شمائل مہدی علیہ الصلوٰۃ والسلام
(گزشتہ سے پیوستہ)
امام مہدی اور قرآنِ کریم
سورة الفاتحہ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ (1) اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (2) الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ (3) مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ (4) إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ (5) اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ (6) صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ (7)
(میں ) اللہ کا نام لے کر جو بے حد کرم کرنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے (پڑھتا ہوں ) ہر (قسم کی) تعریف کا اللہ (ہی) مستحق ہے (جو) تمام جہانوں کا رب (ہے) بے حد کرم کرنے والا، بار بار رحم کرنے والا (اور) جزا سزا کے وقت کا مالک ہے۔(اے خدا)! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں ہمیں سیدھے راستے پر چلا ،ان لوگوں کے راستے پر جن پر تو نے انعام کیا ہے جن پر نہ تو (بعد میں تیرا) غضب نازل ہوا (ہے) اور نہ وہ (بعد میں ) گمراہ (ہو گئے) ہیں ۔
حضرت اقدس مسیح موعودومہدی معہودؑ فرماتے ہیں :
’’قرآن شریف میں چارسورتیں ہیں جوبہت پڑھی جاتی ہیں۔ ان میں مسیح موعوداوراس کی جماعت کاذکرہے۔(1) سورۃ فاتحہ جوہررکعت میں پڑھی جاتی ہے۔اس میں ہمارے دعوے کاثبوت ہے … (2)سورۃ جمعہ جس میں واٰخرین منہم مسیح موعودکی جماعت کے متعلق ہے۔یہ ہرجمعہ میں پڑھی جاتی ہے۔(3) سورۂ کہف جس کے پڑھنے کے واسطے رسول اللہ ﷺ نے تاکیدفرمائی ہے۔اس کی پہلی اور پچھلی دس آیتوں میں دجال کاذکرہے (4) آخری سورت قرآن کی جس میں دجال کانام خناس رکھاگیاہے۔یہ وہی لفظ ہے جوعبرانی میں توریت میں دجال کے واسطے آیاہے۔یعنی ۔ایساہی نحاش قرآن شریف کے اَور مقامات میں بھی بہت ذکرہے۔‘‘
(ملفوظات جلد 2 ص206)
سورة الجمعہ
يُسَبِّحُ لِلّٰهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ الْمَلِكِ الْقُدُّوسِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُبِينٍ وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ذٰلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللّٰهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ۔(الجمعۃ:2تا5)
ترجمہ:آسمانوں اور زمین میں جو کچھ بھی ہے وہ اللہ کی تسبیح کرتا ہے اس (اللہ) کی جو بادشاہ بھی ہے اور پاک (بھی ہے اور سب خوبیوں کا جامع) ہے اور غالب (اور) حکمت والا ہے۔وہی خدا ہے جس نے ایک ان پڑھ قوم کی طرف انہی میں سے ایک شخص کو رسول بنا کر بھیجا جو ان کو خدا کے احکام سناتا ہے اور ان کو پاک کرتا ہے اور ان کو کتاب اور حکمت سکھاتا ہے گو وہ اس سے پہلے بڑی بھول میں تھے۔اور ان کے سوا ایک دوسری قوم میں بھی (وہ اسے بھیجے گا) جو ابھی تک ان سے ملی نہیں اور وہ غالب (اور) حکمت والا ہے۔یہ اللہ کا فضل ہے جس کو چاہتا ہے دیتا ہے۔اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔
سورة الكهف
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَى عَبْدِهِ الْكِتَابَ وَلَمْ يَجْعَلْ لَهُ عِوَجًا قَيِّمًا لِيُنْذِرَ بَأْسًا شَدِيدًا مِنْ لَدُنْهُ وَيُبَشِّرَ الْمُؤْمِنِينَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ أَجْرًا حَسَنًا مَاكِثِينَ فِيهِ أَبَدًا وَيُنْذِرَ الَّذِينَ قَالُوا اتَّخَذَ اللّٰهُ وَلَدًا مَا لَهُمْ بِهِ مِنْ عِلْمٍ وَلَا لِآبَائِهِمْ كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ إِنْ يَقُولُونَ إِلَّا كَذِبًا فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ عَلَى آثَارِهِمْ إِنْ لَمْ يُؤْمِنُوا بِهَذَا الْحَدِيثِ أَسَفًا إِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الْأَرْضِ زِينَةً لَهَا لِنَبْلُوَهُمْ أَيُّهُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا وَإِنَّا لَجَاعِلُونَ مَا عَلَيْهَا صَعِيدًا جُرُزًا أَمْ حَسِبْتَ أَنَّ أَصْحَابَ الْكَهْفِ وَالرَّقِيمِ كَانُوا مِنْ آيَاتِنَا عَجَبًا إِذْ أَوَى الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ فَقَالُوا رَبَّنَا آتِنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً وَهَيِّئْ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا رَشَدًا۔(آیات 2تا 13)
ترجمہ: ہر تعریف کا اللہ ہی مستحق ہے جس نے (یہ) کتاب اپنے بندہ پر اتاری ہے، اور اس میں کوئی کجی نہیں رکھی۔(اور اس نے اسے) سچ سے معمور اور صحیح راہنمائی کرنے والی بنا کر اتارا ہے تا کہ وہ (لوگوں کو) اس کی (یعنی اللہ کی) طرف سے (آنے والے) ایک سخت عذاب سے آ گاہ کرے اور ایمان لانے والوں کو جو نیک (اور ایمان کے مناسب حال) کام کرتے ہیں بشارت دے کہ ان کے لئے (خدا کی طرف سے) اچھا اجر (مقدر) ہے۔وہ اس (اجر کے مقام) میں ہمیشہ رہیں گے۔اور (نیز اُس نے اس لئے اسے اُتارا ہے کہ) تا وہ ان لوگوں کو (آنے والے عذاب سے) آ گاہ کرے جو یہ کہتے ہیں (کہ) اللہ نے (فلاں شخص کو) بیٹا بنا لیا ہے۔اُنہیں اس بارہ میں کچھ بھی تو علم (حاصل) نہیں اور نہ ان کے بڑوں کو (اس بارہ میں کوئی علم تھا) یہ بہت بڑی (خطرناک) بات ہے جو ان کے مونہوں سے نکل رہی ہے (بلکہ) وہ محض جھوٹ بول رہے ہیں ۔(کیا) اگر وہ اس عظیم الشان کلام پر ایمان نہ لائیں تو تو ان کے غم میں شدت افسوس کی وجہ سے اپنی جان کو ہلاکت میں ڈال دے گا۔جو کچھ (روئے) زمین پر (موجود)ہے اسے یقیناً ہم نے اس کی زینت (کا موجب)بنایا ہے تا کہ ہم ان کا امتحان لیں (کہ) ان میں سے سب سے اچھا کام کرنے والا کون ہے۔اور جو کچھ اس (زمین) پر (موجود) ہے اسے ہم یقیناً (ایک دن) مٹا کر ویران سطح بنا دیں گے۔کیا تو سمجھتا ہے کہ کہف اور رقیم والے (لوگ) ہمارے نشانوں میں سے کوئی اچنبھا (نشان) تھے (جن کی نظیر پھر کبھی نہ پائی جا سکتی ہو) جب وہ (چند) نوجوان وسیع غار میں پناہ گزیں ہوئے اور (دعا کرتے ہوئے) انہوں نے کہا (کہ) اے ہمارے رب ہمیں اپنے حضور سے (خاص) رحمت عطا کر اور ہمارے لئے ہمارے (اس) معاملہ میں رشد و ہدایت کا سامان مہیا کر۔
سورۃ الکہف
آخری دس آیات: أَفَحَسِبَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنْ يَتَّخِذُوا عِبَادِي مِنْ دُونِي أَوْلِيَاءَ إِنَّا أَعْتَدْنَا جَهَنَّمَ لِلْكَافِرِينَ نُزُلًا قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالْأَخْسَرِينَ أَعْمَالًا الَّذِينَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعًا أُولٰٓئِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِاٰيَاتِ رَبِّهِمْ وَلِقَائِهِ فَحَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فَلَا نُقِيمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَزْنًا ذٰلِكَ جَزَاؤُهُمْ جَهَنَّمُ بِمَا كَفَرُوا وَاتَّخَذُوا اٰيَاتِي وَرُسُلِي هُزُوًا إِنَّ الَّذِينَ اٰمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ كَانَتْ لَهُمْ جَنَّاتُ الْفِرْدَوْسِ نُزُلًا خَالِدِينَ فِيهَا لَا يَبْغُونَ عَنْهَا حِوَلًاقُلْ لَوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِكَلِمَاتِ رَبِّي لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ أَنْ تَنْفَدَ كَلِمَاتُ رَبِّي وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهٖ مَدَدًا قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوحٰى إِلَيَّ أَنَّمَا إِلٰهُكُمْ إِلٰهٌ وَاحِدٌ فَمَنْ كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ رَبِّهٖ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهٖ أَحَدًا۔(آیات 103تا 111)
ترجمہ: (تو)کیا (یہ سب کچھ دیکھ کر) پھر (بھی)وہ لوگ جنہوں نے کفر (کا طریق) اختیار کیا ہے (یہ)سمجھتے ہیں کہ وہ مجھے چھوڑ کر میرے بندوں کو مددگار بنا سکیں گے۔ہم نے کافروں کے انعام (یعنی بدلہ) کے طور پر جہنم کو تیار کر رکھا ہے۔تُو (اُنہیں )کہہ (کہ) کیا ہم تمہیں ان لوگوں سے آگاہ کریں جو اعمال کے لحاظ سے سب سے زیادہ گھاٹا پانے والے ہیں ۔(یہ وہ لوگ ہیں ) جن کی (تمام تر)کوشش اس ورلی زندگی میں ہی غائب ہو گئی ہے اور (اس کے ساتھ) وہ (یہ بھی) سمجھتے ہیں کہ وہ اچھا کام کر رہے ہیں ۔یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کے نشانوں کا اور اس سے ملنے کا انکار کر دیا ہے اور اس لئے ان کے (تمام) اعمال گر کر (اسی دنیا میں) رہ گئے ہیں ، چنانچہ قیامت کے دن ہم انہیں کچھ بھی وقعت نہیں دیں گے۔یہ ان کا بدلہ (یعنی) جہنم اس وجہ سے ہوگا کہ انہوں نے کفر (کا طریق) اختیار کیا۔اور میرے نشانوں اور میرے رسولوں کو (اپنی) ہنسی کا نشانہ بنالیا۔جو لوگ ایمان لائے ہیں اور انہوں نے نیک (اور مناسب حال) عمل کیے ہیں ان کا ٹھکانا یقیناً فردوس نامی بہشت ہوں گے۔وہ ان میں رہتے چلے جائیں گے (اور) ان سے الگ ہونا نہیں چاہیں گے۔تو انہیں کہہ (کہ) اگر (ہرایک) سمندر میرے رب کی باتوں (کے لکھنے) کے لئے روشنائی بن جاتا تو میرے رب کی باتوں کے ختم ہونے سے پہلے (ہر ایک) سمندر (کا پانی) ختم ہو جاتا گو (اسے) زیادہ کرنے کے لئے ہم اتنا (ہی) اور (پانی سمندر میں )لا ڈالتے۔تو (انہیں )کہہ (کہ)میں صرف تمہاری طرح کا ایک بشر ہوں ، (فرق صرف یہ ہے کہ) میری طرف (یہ) وحی (نازل)کی جاتی ہے کہ تمہارا معبود ایک ہی (حقیقی) معبود ہے پس جو شخص اپنے رب سے ملنے کی امید رکھتا ہو اسے چاہیے کہ نیک (اور مناسب حال) کام کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو بھی شریک نہ کرے۔
سورة النّاس
قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ مَلِكِ النَّاسِ إِلٰهِ النَّاسِ مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ الَّذِي يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاسِ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ۔
ترجمہ: (ہم ہر زمانہ کے مسلمان سے کہتے ہیں کہ)تو (دوسرے لوگوں سے)کہتا چلا جا، کہ میں تمام انسانوں کے رب سے (اس کی) پناہ طلب کرتا ہوں ۔(وہ رب) جو تمام انسانوں کا بادشاہ (بھی)ہے۔اور تمام انسانوں کا معبود (بھی) ہے۔(میں اس کی پناہ طلب کرتا ہوں )ہر وسوسہ ڈالنے والے کی شرارت سے۔جو (ہر قسم کے وسوسے ڈال کر) پیچھے ہٹ جاتا ہے۔(اور) جو انسانوں کے دلوں میں شبہات پیدا کر دیتا ہے۔خواہ وہ (فتنہ پرداز)مخفی رہنے والی ہستیوں میں سے ہو، خواہ عام انسانوں میں سے ہو۔
سورۃ الصّف
وَإِذْ قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ إِنِّي رَسُولُ اللّٰهِ إِلَيْكُمْ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَّأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهٗ أَحْمَدُ فَلَمَّا جَاءَهُمْ بِالْبَيِّنَاتِ قَالُوا هٰذَا سِحْرٌ مُبِينٌ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ وَهُوَ يُدْعٰٓى إِلَى الْإِسْلَامِ وَاللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ يُرِيدُونَ لِيُطْفِؤا نُورَ اللّٰهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَاللّٰهُ مُتِمُّ نُورِهٖ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهٗ بِالْهُدٰى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّينِ كُلِّهٖ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ(الصّف: 7تا10)
ترجمہ:اور (یاد کرو) جب عیسیٰ ابن مریم نے اپنی قوم سے کہا کہ اے بنی اسرائیل! میں اللہ کی طرف سے تمہاری طرف رسول ہو کر آیا ہوں ، جو (کلام) میرے آنے سے پہلے نازل ہو چکا ہے یعنی تورات، اس کی پیشگوئیوں کو میں پورا کرتا ہوں اور ایک ایسے رسول کی بھی خبر دیتا ہوں جو میرے بعد آئے گا جس کا نام احمد ہوگا ۔پھر جب وہ رسول دلائل لیکر آگیا، تو انہوں نے کہا یہ تو کھلا کھلا فریب ہے۔اور اس سے زیادہ ظالم کون ہوسکتا ہے، جو اللہ پر جھوٹ باندھے حالانکہ وہ اسلام کی طرف بلایا جاتا ہے۔اور اللہ ظالموں کو کبھی ہدایت نہیں دیتا۔وہ چاہتے ہیں کہ اپنے مونہوں سے اللہ کے نور کو بجھا دیں ، اور اللہ اپنے نور کو پورا کرکے چھوڑے گا خواہ کافر (لوگ)کتنا ہی ناپسند کریں ۔
٭…٭… (جاری ہے )…٭…٭