اللہ تعالیٰ کی راہ میں مالی قربانی ۔ برکات و ثمرات (قسم نمبر 3۔ آخری)
حصہ جائیداد کی ادائیگی کے لیے
بہت بڑی رقم کا انتظام ہوگیا
مکرم ملک منور احمد مجوکہ صاحب امیر ضلع خوشاب حبیب بنک لمیٹڈ ربوہ میں بطور مینیجر کام کرتے ہیں۔ وہ عام طور پر اپنا چندہ براہِ راست خزانہ صدرانجمن احمدیہ میں جمع کروادیا کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ایک دفعہ انہوں نے 18,000 روپے چندہ جمع کروانا تھا۔ وہ مکرم شیخ مبارک احمد صاحب سابق ناظر بیت المال آمد کے پاس دفتر میں آئے اور 20,000 روپے دے کر کہا کہ اس میں سے 18,000 روپے جمع کروا دیں اور 2000روپے واپس دے دیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مکر م شیخ صاحب نے مجھے کہا یہ 2000 روپے کیوں واپس لینے ہیں۔ انہیں بھی کسی چندہ میں جمع کروادیں۔ مجوکہ صاحب کہتے ہیں کہ میں نے شیخ صاحب سے کہا کہ آپ جس مد میں چاہتے ہیں جمع کروا دیں۔ شیخ صاحب نے وہ 2000 روپے حصہ جائیداد میں جمع کروادیے۔ مجوکہ صاحب نے بتایا کہ جب میں دفاتر سے نکل کر اپنے بنک کی طرف آرہا تھا تو میرے دل میں خیال آیا کہ میرا حصہ جائیداد تو تقریباً 20 لاکھ کے قریب بنتا ہے۔ یہ 2000 ادا کرنے سے کیا ہوگا۔ لیکن یہ 2000 کی ادائیگی بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوئی اور دل میں ایک احساس پیدا کرگئی کہ مجھے اپنا حصہ جائیداد اداکردینا چاہیے۔ حالات ایسے نہیں تھے کہ میں تشخیص کروا کر مقررہ وقت میں ادائیگی کرسکوں۔ لیکن صرف 2000 کی ادائیگی کے نتیجہ میں ایسی برکت پڑی اور ایسے حالات پیدا ہوگئے کہ میں اپنا حصہ جائیداد ادا کرنے کے قابل ہوگیا۔ 2000 روپے کی ادائیگی کے صرف چند دنوں بعد ایک ہیڈآفس سے ایک دوست کا فون آیا کہ ہیڈآفس نے بنک ملازمین کے لیے پانچ لاکھ روپے تک کے قرض کی سکیم شروع کی ہے۔ اگر آپ نے لینا ہو تو آپ کانام اس فہرست میں شامل کرلوں۔ مجوکہ صاحب کہتے ہیں کہ میں نے جواباً کہا کہ میری ضرورت اس سے زیادہ ہے۔ میں 5 لاکھ قرض نہیں لینا چاہتا۔ اس دوست نے پوچھا کہ آپ کی ضرورت کتنی ہے۔ میں نے بتایا کہ مجھے تو کم از کم 20 لاکھ کی ضرورت ہوگی۔ اُس دوست نے معذرت کی کہ چونکہ اس سکیم کے تحت صرف 5 لاکھ قرض ہی مل سکتا ہے۔ 20 لاکھ ملنے کی کوئی صورت نہیں ہے۔
کچھ دن گزرے تو ہیڈآفس سے انہی دوست کا دوبارہ فون آیا کہ ابھی بھی سوچ لیں اور جو 5 لاکھ قرض کی سہولت مل رہی ہے۔ اس سے فائدہ اُٹھا لیں ۔ مجوکہ صاحب کہتے ہیں کہ میں نے دوبارہ انکار کردیا۔ اسی طرح مزید کچھ اور دن گزر گئے تو ایک دن ہیڈآفس والے دوست کا دوبارہ فون آیا۔ ا س نے کہا کہ سکیم تو 5 لاکھ قرض کی ہے لیکن میں نے آپ کے لیے 20 لاکھ قرض کی درخواست کردی ہے۔ خدا کرے کہ آپ کی ضرورت کے لیے آپ کو یہ قرض مل جائے۔ بات آئی گئی ہوگئی۔ یہاں تک کہ دسمبر کی آخری تاریخیں (غالباً 30یا 31) آگئیں۔ میں بنک میں بیٹھا کام کررہا تھا ۔ اچانک مجھے خیال آیا اور میں نے اپنے کمپیوٹر پر چیک کیا تو 30 تاریخ کو میرے اکائونٹ میں 20 لاکھ روپے جمع ہو چکے تھے۔ اور غالباً اُسی دن ہیڈآفس کی طرف سے یہ اطلاع بھی موصول ہوگئی کہ قرض کی یہ سکیم صرف ایک سال کے لیے شروع کی گئی تھی جو 31 دسمبر کو ختم ہوجائے گی۔
مجوکہ صاحب کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے محض 2000 روپے حصہ جائیداد میں جمع کروانے کی برکت سے میرے لیے اپنا کل حصہ جائیداد ادا کرنے کی تدبیر پیدا کردی۔ چنانچہ رقم ملتے ہی میں نے اپنا سارا حصہ جائیداد ادا کردیا۔
مسجد کی تعمیر میں خرچ کی ہوئی رقم
غیرمعمولی افضال و برکات کا موجب بن گئی
مکرم رانا عزیز احمد صاحب ریٹائرڈ سب انسپکٹر چوک اعظم ضلع لیہ نے بیان کیا کہ خدا کے راستے میں مالی قربانی کے نتیجے میں انہوں نے اس قدر افضال و برکات سمیٹی ہیںجن کا شمار ممکن نہیں۔ علماء تو اپنے جلسوں میں لوگوں کو کھڑا کرکے عہد لیتے رہے کہ رانا عزیز مرزائی کو قتل کرکے غازی علم الدین اور ممتاز قادری کی کہانی کو دہرائو۔ (الفضل انٹرنیشنل میں شائع شدہ رپورٹ 30 جنوری 2015ء) رانا صاحب نے خاکسار کو کئی مرتبہ بتایا کہ انہیں عادت تھی کہ وہ اپنے چندہ جات سال کے آغاز میں ہی ادا کر دیا کرتے تھے اور مالی قربانی کی اس برکت کو میں نے ہر مشکل وقت میں اپنے لیے ایک مضبوط حصار محسوس کیا۔ اور یوں لگتا تھا کہ اللہ کے راستے میں یہ خرچ میرے لیے ایک گھنا سایہ دار درخت ہے جس کے نیچے میں بے حد راحت محسوس کرتا تھا۔ لیکن چوک اعظم میں تعمیر ہونے والی مسجد کے لیے مجھے جو توفیق ملی وہ میری زندگی کا یادگار اور زندگی کو تبدیل کردینے والا واقعہ ہے۔ تفصیل اس واقعہ کی کچھ یوں ہے کہ 1994ء95-ء میں میں چوک اعظم میں کسی دکان پر کھڑا تھا کہ میں نے ایک ریڑھے (گدھا گاڑی) پر چارپانچ ڈشیں جاتے دیکھیں۔ میں نے اُسی وقت مکرم چوہدری مسعود احمد صاحب امیر ضلع لیہ کو فون کیا کہ کیا ہمیں چوک اعظم کے لیے ڈش مل سکتی ہے۔ انہوں نے ڈش کا وعدہ کیا اور کچھ دنوں بعد ہمیں ڈش مل گئی۔ اور میں نے اور میرے گھر والوں نے ڈش پر حضرت صاحب کا خطبہ سننا شروع کردیا۔ میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ ہمیں چوک اعظم میں اپنی مسجد بھی بنانی چاہیے۔ چنانچہ میں نے دوبارہ مکرم امیر صاحب سے درخواست کی اور ان کی منظوری سے ہم نے مسجد کے لیے چندہ جمع کرنا شروع کردیا۔ مرکز سے منظوری اور رقم بھی مل گئی۔ اللہ نے مجھ پر یہ خاص احسان بھی فرمایا کہ مسجد کے لیے جگہ میرے گھر سے ملحقہ تھی۔ چنانچہ مسجد کی تعمیر کا کام شروع ہوگیا لیکن پیسوں کی کمی کے باعث ہمیں تعمیر کا کام روکنا پڑ رہا تھا۔ میں نے اپنے دوستوں سے کہا کہ ہم نے مسجد کی تعمیر نہیں رُکنے دینی۔ چنانچہ امیر صاحب کی اجازت سے میں نے اپنے پاس سے خرچ کرنا شروع کردیا۔ میں نے امیر صاحب سے کہا کہ میں مسجد کی تعمیر مکمل کروا دیتا ہوں۔ میرا کوئی مطالبہ نہیں ہوگا ۔اگر ممکن ہو تو آپ کچھ دے دیں۔ چنانچہ اللہ کے فضل واحسان سے چوک اعظم میں ہماری بہت خوبصورت مسجد مکمل ہوگئی۔ مرکز نے مجھے کچھ رقم ادا کردی۔ لیکن اس تعمیر کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے میرے لیے اپنے فضل کے ایسے دروازے کھولے جن کا بیان کرنا ممکن نہیں۔ مسجد مکمل ہونے کے تھوڑے ہی عرصہ بعد انتہائی کم قیمت میں اللہ تعالیٰ نے مجھے 19 ایکڑ زمین عطافرمادی۔ اس کے بعد مزید 20 ایکڑ زمین خریدنے کی توفیق بھی مل گئی۔ اس ساری زمین میں مجھے کنوں، مسمی وغیرہ کا باغ لگانے کی توفیق بھی خدا تعالیٰ نے عطا فرمائی ہے اور اب یہ باغ سالانہ لاکھوں روپے ٹھیکہ پر چڑھتا ہے۔ اللہ کے اتنے فضل، رحمتیں اور برکتیں دیکھی ہیں کہ چاہوں بھی تو بیان نہیں کرسکتا۔ اس قربانی کے نتیجے میں ہماری غربت دورہوئی۔ بچے بیرون ملک چلے گئے اور سب سےبڑھ کر مجھے جماعتی خدمت کی توفیق ملی اور مل رہی ہے۔
اللہ کے ساتھ سودا
مکرم چوہدری نصیراحمد گجر صاحب پروپرائٹر الحمد سیڈ کارپوریشن ملتان بیان کرتے ہیں کہ 1991ء میں تعلیم سے فارغ ہوا تو والد صاحب سے 16,000روپے بطور قرض برائے کاروبار لیے۔ نیت یہ تھی کہ کاروبار کا آغاز بکریوں سے کرنا ہے کیونکہ یہ سنت انبیاء ہے۔ چنانچہ بکریاں خرید لیں۔ اللہ تعالیٰ نے ایک سال میں ہی دگنا منافع عطافرمایا۔ والد صاحب کا قرض ادا کرکے زرعی ادویات کا کام شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کام میں بھی اللہ تعالیٰ نے غیرمعمولی برکت ڈال دی۔ شروع سے ہی میری عادت تھی کہ چندہ جات وقت پر اداہوں۔ بعض اوقات تو کاروباری حالات کی وجہ سے اگر ہاتھ تنگ بھی ہوتا تب بھی میں چندہ کی ادائیگی کو مقدم کرتا اور اس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ اللہ تعالیٰ اُس تنگی سے بھی نکال دیتا اور رزق اور کاروبار میں فراخی عطافرمادیتا۔ 2008ء میں میری ہمشیرہ کی شادی تھی۔ شادی میں صرف ایک ہفتہ رہ گیا تھا۔ کپڑے ، زیورات اور دیگر امور کے آرڈرز دیے جا چکے تھے لیکن رقم کا کوئی بندوبست ہوتا دکھائی نہیں دیتا تھا۔ پریشانی بڑھتی جارہی تھی کہ ایک دن کہیں سے پچاس ہزار روپے کی رقم آئی اور ساتھ ہی یہ اطلاع بھی کہ آپ کا چندہ بقایا ہے۔ میں نے گھروالوں سے مشورہ کیا کہ پچاس ہزار کی اس رقم سے شادی کے اخراجات تو پورے نہیں ہونے کیوں نہ اللہ تعالیٰ سے سودا کیا جائے اور یہ رقم ہم اپنے چندے میں ادا کردیں۔ چنانچہ وہ ساری کی ساری رقم میں نے چندہ میں ادا کردی۔ بس پھر کیا تھا خدا تعالیٰ کا ایسا سلوک دیکھا کہ آج بھی سوچتا ہوں تو عقل حیران ہوجاتی ہے۔ چندہ کی ادائیگی کے دو چار روز میں ہی دوغیرازجماعت لوگوں اور ایک احمدی دوست کی طرف سے چندہ میں ادا کی ہوئی رقم سے کئی گنا زیادہ رقم وصول ہوگئی۔ شادی کے اخراجات میں بھی کوئی پریشانی نہ ہوئی اور کاروبار میں بھی بے انتہاء ترقی اور اضافہ ہوگیا۔ اور سال 2015-16ء میں اللہ تعالیٰ نے مجھے ملتان میں سب سے زیادہ چندہ دینے کی توفیق اور سعادت عطافرمائی۔
چندہ دگنا کرتے ہی کاروبار چمک اُٹھا
مکرم شیخ وسیم احمد صاحب کریم نگر فیصل آباد نے بتایا کہ انہوں نے گولی ٹافی کا کام شروع کیا۔ جب مال تیار کرکے دکانوں پر دینے کے لیے جاتے تو دکانداروں کی طرف سے تعاون نہ ملتا اور اکثر دکاندار تو مال رکھنے سے بھی انکار کردیتے۔ حالات بالکل مندے کی طرف جارہے تھے اور پریشانی بھی روز بروز بڑھتی جارہی تھی کہ ایک دن مجھے خیال آیا کہ بزرگوں سے سنا ہوا ہے کہ جب مالی تنگی ہو تو ایسے میں اپنے چندہ جات بڑھا دینے چاہئیں۔ چنانچہ یہ خیال آتے ہی میں نے اپنے سیکرٹری صاحب مال کو کہا کہ ہمارا اس سال کا بجٹ دگنا کردیں اور کچھ چندہ ادا بھی کردیا۔ کچھ دن ہی گزرے ہوں گے کہ میں مال لے کر دکانداروں کے پاس گیا ہوا تھا لیکن تقریباً ہر دکان سے مایوس ہی لوٹ رہا تھا۔ ایک دکان میںجب میں نے دکاندار کو اپنی اشیاء دکھائیں تو اس نے کہا کہ کیا تم برفی کی ڈلیاں نہیں بناتے؟ میں نے اُسے جواب دیا کہ جو ہم بنارہے ہیں وہ تو مارکیٹ میں کوئی لیتا نہیں ہے مزید چیزیں کس طرح بنا سکتے ہیں۔ اُس دکاندار نے مجھے کہا کہ دیکھو اگر تم برفی بنا کر لائو گے تو جتنی بھی لائو گے میں تم سے لے لیا کروں گا۔ چنانچہ ہم نے واپس آکر برفی بنانے کا سامان خریدا اور احتیاطاً چند کلو برفی تیار کرکے اگلے دن اُس دکاندار کے پاس چلے گئے۔ اُس نے وہ ساری برفی رکھ لی اور پیسے بھی ادا کردیے۔ (حالانکہ عام طور پر دکاندار ہفتے دس دن بعد ہی ادائیگی کیا کرتے ہیں) اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اگر زیادہ بنا سکتے ہو تو بے شک زیادہ بنالانا چنانچہ وہ اگلے دن ساری کی ساری بک جاتی۔ پھر تو کئی دکانداروں نے بھی ہم سے برفی اور دیگر مال بھی خریدنا شروع کردیا۔ اور ہمارے کاروبار میں اس قدر ترقی ہوئی کہ جس کام کا آغاز سائیکل سے ہوا تھا۔ اُس کام کے لیے اور شہر میں مختلف جگہوں پر اپنا مال پہنچانے کے لیے ہمیں کئی گاڑیاں خریدنی پڑیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے ہمارے کاروبار میں بے انتہا برکت عطافرمائی۔
دگنا چندہ اور غیبی مدد
خاکسار کی اہلیہ محترمہ امۃ القدوس صاحبہ ربوہ میں ایک سکول چلاتی تھیں۔ ہماری عادت تھی کہ جو بھی آمد ہواُس پر باقاعدگی کے ساتھ چندہ ادا ہوتا رہے۔ چندہ کی ادائیگی کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے ہمارے اس کام میں بہت برکت عطافرمائی۔ ایک سال ہم نے اپنی آمد کو دگنا تصور کرکے جولائی کے شروع میں ہی بجٹ لکھوا دیا اور ساتھ ہی پورے سال کا چندہ (جو ایک بڑی رقم تھی) بھی ادا کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے اُسی مہینے جولائی کے آخر تک ہمارے لیے چندہ میں ادا کردہ رقم سے بھی زیادہ رقم کا ایک جگہ سے غیبی طور پر انتظام فرمادیا۔
اسی طرح ہماری عادت تھی اور اب بھی ہے کہ تحریک جدید اور وقف جدید سارا چندہ حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے اعلان والے دن اُسی وقت متعلقہ سیکرٹری صاحب کے گھر جا کر ادا کردیتے ہیں۔ چند سال پہلے کی بات ہے کہ ہم نے سوچا کہ جب حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز تحریک جدید کے سال کا اعلان فرمائیں گے تو ہم اپنے گزشتہ سال کے چندہ کو ڈبل کرکے ادا کریں گے۔ ابھی ہم نے یہ نیت ہی کی تھی اور ابھی تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان ہونے میں کچھ دن باقی تھے کہ بیرون ملک سے ہمارے ایک عزیز ہمارے گھر آئے۔ اُس سال میرے بیٹے عزیزم حافظ جاذب عارفین احمد نے قرآن کریم حفظ کیا تھا۔ ہمارے عزیز اس کی مبارکباد دینے آئے ہوئے تھے اور جاتے ہوئے وہ عزیزم جاذب کو تحفہ میں جو رقم دے کر گئے وہ ہمارے تحریک جدید کے چندہ کے ڈبل سے بھی زیادہ تھی۔ اس طرح ہمارے مہربان خدا نے محض نیت پر ہی ہمارے لیے چندہ کی رقم کا انتظام کردیا۔
بقایا کی ادائیگی والے دن ہی
ادائیگی سے کہیں زیادہ رقم کا مل جانا
مکرم چوہدری محمود احمد خالد صاحب امیر ضلع منڈی بہائوالدین بتاتے ہیں کہ میں شاہ تاج شوگرملز منڈی بہائوالدین میں ملازمت کرتا ہوں۔ یہ کافی پہلے کی بات ہے کہ ایک دن ہمارے سیکرٹری صاحب مال میرے پاس آئے اور بتایا کہ آپ کے ذمہ چندہ کا اس قدر بقایا ہے۔ امیر صاحب نے بتایا کہ میری شروع سے عادت تھی کہ میں آمد آتے ہی چندہ ادا کردیا کرتا تھا اور کبھی چندے کا بقایا نہیں ہونے دیا۔ لیکن جب سیکرٹری صاحب مال نے مجھے بتایا کہ یہ آپ کا بقایا ہے تو میں نے بغیر کوئی بحث کیے وہ سارا بقایا اُسی وقت ادا کردیا۔ اُسی دن اکائونٹ آفس سے مجھے فون آیا کہ آپ کسی وقت فارغ ہوں تو ادھر کا چکر لگا لیں۔ میں نے وجہ پوچھی تو انہوںنے بتایا کہ پرانے حسابات کی غلطی کی وجہ سے آپ کی ایک رقم واجب الادا ہے وہ وصول کرلیں۔ میں نے جب اکائونٹ آفس جا کر وہ رقم وصول کی تو وہ اس رقم سے کہیں زیادہ تھی جو میں نے چندہ جات کے بقایوں میں ادا کی تھی۔
گھر کا سامان بیچ کر بقایا چندہ ادا کرنے کی غیرمعمولی برکت
یہ واقعہ منڈی بہائوالدین کی ایک جماعت دھدراء کے ایک مخلص دوست مکرم سرور صاحب کا ہے۔ یہ کم وبیش بارہ چودہ سال پہلے کی بات ہے۔ میں دھدراء جماعت میں دورے پر گیا ہوا تھا۔ مغرب و عشاء کی نمازوں کے بعد اجلاس عام میں احباب جماعت کو چندہ جات کی ادائیگی کی تحریک کی۔ بعد میں مکرم صدرصاحب نے مجھے مکرم محمد سرور صاحب سے ملوایا اور بتایا کہ یہ دوست ہماری جماعت کے ایک کافی غریب آدمی ہیں۔ ان کی صرف ایک ایکڑ زمین ہے اور ان کی گزر بسر کافی مشکل ہے۔ کچھ عرصہ پہلے انہیں نظارت بیت المال آمد سے بقایا کی ادائیگی کا خط موصول ہوا۔ یہ خط لے کے میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ صدرصاحب آپ سے میرے حالات پوشیدہ تو نہیں ہیں۔ میں یہ بقایا فی الحال ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں۔ صدرصاحب نے کہا کہ میں نے انہیں سمجھایا کہ اگر بقایا جات ادا کرنا مشکل ہو تو حضورِانور نے یہ اجازت دے رکھی ہے کہ بقایا جات کی معافی لے لیں۔ آپ حضورِانور کے نام بقایا کی معافی کا خط لکھ دیں۔ صدرصاحب نے بتایا کہ یہ بات سن کر مکرم محمد سرور صاحب کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور انہوں نے بڑے جذباتی انداز میں کہا کہ ‘‘صدرصاحب یہ نہیں ہوسکتا۔حضورانور کی خدمت میں بقایا معافی کے خط کا مطلب تو یہ ہوگا کہ حضور آپ کے پاکستان سے جانے کے بعد ہم چندہ کی ادائیگی کے قابل بھی نہیں رہے۔’’ یہ کہتے ہوئے وہ اُٹھے اور مسجد سے چلے گئے۔ تھوڑی دیر کے بعد واپس آئے اور رقم میرے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا کہ میں نے اپنے گھر کی فلاں چیز فروخت کرکے یہ چندہ ادا کردیا ہے۔
صدرصاحب نے بتایا کہ اس ادائیگی کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنے افضال کی بارش شروع کردی۔ انہوں نے اپنے ایک ایکڑ زمین میں چاول کی فصل کاشت کی ہوئی تھی۔ جب فصل کٹ گئی اور بیوپاری اُٹھانے آیا تو فصل تُلتی (وزن کرنا) جارہی تھی اور ایسے لگتا تھا کہ تول ختم ہی نہیں ہورہا اور گائوں کے لوگوں کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی کہ ایک ایکڑ کی فصل ایک لاکھ روپے میں بک گئی۔ جس سے مکرم محمد سرور صاحب نے دس مرلے زمین گائوں میں خریدی۔ پانچ مرلے اپنے گھر کے لیے اور پانچ مرلے مسجد کے لیے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ تقریباًدو سال پہلے مجھے دوبارہ دھدراء جانے کا موقع ملا۔ جب میں احباب جماعت سے ملا تو مجھے مکرم سرور صاحب کا نام یاد نہیں تھا۔ میں نے یہ سارا قصہ بیان کرکے ان سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا تو ایک نوجوان نے بتایا کہ میں یہاں صدر جماعت ہوں اور جن کا واقعہ آپ نے سنایا ہے وہ میرے والد صاحب ہیں۔ آج کچھ طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔ اس لیے یہاں نہیں آسکے۔ اجلاس کے بعد میں ان کے گھر جا کر ان کو ملا۔ قابل ذکر بات یہ تھی کہ صرف مال میںبرکت ہی نہیں آئی بلکہ ان کے چاروں بیٹے اچھی ملازمت یا کاروبار سے منسلک ہیں اور گائوں میں ایک ممتاز مقام اور عزت اللہ تعالیٰ نے ان کو عطافرمائی ہوئی ہے۔
مالی قربانی کے نتیجہ میں مال اور رزق میں برکت۔ قرآنی وعدہ کی تکمیل کا خوبصورت واقعہ
مَثَلُ الَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ اَمۡوَالَھُمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنۡبَتَتۡ سَبۡعَ سَنَابِلَ فِیۡ کُلِّ سُنۡبُلَۃٍ مِّائَۃُ حَبَّۃٍ ط وَاللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنۡ یَّشَآءُ ط وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ ۔ (البقرۃ:262)
ترجمہ:۔ ان لوگوں کی مثال جو اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ایسے بیج کی طرح ہے جو سات بالیں اُگاتا ہو۔ ہر بالی میں سودانے ہوں اور اللہ جسے چاہے (اس سے بھی) بہت بڑھا کر دیتا ہے اور اللہ وسعت عطا کرنے والا (اور) دائمی علم رکھنے والا ہے۔
خاکسار خصوصیت کے ساتھ اپنے دیہاتی جماعتوں کے دورہ جات میں اپنے زمیندار بھائیوں کو اس قرآنی وعدہ کے حوالہ سے چندہ جات ادا کرنے کی تلقین کیا کرتا تھا۔ اور آیت کے اس حصہ وَاللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنۡ یَّشَآءُ کے حوالہ سے اللہ تعالیٰ کی تسلسل کے ساتھ جاری سنت اور فعلی شہادت کا ذکر کرکے یہ بتایا کرتا تھا کہ اگر آپ اپنی گندم یا چاول کی فصل (جس کا ایک پودا ایک دانے سے اُگتا ہے) کا مشاہدہ کریں تو آپ کو اپنے ہر کھیت میں بے شمار پودے ایسے نظر آئیں گے جن کے سٹے (بالیاں) اور چاول کی فصل کی صورت میں مونجھریں (چاول کا سٹا) 7 کی بجائے کہیں زیادہ نظر آئیں گے۔ دراصل خدا تعالیٰ کی قدرت یہ فعلی شہادت دے رہی ہے کہ تمہاری قربانیوں کو میں اس طرح بڑھاتا ہوں۔
ایک دفعہ میں ساہیوال کے دورہ پر تھا۔ میں نے محترم ابرار احمد صاحب سابق امیر ضلع کے ساتھ ایک جماعت چک نمبر 62/4-R میں جانے کا پروگرام بنایا۔ محترم امیر صاحب نے وہاں فون کرکے دوستوں کو اکٹھا کرنے کی اطلاع دے دی۔ وہاں بھی میں نے اسی آیت کے حوالے سے ہی مالی قربانی کی تحریک کی۔ اجلاس کے آخر میں مکرم ماسٹر محمد حبیب صاحب صدرجماعت نے یہ ایمان افروز واقعہ سنایا۔ مکرم ماسٹر محمد حبیب صاحب بطور ہیڈماسٹر کام کرتے تھے۔ ساتھ ہی اپنی زمین میں کاشت بھی کرتے تھے۔انہوں نے بتایا کہ مجھے زمیندارے کاشوق ہے، میں اپنی زمین میں محکمہ زراعت والوں سے مشورہ کرکے اچھا بیج اور اچھی کھاد استعمال کرتاہوں۔ ایک مارچ کے مہینے کے آخری ایام کی بات ہے۔ میں نے فجر کی نماز کے بعد قرآن کریم کی تلاوت کی تو یہی آیت میرے سامنے آگئی۔ دوران تلاوت مجھے ایک عجیب خیال گزرا۔ میں تلاوت سے فارغ ہوکر سیدھا اپنے ڈیرے پر گیا اور گندم کی فصل کے ایک کھیت میں جا کر پودوں اور سٹوں (بالیوں) کا جائزہ لینے لگا۔ پھر ایک پودے کے پاس بیٹھ کر میں نے اس کی بالیاں گنیں اور پھراپنے نوکر کو بلا کر کہا کہ کسی رنگ دار کپڑے سے اس پودے کو باندھ دو اور جب کچھ دنوں بعد اچھی طرح پک جائے تو اس پودے کو الگ سے کاٹ کر گھر بھیج دینا۔ کچھ دنوں کے بعد وہ پودا گھر آگیا۔ میں نے اپنے گھروالوں کو کہا کہ اس پودے کو اچھی طرح کوٹ کر اس کی بالیوں میں سےگندم کے دانے الگ کرکے مجھے دے دیں۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ اس پودےکی 30 بالیاں تھیں اور ان میں سے نکلنے والے دانوں کی تعداد 1560 تھی۔
باقاعدگی کے ساتھ چندہ ادا کرنے والے کے ساتھ معمول سے ہٹ کر سلوک
ضلع بہاولپور کی ایک جماعت چک نمبر 323میں اجلاس عام کے بعد محترمہ صدرصاحبہ لجنہ نے بتایا کہ ایک بہن چندہ کی برکات کے حوالے سے اپنا واقعہ بتانا چاہتی ہیں۔ ان بہن نے بتایا کہ میری کچھ زمین ہے اور میری شروع سے عادت ہے کہ فصل کی آمد آتے ہی میں سب سے پہلے چندہ ادا کرتی ہوں۔ ہمارے علاقے میں زیادہ کپاس کاشت ہوتی ہے اور کپاس کی کاشت کے لیے عموماً ہر تیسرے سال کھیتوں میں سے مٹی اُٹھانی پڑتی ہے اور اس کی جگہ نئی مٹی ڈالنی ہوتی ہے۔ اس پر خاصا خرچ بھی آتا ہے لیکن اس سے فصل بہتر ہوتی ہے۔ میری زمین میں بھی تین چار سال کے بعد مٹی اُٹھانے کا وقت تھا لیکن میں نے مٹی نہیں اُٹھوائی اور کپاس کاشت کروادی۔ گائوں کے بہت سے لوگوں نے مجھے کہا کہ آپ نے خوامخواہ بیج اور ڈرل وغیرہ کے پیسے ضائع کیے ہیں۔ اس زمین میں نہ تو اچھا بیج اُگے گا اور نہ ہی اچھی فصل ہوگی۔ میں نے ان سب کو ایک ہی جواب دیا کہ ایسا کبھی نہیں ہوگا۔ میں اپنی زمین کی آمد آنے پر باقاعدگی سے اللہ کا حصہ نکال دیتی ہوں۔ اللہ تعالیٰ نہ تو بیج اور ڈرل کے پیسے ضائع ہونے دے گا اور تم لوگ دیکھ لینا کہ میری فصل بھی بہت اچھی ہوگی۔ انہوں نے بتایا کہ اللہ نے میرا مان رکھ لیا اور پورے گائوں میں سے واقعی میری فصل سب سے اچھی ہوئی۔ مسجد میں صدرصاحب جماعت اور دیگر احباب نے اس کی تصدیق بھی کی۔
اب تک خاکسار نے جو واقعات بیان کیے ہیں ان میں مالی قربانی پیش کرنے اور خدا کے راستے میں چندہ ادا کرنے کے بعد برکات وافضال اور انعامات کا ذکر ہے۔ لیکن ہمارا خدا تو ایسا مہربان اور دیالو خدا ہے جو محض نیت کرنے پر بھی اپنے بندوں کو نوازتا ہے اور اس دور میں تو اُس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ یہ وعدہ بھی فرمایا ہے اور آپ کو یہ خوشخبری بھی عطا فرمائی ہے کہ
اِنِّیۡ مُعِیۡنٌ مَنۡ اَرَادَ اِعَانَتَکَ
چنانچہ مضمون کے آخر میں خاکسار مالی قربانی کی محض نیت ہی کرلینے یا اپنا چندہ ادا کرنے کا دل میں ارادہ ہی کرلینے کے نتیجہ میں جوبرکات ملتی ہیں اس کے حوالے سے چند واقعات پیش کرنے کی سعادت حاصل کرے گا۔
چندہ کی ادائیگی کی نیت اور آپریشن سے بچائو
مکرم حق نواز ببر بلوچ صدر جماعت ماڑی شاہ سخیرا ضلع جھنگ نے بتایا کہ ان کی بہو کے ہاں پیدائش متوقع تھی۔ گائوں کی دائی کو بلایا گیا تو اس نے تشویش کا اظہار کیا اور مشورہ دیا کہ فوری شہر لے جائیں۔میں نے اپنی بہو،بیٹے اور بیوی کو ساتھ لیا اور شہر جھنگ کی طرف روانہ ہوگئے۔ راستے میں مجھے خیال آیا کہ یہ پریشانی ضرور ہماری کسی شامت اعمال کا نتیجہ ہے۔ میں نے گاڑی میں بیٹھے بیٹھے سوچنا شروع کردیا کہ آخر ہم سے کیا قصور سرزد ہوا ہے۔ تو مجھے معاً خیال آیا کہ تم نے ابھی تک اپنا لازمی چندہ ادا نہیں کیا۔ میں نے اُسی وقت اللہ تعالیٰ سے عہد کیا کہ اے اللہ !میری اس غلطی اورغفلت کو معاف فرما۔ میں شہر سے واپس آکر سب سے پہلے اپنے چندے کا حساب کرکے ادائیگی کردوں گا۔ جب ہم لوگ ہسپتال پہنچے تو ہسپتال والوں نے بتایا کہ بچہ ماں کے پیٹ میں فوت ہوچکا ہے اور اگر فوری آپریشن نہ کیا گیا تو ماں کی جان کو بھی خطرہ ہے۔ آپریشن کے لیے خون کی ضرورت تھی۔ میں فوراً وہاں سے امیر صاحب ضلع کے پاس آیا وہ اس وقت نماز کے لیے مسجد میں تھے۔ انہوں نے خون کے لیے بعض جگہوں پر رابطہ بھی کیا۔ نماز میں ابھی تھوڑا وقت باقی تھا۔ میں نفل پڑھنے لگ گیا۔ نماز کے دوران ہی میرے فون کی گھنٹی بجی۔ میں نے نماز سے فارغ ہو کر فون سنا۔ میرے بیٹے کا ہسپتال سے فون تھا۔ وہ کہہ رہا تھا کہ ابو اللہ نے فضل کردیا ہے۔ بغیرآپریشن کے ہی مردہ بچہ ڈلیور ہوگیا ہے۔یہ اللہ کا کوئی فضل ہی تھا۔
مکرم حق نواز صاحب ایک اور واقعہ بھی بیان کرتے ہیں کہ ایک سال ان کی کچھ زمین سیلاب کی وجہ سے دریا برد ہوگئی۔ ان کی زمینیں دریا کے کنارے ہیں اور ان زمینوں میں زیادہ ترصرف چنے وغیرہ کی کاشت ہی ہوتی ہے۔ میں نے انہیں کہا کہ آپ چاہیں تو حضورِانور کی اجازت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اپنے بجٹ میں کمی کروا سکتے ہیں۔ اس پر انہوں نے بڑے یقین اور اعتماد کے ساتھ کہا۔
‘‘ہمارا تو اللہ کے ساتھ سودا ہے۔ اللہ اس نقصان کو پورا کرنے کے خوداسباب پیدا فرمادے گا۔ ہم نے بجٹ میں کوئی کمی نہیں کروانی۔’’
سال کے اختتام پر وہ دوبارہ دفتر تشریف لائے اور انہوں نے بتایا کہ اگرچہ زمین دریابرد ہوگئی تھی۔ ہماری چنے کی کاشت بھی کم تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ فضل فرمایا کہ امسال چنے کا ریٹ بہت ہی اچھا مل گیا اور جوگزشتہ سال آمد تھی اُس سے بھی زیادہ آمد ہوگئی۔
چندہ بڑھانے کی نیت پر ہی زمین کا ٹھیکہ زیادہ مل گیا
مکرم عبدالسمیع البصیر گجرصاحب صدرجماعت چوڑا سگھر ضلع شیخوپورہ نے بیان کیا کہ گائوں میں میرے بھائیوں کی اور میری زمین تھی۔ میرے بھائیوں نے اپنی زمین ٹھیکہ پر فی ایکڑ 40,000روپے دے رکھی تھی جبکہ میں اپنی زمین خود کاشت کررہا تھا۔ دیگر مصروفیات کے باعث زمین پر پوری توجہ نہیں دے پارہاتھا۔ اس لیے آمد بھی کم ہی ہوتی تھی۔ ایک دفعہ میں ربوہ گیا ہوا تھا وہاں نظارت بیت المال آمد میں مکرم شیخ مبارک احمد صاحب سے ملاقات ہوئی۔ تعارف ہوا تو انہوں نے ہماری جماعت کا بجٹ منگوا کر دیکھا اور مجھے اس طرف توجہ دلائی کہ آپ کا بجٹ آپ کی زمین کے حساب سے کم ہے۔ مجھے شرمندگی ہوئی۔ میں نے وہاں سے واپس آتے ہوئے سوچنا شروع کیا اور دعا بھی کی کہ اللہ تعالیٰ مجھے توفیق دے اور ایسے اسباب پیدا فرمادے کہ میں اپنا چندہ بڑھا سکوں۔ صرف چند دن بعد صبح سویرے ہمارے گائوں سے ایک آدمی شیخوپورہ شہر میں میرے گھر آیا اور مجھ سے تقاضا کیا کہ اپنی گائوں والی زمین اُسے ٹھیکہ پر دے دوں۔ یہ وہی آدمی تھا جس نے میرے بھائیوں کی زمین 40,000 روپے فی ایکڑ کے حساب سے ٹھیکہ پرلی ہوئی تھی۔ میں نے اسے کہا کہ ٹھیک ہے اگر تم زمین ٹھیکہ پر لینا چاہتے ہو تو لے لو۔ اُس نے مجھے پوچھا کہ ٹھیکہ کیا لیں گے؟ میں نےجواباً اُسے کہاکہ تم جوبھی دے دو گے مجھے منظور ہوگا۔ اُس نے اُسی وقت 50,000 روپے فی ایکڑ کے حساب سے زمین کا ٹھیکہ طے کرلیا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے محض نیت کرنے کی بناپر ہی مجھے زمین کا ٹھیکہ میرے بھائیوں کی زمین سے 10,000 روپے فی ایکڑ زیادہ دلوادیا۔
چندہ دینے کا خیال آتے ہی درختوں کی قیمت بڑھ گئی
یہ واقعہ مجھے محموداحمد گھمن صاحب سیکرٹری مال چک نمبر 368-TDA ضلع لیہ نے سنایا۔
مکرم محمود احمد گھمن صاحب امیر صاحب ضلع مختار احمد گھمن صاحب کے چھوٹے بھائی ہیں۔ گائوں میں زمیندارہ کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنی زمین میں درخت لگا رکھے تھے کہ جب بڑے ہوں گے انہیں فروخت کرکے اپنی کوئی ضرورت پوری کرلوں گا۔ جب درخت بڑے ہوگئے تو انہوں نے ایک بیوپاری کو بلوایا۔ اُس نے سارے درخت دیکھ کر ایک لاکھ ساٹھ ہزار روپے قیمت لگائی۔ اور بھی کئی بیوپاری آئے لیکن سب نے یہی قیمت بتائی۔ لیکن محمود صاحب نے درختوں کا سودا نہ کیا۔ ایک دن ایک بیوپاری نے ایک لاکھ اسی ہزار روپے بھی قیمت لگا دی لیکن محمود صاحب نے پھر بھی درخت فروخت نہ کیے۔ وہ بتاتے ہیں کہ دو تین دن گزرے ہوں گے۔ میں جانوروں کے لیے چارہ کاٹ رہا تھا تو میرے ذہن میں خیال آیا کہ ان درختوں کی آمد پر تو چندہ بھی ادا ہونا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میںنے اُسی وقت نیت کرلی کہ درخت فروخت ہوتے ہی آنے والی آمد پر چندہ ادا کروںگا۔ ابھی وہ یہ سوچ ہی رہے تھے کہ ان کے پیچھے سے کسی نے السلام علیکم کہا۔ انہوں نے پیچھے مڑکردیکھا تو لکڑی کا ایک بیوپاری کھڑا تھا۔ اُس نے کہا کہ سنا ہے آپ اپنے درخت بیچ رہے ہو۔ میں نے بیوپاری کو درخت دکھائے اور پانچ منٹ کے اندر اندر دولاکھ چالیس ہزار روپے میں سودا ہوگیا اور محض نیت کرنے پر ہی اللہ تعالیٰ نے ساٹھ ہزار روپے زائد عطافرمادیے۔
بیوت الحمد میں چندہ دینے کا وعدہ کبھی نہ ختم ہونے والی برکتوں کاباعث بن گیا
مضمون کے آخر میں خاکسار تحدیث نعمت کے طور پر اللہ تعالیٰ کی اُس غیرمعمولی مہربانی کا ذکر کرنا چاہتا ہے جو محض نیت اور وعدے کے نتیجے میں ہی خاکسار کو نصیب ہوئی۔ خاکسار کا تعلق ضلع فیصل آباد کی ایک بڑی جماعت چک نمبر 69-RB گھسیٹ پورہ سے ہے۔ 1980ء کی دہائی میں سیم کی وجہ سے اس علاقہ کی زمینیں بالکل خراب ہوگئی تھیں۔ کئی کئی فٹ پانی کھڑا تھا۔ اور کسی فصل کا تو سوال ہی نہیں تھا۔ زمین کی قیمتیں نہ ہونے کے برابر تھیں اور نہ ہی کوئی خریدار تھا۔ اس وقت فی ایکڑ قیمت اندازاً پانچ ہزار روپے فی ایکڑ مانگتے تو وہ آپ سے جواباً کہتا کہ آپ مجھ سے چارہزار روپے فی ایکڑ کے حساب سے لے لیں۔
جب 1982ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے بیوت الحمد سکیم جاری فرمائی۔ میں اس وقت نظارت تعلیم میں خدمت کی توفیق پارہاتھا۔ اور اس وقت میری تنخواہ 415 روپے ماہوار تھی۔ اس کے علاوہ اور کوئی آمد نہ تھی۔ اور اکثر اوقات میں اپنے اکائونٹنٹ سے اگلے مہینے کی تنخواہ میں سے واپس کرنے کے وعدہ پر گھر کے اخراجات کے لیے کچھ رقم قرض لیا کرتا تھا۔ حضورؒ نے جس جمعہ میں بیوت الحمدسکیم کا اعلان فرمایا۔ اُس سے اگلے دن میں اپنے دفتر میں بیٹھا حضور کی خدمت میں خط لکھ رہا تھا۔ جس میں مَیں نے بیوت الحمد کے لیے چندہ کا وعدہ کیا تھا۔ اسی اثناء میں کسی کام کے سلسلہ میں دفتر کے اکائونٹنٹ صاحب میرے پاس آئے۔ ان کی نظر اُس خط پر پڑگئی اور انہوں نے حیرت اور پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے مجھے کہا کہ یہ جس رقم کا وعدہ کررہے ہیں کیا آپ کو معلوم ہے کہ آپ کی پورے سال کی تنخواہ سے بھی زیادہ ہے۔ آپ کو اپنی مالی حالت کا بھی اندازہ ہے۔ہرمہینے آپ مجھ سے قرض لیتے ہیں۔ اس لیے میرا مشورہ ہے کہ آپ اپنا یہ وعدہ کم کریں۔ میں نے انہیں کہا کہ حضورؒ کی پہلی مالی تحریک ہے اور میں نے کل خطبہ جمعہ کے دوران ہی عہد کرلیا تھا کہ میں اس میں کم از کم اتنی رقم کا وعدہ پیش کروں گا۔ اس لیے آپ پریشان نہ ہوں۔ میرے لیے دعا کر چھوڑیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس کی ادائیگی کی توفیق عطافرمائے۔
اللہ تعالیٰ نے اتنا فضل فرمایا کہ ہمارے گائوں کی زمین کو گورنمنٹ نے انڈسٹریل ایریا بنا دیا۔ پانی نکالنے کے لیے ایک بڑا سیم نالہ بن گیا۔ اور زمین کی قیمتیں بڑھنی شروع ہوگئیں۔ اور وہی زمین جو چار پانچ ہزار میں بھی کوئی لینے کوتیار نہ تھا ڈیڑھ لاکھ روپے فی ایکڑ کے حساب سے فروخت ہوگئی۔
اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور احسانات کا کیا کیا شمار اور بیان کروں۔ اس کی عطا اور دین کے انداز بہت ہی عجیب اور نرالے ہیں۔ میں نے بیوت الحمد تحریک میں مستحقین کے مکانوں کے لیے قربانی پیش کی تو خدا تعالیٰ نے اس کے بدلہ میں مجھے دارالبرکات میں مسجد اقصیٰ کے سامنے دو منزلہ خوبصورت مکان عطا فرمادیا۔ اور اس کے تھوڑے عرصہ بعد دارالبرکات میں ہی مجھے اپنا نیا مکان بنانے کی توفیق بھی عطافرمادی۔
ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
‘‘یہ جو حدیث بیان کی جاتی ہے کہ ایک زمیندار کو اللہ تعالیٰ اس طرح نوازتا تھا کہ اس کو جب پانی کی ضرورت ہوتی تھی تو بادل کو حکم ہوتا تھا کہ فلاں جگہ برس اور اس کی ضرورت پوری کر۔ تو اس زمیندار کی یہی خوبی تھی کہ اپنی آمد میں سے وہ ایک حصہ علیحدہ کرکے اللہ کی راہ میں دینے کے لیے رکھ لیتا تھا۔ تو کیا یہ قصہ روایتوں میں اس لیے بیان ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ پہلے لوگوں سے یا پرانے لوگوں سے ایسا سلوک کرتا تھا۔ اب اس کی یہ قدرت بند ہوگئی ہے۔ اب اس کویہ قدرت نہیں رہی۔ نہیں، بلکہ آج بھی وہ زندہ اور قائم خدا یہ نظارے بے شمار احمدیوں کو دکھاتا ہے۔ پس اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے اس کی راہ میں کی گئی قربانیوں کو خدا تعالیٰ کبھی ضائع نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ اپنے وعدوں کو پورا کرنے والا ہے۔ وہ لامحدود قدرتوں کا مالک ہے۔ وہ دیتا ہے تو اتنا دیتا ہے کہ انسان سوچ بھی نہیں سکتا۔ اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا، لیکن تقویٰ اور نیک نیتی شرط ہے۔’’
(خطبات مسرور جلد سوم ۔ صفحہ 332-333۔ خطبہ جمعہ 3؍جون 2005ء)
…………………………………………………………………