امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا دورۂ جرمنی 2019ء (04؍ تا 05؍ جولائی)
04؍جولائی2019ء بروز جمعرات
(حصہ دوم۔آخر)
بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مردانہ جلسہ گاہ میں تشریف لے آئے ۔ جہاں پروگرام کے مطابق جلسہ سالانہ کی ڈیوٹیوں کی افتتاحی تقریب تھی ۔
تمام ناظمین اپنے معاونین اور کارکنان کے ساتھ ایک ترتیب سے بیٹھے ہوئے تھے۔
افسر جلسہ سالانہ ، افسر جلسہ گاہ ، اور افسر خدمت خلق کے علاوہ 14نائب افسران ، 70ناظمین ، 251نائب ناظمین، جبکہ 506منتظمین ، 7073معاونین اور7 معاونینِ خصوصی پر مشتمل مجموعی طور پر 7924افراد ڈیوٹی کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔
تقریب کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جو عزیزم اویس احمد ملک صاحب نے کی اور بعد ازاں اس کا جرمن اور اردو ترجمہ پیش کیا۔ اس کے بعد 9بج کر 13منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر ہ العزیز نے کارکنان سے خطاب فرمایا:
جلسہ سالانہ جرمنی 2019ء کے موقع پر رضا کاران و کارکنان سے خطاب
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تشہد و تعوذ اور تسمیہ کے بعد فرمایا:
کل سے ان شاء اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ جرمنی کا جلسہ سالانہ شروع ہو رہا ہے ۔ جلسہ سے کئی ہفتہ پہلے آپ لوگ کام شروع کر دیتے ہیں بلکہ بعض شعبہ جات تو کئی مہینے پہلے شروع کر دیتے ہیں جیسا کہ میں کئی دفعہ پہلے بھی کہہ چکا ہوں ۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب جو بڑی جماعتیں ہیں جن میں جرمنی بھی شامل ہے ان کے کارکنان اس قدر تربیت یافتہ ہو چکے ہیں ، ان کی ٹریننگ ہو چکی ہے کہ بڑی آسانی سے تھوڑے وقت میں ہی بڑے اہم کام سر انجام دے لیتے ہیں ۔ اس دفعہ بعض دقتیں تھیں مشکلات تھیں مجھے بتایا گیا کہ آخری وقت میں یہ ہال ملے گا اور چھتیس گھنٹے میں اس کو تیار کرنا ہو گا ۔ اب افسر جلسہ گاہ کو چھتیس گھنٹے میں اس کی تیاری کی بڑی فکر تھی کہ کس طرح تیار ہو گا لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی ہمت سے کارکنوں نے اور جو دوسری ٹیمیں ہیں کمپنی والے بھی آتے ہوں گے انہوں نے اس کام کو سر انجام دیا ۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
ایک وقت تھا کہا جاتا تھا کہ فلاں شخص ہمارے کارکنوں میں بڑا جِن ہے اور بڑے بڑے کام کر لیتا ہے اب میں نے دیکھا ہے یہاں بھی اور یو کے میں بھی بعض اور جگہ بھی اللہ تعالیٰ نے جماعت کو جنات کی فوج عطا کر دی ہے بعض توہم پرست، جو احمدی نہیں ہیں شاید میری بات سن کے خیال کریں کہ شاید جلسہ گاہ میں جنّوں کی فوج پھر رہی ہو گی اور کہیں انہیں نقصان نہ پہنچا دے لیکن ہمارے جن اللہ تعالیٰ کے فضل سے فائدہ پہنچانے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی خاطر کام کرنے والے ہیں اور اس کے لیے ہر قربانی کے لیے تیار ہو جاتے ہیں اور بعض ایسے لوگ جن کی ٹیکنیکل بیک گرائونڈ نہیں یا اس طرح وہ Skillنہیں وہ مہارت نہیں جو ہونی چاہیےاس کے باوجود بڑے ماہرانہ انداز میں کام سر انجام دے دیتے ہیں۔ تو یہ آپ لوگوں پر اللہ تعالیٰ کے فضل ہیں کہ اللہ تعالیٰ مدد کرتا ہے اور وہ کام جس کے لیے دوسرے لوگوں کو بڑی رقمیں خرچ کرنی پڑتی ہیں اور بڑے specialistبلانے پڑتے ہیں اللہ تعالیٰ ہمارے معمولی کارکنان کے ذریعہ سے اور بڑے سستے خرچ کے ساتھ وہ کام سر انجام دینے کی ہمیں توفیق دے دیتا ہے۔ پس یہ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے ، اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جس کا شکرانہ ہم میں سے ہر ایک کو ادا کرنا چاہیےاللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہونا چاہیےکہ وہ ہمیں توفیق دے رہا ہے کہ جماعت کی خاطر ہم اپنے وقت اور اپنی صلاحیتوں کو کام میں لائیں ۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کو جلسے کے ان تین دنوں میں اوراس کے بعد وائنڈاپ میں بھی اس کام کو احسن رنگ میں سر انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے اور بغیر کسی دقّت کے جو سمیٹنے کا کام ہے وہ بھی سر انجام پا جائے۔ اس کے لیے جو ٹیمیں مقرر ہیں ان کو بھی اللہ تعالیٰ توفیق دے ۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
ان دنوں میں مَیں یہ ہمیشہ یاددہانی کرواتا ہوں اب پھر یاددہانی کروا رہا ہوں یہ نہ سمجھیں کہ کام کی وجہ سے ہماری نمازیں معاف ہو گئی ہیں۔ وقت پہ نماز یں ادا کرنے کی تمام کارکنان کوشش کریں اور ان کے افسران نائب افسران شعبہ جات اس بات کو یقینی بنائیں کہ تمام معاون بچے خادم جو بھی ہیں وہ نمازیں وقت پہ ادا کریں اور دوسری بات خوش اخلاقی ہے خوش اخلاقی کی باربار مجھے تلقین کرنی پڑتی ہے تا کہ بھول نہ جائیں ۔ عموماً تو یہ معیار بہت بہتر ہو چکا ہے لیکن یہاں مردانہ جلسہ گاہ میں بھی اور زنانہ جلسہ گاہ میں بھی یا دوسری ڈیوٹیوں میں جو کارکنات ہیں جن کی ڈیوٹی کھانا کھلانے پر ہے مہمان نوازی پر ہے یا نظافت پر ہے ٹوائلٹ وغیرہ کی صفائی وغیرہ پر ہے یا کسی بھی طرح کے تربیتی معاملات میں ہے ڈسپلن پہ ہے ان میں سے بعض لوگوں پر زیادتی کر جاتی ہیں ۔ بعض بوڑھی عورتیںہیں ان سے صحیح طرح پیش نہیں آتیں۔ کارکنات کی بھی مجبوریاں ہیں ۔ بعض دفعہ رَش پڑ جاتا ہے ٹوائلٹس availableنہیں تو کارکنات یا کارکن مجبور ہیں وہ بھی کیا کریں۔ لیکن اگر مہمان یا کوئی بھی بڑی عمر کا شخص کوئی غصےکا اظہار بھی کر دے تو آپ لوگوں کو خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرنا چاہیےاور کسی کو کسی غلط قسم کا جواب نہ دیں جس سے اس کی دل آزاری ہو۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
پس اس بات کو یقینی بنائیں کہ ہم نے جہاں اتنے جوش اور ولولے سے اس جلسہ کے انتظام کو آسان بنانے اور وقت پر ختم کرنے کے لیے جلسہ سے پہلے مختلف شعبوں میں کام کیے اسی طرح جلسہ کے دنوں میں بھی ، باوجود تھکاوٹ کے، باوجود بعض مجبوریوں کے خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرتے ہوئے باقی دن بھی گزارنے ہیں اور مہمانوں سے خوش اخلاقی سے پیش آنا ہے ۔ اور ہر ایک سے آپ کا سلوک احسن ہونا چاہیے۔
اللہ تعالیٰ آپ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے ۔ اب دعاکر لیں۔
خطاب کے بعد حضور انو رنے دعا کروائی ۔ حضور انور کا یہ خطاب 9بج کر 22منٹ تک جاری رہا۔
بعدازاں حضور انور اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔ بعدازاں پروگرام کے مطابق 10بجےحضور انور نے مردانہ جلسہ گاہ میں تشریف لے جا کر نماز مغرب و عشاء جمع کر کے پڑھائیں۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضور انور اپنے رہائشی حصے میں تشریف لے گئے۔جلسہ سالانہ کے ایام میں حضور انور کا قیام جلسہ گاہ کے اندر ہی ایک رہائشی حصہ میں تھا۔
……………………………………………
05؍جولائی2019ء بروز جمعہ
……………………………………………
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے صبح 4بج کر 15منٹ پر مردانہ جلسہ گاہ میں تشریف لا کر نماز فجر پڑھائی ۔ نماز کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے رہائشی حصہ میں تشریف لے گئے ۔
صبح حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی مختلف نوعیت کے دفتری امور کی انجام دہی میں مصروفیت رہی ۔
آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ جرمنی کے 44ویں جلسہ سالانہ کا آغاز ہو رہا تھا اور آج جلسہ سالانہ کا پہلا روز تھا ۔
پروگرام کے مطابق دوپہر 1بج کر 55منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز پرچم کشائی کی تقریب کے لیے جلسہ گاہ کے چاروں ہالوں کے درمیان واقع ایک کھلے لان میں تشریف لائے ۔ حضور انور نے لوائے احمدیت لہرایا جب کہ امیر صاحب جرمنی نے قومی پرچم لہرایا ۔ بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے دعا کروائی ۔
ایم ٹی اے انٹر نیشنل کی جلسہ گاہ سے Liveنشریات صبح سے ہی شروع ہو چکی تھیں ۔ پرچم کشائی کی یہ تقریب بھی دنیا بھر میں براہ راست Liveنشر ہوئی۔
بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مردانہ جلسہ گاہ میں تشریف لائے اور خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جس کے ساتھ جلسہ کا افتتاح ہوا۔ (خطبہ جمعہ کا خلاصہ الفضل انٹر نیشنل9جولائی 2019ء کے شمارہ میں شائع ہو چکا ہے)حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خطبہ جمعہ کا مکمل متن حسبِ طریق الفضل انٹرنیشنل میں علیحدہ شائع ہو گا۔
حضور انور کا یہ خطبہ جمعہ 3بجے تک جاری رہا ۔ یہ خطبہ جمعہ ایم ٹی اے انٹر نیشنل پر براہ راست (Live)نشر ہوا۔
خطبہ جمعہ کا در ج ذیل زبانوں میں تراجم کا انتظام کیاگیا تھا۔
عربی، البانین، بنگلہ، بوزنین، بلغارین، انگریزی، فرنچ، جرمن، انڈونیشین، رشین، سپینش اور ترکش۔
خطبہ جمعہ کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے نماز جمعہ کے ساتھ نماز عصر جمع کر کے پڑھائی۔
ریڈیو FMپر بھی حضور انور کا خطبہ جمعہ لائیو نشر ہوا ۔ اس ریڈیو کی رینج 2کلو میٹر ہے ۔ جلسہ سالانہ کے تمام پروگرام بھی اس ریڈیو کے ذریعہ نشر ہو تے رہے ۔
اس کے علاوہ دوسری سہولت APPکی بھی تھی۔
جلسہ سالانہ جرمنی کی نشریات اردو اور جرمن زبان میں JALSA RADIO APPمیں بھی سنی جا سکتی ہیںنیز جس کے پاس انٹر نیٹ کی سہولت نہیں اس کے لیے اس ایپ میں یہ سہولت موجود ہے کہ وہ فون کے ذریعہ نمبر ملا کر جلسہ کی نشریات اپنے فون پر بھی سُن سکتا ہے ۔
نماز جمعہ و نماز عصر کی ادائیگی کے بعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے exhibitions کے احاطہ میں ریویو آف ریلیجنز کی جرمن ویب سائٹ (www.revuederreligionen.de) کا افتتاح فرمایا اور دعاکروائی۔
گوکہ گزشتہ تین سال سے ریویوآف ریلیجنز (جرمن ایڈیشن) کا سہ ماہی رسالہ نکل رہاہے اور تقریباً ایک ہزار کی تعداد میں تقسیم ہوتاہے۔ لیکن جرمن زبان میں ویب سائٹ نہیں تھی۔ اب جرمن ویب سائٹ کے اجراء کی وجہ سے ریویوآف ریلیجنز جرمن ایڈیشن سے زیا دہ سے زیادہ لوگ استفادہ کرسکیں گے۔
٭ بعدازاں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کانفرنس روم میں تشریف لے گئے جہاں پریس کانفرنس کا انعقاد ہوا۔
جرمنی ، سلووینیا اور میسیڈونیا سے آنے والے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے نمائندگان اور جرنلسٹس حضورانور کی آمد کے منتظر تھے۔ تین بجکردس منٹ پر پریس کانفرنس شروع ہوئی۔
٭ ایک صحافی کے سوال کے جواب میں حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
دیکھیں ہمارا جلسہ ہمارے جماعت کے ممبران کے لیے ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ احمدی روحانی طور پر ترقی کریں، اپنے اخلاق بہتر کریں اور خدا تعالیٰ کے حقوق اور حقوق العباد کو سمجھیں کہ کس طرح سے ہم یہ حقوق بہترین رنگ میں اداکرسکتے ہیں۔
٭ اس کے بعد ایک سوال islamophobia کے حوالہ سے ہوا۔اس کے جواب میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا :
مجھے تو نہیں پتاکہ islamophobiaکیوں ہوتاہے۔ مسلمانوں میں دو قسم کےمسلمان پائے جاتے ہیں۔ کچھ دہشت گرد اور شرپسند ہیں جواپنے ہی ممالک میں فساد اور مسائل پیدا کر رہے ہیں جس کا اثر مسلم ممالک سے باہر بھی پہنچ رہاہے۔ پھر دوسری قسم کے مسلمان بھی ہیں، جیسا کہ ہم ہیں جو ہمیشہ اسلام کی حقیقی تعلیم کا پرچارکر رہے ہوتے ہیں جس میں یہ بتایا جاتا ہے کہ ایک مسلمان کے کیا فرائض ہیں اوراللہ تعالیٰ کے کیا حقوق ہیں اور اس کی مخلوق کے کیا حقوق ہیں اور کس طرح سے بہتر رنگ میں ہم یہ حقوق ادا کرسکتے ہیں۔
پس اگر آپ اسلام کے متعلق ہمارے نقطہ نظر کو دیکھیں تو پھر کسی قسم کا islamophobia پیدا نہیں ہونا چائیے۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: islamophobia اصل میں کیوں پیدا ہوتا ہے؟ آپ لوگوں میں سے ہی جو کہ صحافی اور مضمون نویس ہیں کہتے ہیں کہ ان شرپسند مسلمانوں کی بہت ہی معمولی تعداد ہے جو مشکلات اور فساد پیدا کر رہے ہیں۔ اس لیے آپ اسے islamophobia نہیں کہہ سکتے ہاں یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ فسادکچھ شدت پسند مسلمانوں نے پیدا کیا ہے ۔ میرے نزدیک تو کوئی مسئلہ ہونا نہیں چائیے۔ اگر آپ اسلام کو ہماری نظر سے دیکھیں تو پھر آپ کو اسلام میں کچھ بھی غلط نظر نہیں آئے گا۔ پس جب کوئی غلط چیز نہیں ہوگی تو islamophobia بھی نہیں ہوگا۔ ہاں کچھ ایسے لوگ ضرور ہیں جو دنیا میں فساد کرتے ہیں اور وہ مسلمانوں میں سے بھی ہیں اور دوسروں میں سے بھی ہیں ۔ ہر سال ہزاروں لوگ امریکہ میں قتل کیے جاتے ہیں، تو کون ہے جو انہیں قتل کرتے ہیں؟یہ تو انہی کے ملک کے ، امریکن لوگ ہی ہیں ۔ یہی چیز مسلم ممالک میں بھی ہوتی ہے۔ لیکن اس وقت ان لوگوں کے بارہ میں جو اپنے ہی ملک میں اپنے ہی لوگوں کو قتل کررہے ہوتے ہیں آپ یہ تو نہیں کہتے کہ یہ لوگ جو بھی کررہے ہیں عیسائیت کی وجہ سے کررہے ہیں۔پس مسلمانوں میں شر پسند لوگوں کے اعمال کو اسلام کی طرف منسوب نہیں کرنا چاہیے۔
٭ ایک صحافی جن کا تعلق Macedoniaسے تھا انہوں نے سوال کیا کہ آپ کا جلسہ سالانہ کے موقع پر پوری دنیا کے لیے کیا عمومی پیغام ہے۔
اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ یہ تو میں اپنے خطبہ جمعہ میں بیان کر چکا ہوں کہ ہمیں ایسا مسلمان بننا ہو گا جو اچھے اخلاق اپنانے والے ہوں ، ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے خالق اور اس کی مخلوق کے حقوق پورے کرنے والے ہوں اور آپس میں امن اور پیارمحبت سے رہنے والے بنیں۔
٭ اس کے بعد بوسنیا سے آنے والے ایک صحافی نے سوال کیا کہ یورپ میں بعض لوگوں کو مشرقی ممالک مثلاً پاکستان وغیرہ سے آنے والے لوگوں سے یہ خطرہ ہوتا ہے کہ وہ اس یورپی معاشرہ میں رہ کر بھی اپنےہی culture اور روایات کی حفاظت کر تے ہیں اور یورپی روایات نہیں اپناتے۔ اس بارہ میں حضورانور کا کیا خیال ہے؟
اس سوال کے جواب میں حضور انور نے فرمایا کہ
اس کے متعلق تو و ہی بیان کرسکتے ہیں جنہیں خطرہ ہے۔ باقی یہ ہے کہ جو پاکستان سے آتے ہیں یا اور بھی لوگ جو اپنی valuesکی حفاظت کرنا چاہتے ہیں ، جو اپنے مذہب کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں تو وہ اس پر قائم رہتے ہیں۔ اگر وہ اپنے مذہب کو practiceکرتے ہیں تواس بارہ میں تو یورپ کو اس سے کوئی خطرہ نہیں ہونا چاہیے۔ اگر یورپین لوگوں کو ان سے خطرہ ہے توپھر میرے خیال میں تو ایک غلط خطرہ ہے۔ کیونکہ اس کا تویہ مطلب ہے کہ ان کو اپنے آپ پر یقین اور اعتماد نہیں ہےکہ ایک چھوٹی سی جماعت یا تھوڑے سے لوگ یا immigrants ان لوگوں پر زیادہ influence کر جائیں گے اور یہ لوگ شائد تعداد میں کم رہ جائیں اور مسلمان زیادہ ہو جائیں۔ سو کبھی کسی ملک میں immigrants اتنے زیادہ نہیں آسکتے کہ مقامی لوگ وں سے تعداد میں بڑھ جائیں۔ اگر مقامی لوگ کسی مذہب کے معاملہ میں outnumber ہوتے ہیں تو اس مذہب کی وجہ سے ہوتے ہیں ۔ جس طرح مسیحیت دنیا میں پھیلی تھی تو مسیحیت نے ہر ملک کی ثقافت کو یا ان کی تہذیب کو ،ان ملکوں کی آبادیوں کو outnumber کیا۔ ایسا تو نہیں تھا کہ immigrants نے آ کر مسیحیت پھیلائی۔ اگر یہ مذہب کی حفاظت کرتے ہیں توکوئی فکر کی بات نہیں ہے۔ اگر یہ لوگ اپنے مذہب کی حفاظت نہیں کرتے تو ان کو فکر کرنی چاہیے۔ ان کو چاہیے کہ وہ اپنے مذہب کی حفاظت کریں اور اپنے مذہب کی اقدار کو قائم رکھیں۔ اگر یہ لوگ اپنی تعلیمات اور اقدار کو قائم رکھیں گے تو مسلمان کبھی ان پر influence نہیں کرسکیں گے۔ اس لیے خطرے والی کوئی بات نہیں ہے۔
٭ آخر پر ایک خاتون نے یہ سوال کیا کہ جماعت میں عورت اور مرد کا کس حد تک فرق ہے اور وہ کیاکردار ادا کرتے ہیں؟
اس کے جواب میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ آپ کو ایک بنیادی بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ ہم ایک مذہبی جماعت ہیں اور ہم نے مذہبی تعلیمات پر عمل کرنا ہے، ہم نے اپنی مقدس کتاب کی پیروی کرنی ہے جو کہ قرآن کریم ہے ، ہم نے نبی کریم ﷺ کی سنت اور اقوال کی پیروی کرنی ہے اور اگر آپ پیروی نہیں کرتے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ بنیادی تعلیمات سے انحراف کر رہے ہیں ۔ دوسری بات یہ ہے کہ اسلام نے آغاز سے ہی عورتوں کے حقوق قائم کیے ہیں۔ ایک صدی پہلے بھی یورپ میں عورتوں کو حقوق حاصل نہیں تھے۔ عورت کو یہ حق حاصل نہیں تھا کہ وہ اپنے ماں باپ کا ورثہ حاصل کرےاور نہ ہی اسے ووٹ دینے کا حق تھااس کے علاوہ بھی کئی باتیں ہیں۔ اسلام نے عورت کے لیےوراثت کا حق قائم کیا اور اسے اپنے خاوند سے خلع لینے کا بھی حق دیا اگر وہ اس کے ساتھ خوش نہیں ہے ۔ اسلام نے یہ بات قائم کی کہ عورت اپنی مرضی سے شادی کر سکتی ہے لیکن اپنے والدین کے ساتھ مشورہ کرنے کے بعد۔ اور اس کے علاوہ کئی اور احکامات ہیں جن کے ذریعہ سے عورتوں کے حقوق قائم کیے گئے ہیں۔ اور یہی چیزیں ہماری جماعت میں پائی جاتی ہیں۔
آپ دیکھ سکتی ہیں کہ خواتین کا الگ ہال ہے جہاں انہیں ساری سہولتیں دی گئی ہیں۔ کل وہ اپنا پروگرام منعقد کریں گی جہاں خواتیں خطاب کریں گی اور میں بھی وہاں، عورتوں کی طرف خطاب کروں گا ۔ تو اسلام نے بتا دیا ہے کہ یہ مرد کی ذمہ داری ہے اور یہ عورت کی۔ یہ کام ہیں جو مردوں نے کرنے ہیں اور یہ کام ہیں جو خواتین نے کرنے ہیں۔ میری یہ فلاسفی ہے کہ اگر خواتین مردوں کی سرپرستی کے بغیر کام کریں تو زیادہ بہتر رنگ میں کام کرسکتی ہیں۔ جو خاتون آپ کے ساتھ بیٹھی ہوئی ہے وہ مردوں سے کئی درجہ بہتر مقرر ہے۔
تین بجکر تیس منٹ پر یہ پریس کانفرنس ختم ہوئی اور حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔
وفود سے ملاقات
٭ آج شام سینیگال ، مایوٹ آئی لینڈ اور لتھوانیا سے آنے والے وفود اور مہمانوں کی اجتماعی ملاقات کا پروگرام تھا۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز آٹھ بجے ملاقات ہال میں تشریف لائے ۔ سب سے پہلے ملک سینیگال سے آنے والے وفد نے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے شرفِ ملاقات پایا۔ سینیگال سے نو افراد پر مشتمل وفد جلسہ سالانہ جرمنی میں شامل ہوا۔ مہمانوں میں سینیگال کے دوسرے بڑے شہر ‘امبور’ کے کمشنر Mr Sear Ndao، ڈائریکٹر جنرل اسٹیبلشمنٹ محکمہ صحت Mr Mordiaw، ڈائریکٹر ریڈیو Daff Umar Sayedoصاحب اور سیکرٹری جنرل علماء کونسل محمد حبیب گنا صاحب شامل تھے۔
٭ وفد کے ممبران نے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے استفسار پر باری باری اپنا تعارف کروایا۔ سینیگال سے آنے والے مہمان Sear Ndaoصاحب جو کہ اپنے علاقے میں کمشنر ہیں نے عرض کیا:
‘‘میں حضور انور سے مل کر بہت خوش ہوں اور حضور کے آج کے خطبہ جس میں محبت اور توحید کا درس تھا میں اُس سے بے حد متاثر ہوں۔ اگر میں یہ جلسہ نہ دیکھتا اور حضور انور سے نہ ملتا تو یقیناً سمجھتا ہوں کہ میں اپنی زندگی میں ایک بہت بڑا خلا محسوس کرتا اور آج میں یہ سمجھتا ہوں کہ حضور کو مل کر میری زندگی کا مشن مکمل ہوگیا ہے۔ میں یہ بات برملا اور ہر جگہ کہہ سکتا ہوں کہ حضور انور صرف ایک روحانی آدمی ہی نہیں بلکہ وہ یقیناً خدا کے مقرر کردہ انسان ہیں۔ وہ اس دنیا کے نہیں ہیں۔ یہ باتیں بیان کرتے ہوئے ان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ کہنے لگے کہ مجھ میں طاقت نہیں کہ میں اتبی بڑی ہستی کے بارے میں کچھ کہہ سکوں۔’’
انہوں نے اپنے وفد کی طرف سے حضور انور کی خدمت میں کشتی کا تحفہ پیش کیا۔ اور کہا کہ یہ کشتی امن کی کشتی ہے۔ ‘محبت سب کے لیے نفرت کسی سے نہیں’کی کشتی ہے۔ اب جو اس میں سوار ہوگا وہی امن پائے گا اور یہ احمدیت کی کشتی ہے۔ اور کشتی کا تحفہ دینے کا ایک دوسرا مطلب یہ بھی تھا کہ ہمارے ملک کی معیشت اس سے وابستہ ہے۔ لہذا ہمارے ملک کے لیے خاص دعا کریں۔
نیز انہوں نے کہا کہ ہم حضورانور کو سینیگال آنے کی دعوت دیتے ہیں۔ اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایاکہ ‘میں وقت نکال لوں گا۔ ان شاء اللہ۔’
٭ سینیگال سے آنے والے ایک مہمان ڈاکٹر مور جاؤ صاحب(Mordiaw)جو کہ ڈائیریکٹر جنرل اسٹیبلشمنٹ محکمہ صحت ہیں اور سینیگال کےتمام ہسپتالوں کے انچارج ہیں کہنے لگے:
حضور انور سے ملاقات ہمارے لیے بہت بڑی سعادت ہے۔ جماعت نےوہاں ہسپتال کھولا ہے وہ بہت ہی اعلیٰ اقدام ہے۔ اور کینیڈا والوں نے اس ہسپتال کے لیے سامان بھجوایاہے۔ اس کے لیے بھی میں حضور کا شکر گزار ہوں۔ مزید ہسپتال اور صحت اور تعلیم کے شعبہ میں سینیگال ضرورت مند ہے۔ خصوصاً ماں اور بچے کی careکے ہسپتال کی ضرورت ہے۔
اس پر حضور انور نے فرمایا :‘‘ہم جائزہ لیں گے۔ ’’ نیز فرمایا کہ ’’ہم جب کسی کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہیں تو پیچھے نہیں ہٹتے ۔ ’’ اس پر سب ڈیلیگیشن نے بیک زبان حضور انور کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا کہ ہماری طرف سے بھی یہ ہاتھ کبھی پیچھےنہیں ہوگا۔
موصوف نے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے ہوئے کہا:
‘‘میں نے دنیا کے بہت سے ممالک دیکھے ہیں۔ مذہبی اور سیاسی اجتماع بھی دیکھے ہیں۔ امریکہ ، یورپ سب جگہوں پر گیا ہوں۔ لیکن آج تک ایسا نظام ، ایسا حقیقی اسلام اور اسلام کی ایسی تصویر اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی۔ ایسی اطاعت کبھی نہیں دیکھی جو میں نے یہاں لوگوں میں دیکھی ہے۔ اور خلافت سے ایسی محبت ، میں یہ علی وجہ البصیرت کہہ سکتا ہوں کہ دنیا میں کسی جگہ بھی کوئی اپنے سیاسی یا مذہبی لیڈر سے ایسا پیار نہیں کرتا، جتنا یہاں میں نے اپنے خلیفہ سے لوگوں کو کرتے دیکھا ہے۔ میں اس سچائی کو تسلیم کرتا ہوں۔ ’’
ڈاکٹر مورجاؤ صاحب اور ان کے ساتھ کمشنر Sear Ndaoصاحب نے عرض کیا :
‘‘ہم دل سے اس سچائی کو قبول کرتے ہیں اور جو ہم نے دیکھا یہ ایک ایسی سچائی ہے کہ جس کو کوئی بھی ردّ نہیں کرسکتا اور ہم اور ہمارے دل آج سے آپ کے ساتھ ہیں۔ اور جو ہم نے دیکھا اور آپ سے سنا ہے خاص طور پر خطاب میں یہ کبھی دل سے محو ہونے والا نہیں۔ ’’
اس پر حضور انور نے فرمایا : ‘‘اصل چیر تقویٰ ہے اور انسان کو ہمیشہ تقویٰ سے کام لینا چاہیئے ۔ اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو۔’’
٭ سینیگال سے آنے والے عمر سید وڈف صاحب (Umar Sayedo Daff)جو کہ ایک ریڈیو کے ڈائریکٹر ہیں نے عرض کیا :
‘‘میں ریڈیو کا ڈائریکٹر ہوں جہاں جماعت کا ہر جمعےکو پروگرام ہوتا ہے اور حضور انور کا خطبہ جمعہ فرنچ زبان میں لائیو نشر ہوتا ہے۔ یہ ملاقات میرے لئے اور میری فیملی کے لیے زندگی کا ایک قیمتی سرمایہ ہے جس کو میں کبھی بھی بھول نہیں سکتا ۔ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خدا کے خلیفہ کا ممنون ہوگیا ہوں۔ اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس کا ہوگیا ہوں۔ کیونکہ جب میں نے انہیں دیکھا ہے اور جب میں نے یہ سچائی دیکھی ہے، اس کے بعد اب میرے لئے چارہ نہیں کہ میں اُن کا نہ ہوں۔ میں اُن کا ہوں۔ میں کہیں بھی ہوں، دنیا میں کسی جگہ بھی ہوں، آج کے بعدخدا کے خلیفہ کا ہوں۔ ’’
میں حضورسے اپنے اور فیملی کے لیے دعاکی درخواست کرتاہوں۔ حضورانور کے خطبہ کا میرے دل پر بہت اثر ہے۔ نیز ہمارے ملک میں پٹرول اور گیس نکلا ہے اُس کے لیے بھی دعاکی درخواست ہے۔
اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایاکہ ‘‘میں نے گھانا کے صدر کو بھی یہ بات کہی تھی کہ اگر آپ انصاف کے ساتھ تقسیم نہ کریں اور کرپشن ہو تو مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ تیل سے تو نائیجیریا بھی مالا مال ہے۔ لیکن وہاں اتنی غربت ہے کہ لوگ ڈسٹ بن سے اُٹھا کر بھی کھانا کھا رہے ہوتے ہیں۔ اس لیے وسائل کی تقسیم انصاف کے ساتھ ہونی چاہیے۔
٭ بعدازاں محمد حبیب گنا صاحب صاحب سیکرٹری جنرل علماء کونسل نے اپنا تعارف کروایا اور کہا کہ
میں امبور کی بڑی مسجد کا امام ہوں اور آپ کا ممنون ہوں۔ آپ نے جو خطبہ دیا، توحید، محبت اور بھائی چارے کا درس دیا اصل اسلام یہی ہے۔ آپ جو کام محبت اور اخوت کا اور اسلام کی ترقی کا اور امت کو متحد کرنے کا کر رہے ہیں آج اسلام کو اس کی بہت ضرورت ہے۔ نیز اگر حضورارشاد فرمائیں تو جہاں یوکے میں حضوررہتے ہیں وہاں بھی آؤ ںاور آکر دیکھوں۔
اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: یوکے کا ویزہ اگر مل جائے تو ضرور آئیں۔ ویزہ ایمبیسی نے دینا ہے۔ باقی انتظامات ہمارے ذمہ ہیں۔
ملاقات کے آخر پر وفد کے سبھی ممبران نے حضورانور سے شرفِ مصافحہ حاصل کیا اور تصاویر بنوائیں۔
سینیگال کے وفد کی یہ ملاقات 8 بجکر 25 منٹ تک جاری رہی۔
(باقی آئندہ)
٭…٭…٭