بچوں کے خیالات پر بُرے اثرات
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
‘‘بے چارے بچوں کو اس قدر پاگل بنایا جا رہا ہے کہ اب ان کے تصورات ہی بگڑ گئے ہیں …یعنی وہ تو محض گندگی ہے جس کو پورنو گرافی (Pornography) کہتے ہیں ۔بچوں کے عام خیالات بھی بگاڑے جا رہے ہیں ۔چھوٹی چھوٹی اور ادنیٰ چیزوں کی طرف بچوں کے میلان بڑھائے جا رہے ہیں ۔مثلاً بے ہودہ حرکتیں ،خوشی کے لغو اظہار جن میں کوئی حکمت نہیں ہوتی ،کوئی معنی نہیں ہوتے ۔ٹیلی ویژن کے اشتہارات بھی بچوں میں نئے نئے خیالات پیدا کرتے چلے جا رہے ہیں ۔یہاں تک کہ بچوں کا Out look(آئوٹ لُک ) یعنی زندگی کا نظریہ ہی بدل گیا ہے ۔ان کے خیالت مسموم ہو چکے ہیں ۔ان کو پتہ نہیں سچی خوشی کس کو کہتے ہیں ؟ بنی نوع انسان کے ساتھ تعلق میں اور غریب لوگوں کی خدمت میں کیا لذت محسوس ہوتی ہے ۔ان چیزوں سے وہ بالکل ناواقف ہیں۔ ’’
(مشعل راہ جلد چہارم ارشادات حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ ،صفحہ 340)
زندگی کو بچوں کا کھلونا بنا دیا ہے :
‘‘اب تو یہ حال ہے کہ بچے کوئی اچھی چاکلیٹ دیکھیں ، کوئی اچھی آئس کریم دیکھیں تو ان کو یہ پتہ ہے کہ کس طرح اچھلنا ہے ، کس طرح شور مچانا ہے اور کس طرح منہ سے رالیں ٹپکانی ہیں اور ان کے اشتہار بھی ان کو یہی تربیت دے رہے ہیں۔پاگلوں والی حرکتیں کر رہے ہیں اور ایسے ایسے لغو قصے ان کو بتائے جا رہے ہیں کہ جن سے بچوں کے ذہن اور تصور کی دنیا ہی بگڑ رہی ہے ۔ مثلاً اب ان کو یہ بتایا جا رہا ہے کہ کس طرح دوسری دنیا کے راکٹ آ رہے ہیں اور ان کے ساتھ لڑائیاں ہو رہی ہیں اور بچے ان کو فتح کر رہے ہیں اور اسی طرح ایسے کھلونے بنا دیے گئے ہیں ،ایسی کھیلیں ایجاد کر دی گئی ہیں جن کے ذریعہ بچے منٹوں کے اندر آسمان سے گیلیکسیز کو ختم کرتے اور ستاروں کو زمین پر مار گراتے ہیں ۔ ستاروں کی مخلوق تباہ کر دیتے ہیں اور اپنی طرف سے گو یا ان کا دماغ بہت بلند کیا جا رہا ہوتا ہے کہ دیکھو ہم کتنے بلند اور طاقتور ہیں ۔چنانچہ ایک امریکن نے ایک رسالہ میں اس کا ذکر کیا ہے ۔ میں نے خود پڑھا ہے ۔ اس نے لکھا ۔ میرا وہ چھوٹا سا بچہ جو بیٹھا ہوا ستاروں کے ستاروں کو تباہ کر رہا ہو بلکہ ستاروں کے جھرمٹ کو کھیلوں کے ذریعہ ہلاک کر رہا ہو اور بڑی بڑی آسمانی مخلوقات پر غلبہ پا رہا ہو اس بچے کو میں کیسے بتائوں کہ ذرا اپنا ناک تو صاف کرو ،یعنی ناک سے گندگی بہہ رہی ہے اور کھیلیں یہ کھیل رہا ہے کہ وہ ساری دنیا کے بڑے بڑے ستاروں پر غلبہ پا رہا ہے ۔
یہ محض جہالت کے قصے ہیں اور رجحانات کو تباہ کرنے والی باتیں ہیں ۔یہ صرف کھیلیں ہیں جو چیزیں بیچنے والوں نے ایجاد کی ہیں تاکہ بچے ان میں زیادہ سے زیادہ دلچسپی لیں ۔ سوائے مادی مقصد کے ان کا کوئی اور مقصد نہیں ہوتا ۔ ان کو کوئی پرواہ نہیںکہ قوم کے بچوں کی تربیت ہو رہی ہے کہ نہیں ہورہی ۔ ان میں اعلیٰ اخلاق پیدا ہو رہے ہیں کہ نہیں ہو رہے صرف اقتصادی دنیا ہے جس میں دولت کے حصول کے لیے ہر کوشش جائز ہو چکی ہے ۔ اسی میں بچوں سے بھی کھیلا جا رہا ہے ۔اسی میں جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا۔ ایسے رسالے نکل رہے ہیں جو دنیا کو زیادہ گندگی کی طرف مائل کرتے چلے جا رہے ہیں اور بچوں کو بھی آلہ کار بنایا جا رہا ہے ۔ ’’
احمدی بچے خدا سے تعلق جوڑیں
پس ان چیزوں کے مقابل پر احمدی بچوں کو جنگ لڑنے کے لیے تیار ہونا چاہیے ۔ اس کے لیے نئے آلات کے ذریعہ ایسی اعلیٰ تصویریں بنائی جائیں اور ایسے اچھے کردار پیش کیے جائیں کہ ان کو دیکھ کر احمدی بچے بھی سنبھلیں ۔ ان کو بھی پتہ لگے کہ ہمارا راستہ اور ہے اور غیر بھی دیکھیں تو ان کو بھی محسوس ہو کہ احمدی بچے کے کیا افکار ہیں ۔ اس کی کیا بلند پروازیاں ہیں ۔ وہ محض تصور میں آسمان کے ستاروں کو سر نہیں کر رہا بلکہ ان ستاروں کے خدا سے تعلق جوڑنے کی سوچ اور فکر کر رہا ہے ۔وہ مخلوق کو فتح کرنے کے ہوائی منصوبے نہیں بنا رہا بلکہ خالق کی نظر میں محبوب اور مقرب بننے کی کوششیں کر رہا ہے ۔ احمدی بچے کا یہ کتنا بلند ترمقام ہے دنیا کے اس بچے کے مقابل پر جس نے محض مادی تسخیر کو اپنی زندگی کا مدّعا بنا لیا ہے ۔
(مشعل راہ جلد چہارم ارشادات حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ،صفحہ341,340 )
صحت مندتفریح کے ساتھ تربیتی پہلو مدنظررکھیں
حضور رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ‘‘ بعض دفعہ بچوں کو یہ دیکھ کر بہت مزہ آتا ہے کہ بچے تالاب میں پھر رہے ہیں ،ننگے دوڑ رہے ہیں ، پھر رہے ہیں ۔ ان کی تسکین جو ہے نہانے کی اور تیرنے کی وہ تو پوری ہونی چاہیے کسی طریقے سے لیکن اس طرح نہیں جس طرح یہ لوگ کرتے ہیں ،تو بچپن سے ان کے لیے جن لوگوں نے تالاب بنا لیے ،جن کو توفیق ملی ان پر میرا کوئی اعتراض نہیں ۔ جن کو خدا نے توفیق دی ہے وہ بے شک بنائیں مگر اتنا دکھاوا نہ کریں کہ وہ تالاب لوگوں کی نظر کے لیے ہوں نہ کہ بچوں کے نہانے کے لیے ۔ مجھے یاد ہے امریکہ آنے سے بہت پہلے مجھے بھی یہ خیال رہتا تھا کہ میری بچیاں بڑی ہوں گی تو یہ محسوس نہ کریں کہ ہمیں تیرنا نہیں آیا ،نہ ہمیں نہانے کا آزادانہ مزا آیا ۔اس لیے یہاں کے معاشرے کا تو مجھے خواب و خیال بھی نہیں تھا مگر اپنے فارم پہ میں نے ایک تالاب بنا رکھا تھا چھوٹا سا جس میں میرے بچے مجھ سے سیکھتے تھے ۔ان کے ساتھ ہی خاندان کے اور بچے بچیاں آکر پاکیزہ ماحول میں تیرنا بھی سیکھتے تھے اور مزے بھی پورے کرتے تھے ۔ جب یہ بچیاں ،ان میں سے دو بڑی بچیاں میں ساتھ لے کر امریکہ آیا تو یہاں کے تالابوں نے ان پر ذرہ بھی اثر نہیں کیا ۔ کیونکہ وہ جانتی تھیں کہ ہمارا حق ہمیں دیا گیا ہے اور ان پر رحم کرتی تھیں جو اپنا جسم بیچنے کے لیے نہاتے ہیں ۔کراہت سے ان پر نظر پڑتی تھی اور اپنے متعلق پورا اطمینان تھا کہ ہمارا جو حق ہے ہمیں عطا کیا گیا ہے ۔ تو یہ میں باتیں اس وقت کی کر رہا ہوں جب میں ابھی امریکہ نہیں آیا تھا ۔
یہاں کے لوگ اگر اس نیت سے تالاب بنانے کی تو فیق رکھتے ہوں کہ گھر میں پاکیزہ ماحول میں ان کی تربیت ہو سکے تو ہرگز کوئی برائی کی بات نہیں ہے ۔ اس کو تکاثر اور تفاخر نہیں کہتے ۔ مگر تالاب کے بہانے اگر اتنے بڑے بڑے ہال بنائے جائیں،اتنی بڑی بڑی چکوزیاں ہوں کہ دیکھتے ہی طبیعت میں کراہت پیدا ہو ، یہ تو کوئی مومنانہ طریق نہیں ہے ۔ اس سے تو اگر بچے یہاں نہائیں گے تو بھی بیرونی معاشرے کی اور بھی زیادہ قدر کریں گے ۔وہ سمجھیں گے کہ ہمارے ماں باپ نے انہی کو بڑائی کا ذریعہ بنا رکھا ہے ۔تو یہ ساری باتیں ایسی ہیں جو میرے اس سفر کے دوران تجربے میں شامل ہیں ۔ ان کی تفصیل میں مَیں نہیں جانا چاہتا۔ جن کو توفیق ہے ضرور تالاب بنائیں مگر بچوں کے ساتھ مل کر ان کو تیرنا بھی سکھائیں ۔ ان کو ساتھ ساتھ بتائیں کہ باہر کی دنیا کی طرف نظر نہ کرو وہ گندے لوگ ہیں ۔اپنی حفاظت کرو ،اپنے دین کی حفاظت کرو تو یہی تالاب ان کے لیے رحمت کا موجب بن جائیں گے ۔ ’’
(ارشادات حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ ،مشعل راہ ،جلد چہارم ، صفحہ 470)
( مرسلہ :مبارکہ شاہین صاحبہ ۔ ڈارمسٹڈ،جرمنی)
٭…٭…٭