بچوں اور عورتوں کے بارے میں بعض نصائح
پاکیزہ مزاح
ایک روز کسی بیمار بچہ نے کسی سے کہانی کی فرمائش کی تو اس نے جواب دیا کہ ہم تو کہانی سنانا گناہ سمجھتے ہیں ۔حضور علیہ السلام نے فرمایا :گناہ نہیں ۔کیونکہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی کبھی کبھی کوئی مذاق کی بات فرمایا کرتے تھے اور بچوں کو بہلانے کے لیے اس کو روا سمجھتے تھے ۔جیسا کہ ایک بُڑھیا عورت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ حضرت ؐکیا میں جنت میں جائوں گی ؟ فرمایا نہیں ۔وہ بُڑھیا یہ سن کر رونے لگی ۔فرمایا :روتی کیوں ہے ؟ بہشت میں جوان داخل ہوں گے ۔بوڑھے نہیں ہوں گے یعنی اس وقت سب جوان ہوں گے ۔
اسی طرح سے فرمایا کہ : ایک صحابی کی داڑھ میں درد تھا ۔وہ چھوہارا کھاتا تھا ۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چھوہارا نہ کھا کیونکہ تیری داڑھ میں درد ہے ۔اس نے کہا کہ میں دوسری داڑھ سے کھاتا ہوں ۔
پھر فرمایا کہ ایک بچہ کے ہاتھ سے ایک جانور جس کو حُمیر کہتے ہیں چھوٹ گیا ۔وہ بچہ رونے لگا ۔اس بچہ کا نام عُمیر تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
عُمَیْرُ !مَا فَعَلَتْ بِکَ حُمَیْرُ ؟
اے عمیر حمیر نے کیاکیا ؟لڑکے کو قافیہ پسند آگیا اس لیے چپ ہو گیا۔
ملفوظات جلد پنجم صفحہ 9)
………………………………………………………
ایک عورت نے کس طرح ترقی کی
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عورتوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا :
میں تمہیں ایک عورت کا واقعہ سُنا تا ہوں کہ جسے صرف معمولی لکھنا پڑھنا آتا تھا۔ اس کے لکھنے کے متعلق مجھے اس وقت صحیح علم نہیں ہے لیکن بات ضرور تھی کہ اُسےپڑھنا آتا تھا ۔اُس نے قرآن کو قرآن کرکے پڑھا، جنّت کی طمع اور دوزخ کےخوف سے نہیں ، عادت اور دکھاوے کے طور پر نہیں بلکہ خدا کی کتاب سمجھ کر اور یہ سمجھ کر کہ اس کے اندر دنیا کے تمام علوم ہیں اسے پڑھا۔ اس کے نتیجہ میں باوجود اس کے کہ اس نے کسی کے پاس زا نوئے شاگردی تہ نہیں کیا تمام دنیا کی استاد بنی۔ وہ عورت کون تھی؟ اُس کا نام عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تھا۔
(‘‘اوڑھنی والیوں کے لیے پُھول ’’مستورات سے خطابات کا مجموعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ صفحہ225,226)
………………………………………………………
اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
…یہاں مغرب میں ہمارے معاشرے سے آئی ہوئی بعض خواتین کو بھی مردوں کے کہنے کی وجہ سے یا خود ہی کسی کمپلیکس(Complex)کی وجہ سے مردوں سے مصافحہ کرنے کی عادت ہوگئی ہے اور بڑے آرام سے عورتیں مردوں سے مصافحہ کر لیتی ہیں ۔ مردوں اور عورتوں دونوں کو اس سے بچنا چاہئے ۔اگر آرام سے دوسروں کو سمجھا دیں کہ ہمارا مذہب اس کی اجازت نہیں دیتا تو لوگ سمجھ جاتے ہیں ۔نہ عورت مرد کو سلام کرتی ہے تو پھر نہ مرد عورت کو سلام کرے گا۔دوسرے بعض معاشروں میں بھی تو مصافحے نہ کرنے کا رواج ہے وہ بھی تو نہیں کرتے۔ہندو بھی ہاتھ جوڑ کر یوں کھڑے ہوجاتے ہیں ۔یہ وہاں ان کا سلام کا رواج ہے۔اور معاشروں میں بھی اس طرح مختلف طریقے ہیں ۔اس لیے شرمانے کی ضرورت نہیں ہے۔کسی قسم کے کمپلیکس میں آنے کی ضرورت نہیں ہے۔مذہب بہرحال مقدم ہونا چاہئے اور اللہ تعالیٰ کے احکامات پر بہر حال زیادہ سے زیادہ عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
(الفضل انٹر نیشنل 17؍ستمبر2004ءتا23؍ستمبر2004ءصفحہ(8)خطبہ جمعہ فرمودہ 3؍ستمبر2004ءبمقام زیورک،سوئٹزرلینڈ)
………………………………………………………………