سی تعلیم کافی سمجھی جاتی۔ پڑھانا اس لیے بھی غیر ضروری تھا کہ عورتوں کے نوکری کرنے کا رواج نہیں تھا ۔مرد کماتے تھے اس لیے وہ تعلیم حاصل کرتے تھے ۔ اس طرح کے معاشرتی بندھنوں میں اسیر خواتین کو قرآن پاک بھی صرف ناظرہ پڑھا دیا جاتا ترجمہ ضروری نہ سمجھا جاتا ۔ اس طرح کی محدود تعلیم سے تعلیم کا حقیقی مقصد پورا نہیں ہوتا تھا ۔
خواتین کی تعلیم کے بارے میں بعض نظریات
کی تم نے اس دارالمحن میں جس تحمل سے گزر
زیبا ہے گر کہیے تمہیں فخر بنی نوع بشر
جب تک جیو تم علم و دانش سے رہو محروم یاں
آئیں تھیں جیسے بے خبر ویسی ہی جاؤ بے خبر
جو علم مردوں کے لیے سمجھا گیا آبِ حیات
ٹھہرا تمہارے حق میں وہ زہر ہلاہل سر بسر
آتا ہے وقت انصاف کا نزدیک ہے یوم الحساب
دنیا کو دینا ہوگا ان حق تلفیوں کا واں جواب
(چپ کی داد صفحہ ۱۱۔ ۱۲ از الطاف حسین حالی ۔۔۔ ۱۸۳۷۔۱۹۱۴)
سرسید احمد خان (1817۔ 1898)اظہار خیال کرتے ہیں:
’’عورتوں کی تعلیم نیک اخلاق، نیک خصلت ،خانہ داری کے امور، بزرگوں کا ادب ، خاوند کی محبت ، بچوں کی پرورش، مذہنی عقائد کا جاننا ہونی چاہیے میں اس کا حامی ہوں ۔ اس کے سوا اَور کسی تعلیم سے میں بیزار ہوں‘‘
( فکر سر سید از ضیاء الدین لاہوری ص 211)
’’میری یہ خواہش نہیں ہے کہ تم ان مقدس کتابوں کے بدلے جو تمہاری دادیاں اور نانیاں پڑھتی آئی ہیں اس زمانے کی مروجہ نا مبارک کتابوں کا پڑھنا اختیار کرو جو اس زمانے میں پھیلتی جاتی ہیں ۔ سچی تعلیم نہایت عمدگی سے دادیاں نانیاں پڑھتی تھیں جیسی وہ اس زمانہ میں مفید تھیں ویسی اس زمانہ میں بھی مفید ہیں‘‘
( فکر سر سید از ضیاء الدین لاہوری ص210)
تعلیم عورتوں کی ضروری تو ہے مگر
خاتون خانہ ہوں وہ سبھا کی پری نہ ہوں
(اکبر الہ آبادی 1846۔ 1921)
جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نا زن
کہتے ہیں اسی علم کو اربابِ نظر موت
بیگانہ رہے دیں سے اگر مدرسۂ زن
ہے عشق و محبت کے لیے علم و ہنر موت
نے پردہ نہ تعلیم نئی ہو کہ پرانی
نسوانیتِ زن کا نگہباں ہے فقط مرد
جس قوم نے اس زندہ حقیقت کو نہ پایا
اس قوم کا خورشید بہت جلد ہوا زرد
لڑکیاں پڑھ رہی ہیں انگریزی
قوم نے ڈھونڈ لی فلاح کی راہ
روشِ مغربی ہے مدنظر
وضعِ مشرق کو جانتے ہیں گناہ
شاعر مشرق علامہ اقبال(1877۔1938)
تعلیم کا مقصد خشیتِ الٰہی اور تعلق باللہ
علم کیا ہے؟ علم کا مقصد کیا ہے ؟ علم کا حاصل کیا ہے؟ عالم کسے کہتے ہیں ؟ ان سوالات کے جو ابات میں مختلف نظریات مختلف وقتوں میں سامنے آتے رہے ۔ جو نتائج کے تناسب سے نظریات کو پرکھ کر غلط یا قابل اصلاح قرار دے کر بدل دیے جاتے ہیں۔جب منزل کا تعین نہ ہو اور سفر کا مقصد معلوم نہ ہو تو سفر طویل کٹھن اور لا حاصل ہوجاتا ہے ۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے خدائے رحمان کے کلام پاک کی رو شنی میں علم کی تعریف اور ا س کا مقصد بیان فرمایا اور خود مجاہدانہ سرفروشی کے ساتھ علم کی چوٹیاں سر کیں او ر اس میدان میں اپنے متبعین بلکہ ساری انسانیت کی رہنمائی فرمائی ۔ تعلیم کی مردوں اور عورتوں کے لیے برابر کی اہمیت بیان فرمائی ۔ تعلیم کے حصول کے لیے تدریجی لائحہ عمل دیا اور اس کے صحیح خطوط پر فروغ کے لیے عملی اقدامات کیے۔ گویا بنیاد رکھ دی اسی بنیاد پر آپؑ کے بعد خلفائے کرام عمارت بلند کر رہے ہیں اور جماعت کے مردو زن تعلیمی ترقی کے معیاروں کو بلند تر کرتے جارہے ہیں ۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام علم کی تعریف اور اہمیت بیان فرماتے ہیں:
’’علم سے مراد منطق یا فلسفہ نہیں ہے بلکہ حقیقی علم وہ ہے جو اللہ تعالی محض اپنے فضل سے عطا کرتا ہے ۔ یہ علم اللہ تعالیٰ کی معرفت کا ذریعہ ہوتا ہے ۔ ( اور اس سے۔۔۔ ناقل ) خشیتِ الہی پیدا ہوتی ہے ۔ جیسا کہ قرآن شریف میں ہی اللہ تعالی فرماتا ہے
اِنَّمَا یَخۡشَی اللّٰہَ مِنۡ عِبَادِہِ الۡعُلَمٰٓؤُا (الفاطر : 29 )
اگر علم سے اللہ تعالی کی خشیت میں ترقی نہیں ہوتی تو یاد رکھو وہ علم ترقی کا ذریعہ نہیں‘‘
( الحکم جلد 7 نمبر 21 مورخہ 10 جون 1903ء ) (ملفوظات جلد اول صفحہ 195 جدید ایڈیشن )
’’علوم جدیدہ کی تحصیل جب ہی مفید ہو سکتی ہے جب محض دینی خدمت کی نیت سے ہو اور کسی اہلِ دل اور آسمانی عقل اپنے اندر رکھنے والے مردِ خدا سے فائدہ اٹھایا جاوے‘‘
(ملفوظات جلد 1 صفحہ 59 )
آپ ؑ نے سکھایا کہ علم اللہ تعالی کے احسان سے نصیب ہوتا ہے اس لیے اس سے دعائیں مانگتے رہو:
اے میرے رب میرے علم میں اضافہ فرما
(تذکرہ ۔صفحہ 389 )
اے میرے رب مجھے وہ کچھ سکھا جو تیرے نزدیک بہتر ہے
( تذکرہ ۔صفحہ 653)
اے میرے رب مجھے اشیاء کے حقائق دکھلا
( تذکرہ ۔صفحہ 721 )
حضرت اقدس مسیح موعودؑ علوم جدیدہ کےحصول کے حامی تھے فرماتے ہیں :
’’میں ان مولویوں کو غلطی پر جانتا ہوں جو علومِ جدیدہ کی تعلیم کے مخالف ہیں۔ وہ دراصل اپنی غلطی اور کمزوری کو چھپانے کے لیے ایسا کرتے ہیں ۔ان کے ذہن میں یہ بات سمائی ہوئی ہے کہ علوم جدیدہ کی تحقیقات اسلام سے بدظن اور گمراہ کردیتی ہے ۔ اور وہ یہ قرار دئے بیٹھے ہیںکہ گویا عقل اور سائنس اسلام سے بالکل متضاد چیزیں ہیں ۔ چونکہ خود فلسفے کی کمزوریوں کو ظاہر کرنے کی طاقت نہیں رکھتے ۔اس لیے اپنی اس کمزوری کو چھپانے کے لیے یہ بات تراشتے ہیں کہ علوم جدیدہ کا پڑھنا ہی جائز نہیں۔ ان کی روح فلسفے سے کانپتی ہے اورنئی تحقیقات کے سامنے سجدہ کرتی ہے‘‘۔
( ملفوظات جلد اول صفحہ 43 جدید ایڈیشن )
حضرت اقدس مسیح موعود ؑتعلیم نسواں کے حامی تھے فرماتے ہیں :
’’آج کل کی تعلیم نے مردوں پر مذہب کے لحاظ سے اچھا اثر نہیں کیا تو پھر عورتوں پر کیا توقع ہے ۔ہم تعلیم نسواں کے مخالف نہیں ہیں بلکہ ہم نے تو ایک سکول بھی کھول رکھا ہے مگر یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ پہلے دین کا قلعہ محفوظ کیا جائے تا بیرونی باطل اثرات سے محفوظ رہیں ۔ اللہ پاک ہر ایک کو سواء السبیل، توبہ ، تقویٰ اور طہارت کی توفیق دے ‘‘۔
( ملفوظات جلد 5 صفحہ 637 )
آپؑ کی نظر میں تعلیم کی اہمیت اور اس کے اغراض و مقاصد پر درج ذیل اقتباس سے روشنی پڑتی ہے۔15 ستمبر 1897ء کو پہلے اسلامی سکول کے تعارف کے لیے اشتہار میں تحریر فرمایا:
’’اگرچہ ہم دن رات اسی کام میں لگے ہوئے ہیں کہ لوگ اس سچے موعود پر ایمان لاویں جس پر ایمان لانے سے نور ملتا ہے اور نجات حاصل ہوتی ہے لیکن اس مقصد تک پہنچانے کے لیے علاوہ ان طریقوں کے جو استعمال کیے جاتے ہیں ۔ ایک اَور طریق بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ ایک مدرسہ قائم ہو کر بچوں کی تعلیم میں ایسی کتابیں ضروری طور پر لازمی ٹھہرائی جائیں جن کے پڑھنے سے ان کو پتہ لگے کہ اسلام کیا شے ہے اور کیا کیا خوبیاں اپنے اندر رکھتا ہے… میں یقین رکھتا ہوں کہ اگرایسی کتابیں جو خدا تعالی کے فضل سے میں تالیف کروں گا بچوں کو پڑھائی گئیں تو اسلام کی خوبی آفتاب کی طرح چمک اٹھے گی … میں مناسب دیکھتا ہوں کہ بچوں کی تعلیم کے ذریعہ سے اسلامی روشنی کو ملک میں پھیلاؤں اور جس طریق سے میں اس خدمت کو سر انجام دوں گا میرے نزدیک دوسروں سے یہ کام ہرگز نہیں ہو سکے گا ہر ایک مسلمان کا فرض ہے کہ اس طوفان ضلالت میں اسلامی ذریت کو غیر مذاہب کے وساوس سے بچانے کے لیے اس ارادہ میں میری مدد کرے سو میں مناسب دیکھتا ہوں کہ بالفعل قادیان میں ایک مڈل سکول قائم کیا جائے‘‘۔
احمدی بچوں کو اسلام کی اصل تعلیم سے روشناس کرنے کے لیے 3؍جنوری 1898ء کو مدرسہ کا افتتاح ہوا۔
(تاریخ احمدیت جلد دوم صفحہ 3)
اس وقت قادیان میںصرف دو سکول تھے ایک آریہ سکول تھا دوسرا سرکاری تھا جو پرائمری تک تھا ۔اس کا ہیڈ ماسٹر ایک آریہ تھا ۔ان سکولوں کی موجودگی میں ایک نیا اسلامی سکول کھولنے کا محرک ایک چھوٹا سا واقعہ بنا ۔ اس سرکاری سکول میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد ؓبھی پڑھتے تھے ایک دن گھر سے کھانا آیا جس میں کلیجی کا سالن تھا۔ ایک طالب علم نے حیرانی سے اپنی انگلی دانتوں میں دبا لی اورکہا یہ تو ماس (گوشت)ہے جس کا کھانا حرام ہے ۔ یہ بات اسلامی تعلیم کے خلاف تھی ۔ ایسی باتوں کے منفی اثرات سے بچنے کے لیے اپنا مدرسہ کھولنا ضروری ہو گیا۔
اس وقت خواتین کی تعلیمی حالت بہت کمزور تھی
حضرت اقدس ؑکی بیعت کرنے والے احباب بالعموم عام مسلمانوں میں سے آئے تھے جو تعلیم میں کوئی قابل رشک مقام نہیں رکھتے تھے ۔عورتیں مردوں سے بھی پیچھے تھیں ۔ حضرت یعقوب علی عرفانی کبیر صاحبؓ نے اس وقت کا نقشہ کھینچتے ہیں :
’’گذشتہ صدی ہندوستان پرہر لحاظ سے جہالت کی صدی تھی ۔ عورتوں کے ساتھ ہندوستان میں سلوک کرنا ایک جرم سمجھا جاتا تھا اچھا مرد وہ سمجھا جاتا تھا جو گھر میں جب داخل ہو تو چہرے پر شکن ڈال لے اور ڈانٹ ڈپٹ ، گالی گلوچ اور عند الضرورت مار پیٹ کرتا رہے… عورتیں صاف ستھری نہ رہ سکتی تھیں۔ ان کو تعلیم نہ دی جاتی تھی اور انہیں پاؤں کی جوتی سمجھا جاتا تھا ۔اس طرح عورت جو دنیا کی نصف آبادی ہے وہ ذلیل اور مقہور ہو رہی تھی ۔ بلکہ عربوں کے زمانہ جاہلیت کے بہت سے اطوار اس زمانہ میں واپس آچکے تھے ۔چونکہ انبیاء کی آمد کی ایک غرض یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ ہر مظلوم کی حمایت کریں اور ہر اس کا حق دلائیں جو اپنے حق سے محروم کردیا گیا ہو ۔اس لیے ضروری تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد (جو دراصل رسول کریم ﷺ کی ہی بعثتِ ثانیہ تھی )عورتوں کے لیے بھی باعثِ رحمت ہوئی اور ان کو حقوق دلانے کا باعث ہوئی ‘‘۔
(سیرت حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگمؓ ص 219)
خواتین کی تعلیمی کمزوری کے بارے میں حضرت مصلح موعودؓ نے تحریر فرمایا:
’’ایک دفعہ حضرت مسیح موعود ؑنے فیصلہ کیاکہ آپؑ عورتوں میں تقریر فرمایا کریں گے …حضرت مسیح موعود ؑ عام طور پر وفات مسیح پر تقریر فرمایا کرتے تھے چنانچہ آپؑ نے عورتوں میں چند تقریریں کیں۔ ایک دن آپ ؑنے اس عورت سے پوچھا کہ بتاؤ میں نے اپنی تقریروں میں کیا کچھ بتایا ہے ؟ اس نے کہا آپ ؑ نے خدا اور رسول کی باتیں بیان کی ہوں گی اور کیا بیان ہوگا‘‘۔
( خطبات محمود جلد نمبر 39 ۔ 1958ء صفحہ 300 )
سیرت المہدی میں لکھا ہے:
’’حضرت مسیح موعود ؑ بیشتر عورتوں کو یہ نصیحت فرمایا کرتے تھے کہ نماز باقاعدہ پڑھیں قرآن شریف کا ترجمہ سیکھیں اور خاوندوں کے حقوق ادا کریں جب کبھی کوئی عورت بیعت کرتی تو آپ ؑ عموما یہ پوچھا کرتے تھے کہ تم قرآن شریف پڑھی ہوئی ہو یا نہیں ۔اگر وہ نہ پڑھی ہوئی ہوتی تو نصیحت فرماتے کہ قرآن شریف پڑھنا سیکھو ۔ اور اگر صرف ناظرہ پڑھی ہوتی تو فرماتے کہ ترجمہ بھی سیکھو تاکہ قرآن شریف کے احکام سے اطلاع ہو ‘‘۔
(سیرت المہدی ص 759)
عورتوں کو تعلیم کی خواہش کا اظہار فرماتے ہوئے آپؑ نے فرمایا :
’’میں نے ارادہ کیا تھا کہ عورتوں کے لیے ایک قصہ کے پیرایہ میں سوال و جواب کے طور پر سارے مسائل آسان عبارت میں بیان کیے جاویں مگر مجھے اس قدر فرصت نہیں ہوسکتی کوئی اَور صاحب اگر لکھیں تو عورتوں کو فائدہ پہنچ جاوے ‘‘
( ملفوظات جلد دوم ص 369)
آپؑ عورتوں کی تعلیم و تربیت کی جو خواہش رکھتے تھے اس کی تکمیل کی ایک صورت اس طرح نکلی کہ ڈاکٹر سید عبد الستار شاہ صاحبؓ کی اہلیہ صاحبہ نے حضرت اقدس مسیح موعود ؑکی خدمت میں عرض کیا کہ مرد تو آپؑ کی تقریر اور وعظ سنتے ہیں مستورات اس فیض سے محروم ہیں۔ ہم پر بھی کچھ مرحمت ہونی چاہیے ۔ حضور ؑ بہت خوش ہوئے اور فرمانے لگے:
’’جو سچے طلب گار ہیں ان کی خدمت کے لیے ہم ہمیشہ ہی تیار ہیں ۔ہمارا یہی کام ہے کہ ہم ان کی خدمت کریں‘‘۔
حضور ؑ نے روزانہ عورتوں میں درس اور وعظ و نصیحت کا سلسلہ شروع فرمادیا ۔ پھر آپ ؑکے ارشاد پر حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ اور حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ درس دینے لگے۔ یہ سلسلہ مستقل جاری ہوگیا۔
( خلاصہ از سیرت المہدی ص 777)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حضرت مولانانورالدین صاحبؓ نے اپنی بچی کے قرآن پاک حفظ کرنے کی خوش خبری بھیجی تو آپؑ نے بہت خوشی کا اظہار فرمایا :
’’آپ کے مخلصانہ کلمات سے بے شک خوشبو بلکہ جوش راست گفتاری محسوس ہوتا ہے۔ جزاکم اللہ خیراََ ۔ آمین ثم آمین۔ آپ کی دختر صالحہ کے لیے بھی دعا کی گئی ہے ۔قران شریف کا حفظ کرنا یہ آپ ہی کی برکات کا ثمر ہ ہے ۔ ہمارے ملک کی مستورات میں یہ فعل شاید کرامت تصور کیا جاوے گا ۔ کیا خوش نصیب والدین ہیں‘‘۔(11 مارچ 1886ء)
(مکتوبات احمد جلد دوم صفحہ 12)
حضرت اقدسؑ نے 1899ء میں حضرت مرزا محمود صاحب آف پٹی کو دست مبارک سے ایک مکتوب تحریر فرمایا جس سے آپؑ کے عورتوں میں علمی استعداد کی خواہش کا علم ہوتا ہے۔
’’مجھے اپنی اولاد کے لیے یہ خیال ہے کہ ان کی شادیاں ایسی لڑکیوں سے ہوں کہ انہوں نے دینی علوم اور کسی قدر عربی اور فارسی اور انگریزی میں تعلیم پائی ہو اور بڑے گھروں میں انتظام کرنے کے لیے عقل اور دماغ رکھتی ہوں سو یہ سب باتیں کہ علاوہ اور خوبیوں کے
’’یہ خوبی بھی ہو خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہیں پنجاب کے شریف خاندانوں میں لڑکیوں کی تعلیم کی طرف اس قدرتوجہ کم ہے کہ وہ بے چاریاں وحشیوں کی طرح نشوونما پاتی ہیں‘‘۔
(سیرت المہدی حصہ اول ص 19 )
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے صاحبزادے حضرت مرزا بشیر احمدؓ کے نکاح کی تحریک کے لیے حضرت مولوی غلام حسن صاحبؓ پشاوری کو 24؍اپریل 1902ء کو ایک مکتوب میں تحریر فرمایاجس سے اندازہ ہوتا ہے کہ خواتین کی کم سے کم کتنی اور کیسی کیسی تعلیم آپؑ ضروری سمجھتے تھے:
’’ہمارے خاندان کے طریق کے موافق آپ لڑکی کو ضروریات علم دین سے مطلع فرماویں اور اس قدر علم ہو کہ قرآن شریف با ترجمہ پڑھ لے ۔ نماز اور روزہ اور زکوٰۃ اور حج کے مسائل سے باخبر ہو نیز بآسانی خط لکھ سکے اور پڑھ سکے‘‘۔
جماعت احمدیہ کی ماں کا اعلی ذوقِ علمی
خاندان مسیح موعود علیہ السلام میں علم و ادب کے اعلیٰ ذوق کی چھاپ میں خانوادہ ٔ میر درد کی چشم وچراغ ام المومنین حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہؓ کا گہرا اثرہے ۔آپؓ کی آغوش میں پلنے والی مبارک اولاد نے علم کے میدان میں جو قابل رشک بے مثال بلندیاں حاصل کیں ان کی کوئی مثال نہیں ۔ نہ صرف صاحبزادے بلکہ صاحبزادیاں بھی تعلیم و تربیت کے ہمالہ ہیں ۔اللہ پاک نے اس خدیجہ کو غیر معمولی صلاحیتوں سے نوازا تھا ۔
آپ کی اپنی تعلیم کے بارے میں لکھا ہے:
’’پانچ چھ سال کی عمر میں گھر کی چاردیواری میں قرآن کریم ، اردو نوشت و خواند کی تعلیم شروع ہوئی۔ جو حضرت میر (ناصر نواب )صاحب نے خود ہی کرائی … حضرت ام المومنینؓ بچپن ہی سے زیرک ، فہیم اور سلیقہ شعار تھیں …باوجود اس کے کہ پنجابی زبان پران کو ایک قدرت حاصل ہے مگر اردو زبان پر آپ کو آج بھی ایسا اقتدار ہے گویا کہ وہ دہلی سے کبھی جدا ہوئی ہی نہیں ‘‘۔
(سیرت حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگمؓ ص 191)
’’حضرت مسیح موعود ؑکو جب کسی اردو لفظ کی بابت تفتیش کرنا ہوتی تھی توسب سے پہلے حضرت ام المومنین ہی سے سوال کیا کرتے تھے اور پھر اگر کچھ شبہ رہ جاتا تو حضرت نانی اماں صاحبہؓ یاحضرت میر صاحب سے دریافت فرمایا کرتے تھے ۔ اس سے بھی آپ کے ادبی ذوق کا پتا چلتا ہے‘‘۔
(سیرت حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگمؓ ص 286)
تعلیم دینے دلوانے میں دلچسپی کا عالم دیکھئے :
’’آپؓ کو تعلیم دینے دلوانے کا ازحد خیال اور ذوق ہے کتابوں کے مطالعہ سے تو بہت ہی زیاد ہ دلچسپی لیتی ہیں اور انہیں کے ذوقِ علمی کا اثر ہے کہ اب پوتے پوتیاں پڑپوتے پڑ پوتیاں تک اسی ذوقِ علمی میں محو ہیں۔ پہلے پہل مدرسۃ البنات میں ہر قسم کی دلچسپی لی اور بہت کچھ امداد بھی فرمائی ۔ اپنی ملازم لڑکیوں کو سکول بھیجا ۔ ان کے اخراجات قلم ، دواتیں ، کتابیں وغیرہ خود خریدتیں اور اب نصرت گرلز سکول خدا کے فضل و کرم سے آپ ہی کے دم قدم سے ترقی پذیر ہوا‘‘۔
(سیرت حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگمؓ ص 390)
حضرت صاحبزادی نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کی تعلیم
حضرت اقدس ؑ کی صاحبزادی نے تین سال کی عمر میں پڑھنا شروع کیا۔ ساڑھے چار سال کی عمر میں قرآن پاک مکمل پڑھ کے دہرا بھی لیا تھا۔ حضرت پیر منظور محمد صاحبؓ نے ان کے لیے اسباق کاغذوں پر لکھے جو بعد میں یسرنالقرآن کی صورت میں شائع ہوئے ۔ ساتھ ساتھ آپؓ نے اردو،حساب، فارسی اور انگریزی بھی پڑھ لی ۔شعر کے اوزان کا تعارف بھی ہوگیا۔ قرآن مجید کا ترجمہ پڑھنے کے لیےحضرت اقدسؑ نے آپؓ کو حضرت مولوی عبدالکریمؓ کے پاس بھیجا ۔ آپؓ پہلے ترجمہ پڑھنے جاتیں پھر پیر جی سے باقی کتابیں پڑھتیں ۔حضرت مولوی عبدالکریمؓ کی وفات کے بعد حضرت حکیم نورالدینؓ (خلیفہ اول)کے پاس ترجمہ سیکھنے کے لیے بھیجا ۔اس کے ساتھ آپؓ نے تجرید بخاری اور کچھ دوسرے مجموعہ احادیث پڑھ لیے ۔ حضرت پیر صاحبؓ بیمار ہوگئے تو حضرت اقدس ؑ نے فارسی خود پڑھائی ۔ یہ سلسلہ آپ ؑ کی مصروفیات کی وجہ سے جاری نہ رہ سکا ۔آپؑ نے فرمایا
’’مجھے بہت کام ہوتا ہے ۔نہیں چاہتا کہ تمہاری تعلیم میں ناغہ ہو ۔مولوی صاحب (حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ ) سے کہو فارسی بھی پڑھا دیا کریں‘‘۔
حضرت اقدس ؑکے وصال کے بعد بھی آپؓ کی تعلیم کا سلسلہ جاری رہا ۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ درس قرآن دیتے۔ اس میں حضرت ام المومنینؓ اورخاندان حضرت اقدس ؑکی دوسری خواتین بھی شامل ہونے لگیں ۔ عربی آپؓ نے اپنے بھائی حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ سے سیکھی اور اتنی مہارت حاصل کرلی کہ ایک دن بڑے بھائیؓ نے ٹیسٹ لیا تو عربی ناول کے کئی صفحات پڑھ کر ترجمہ بھی سنا دیا ۔انگریزی بھی پڑھی اور کم عرصے میں ترقی کرلی ۔
(مبارکہ کی کہانی مبارکہ کی زبانی صفحہ 16 تا 21 تک کا خلاصہ )
حضرت صاحبزادی امۃ الحفیظ بیگم صاحبہؓ کی تعلیم
ابتدائی تعلیم گھر پر مکرمہ استانی سکینۃ النساء صاحبہ سے حاصل کی۔ 3 جولائی 1919ء کو آمین ہوئی۔
حضرت نواب امۃ الحفیظ بیگم صاحبہ نے ادیب عالم پاس کیا۔بعد میں 1931ء میں صرف انگلش کا امتحان پاس کرکے میٹرک کیا ۔اس وقت قادیان سے سات لڑکیوں نے میٹرک کا امتحان پاس کیا تھا ۔بعد میں آپؓ نے ایف اے بھی کیا ۔
( دخت کرام ص 109 )
قادیان میں گرلز سکول مدرسۃ البنات
’’مدرسۃ البنات کا قیام حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے زمانہ میں ہؤا مگر جماعت بندی 1909ء سے ہوئی ۔ابتدا میں کئی سالوں تک اس کا انتظام محترمہ سکینۃ النساء صاحبہ کے ہاتھ میں زیر نگرانی ہیڈ ماسٹر صاحب تعلیم الاسلام ہائی سکول رہا ۔لیکن پھر حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب افسر مدرسہ احمدیہ ان کے نگران مقرر ہوئے۔ابتدا میں حضرت خلیفہ اولؓ کی وقف شدہ زمین سے پانچ سو روپے کی رقم سے اس درسگاہ کے لیے ایک مکان خریدا گیا ۔1919ء میں گرلز سکول مبارک منزل متصل مدرسہ احمدیہ میں تھا ۔اس کے بعد قادیان کی آبادی بڑھی تو محلہ دارالعلوم میں اس کے لیے وسیع عمارت میسر آگئی اور گرلز سکول اس میں منتقل ہوگیا‘‘۔
(تاریخ احمدیت جلد 3ص 296)
قادیان میں لڑکیوں کے سکول میں پڑھانے میں حضرت استانی سکینۃ النسا صاحبہ اہلیہ حضرت قاضی محمد اکمل صاحب کو اولیت حاصل ہے ۔ موصوفہ تعلیم یافتہ خاتون تھیں ۔اپنے گاؤں گولیکی میں باقاعدہ سکول چلاتی تھیں ۔1908ء میں قادیان منتقل ہوئیں تو یہاں بھی درس و تدریس کا سلسلہ جاری کیا۔
حضرت یعقوب عرفانی صاحبؓ لکھتے ہیں:
’’وہ جب قادیان میں آئی ہیں اس وقت تعلیم نسواں کا بہت ہی کم چرچا تھا ۔ میں نے تعلیم البنات کے لیے ایک مدرسہ جاری کیا۔ استانی سکینۃ النساء نے اپنی خدمات اعزازی طور پر پیش کیں اور ان کے ذریعہ تعلیم کا عام چرچا شروع ہو گیا‘‘۔
(سیرت حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگمؓ ص384)
مکرمہ فیروزہ فائزہ صاحبہ نے اپنی کتاب میں ان کی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے تحریر کیا:
’’آپ نے قادیان کے مدرسۃ البنات میں بچیوں کو عربی، فارسی، اردو وغیرہ پڑھائی اور کئی سال تک مدرسہ میں آپ اکیلی ہی پڑھاتی رہیں۔‘‘
(حضرت سکیبۃ النساء صاحبہ ص 3)
’’سکول شروع کرنے کے زمانے میں جو مصائب اور مشکلات تھیں اس کا تصور آج کل کے حالات کی وجہ سے ناممکن ہے ۔ اس زمانے میں لڑکیوں کو پڑھانا برا خیال کیا جاتا تھا ۔ اس لیے لڑکیوں کے لیے نہ کوئی عمارت تھی ۔نہ بنچ نہ ڈیسک ، نہ بجٹ نہ استانی ۔ اس لیے ہر لڑکی کو سکول داخل کرنے سے پہلے اس کے خاندان اور والدین کو سمجھانا پڑتا کہ تعلیم اس کے لیے کس قدر ضروری ہے‘‘۔ ( حضرت سکینۃ النساء صاحبہ ص 7)
تاریخ احمدیت میں لکھا ہے:
’’آپ ان نامور خواتین میں سے تھیں جو سلسلہ احمدیہ کے ابتدائی دور میں تعلیم یافتہ تھیں اور حضرت مسیح موعود ؑ کے عہد مبارک میں بھی اخبار‘ بدر’ اور ‘الحکم ’ میں مضامین لکھا کرتی تھیں ۔ 1908ء کے جلسہ سالانہ کے بعد آپ نے اپنے میاں کے ساتھ مستقل طور پر قادیان میں سکونت اختیار کی اور حضرت خلیفۃ المسیح اول ؓ کے ارشاد پر جون 1909ء میں مرکز احمدیت میں بچیوں کا پہلا پرائمری سکول قائم کیا اور ایک لمبے عرصہ تک ہیڈ معلمہ رہیں اور بہت سی بچیوں کو زیورِ علم سے آراستہ کیا۔یہ سکول خلافت ثانیہ کے عہدِ مبارک میں مڈل سکول تک ایک مشہور ادارہ بن گیا جس سے ملک کے علمی حلقوں میں آپ کی بھی خوب شہرت ہوئی۔ اور ڈسٹرکٹ اور ڈویژنل عیسائی انسپکٹرس آف سکول نے بیسیوں شاندار ریمارکس سکول کی لاگ بک پر لکھے …آپ بیان فرماتی تھیں کہ جب گرلز سکول ابھی حضرت کے مکان پر ہی تھا ۔آپ نے مجھے شاید دیہاتی لہجہ میں تلاوت کرتے سن لیا ۔ اس لیے حکم دیا کہ روزانہ نماز فجر کے معاً بعد جب میں واپس آؤں تو ایک رکوع مجھے سنا کر لڑکیوں کو پڑھایا کرو ۔ چنانچہ پہلے تومیں بطور فرض تعمیل کرتی رہی پھر اسے خدا تعالیٰ کا خاص فضل اور موقع سمجھ کر بڑی باقاعدگی سے ترجمہ قرآن پڑھ لیا ۔اس وقت حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ بھی میری وہیں ہم سبق تھیں۔ اس لیے ان سے بطور بے تکلف سہیلی کے تعلقات ہوگئے اور پھر حضرت اماں جان کے پاس آنا جانا شروع ہوا ۔کہتی تھیں کہ میں گھنٹوں حضرت اماں جانؓ کے پاس بیٹھ کر اردو ادب کی کتابیں انہیں پڑھ پڑھ کر سناتی ۔اس سے مجھے بے انداز فائدہ ہواکیونکہ علامہ راشد الخیری اور ڈپٹی نذیر احمد دہلوی کے اخلاقی ناولوں میں جن عجیب و غریب اشیاء ، زیورات اور برتنوں کے نام آتے وہ مجھ دیہاتی کو کیا معلوم ! لیکن حضرت اماں جان ان کی شکل اور استعمال واضح فرمادیتی تھیں بلکہ کئی ایک اشیاء کے لیے حضرت نانی اماں جیسی دہلی کی بڑی بوڑھیوں سے دریافت کرکے مجھے سمجھا دیا کرتیں۔ حضرت نواب امۃ الحفیظ بیگم صاحبہ سلمہا اور حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کو بھی بچپن میں ابتدائی جماعتوں کی پڑھائی اور لکھائی سکھانے کی سعادت حاصل ہوئی ۔ اسی طرح دیگر افراد خاندان سے ایسے ہی علمی اور ادبی تعلقات تھے۔ حضرت ام ناصر اور حضرت ام مظفرسلمہااللہ سے تو زمانہ ٔحضرت مسیح موعود علیہ السلام سے تعلق تھا۔ ان دونوں خواتین مبارکہ کی قیادت میں احمدی مستورات کی تنظیم و تعلیم و تربیت کا بڑا کام ہوا ہے…
حضرت خلیفۃ المسیح ثانیؓ کے زمانے میں مستورات کی تعلیم و تنظیم کی جانب جب حضور نے توجہ فرمائی تو آپ کا نام اولین کارکنوں میں سے تھا ۔قادیان میں استانی جی کے نام سے مشہور تھیں اور دن رات تعلیم و تربیت اور تدریس ان کا کام تھا‘‘۔
( تاریخ احمدیت جلد 25 صفحہ 199۔200 )
خلافت ثانیہ کی ابتدا میں تعلیمی ترقی کا اندازہ ایک رپورٹ سے ہوتا ہے:
’’حضرت امیر المومنین صاحبزادہ صاحب نے سورہ مائدہ (جہاں سے حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے چھوڑا تھا ) کا پہلا رکوع خود پڑھ کر سنا یا ۔قریبا ً100عورتیں حاضر تھیں حالانکہ بارش بھی (نشان رحمت )شروع ہوگئی ۔ یکم اپریل کو مدرسۃ البنات کا سالانہ معائنہ ہو گیا ۔سکول کی قریبا ًساٹھ لڑکیوں میں سے دو چار ہی فیل ہوئیں چھوٹی چھوٹی بچیاں عمدہ طور سے قرآن شریف کو پڑھتی ہیں ۔حضرت ام المومنین نے کمال مہربانی سے اپنے دونوں جانب کے نچلے دالان گرلز سکول کے لیے مرحمت فرمائے ہوئے ہیں‘‘۔
(الفضل 6 اپریل 1914 صفحہ 1 )
اللہ تبارک تعالیٰ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو احمدیت کے روشن مستقبل کی نوید عطا فرمادی تھی ۔اور بحمد للہ جماعت ہر لمحہ ترقی کی جانب گامزن ہے ۔۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:
’’خدا تعالی نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ وہ مجھے بہت عظمت دے گا اور میری محبت دلوں میں بٹھائے گا اور سب فرقوں میں میرے فرقے کو غالب کرے گا اور میرے فرقے کے لوگ اس قدر علم و معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ وہ اپنی سچائی کے نور سے اور اپنے دلائل کےنشانوں کے رو سے سب کا منہ بند کردیں گے‘‘۔
( تذکرہ 517 )
٭…٭…٭