متفرق شعراء
تہنیت نامہ
تحیّر سے نہ تُو پلکیں جھپک ایسا بھی ہوتا ہے
زمیں ایسی بھی ہوتی ہے فلک ایسا بھی ہوتا ہے
حدِ انکار سے اپنی زمانہ جب گزر جائے
دکھاتا ہے خدا اپنی چمک ایسا بھی ہوتا ہے
خلافت پانچویں اور پانچواں اسلام کا مرکز
تطابق میں کہاں اب کوئی شک ایسا بھی ہوتا ہے
ملائک کے لیے کھلتی ہے رہ تازہ گواہی کی
اُدھر جاتی ہے جب دل کی سڑک ایسا بھی ہوتا ہے
وہ بارودِ حسد جو ڈھیر ہو دشمن کے سینے میں
بصد حسرت اُڑے ہو کے وہ بھک ایسا بھی ہوتا ہے
نئے گلشن میں بکھرے ہیں گلِ نَوخیز کے جلوے
زمیں تا بہ فلک ہے اک مہک ایسا بھی ہوتا ہے
رکھی ہو دستِ یزداں نے اگر بنیاد اک گھر کی
نگہباں اس کے ہوتے ہیں ملک ایسا بھی ہوتا ہے
ثمر آور ہے جس کی ہر دعا وہ مرشدِ من ہے
نہ ہو کیوں اُس کے لہجے میں لہک ایسا بھی ہوتا ہے
بہ آوازِ بلند ابھرے جو شورِ تہنیت ہر سو
جمیل آواز میں ہو اک للک ایسا بھی ہوتا ہے