سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

شمائل مہدی علیہ الصلوٰۃ والسلام

اساتذہ کا ادب واحترام

آپ ؑکے تدریس کے معمولات کا یہ ذکر بالکل نامکمل رہے گا اگر یہ ذکر نہ کیاجائے کہ آپ ؑ کا اپنے اساتذہ کے ساتھ کس طرح کا مؤدبانہ تعلق ہواکرتاتھا۔آپ ؑ ایک رئیس زادے ہونے کے باوجود اپنے اساتذہ کاپوری طرح احترام فرماتے اور کوئی مذاق یابے ادبی کی حرکت نہ ہوتی اور نہ کسی شرارت میں حصہ لیتے۔بعض اوقات اس مکتب کے بعض طالب علم اپنے استاد سید گل علی شاہ صاحب سے کوئی مذاق بھی کر بیٹھتے۔ان کو حقہ پینے کی بہت عادت تھی۔اور اسی سلسلہ میں بعض شوخ طالب علم مذاق کر لیتے۔لیکن حضرت اقدسؑ ہمیشہ ان کا ادب و احترام کرتے۔اور ایسی شرارتوں سے بیزار اور الگ رہتے۔

یہ توایک عام مروجہ تعلیم کابیان تھا جس کا دستورزمانہ کے موافق والدین نے اپنے بچوں کے لیے اہتمام کیا۔حق بات تویہ ہے کہ آپ ؑ کی ساری تعلیم دبستانِ محمدﷺ سے ہوئی جیساکہ آپ ؑ نے اپنے منظوم کلام میں فرمایاہے کہ

دگراستادرانامے ندانم

کہ خواندم دردبستانِ محمدؐ

یعنی میں کسی دوسرے استادکانام نہیں جانتا

کیونکہ میں محمدﷺ کے دبستان سے پڑھاہوا ہوں

٭٭٭٭

آپؑ کی تصویر کا بیان

حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں :

“آج اِس موقع کے اثناء میں جبکہ یہ عاجز بغرض تصحیح کاپی کو دیکھ رہا تھا۔بعالمِ کشف چند ورق ہاتھ میں دیئے گئے اور اُن پر لکھا ہوا تھا کہ فتح کا نقّارہ بجےپھر ایک نے مسکرا کر اُن ورقوں کی دوسری طرف ایک تصویر دکھلائی اور کہا کہ

دیکھو کیا کہتی ہے تصویر تمہاری

جب اِس عاجز نے دیکھا تو وہ اِسی عاجز کی تصویر تھی اور سبز پوشاک تھی۔مگر نہایت رُعب ناک۔جیسے سپہ سالار مسلح فتح یاب ہوتے ہیں ۔اور تصویر کے یمین و یسار میں

حجۃ اللہ القادر و سُلطان احمد ِ مختار

لکھا تھا۔اور یہ سوموار کا روز اُنیسویں ذوالحجہ1300ھ مطابق 22؍اکتوبر83ء اور ششم کا تک سم1940 بکرم ہے۔”

(براہین احمدیہ ہر چہار حصص ،روحانی خزائن جلد 1صفحہ 615حاشیہ در حاشیہ نمبر3)

ایک احمدی ٹیچر میاں محمد حسین صاحب سکنہ بلوچستان کی روایت ہے کہ:

“مجھے مولوی برہان الدین صاحب رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ ایک دفعہ حضرت مسیحِ موعودؑ مولوی غلام رسول صاحب قلعہ میہاں سنگھ کے پاس گئے اور اس وقت حضورؑ ابھی بچہ ہی تھے۔اس مجلس میں کچھ باتیں ہو رہی تھیں ۔باتوں باتوں میں مولوی غلام رسول صاحب نے جو کہ ولی اللہ و صاحبِ کرامات تھے فرمایا کہ:‘‘اگر اس زمانہ میں کوئی نبی ہوتا تو یہ لڑکا نبوت کے قابل ہے۔”

انہوں نے یہ بات حضرت مسیحِ موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر محبت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہی۔مولوی برہان الدین صاحبؓ کہتے ہیں کہ میں خود اس مجلس میں موجود تھا۔”

(حیات طیبہ مصنفہ عبدالقادرصاحب صفحہ 11)

ایک اسرائیلی پیغمبر

ڈاکٹر قاضی کرم الٰہی (مرحوم )… فرمایا کرتے تھے کہ جب وہ لاہور کے پاگل خانہ کے ڈاکٹر تھے ان ایام میں ایک انگریز وہاں آیا جو تصویر دیکھ کر قیافہ شناسی کا مدعی تھا۔کئی ایک لوگ بطور تماشہ بعض تصاویر اس کے پاس لے گئے وہ بتلاتا رہا کہ یہ کیسا آدمی ہے میں نے بھی حضرت مسیحِ موعودؑ کی تصویر اس کے آگے رکھی اور اس سے پوچھا کہ اس شخص کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے وہ بہت دیر تک اس تصویر کو دیکھتا رہا اور آخر اس نے کہا کہ کسی اسرائیلی پیغمبر کی تصویر ہے۔”

( ذکرِ حبیب مصنفہ مفتی محمدصادق صاحب صفحہ 300)

خدا کے نبی کی تصویر

حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ فرماتے ہیں کہ1907ء میں جبکہ عاجز حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہم رکاب شملہ میں تھا تو ایک دن مہاراجہ صاحب الور کی ملاقات کے واسطے ان کی کوٹھی پر گیا اور ان کو تبلیغ کرنے کے لیے چند کتابیں بھی ساتھ لے گیا۔ان کے ویٹنگ روم میں مَیں بیٹھا ہوا تھا کہ وہاں دیوان عبد الحمید صاحب وزیر اعظم ریاست کپور تھلہ اور چند دیگر معززین بھی آ گئے۔اور ایک انگریز بھی وہاں پہنچے جنہوں نے بیان کیا کہ میں مہاراجہ کا منجم ہوں ۔اس بات کو سن کر دیوان صاحب اور دوسرے لوگ اس انگریز منجم سے باتیں دریافت کرتے رہے میں نے بھی حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام کی تصویر ایک کتاب میں سے نکال کر اس کے آگے رکھی جس کو بہت غور سے دیکھ کر اس نے کہا۔‘‘یہ خدا کے کسی نبی کی تصویر ہے۔”

(ذکرِ حبیب مصنفہ مفتی محمدصادق صاحب صفحہ 300-301)

A Great Thinker

مکرمی شیخ رحمت اللہ صاحب حضرت اقدسؑ سے محبت وعقیدت کے رنگ میں ڈوبے ہوئے تھے۔لاہورمیں ایک وسیع کاروباررکھتے تھے اور اسی کاروبارکے سلسلہ میں انگلستان بھی جاناہوتارہتاتھا۔انہوں نے وہاں ایک انگریزعورت سے شادی بھی کی تھی۔اس کے بطن سے جب محترم شیخ صاحب کابیٹاپیداہواتوحضرت اقدسؑ نے اس کانام عبداللہ رکھااور فرمایا:

“لنڈن میں وہ اوّل ولدالاسلام ہے۔”

(ملفوظات جلد4 صفحہ 227)

مکرمی شیخ رحمت اللہ صاحب فرمایا کرتے تھے کہ جب ہم نے مسیحِ موعودؑ کی تصویر یورپ کے بعض بڑے آدمیوں کو دکھائی تو انہوں نے کہا:۔

“He is a great thinker”

(ذکرِ حبیب مصنفہ مفتی محمد صادق صاحب صفحہ 300)

جس کی یہ فوٹو ہے وہ ہرگز کاذب نہیں

حضرت مسیحِ موعودؑ کے فوٹو کی‘‘ریویو آف ریلیجنز” انگریزی (1902ء تا 1905ء)کے ذریعہ سے جب مغربی ممالک میں اشاعت ہوئی تو حضرت اقدسؑ کی خدمت میں کئی لوگوں کی چٹھیاں آئیں کہ ہم نے آپ کی فوٹو غور سے دیکھی ہے۔علمِ فراست کی رو سے ہمیں یہ تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ جس کی یہ فوٹو ہے وہ ہرگز کاذب نہیں ۔

(تاریخِ احمدیت جلد دوم صفحہ 58)

یسوع مسیح کی فوٹو

ایک امریکی خاتون نے کہا کہ میرا دل چاہتا ہے کہ یہ فوٹو دیکھتی رہوں یہ تو بالکل یسوع مسیح کی طرح معلوم ہوتی ہے۔

(تاریخِ احمدیت جلد دوم صفحہ 58)

نبیوں کی سی صورت

ایک اور قیافہ شناس لیڈی نے کہا کہ ‘‘یہ نبیوں کی سی صورت ہے۔”

(تاریخِ احمدیت جلد دوم صفحہ 58)

تم مسیحا بنو خدا کے لیے

حضرت صوفی احمد جان صاحب لدھیانوی (وفات 27 دسمبر 1885ء)جولدھیانہ میں ایک معروف روحانی پیشواتھے اورجن کے عقیدت مندوں کا حلقہ بہت وسیع تھا۔انہوں نے آپؑ کے متعلق فرمایاتھاکہ

ہم مریضوں کی ہے تمہیں پہ نظر

تم مسیحا بنو خدا کے لیے

(تاریخ احمدیت جلد 1 صفحہ 175)

1884ء کے ایک اشتہار میں لکھتے ہیں :

“سن شریف حضرت (مرزا غلام احمد قادیانی)کا قریباً 40 یا 45 سال ہو گا۔اصلی وطن اجداد کا قدیم ملک فارس معلوم ہوتا ہے۔نہایت خلیق، صاحبِ مروت و حیا، جوان رعنا، چہرہ سے محبتِ الٰہی ٹپکتی ہے۔اے ناظرین! میں سچی نیت اور کمال جوشِ صداقت سے التماس کرتا ہوں کہ بے شک و شبہ جناب میرزا صاحب موصوف مجددِ وقت اور طالبانِ سلوک کے لیے کبریتِ احمر اور سنگ دلوں کے واسطے پارس اور تاریک باطنوں کے واسطے آفتاب اور گمراہوں کے لیے خضر اور منکرینِ اسلام کے واسطے سیفِ قاطع اور حاسدوں کے واسطے حجۃ بالغہ ہیں ۔یقین جانو کہ پھر ایسا وقت ہاتھ نہ آئے گا۔آگاہ ہو کہ امتحان کا وقت آ گیا ہے اور حجتِ الٰہی قائم ہو چکی ہے اور آفتاب عالم تاب کی طرح بدلائلِ قطعیہ ایسا ہادی کامل بھیج دیا ہے کہ سچوں کو نور بخشے اور ظلمات و ضلالت سے نکالے اور جھوٹوں پر حجت قائم کرے۔”

(اشتہار واجب الاظہار مطبوعہ 1884ء بحوالہ تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ 175)

حضرت مولانا حسن علی صاحب مسلم مشنری کی شہادت

حضرت مولانا حسن علی صاحب بھاگلپوری (ولادت 22 اکتوبر 1852ء، وفات 1896ء) شہرہ آفاق مسلم مشنری تھے، جن کے ہاتھ پر بہت سے لوگ مسلمان ہوئے۔آپ 1883ء میں انجمن حمایتِ اسلام لاہور کے سالانہ جلسہ میں لیکچر دینے کے بعد قادیان گئے اور حضرت مہدی موعودؑ کی زیارت کی۔آپ اس ملاقات کا نقشہ درج ذیل الفاظ میں کھینچتے ہیں :

“اللہ اللہ سر سے پا تک ایک نور کے پتلے نظر آتے تھے۔جو لوگ مخلص ہوتے ہیں اور اخیر رات اٹھ کر اللہ کی جناب رویا دھویا کرتے ہیں ان کے چہروں کو بھی اللہ اپنے نور سے رنگ دیتا ہے اور جن کو کچھ بھی بصیرت ہے وہ اس نور کو دیکھ لیتے ہیں ۔لیکن حضرت مرزا صاحب کو تو اللہ نے سر سے پاؤں تک محبوبیت کا لباس اپنے ہاتھوں سے پہنایا تھا۔”

(رسالہ تائیدِ حق طبع سوم صفحہ 76)

مولانا ابو الکلام آزاد کے برادر مرحوم ابو النصرآہ کی شہادت

مولانا ابو الکلام آزاد کے بڑے بھائی مولانا ابو النصرآہ (متوفی 1907ء)2 مئی 1905ء کو حضرت اقدس مسیحِ موعودؑ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حضور کے چہرہ مبارک کو دیکھ کر اتنے متأثر ہوئے کہ بیعت کر لی۔مولانا ابو النصر نے امرتسر کے اخبار وکیل میں سفرِ قادیان اور حضورؑ کی زیارت کا ذکر بڑے وجد آفریں انداز میں کیا۔چنانچہ لکھا:

“مرزا صاحب کی صورت نہایت شاندار ہے جس کا اثر بہت قوی ہوتا ہے۔آنکھوں میں ایک خاص طرح کی چمک اور کیفیت ہے۔اور باتوں میں ملائمت ہے۔طبیعت منکسر مگر حکومت خیز۔مزاج ٹھنڈا مگر دلوں کو گرما دینے والا۔بردباری کی شان نے انکساری کی کیفیت میں اعتدال پیدا کر دیا ہے۔گفتگو ہمیشہ اس نرمی سے کرتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے گویا متبسم ہیں ۔رنگ گورا ہے۔بالوں کو حِنا کا رنگ دیتے ہیں ۔جسم مضبوط اور محنتی ہے سر پر پنجابی وضع کی سپید پگڑی باندھتے ہیں۔سیاہ یا خاکی لمبا کوٹ زیب تن فرماتے ہیں ۔پاؤں میں جراب اور دیسی جوتی ہوتی ہے عمرتقریباً 66 سال کی ہے۔”

(الحکم 24 مئی 1905ء صفحہ 10و بدر 25 مئی 1905ءصفحہ8)

مرزا فرحت اللہ بیگ کی شہادت

برّصغیر پاک و ہند کے ممتاز ادیب مرزا فرحت اللہ بیگ (ولادت 1886ء وفات 1947ء) اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں :

“اب ایک ایسے شخص سے میرے ملنے کا حال سنیئے جو اپنے فرقے میں نبی سمجھا جاتا ہے اور دوسرے فرقے والے خدا جانے اس کو کیا کچھ نہیں کہتے۔یہ کون ہے۔جناب مرزا غلام احمد قادیانی بانی فرقہ احمدیہ۔ان سے میرا رشتہ یہ ہے کہ میری خالہ زاد بہن ان سے منسوب تھیں ۔اس لیے یہ جب کبھی دلّی آتے تو مجھے ضرور بُلا بھیجتے اور پانچ روپے دیتے۔چنانچہ دو تین دفعہ ان سے میرا ملنا ہوا مگر میں یقین دلاتا ہوں کہ انہوں نے کبھی مجھ سے ایسی گفتگو نہیں کی جس کو تبلیغ کہا جا سکے۔میں اس زمانے میں ایف اے میں پڑھتا تھا۔زیادہ تر مسلمانوں کی تعلیم کا ذکر ہوتا تھا اور اس پر وہ افسوس ظاہر کیا کرتے تھے کہ مسلمان اپنی مذہبی تعلیم سے بالکل بے خبر ہیں اور جب تک مذہبی تعلیم عام نہ ہو گی اس وقت تک مسلمان ترقی کی راہ سے ہٹے رہیں گے۔

میرے ایک چچا تھے جن کا نام مرزا عنایت اللہ بیگ تھا۔یہ بڑے فقیر دوست تھے۔تمام ہندوستان کا سفر فقیروں سے ملنے کے لیے کیا۔بڑی بڑی سخت ریاضتیں کیں ۔چنانچہ اس سے ان کی محنت کا اندازہ کر لیجیے کہ تقریباً چالیس سال تک یہ رات کو نہیں سوئے۔صبح کی نماز پڑھ کر دو ڈھائی گھنٹے کے لیے سو جاتے ورنہ سارا وقت یادِ الٰہی میں گزارتے۔ایک دن میں جو مرزا غلام احمد صاحب کےیہاں جانے لگا تو چچا صاحب قبلہ نے مجھ سے کہا‘‘بیٹا میرا ایک کام ہے وہ کر دو اور وہ کام یہ ہے کہ جن صاحب سے تم ملنے جا رہے ہو ان کی آنکھوں کو دیکھو کہ کس رنگ کی ہیں۔” میں سمجھا بھی نہیں اس سے ان کا کیا مطلب ہے۔مگر جب مرزا صاحب کے پاس گیا تو بڑے غور سے ان کی آنکھوں کو دیکھتا رہا۔میں نے دیکھا کہ ان کی آنکھوں میں سبز رنگ کا پانی گردش کرتا معلوم ہوتا ہے۔اسی سلسلے میں مَیں نے خود بھی ان کو ذرا غور سے دیکھا کیونکہ اس سے پہلے جو میں ان کے پاس جاتا تھا تو ہمیشہ نیچی آنکھیں کر کے بیٹھتا تھا۔اس دفعہ میں نے دیکھا ان کا چہرہ بہت با رونق تھا سر پر کوئی دو دو انگل کے بال ہیں ، داڑھی خاصی نیچی ہے۔آنکھیں جُھکی جُھکی ہیں۔بات کرتے ہیں تو بہت متانت سے کرتے ہیں ۔مگر بعض وقت جھلا بھی جاتے ہیں ۔بہر حال وہاں سے واپس آنے کے بعد میں نے چچا صاحب قبلہ سے تمام واقعات بیان کیے۔فرحت دیکھو اس شخص کو بُرا کبھی نہ کہنا۔فقیر ہے اور یہ حضرت رسولِ اکرم ﷺ کے عاشق ہیں ۔میں نے کہا یہ آپ نے کیوں کر جانا۔فرمایاکہ جو آنحضرت ﷺ کے خیال میں ہر وقت غرق رہتا ہے اس کی آنکھوں میں سبزی آ جاتی ہے اور یہ معلوم ہوتا ہے کہ سبز رنگ کے پانی کی ایک لہر ان میں دوڑ رہی ہے۔” میں نے اس وقت تو ان سے اس (کی) وجہ نہیں پوچھی مگر بعد میں معلوم ہوا کہ سب فقراء اور اہلِ طریقت اس پر متفق ہیں کہ رسولِ اکرم ﷺ (کے روضہ) کا رنگ سبز ہے۔اسی کا عکس آپ کے زیادہ خیال کرنے سے آنکھوں میں جم جاتا ہے۔”

(عالمی ڈائجسٹ کراچی ، اکتوبر 1968ء صفحہ 73تا74)

تصویرکی بابت حضرت اقدسؑ کااصولی مؤقف

حضرت مسیح موعود ومہدی معہودؑفرماتے ہیں :

“میں اس بات کا سخت مخالف ہوں کہ کوئی میری تصویر کھینچے اور اس کو بت پرستوں کی طرح اپنے پاس رکھے یا شائع کرے۔میں نے ہر گز ایسا حکم نہیں دیا کہ کوئی ایسا کرے اور مجھ سے زیادہ بت پرستی اور تصویر پرستی کا کوئی دشمن نہیں ہوگا۔لیکن میں نے دیکھا ہے کہ آج کل یورپ کے لوگ جس شخص کی تالیف کو دیکھنا چاہیں اول خواہشمند ہوتے ہیں کہ اس کی تصویر دیکھیں کیونکہ یورپ کے ملک میں فراست کے علم کو بہت ترقی ہے اور اکثر ان کی محض تصویر کو دیکھ کر شناخت کر سکتے ہیں کہ ایسا مدعی صادق ہے یا کاذب۔اور وہ لوگ بباعث ہزار ہاکوس کے فاصلہ کے مجھ تک نہیں پہنچ سکتے اور نہ میرا چہرہ دیکھ سکتے ہیں ۔لہٰذا اس ملک کے اہلِ فراست بذریعہ تصویر میرے اندرونی حالات میں غور کرتے ہیں ۔کئی ایسے لوگ ہیں جو انہوں نے یورپ یا امریکہ سے میری طرف چٹھیاں لکھی ہیں اور اپنی چٹھیوں میں تحریر کیا ہے کہ ہم نے آپ کی تصویر کو غور سے دیکھا اور علم فراست کے ذریعہ سے ہمیں ماننا پڑا کہ جس کی یہ تصویر ہے وہ کاذب نہیں ہے اور ایک امریکہ کی عورت نے میری تصویر کو دیکھ کر کہا کہ یہ یسوع یعنی عیسیٰ علیہ السلام کی تصویر ہے۔پس اس غرض سے اور اس حد تک میں نے اس طریق کے جاری ہونے میں مصلحتاً خاموشی اختیار کی۔و انّما الاعمال بالنّیّات۔”

(براہینِ احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 365-366)

الحکم اخبارکا ایک نوٹ

(نوٹ از ایڈیٹر اخبار الحکم) بمبئی کے ایک سوداگر نے حضرت مسیحِ موعودؑ کی تصویر والے کارڈ چھپوائے تھے اور ان کا اشتہار الحکم میں بھی شائع کر دیا گیا جو ایک معمولی اشتہار سمجھ کر شائع ہوتا رہا۔اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ میری نیت اس اشتہار کی اشاعت سے کیا تھی۔میرا ذاتی خیال یہ تھا کہ یہ بھی تبلیغ کا ایک ذریعہ ہو گا۔لیکن یہ مرض تصویر بازی کا کچھ ایسا ترقی کرنے لگا کہ حضرت حجۃ اللہ مسیحِ موعودؑ کو خصوصیت کے ساتھ اس پر توجہ کرنی پڑی اور پُر زور الفاظ میں اس کی حرمت اور ممانعت کا فتوٰی دیا اور اس طرح پر اس باب البدعت کو کھلتے ہی بند کر دیا…

الحکم کی گزشتہ اشاعت میں مختصر طور پر یہ اعلان دے دیا گیا تھا۔آج تفصیل کے ساتھ حضرت اقدسؑ کی تقریر کا خلاصہ درج کیا جاتا ہے۔آج کے بعد یقین کیا جاتا ہے کہ اعلیٰ حضرت حجۃ اللہ مسیحِ موعودؑ کی تصویر کا کارڈ استعمال نہ کیا جاوے گا۔

ذکر آیا کہ ایک شخص نے حضورؑ کی تصویر ڈاک کے کارڈ پر چھپوائی ہے تا کہ لوگ اِن کارڈوں کو خرید کر خطوط میں استعمال کریں ۔حضرت مسیحِ موعودؑ نے فرمایا:۔

“میرے نزدیک یہ درست نہیں ۔بدعت پھیلانے کا یہ پہلا قدم ہے۔ہم نے جو تصویر فوٹو لینے کی اجازت دی تھی وہ اس واسطے تھی کہ یورپ امریکہ کے لوگ جو ہم سے بہت دور ہیں اور فوٹو سے قیافہ شناسی کا علم رکھتے ہیں اور اس سے فائدہ حاصل کرتے ہیں ان کے لیے ایک روحانی فائدہ کا موجب ہو۔کیونکہ جیسا تصویر کی حرمت ہے۔اس قسم کی حرمت عموم نہیں رکھتی بلکہ بعض اوقات مجتہد اگر دیکھے کہ کوئی فائدہ ہے اور نقصان نہیں تو وہ حسبِ ضرورت اس کو استعمال کر سکتا ہے۔خاص اس وقت یورپ کی ضرورت کے واسطے اجازت دی گئی۔چنانچہ بعض خطوط یورپ امریکہ سے آئے ہیں جن میں لکھا تھا کہ تصویر کے دیکھنے سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ بالکل وہی مسیح ہے۔ایسا ہی امراض کی تشخیص کے واسطے بعض وقت تصویر سے بہت مدد مل سکتی ہے۔شریعت میں ہر ایک امر جو مَا یَنْفَعُ النَّاسَ (الرعد: 18) کے نیچے آئے اس کو دیرپا رکھا جاتا ہے۔لیکن یہ جو کارڈوں پر تصویریں بنتی ہیں ان کو خریدنا نہیں چاہیے۔بُت پرستی کی جڑ تصویر ہے۔جب انسان کسی کا معتقد ہوتا ہے تو کچھ نہ کچھ تعظیم تصویر کی بھی کرتا ہے۔ایسی باتوں سے بچنا چاہیے اور ان سے دُور رہنا چاہیے۔”

(ملفوظات جلد ہشتم صفحہ150،149)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button