جلسہ سالانہ کا تیسرا روز 04؍ اگست 2019ء (پہلااجلاس)
(جلسہ سالانہ یوکے 2019ء)
(حدیقۃ المہدی، الفضل انٹرنیشنل) جلسہ سالانہ کے تیسرے دن کے پہلے اجلاس کا آغاز صبح ٹھیک 10بجے ہوا۔ مکرم افسر صاحب جلسہ گاہ نے تشریف لا کر اجلاس کے آغاز کا اعلان کیا اورمکرم صاحبزادہ مرزا مغفور احمد صاحب امیر جماعت امریکہ کو حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ کی منظوری سے اس اجلاس کی صدارت کے لیے دعوت دی۔
اجلاس کی کارروائی کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا۔ تلاوت اور اردو ترجمہ مکرم وسیم الرشید صاحب (مربی سلسلہ سیرا لیون) نے پیش کیا۔ بعد ازاں نظم مکرم رانا محمود الحسن صاحب (مربی سلسلہ ایڈیشنل وکالت تبشیر)نے نظم پیش کی۔
پہلی تقریر: حضرت مسیح موعود ؑ کا نصرت الٰہی پر کامل یقین
اس اجلاس کی پہلی تقریر مکرم ایاز محمود خان صاحب (مربی سلسلہ ایڈیشنل وکالت تصنیف یوکے) نے کی۔ آپ کی تقریر کا عنوان ’حضرت مسیح موعود ؑ کا آنصرت الٰہی پر کامل یقین‘ تھا۔
آپ نے سورۃ المومنون کی آیات 52 کی تلاوت کی۔ اس کے بعد آپ نے کہا کہ دنیا میں ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ دوست ہمیشہ ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں۔ دوستوں کو ایک دوسرے پر بھروسہ بھی ہوتا ہے۔ پھر ہم دیکھتے ہیںکہ دنیا والوں کی دوستی اگر کسی ایسے شخص کے ساتھ ہو جائے جو اعلیٰ عہدے پر فائزہوتو بسا وقت وہ اس پر فخر اور ناز کرتے ہیں۔ لیکن سامعین و حاضرین ذرا اس شخص کے بارے میں سوچئے جس کا دوست تمام بادشاہوں کا مالک، زمین و آسمان کا پیدا کرنے والا ہر وفا کرنے والے سے زیادہ وفادار قادر مطلق خدا دوست بن جائے۔ جسے اللہ تعالیٰ کی دوستی کا شرف نصیب ہو جائے اسے اور کیا چاہئے؟
اس کے بعد مقرر نے سنت انبیاء کے حوالے سے ذکر کیا کہ انہیں نصرت الٰہی پر کامل یقین ہوتا ہے۔ اور اس کے بعد حضرت مسیح موعودؑ کے حوالےبیان کیا کہ آپ کو اپنے رب کی تائید و نصرت پر کامل یقین اور اعتماد تھا۔ آپ نے حضور ؑکے ان الہامات کا ذکر کیا جو نصرت الٰہی کی خوش خبریوں پر مشتمل ہیں اور اس کے بعد بعض عملی مثالوں کے ذریعہ اس امر کو ثابت کیا کہ حضور ؑکو تائید الٰہی پر کامل یقین تھا۔ اس کی ایک مثال آپ کے معرکہ آرا مضمون اسلامی اصول کی فلاسفی کا جلسہ اعظم مذاہب کے موقع پردیگر مضامین سے بالا رہنے پر کامل یقین ہونا ہے اسی طرح مالی معاملات کے حوالے سے جابجا ایسے واقعات ہمارے سامنے آتے ہیں جن سے حضورؑ کے خدا کی نصرت پر کامل یقین کی جھلک نظر آتی ہے۔
پھر مقرر موصوف نے طاعون کے زور کے وقت رونما ہونے والے واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے ثابت کیا کہ حضرت مسیح موعود ؑ کو اس بات پر کامل یقین تھا کہ الٰہی وعدوں کے مطابق یقین مستحکم کا ذکر کیا کہ آپ کی چاردیواری میں سب طاعون سے محفوظ رہیں گے۔
مقرر موصوف نے اس بات کا ذکر کیا کہ اللہ تعالیٰ نےخلافت خامسہ کا با برکت دور ہمیں دکھایا جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی تائید کا وعدہ انی معک یا مسرور کے الفاظ میں ہے۔
آخر پر مقرر نے حضرت مسیح موعود ؑکا پر از یقین اقتباس سنایا جس میں حضور ؑنے پر شوکت الفاظ میں یہ فرمایا کہ میری روح ہلاک ہونے والی روح نہیںاور میری سرشت میں ناکامی کا خمیر نہیں۔
دوسری تقریر، خلافت جماعت احمدیہ کا طُرّۂ امتیاز
اس اجلاس کی دوسری تقریر مکرم حماد خان صاحب (ڈائریکٹرمیڈیکل سروسز ہیومینٹی فرسٹ) نے کی۔ آپ کی تقریر کا عنوان ’خلافت جماعت احمدیہ کا امتیازی نشان‘ تھا۔
وہ لوگ جو جماعت احمدیہ سے واقف نہیں یہ لفظ ان کے ذہنوں میں قرونِ وسطی کی بادشاہتوں، جدید دور کے مذہبی بنیادوں پر کیے جانے والے ظلم و ستم، یا اسلامی سلطنت کے کھوئے ہوئے دور کے مناظر کی تصویر کشی کرتا ہے۔لیکن حضرت مسیح موعود اور مہدی معهود علیہ السّلام کے ماننے والوں لیے خلافت ایک عظیم الشان خدائی وعدے کی تکمیل ہے اور یہی وہ حقیقی روحانی قیادت ہے جو کہ دائمی امن کی ضمانت دیتی ہے۔
اس کے بعد مقرر نے بتایا کہ قرآن حکیم میں خلافت کا لفظ تین طرح سے مستعمل ہے۔اس کے بعد مقرر نےآنحضرت ﷺ کی حدیث کی روشنی میں آخری زمانے میں خلافت کے قیام کے حوالے سے تفصیلی ذکر کیا۔
مقرر نے آیت استخلاف پیش کر کے خلافت کے قیام کے حوالے سے جماعت احمدیہ کی تاریخ سے مثالیں پیش کیں کہ کس طرح سچی خلافت کی علامات خلافت احمدیہ میں پوری ہوتی ہیں۔
مقرر نے کہا کہ ہم کسی بھی خلیفۃالمسیح کے مبارک دور پر نظر ڈالیں تو ہمیں دنیا میں اسلام کی ترقی، نیکیوں، بھلائیوں کی ترغیب، دشمنوں کے خلاف اسلام کے دفاع، امن و مفاہمت اور اقوام عالم کے درمیان مساوات کی ترویج، انصاف کے دفاع اور معاشرے کے غریب ترین طبقے کی مدد کا ہر بار ایک نیا دور نظر آتا ہے۔ ہر دور میں ہم دیکھتے ہیں کہ مساجد اسکول اور ہسپتال بنائے جارہے ہیں۔ ٹیلی ویژن اور ریڈیو سٹیشنز کے ذریعے اسلام کے حقیقی پیغام کو دنیا بھر میں پھیلایا جا رہا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں ہیں کہ ہر قسم کی مخالفت کے باوجود اقتدار کے اعلی ترین ایوانوں میں کلمہ حق بلند کیا جا رہا ہے۔
آخر پر مقرر نے کہا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے متبعین ہونے کے ناطے ہم بہت خوش قسمت ہیں کہ ہمیں اسلام احمدیت کا پیغام سننے اور اس پر ایمان لانے کی توفیق ملی ہے اور اور ہمیں خدمت دین کرنے اور خلافت کی اطاعت کی توفیق ملی ہے۔ خلافت احمدیہ کے عظیم الشان سایہ شفقت سے متمتّع ہونا بلاشبہ اللہ تعالیٰ کا ایک بہت بڑا فضل ہے۔ دنیا میں کہیں بھی، کوئی اَور تحریک یا جماعت نہیں جو یہ دعویٰ کر سکے کہ وہ الہی تائید کے ذریعہ خلافت کے اِس وعدے کو پورا کر رہی ہے کہ وہ نہ صرف اپنوں بلکہ ساری انسانیت کی خوف کی حالت کو امن کی حالت میں بدلتی ہے۔
اللہ تعالی ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم پورے استقلال کے ساتھ خلافت کی اطاعت کرنے والے ہوں اور ہم اس کے سائے رحمت سے ہمیشہ مستفیض ہوتے چلے جائیں آمین۔
اردو نظم:
تقریر کے بعد مکرم محمد اسحاق صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے کلام سے چند اشعار مترنم پیش کرنے کی سعادت حاصل کی۔
تیسری تقریر: قرب الٰہی کے ذرائع
اس اجلاس کی تیسری تقریر ُقرب الٰہی کے ذرائع’ کے عنوان پر مکرم مولانا عطاء المجیب راشد صاحب (نائب امیریوکے و امام مسجد فضل لندن)نے کی۔
مقرر نے حضرت مسیح موعود ؑکے اقتباسات کی روشنی میں قرب الٰہی کے مضمون پر روشنی پڑتی تھی۔
آپ نے اس بات کا ذکر کیا کہ قربِ الٰہی حاصل کرنے کی بنیادی شرط محبت رسولﷺہے اور اس بات کے ثبوت میں حضرت مسیح موعود ؑکا وجود پیش کیا۔
مقرر موصوف نے بتایا کہ قرب الٰہی کی معراج آنحضرت ﷺ کی زندگی میں نظر آتی ہے اور قرآن کریم سے اس قرب کی مثالیں پیش کیں۔
اس کے بعد مقرر نے ذکر الٰہی کو قرب الٰہی کے حصول کا ایک بہت بڑا ذریعہ قرار دیتے ہوئے اس کی اہمیت کو قرآن کریم کی آیات اور حضرت مسیح موعود ؑکے ارشادات کے حوالے سے بیان کی۔
مقرر موصوف نے قرآن مجید کو قرب الٰہی کا ایک ذریعہ بیان کیااور حضرت مسیح موعود ؑ کے ارشادات کا اس حوالے سے تذکرہ کیا۔ اور حضرت مسیح موعود ؑکے الہام الخیر کلہ فی القرآن کا ذکر کیا۔
بعد ازاں مقرر موصوف نے قرب الٰہی کے حصول کے لیے نمازوں کے قیام کی اہمیت بیان فرمائی اور اس حوالے سے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشادات کی طرف توجہ دلائی۔
مقرر موصوف نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیان فرمودہ دس شرائط بیعت کو بھی قرب الٰہی حاصل کرنے کا ایک زبردست ذریعہ قرار دیا۔
مقررموصوف نے صحابہ حضرت مسیح موعود ؑکے ایمان افروز واقعات کا بیان کیا جن سے صحابہ کے قربِ الٰہی کے معیار کا اندازہ ہوتا ہے۔
اپنی تقریر کے اختتام مقرر موصوف نے خلافت احمدیہ کا ذکر کیا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے آج کے زمانے میں خلیفہ وقت کوقبولت دعا کا اعجاز عطا فرمایا ہے اور اس زمانے میں حبل اللہ کے حقیقی مصداق ہے اور آپ سے تعلق قائم کرنا اور آپ سے وابستہ ہونا قرب الٰہی کا ایک جیتا جاگتا ذریعہ ہے۔
چوتھی تقریر، ’جماعت احمدیہ کی130سالہ تاریخ پر ایک نظر‘
اس اجلاس کی آخری تقریر مکرم رفیق احمد حیات صاحب امیر جماعت احمدیہ برطانیہ کی تھی۔ آپ کی تقریر کا عنوان ‘جماعت احمدیہ کی 130سالہ تاریخ پر ایک نظر’تھا۔
مقررموصوف نے بیان کیا کہ آج خاکسار جماعت احمدیہ مسلمہ کی 130سالہ تاریخ میں ہونے والی بعض عظیم الشّان کامیابیوں پر بات کرے گا۔ گو اس محدود وقت میں اِن کامیابیوں کا احاطہ کرنا ایک ناممکن سا امر ہے لیکن میں اس عرصہ میں رونما ہونے والے بعض اہم ترین واقعات کا ذکر کرنے کی کوشش کروں گا۔ اور کہا کہ جماعت کی کامیابیوں کو دیکھنے کا بھی یہی طریق ہے کہ ہم اپنے ماضی کو یاد رکھتے ہیں اور مستقبل کو ہمیشہ نگاہ شوق سے دیکھتے ہیں کیونکہ ہماری جماعت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی نصرت و راہنمائی کا ایک منفرد پہلُو جُڑا ہو ہے جو ایک روشن مستقبل کا ضامن ہے۔
اس کے بعد مقرر موصوف نے حضرت مسیح موعود ؑکی زندگی کے بعض اہم واقعات کا ذکر کیا جن میں حضرت عیسیٰ ؑ کی قبر کا دریافت کرنا، ڈوئی کا عبرتناک انجام، پیشگوئی مصلح موعود، طاعون سے افراد جماعت کا محفوظ رہنا، جلسہ سالانہ کا قیام شامل ہیں۔
اس کے بعد مقرر موصوف نے خلافتِ اولیٰ کے قیام اور خلافت اولیٰ میں پیش آنے والے بعض اہم واقعات کا ذکر کیا کہ کس طرح حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کے دور میں خلافت کا استحکام ہوا۔
اس کے بعد خلافت ثانیہ کے حوالے سے آپ نے بیان کیا کہ حضرت مصلح موعو ؓ نے دنیا کے کئی ممالک میں مبلغین بھجوا یا جس سے وہاں جماعت کا قیام عمل میں آیا۔ اسی طرح جماعت کا انتظامی ڈھانچا قائم فرمایا۔اسی طرح آپؓ کے دور خلافت میں قادیان سے ربوہ بھی ہجرت ہوئی۔
اس کے بعد مقرر نے خلافت ثالثہ کا ذکر کیا کہ اس میں فضل عمر فاؤنڈیشن کا قیام اور نصرت جہاں سکیم دو اہم تحریکات ہوئیں۔ اسی طرح سپین میں مسجد بشارت کا سنگ بنیاد رکھا جو سپین میں 700سال بعد پہلی مسجد تھی۔ اسی طرح آپ کے دور خلافت میںجماعت کو پاکستان میں قانونی طور پر غیر مسلم قرار دیے دیا گیا۔ لیکن خلافتِ احمدیہ کے زیرِ سایہ جماعت ان مشکلات سے نکلتی چلی گئی۔
خلافت رابعہ کے حوالہ سے مقرر نے ربوہ سے لندن ہجرت ہوئی اور اس کے بعد ہونے والی جماعتی ترقیات کا ذکر کیا۔ ان ترقیات میں اسلام آباد کی زمین کا خریدنا، وقف نو سکیم کا اجرا اور ایم ٹی اے کا اجرا، ہیو مینٹی فرسٹ کا قیام شامل ہیں۔
خلافت خامسہ کے مبارک دور کا ذکر کرتے ہوئے مقرر نے بتایا کہ آپ کے دور میں بیت الفتوح کا افتتاح ہوا، پیس کانفرس کا اجرا، حدیقۃ المہدی کا خریدنا، جامعہ احمدیہ یوکے کا آغاز حضورِ انور کے اس بابرکت دور کی شاندار کامیابیوں میں سے چند ایک ہیں۔
مقررموصوف نے بتایا کہ خلافت خامسہ میں خلافت کی صد سالہ جوبلی کا انعقاد ہوا جہاں تمام دنیا کے احمدیوں نے اپنے امام سے عہد وفا کیا۔
خلافت خامسہ کا ایک اہم واقعہ 28؍مئی 2010ء میں سانحہ لاہور ہے جہاں 86؍احمدیوں کو ظالمانہ طور پر شہید کر دیا گیا۔ لیکن ہمیشہ کی طرح خلافت کی آفاقی قیادت میں احمدیوں کا حوصلہ پست نہ ہوا اور شہدائے احمدیت کی قربانیاں رنگ لانے لگیں۔ چنانچہ آج بھی ہم ان قربانیوں کے پھل کھا رہے ہیں۔
مقرر نے بتایا کہ حال ہی میں جماعت کی تاریخ میں ایک بہت بڑا واقعہ جو پیش آیا ہے وہ جماعت احمدیہ کے مرکز کا لندن سے اسلام آباد ٹلفورڈ منتقل ہونا ہے۔ یہ تاریخی واقعہ مورخہ 15؍ اپریل 2019 کو کو پیش آیا جب کہ حضرت امیر المومنین نماز عصر کے بعد مسجد فضل لندن سے اسلام آباد کی طرف روانہ ہوئے۔
آخر پر مقرر نے دعا کی کہ اللہ تعالی حضرت خلیفۃالمسیح کو برکتوں سے نوازتا چلا جائے، آپ کی ہر آن حفاظت فرمائے اور اس جماعت کو ہمیشہ اللہ تعالی کی حفاظت میسر رہے اور اللہ تعالی ہم سب کو اس دنیا کی بھی اور آخرت کی خیر عطا فرمائے ۔ جزاک اللہ۔
اس کا اختتام 12بجکر 34منٹ پر ہوا۔ بعد ازاں کچھ وقفے کے بعد حضورِ انور عالمی بیعت کے لیے جلسہ گاہ میں رونق افروز ہوئے۔
(رپورٹ: سیّد احسان احمد)