’’حضور انور کے الفاظ بہت ہی خوبصورت اور حقیقت پر مبنی تھے۔ حضور کا چہرہ نور سے پر نظر آرہا تھا ‘‘۔ تاثرات مہمانان جلسہ سالانہ جرمنی 2019ء
امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا دورۂ جرمنی 2019ء (06؍ جولائی)
…………………………………………
06؍جولائی2019ء
بروز ہفتہ
……………………………………………
(حصہ چہارم۔ آخری)
مہمانوں کےتاثرات
٭…حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے آج کے انگریزی زبان میں خطاب نے مہمانوں پر گہرا اثر چھوڑا اور بہت سے مہمانوں نے برملا اس بات کا اظہارکیاکہ خلیفۃ المسیح کے خطاب سے آج ہمیں اسلام کی اصل اور حقیقی پُرامن تعلیم کا علم ہواہے۔ ان مہمانوں میں سے چند ایک کے تاثرات ذیل میں درج ہیں:
٭… جارجیا کے وفد میں شامل ایک اور خاتون حضورِ انور کا خطاب سننے کے بعد کہتی ہیں کہ
‘‘میں اس بات پر یقین رکھتی ہوں کہ حضورِ انور نہایت ذہین اور وسیع النظر انسان ہیں۔آپ دور اندیش ہیں اور اُس کے مطابق آپ تیاری کرتے ہیں۔’’
٭ جرمنی سے Andreas Weisbrot (اندریاس وائس بروڈ صاحب)جو کہ عیسائی پادری اور استاد ہیں اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:
‘‘خلیفہ کے خطاب نے مجھے حیران کر کے رکھ دیا۔ایٹمی جنگ کے خطرہ کا مجھے اتنا احساس نہیں تھا۔میرا بھی یہی خیال ہے کہ ہم صرف اس وقت ترقی کر سکتے ہیں جب ہم سماجی اقدار اور امن کی طرف توجہ دیں اور مل کر امن کو تلاش کریں۔مجھے یقین ہے کہ اس مقصد کے لیے ہمیں ایک مضبوط معاشرہ کی ضرورت ہے۔ جس میں ہم رواداری اور کثیر العقائد فضا کو قائم کریں۔ اور اس میں مکالمہ بین المذاہب ایک بہت اہم حصہ ہے۔’’
٭ جرمنی کے علاقہ ‘باڈ ہمبرگ ’ سے تعلق رکھنے والے ایک مہمان ‘آخم ہولر’ صاحب نے بیان کیا کہ
‘‘مجھے امام جماعت احمدیہ کا خطاب بہت ہی عمدہ لگاہے ۔ حضور نے بہترین رنگ میں دنیا کے سیاسی حالات پر روشنی ڈالی ہے اور اپنی جماعت کا بہت اچھا تعارف پیش کیا ہے۔’’
٭ لیٹویا کے ایک مہمان ‘کھونگڑی اسمونووہ’ صاحب بیان کرتے ہیں :
‘‘حضور انور کے الفاظ بہت ہی خوبصورت اور حقیقت پر مبنی تھے۔ حضور کا چہرہ نور سے پر نظر آرہا تھا۔ کامل اتحاد، کامل محبت اور بہت ہی اچھا دوستانہ رویہ اس جلسہ پر دیکھنے کو ملا۔ مجھے یہ بات بھی بہت پسند آئی کہ کثرت سے مختلف ممالک کے لوگ جلسہ میں شامل ہوئے۔’’
٭ کرتشی صاحب جن کا تعلق مقدونیہ سے ہے بیان کرتے ہیں :
‘‘حضور انور کا خطاب بہت ہی پر اثر تھا اور اسی طرح ماحول پر امن تھا اور یوں محسوس ہوا کہ یہ شخص کسی اور جہاں کا ہے۔ حضور ایک والد کی مانند ہیں اور اپنے ساتھ ایک نور لیے ہوئے ہیں۔’’
٭سبرینا بوخنر صاحبہ بیان کرتی ہیں:
‘‘میری رائے کے مطابق امام جماعت احمدیہ جب پہلی مرتبہ اسٹیج پر تشریف لائے تو میں بہت ہی متاثر ہوئی۔ آپ نے اپنے آپ کو سب کے قریب کیا جس سے واضح ہوا کہ آپ کھلے مزاج کے انسان ہیں۔ آپ کے الفاظ بعینہٖ میری رائے کے مطابق تھے۔ میں بہت حیران ہوں کہ مجھے ایک ایسا انسان ملا ہے۔’’
٭میکائیل سیکائی جو ایک ڈاکٹر ہیں بیان کرتے ہیں :
‘‘حضور کا خطاب بہت ہی دلچسپ اور معارف سے پر تھا۔ حضور نے حالات حاضرہ پر روشنی ڈالی اور معلوم ہوا کہ آپ بھی دنیا کے حالات پر غور و تدبر کرتے ہیں۔’’
٭لابینیٹ رخسائی جو کہ کوسووو کے سکول میں ڈائریکٹر ہیں بیان کرتے ہیں :
‘‘خلیفۃ المسیح کا وجود میری نظروں میں حیران کن ہے۔ آپ کا سیاست کے بارہ میں علم اور اسی طرح انسانی نفسیات کا علم غیر معمولی ہے۔ ہر مہمان کا فرض تھا کہ وہ آپ کے خطاب کو غور سے سنے۔’’
٭ ازبکستان سے تعلق رکھنے والے ایک مہمان ‘بروٹ خودیخمورادوو ’ بیان کرتے ہیں:
‘‘خلیفۃ المسیح کا خطاب مجھے بہت ہی دلچسپ لگا اور پسند آیا ہے۔ خاص طور پر جو انسانی ہمدردی کا پہلو آپ نے بیان فرمایا ہے وہ مجھے نہایت ہی عمدہ لگا۔ اس کے علاوہ بہت سے مختلف ممالک کا ذکر ہوا جن میں آج کے زمانہ میں مصیبتیں اور مسائل واقع ہیں۔ مگر جس بات نے مجھ کو سب سے پہلے متاثر کیا تھا وہ آپ کی آواز تھی۔’’
٭ سوئٹزرلینڈ کے مہمان آلیور اٹینڈر بیان کرتے ہیں :
‘‘یہاں کی تقاریر بہت ہی اعلیٰ اور دلچسپ ہیں۔ دل چاہتا ہے کہ ایسی تقاریر بار بار سنی جائیں۔ میں تیسری مرتبہ شامل ہورہا ہوں اور ایک مرتبہ پھر حیران رہ گیا ہوں۔’’
٭ ایک مہمان ‘ایڈرین گاشی’بیان کرتے ہیں:
‘‘میں نے خلیفۂ وقت کو پہلی دفعہ زندگی میں دیکھا ہے اور آپ بہت ہی ذہین و عقلمند وسمجھدار شخصیت ہیں۔ آپ کے اٹھنے اور بیٹھنے سے اللہ تعالیٰ کی ذات نظرآتی ہے اور اسی طرح آپ آنے والے وقت کے متعلق بہت غور و فکر کرتے ہیں۔’’
٭جینی لوربیر صاحبہ جرمنی سے کہتی ہیں:
‘‘خلیفہ وقت نے اپنے دل سے سب کو مخاطب کیا ہے۔ میرے ابھی تک رونگٹے کھڑے ہیں میں اس خطاب سے بہت متاثر ہوں۔’’
٭ مسٹر Hans Oliver جو فرینکفرٹ کی ایک لاءفرم کے سینئر پارٹنر ہیں اور پیشہ کے لحاظ سے وکیل ہیں ،انہوں نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ
‘‘دھیمے اور ٹھہرے ہوئے لہجے میں کی جانے والی امام جماعت احمدیہ کی تقریر میرے لیے بہت پر جوش اور ہیجان انگیز تاثیر رکھتی تھی۔ دنیا کے بظاہر پر سکون اور روز مرہ کے معمول کے مطابق چلتے ہوئے حالات میں، آنے والے خطرات اور جنگ کو بھانپ لینا عام انسانی فراست سے بالاتر ہے اور امام جماعت احمدیہ نے نہ صرف مستقبل میں معلق خطرات کو حقیقی طور پر محسوس کیا ہے بلکہ ساتھ ساتھ دنیا کو خبر دار بھی کر رہے ہیں۔ اسی طرح انہوں نے امیگریشن کو جس طرح حکومتوں کے سماجی اور اقتصادی مفادات کے ساتھ جوڑ کر دکھایا ہے وہ تجزیہ بر حقیقت تھا۔’’
مزید کہتے ہیں کہ ‘‘ایک قانون دان کے طورپر میں اس پہلو کو اپنے ساتھیوں سے بیان کرنا اور دو طرفہ ضرورت کے ادراک کو عام کرنا چاہوں گا۔کیونکہ عام طور پر یہاں لوگ صرف پناہ گزینوں کی آمد کا منفی ذکر ہی کرتے ہیں مگر اس کے ساتھ جڑے ہوئے ملکوں اور قوموں کے مقامی مفادات کو نظر انداز کر جاتے ہیں۔’’
٭ مس ویرینا لڈوگ Vereena Ludwig جو لفتھانسا (Lufthansa)ائر لائن کی آئی ٹی ڈیپارٹمینٹ کی ایکسپرٹ ہیں۔ انہوں نے خطاب کےبعد بیان کیا :
“امام جماعت احمدیہ کے خطاب کو سنتے وقت مسلسل سوچ رہی تھی کہ ان کی شخصیت اور گفتگو دیگر رہنماؤں سے مختلف ہے۔ یہ درست ہے کہ لوگ عمومی طور پر دنیا کو پیش آمدہ خطرات سے بچنے کی بات بھی کرتے ہیں۔ اور امن عالم کے قیام پر بات کرنا تو لیڈروں کے لیے ایک طرح سے‘‘ہاٹ کیک’’ہے۔ مگر امام جماعت احمدیہ کی گفتگو کو جو طاقت ان کی متحمل اور پر تاثیر شخصیت سے ملتی ہے، وہ میں نے اور کہیں نہیں دیکھی ۔ ان کا چہرہ ان کی بات کی سچائی پر دلیل تھا ۔اور دوسری بات یہ کہ ان جیسا مصروف آدمی اتنا ریسرچ ورک کیسے کر سکتا ہے جب تک ان کے دل میں انسانیت کے لیے گہرا درد نہ ہو ۔انہوں نے دنیا بھر سے مواد اکٹھا کیا ،اس کا تجزیہ پیش کیا اور صرف مذہبی نقطہ نظر سے ہی نہیں بلکہ سماجی اور اقتصادی حوالوں سے دنیا کی لیڈر شپ پر واضح کیا ہے کہ دیر پا امن عالم خوف خدا سے منسلک ہے۔اور اگر ذاتی مفاد سے بالاتر ہو کر اقدامات نہ کیے گئے تو ایٹمی جنگ کی ہولناک تباہی کے ذمہ دار ہم ہونگے۔میرے نزدیک اس قدر وضاحت کے ساتھ پیغام دے دیا گیا ہے کہ اگر تعصبات حائل نہ ہوں تو انسان کے رونگٹے کھڑے کرنے کے لیے یہ تنبیہ کافی تھی۔میں چاہتی ہوں کہ عام افراد سے لےکر اداروں کے سربراہان اور حکومتی اراکین اور کارپوریٹ سیکٹر کے فیصلہ سازوں تک یہ پیغام پہنچنا چاہیے کیونکہ انسانیت کی وسیع تر بہبود کے لیے اس کا گلوبل لیول پر ادراک عام ہونا بہت ضروری ہے۔’’
٭ مسٹر Guenter Haerter جو میونخ جرمنی سے جلسے میں آئے تھے اور پیشہ کے لحاظ سے ماؤنٹین گائیڈ ہیں،کا کہنا تھا کہ
‘‘معاشرے میں دیر پا امن کے قیام کے لیے اور انسانیت کو آئندہ درپیش خطرات کے لیے بھر پور انتباہ امام جماعت احمدیہ کے خطاب میں موجود تھا۔ اور اب یہ سول سوسائیٹی اور حکومتوں کا کام ہے کہ اس سےفائدہ اٹھائیں اور اپنے اپنے دائرۂ کار میں ایسے اقدامات کریں جن سے انسانیت بحیثیت مجموعی ان فسادات سے بچ سکے۔ یہ درست ہے کہ امام جماعت احمدیہ کی فراست جن حالات کو قبل از وقت دیکھ چکی ہے اس کی تائید میں انہوں نے دیگر دانشوروں کے حوالے بھی دیے ہیں مگر کھلے لفظوں میں دنیا کو مخاطب کر کے خبردار کرنے کا کا م صرف آپ ہی کر رہے ہیں۔’’
٭ مسٹر کلاؤزے (Klause) اور مسز ہائڈے (Heide) (میاں بیوی) جرمنی کے شہر Wiesbadenسے پہلی دفعہ جلسہ میں شامل ہوئے تھے۔ جرمن مہمانوں سے حضور انور کے خطاب کے بعد اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ
‘‘ہمارا یہاں آنے سے پہلے تو بہت خوفزدہ سا حال تھا اور اگرچہ کئی سال سے جماعت کا تعارف تھا مگر جلسے میں آتے ہوئے ہمارے تحفظات ہوتے تھے جن کی بنیاد اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں میڈیا سے سنی سنائی معلومات پر ہی تھی ،اسی لیے یہاں آتے ہوئے ہم آج بھی بہت گھبرائے ہوئے تھے کہ پتہ نہیں کیسا ہجوم ہوگا۔ لیکن آنے کے بعد ہم دونوں میاں بیوی ایسے Relax ہیں اور ماحول میں اتنی اپنائیت ہے کہ ہم گویا اپنے ہی ماحول میں گھوم پھر رہے ہیں۔جہاں تک اما م جماعت احمدیہ کے خطاب کا تعلق ہے تو میں عرض کرنا چاہتی ہوں کہ میں خودجنگ کے دنوں میں پیداہوئی تھی اور میں نے جنگ کے فسادات یہاں بچشم خود دیکھ رکھے ہیں۔ اور امام جماعت احمدیہ جن تباہیوں اور جس ہولناک منظر سے قبل از وقت خبردار کر رہے ہیں اور جس درد اور سنجیدگی کی روح سے انسانیت کو متنبہ کررہے ہیں اس کا اثر مجھ جیسوں پر جنہوں نے جنگ عظیم دیکھ رکھی ہے، اور طرح سے ہوتا ہے۔ اس لیے ہم امام جماعت احمدیہ کے خطاب کے لفظ لفظ سے متفق ہیں اور چاہتے ہیں کہ موجودہ نسل اس کا بروقت ادراک اور احساس کرسکے۔’’
اسی خاتون کے خاوند مسٹر Klause نے کہا :
‘‘ایک بات میں بھی خلیفہ صاحب کی شخصیت کے بارے میں کہنی چاہتا ہوں۔ جو میری بیوی نے نہیں نوٹ کی۔ وہ یہ ہے کہ امام جماعت احمدیہ نے دنیا کے مجموعی خطرات کا تفصیلی تجزیہ پیش کیا مگر ایک مذہبی سربراہ کے طور پر خود کو ان چیزوں سے الگ اور باہر رکھا اور خطرات کی نشاندہی ضرور کی مگر نہ تو کسی کا نام لیا اور نہ ہی دورانِ گفتگو ان کے لب و لہجہ سےکسی طرف خاص جھکاؤ کا تاثر مل رہا تھا ۔ان کی نصیحت کا انداز پُردرد تنبیہ کا تھا نہ کہ ذاتی پسند ناپسند کا۔ ذاتی جھکاؤ کا ادنی ٰسا شائبہ بھی آپ کی گفتگو سے نہیں ملا اور مذہبی سربراہ کا یہی مقام ہوتا ہے کہ وہ نصیحت کرے اور توجہ دلائے مگر ذاتی جھکاؤ سے بالاتر ہوکر۔ اس لحاظ سے میں خلیفہ کی گفتگو میں پائی جانے والی سیاسی و سماجی بصیرت اور تاثیر کا قائل ہو کر جا رہا ہوں۔’’
٭ مسٹر Jaan جو پیشے کے لحاظ سے انجینئر ہیں اور کاسل (Kassel)شہر سے جلسے میں شامل ہوئے ہیں انہوں نے اپنے تاثرات کا اس طرح اظہار کیا کہ
‘‘امام جماعت احمدیہ کی تقریر سے عام آدمی کوبہت فائدہ پہنچا ہے کیونکہ جو باتیں اہلِ حکومت اور سربراہان کی مجلسوں اور تقریروں تک ہی رہتی ہیں انہوں نے آسان اور پر تاثیر الفاظ میں عامۃ الناس تک بھی پہنچا دی ہیں اور مذہب، سیاست، اقتصادیات اورپالیسی پلاننگ جیسے موضوعات ایسے پیرائے میں بیان کر دیے ہیں کہ ہر طبقہ کے لوگ بات سمجھ جائیں اور اپنے اپنے دائرہ اثر میں ان خطرات اور تباہیوں کے بارے میں موثر طور پرانتباہ کر سکیں۔’’
٭ مس جوزفینا(Josepheena)جو شہر کاسل (Kassel) جرمنی سے آئی تھیں اور پیشہ کے لحاظ سے میڈیکل اسسٹنٹ ہیں۔ انہوں نے اپنے تاثرات کا اس طرح اظہار کیا :
‘‘امام جماعت احمدیہ نے اپنی تقریر میں ان تمام امور کا احاطہ کیا ہے جن کی طرف توجہ کرنے کی اس وقت دنیا کو ضرورت ہے اور جس طرح انہوں نے یورپ میں جرمنی کو اپنا کردار ادا کرنے کی نصیحت کی ہے اور پھر بڑے دائرے میں یورپ کو نصیحت کی ہے کہ وہ دنیا میں اپنا کردار ادا کرے اور دیر پا قیامِ امن ِ عالم کی خاطر اپنے علاقائی مفادات سے بالا تر ہو کر آنے والی نسلوں کو ایٹمی جنگوں سے بچانے کے لیے بھرپور کوششیں کریں ، تو مجھے تو یہ باتیں بالکل قابل عمل لگتی ہیں اور ان کو نظر انداز کرنا دنیا کے سماجی معاشرتی اوربین الاقوامی اقتصادی مفادات کے خلاف ہوگا۔’’
٭ مسٹر نوبرٹ واگنر(Nobert Wagner) امیگریشن لائر ہیں اور فرنکفرٹ سے خطاب سننے کے لیے جلسہ میں شامل ہوئے تھے۔ انہوں نے اپنے تاثرات کا اس طرح اظہار کیا ہے کہ
‘‘میں جلسے میں شرکت اگرچہ پہلی بار نہیں کر رہا اور احمدیوں کے کیسز کے وکیل کے طور پر مجھے اکثر باتوں کاعلم ہوتا رہتا ہے مگر امام جماعت احمدیہ کا آج کا خطاب میرے لیے بالکل نئے پہلو اورنئے نکات کا حامل تھا۔ گو کہ میں اپنے تاثرات کا اظہار کر رہا ہوں مگر یہ اظہار ایک طرح کا فوری ردعمل ہے جو میں کہہ رہا ہوں جبکہ ابھی اس تقریر میں میرے لیے پیشہ وارانہ ضرورت کے بہت سے اہم نکات ہیں جن کو میں گھر جا کر دوبارہ زیرِ غور لاؤں گا۔ مہاجرین اور تارکینِ وطن کے مسئلے پر آج جو نقطہ نظر امام جماعت احمدیہ نے بیان کیا ہے اس سے میزبان ملکوں اور مہاجرین کے باہمی معاملات میں ایک توازن اور وقار پیدا ہوگا اور خاص طور پر جس طرح انہوں نے اعداد و شمار کی مدد سے بڑھاپے اور ریٹائرمنٹ کی عمر کے حوالے سے جرمنی کی افرادی قوت کی ضروریات کو اجاگر کیا ہے اس سے پناہ گزینوں کی عزت نفس کو بھی سہارا ملے گا اور میزبان اداروں میں بھی ان مہاجرین کی عزت اور وقار بڑھیں گے ۔ مگر میں دوبارہ کہنا چاہتا ہوں کہ ابھی میرے لیے اور امیگریشن لاء کی پریکٹس کرنے والے میرے رفقاء کار کے لیے اس میں بہت سا مواد ہے جو ہمارے کام آسکتا ہے۔’’
٭ سوئٹزرلینڈ سے لیلیٰ صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ:
‘‘میں ایک تنظیم کے لیے کام کرتی ہوں اور ہم امن کو فروغ دینے کے لیے کام کررہے ہیں۔ آج جب میں نے خلیفہ کی تقریر سنی تو مجھے ہر ایک لفظ میں امن ہی امن نظر آیا۔ مجھے ہر ایک لفظ میں برداشت اور انسانیت کی اقدار نظر آئیں۔ اگر آپ امن، برداشت اور انسانیت کو باہم یکجا کردیں تو پھر آپ ایک خوبصورت معاشرہ تشکیل دیتے ہیں۔ خلیفہ بہت نیک وجود ہیں۔ اگر کوئی احمدی نہ بھی ہو تب بھی یہی لگتا ہے کہ آپ خدا کی طرف سے ہیں۔
جو بھی آپ کہتے ہیں وہ ہمارے ہی فائدہ کے لیے ہے اور آپ بڑی دلیری سے سچائی بیان کرتے ہیں۔ سب سے زیادہ متاثر کُن یہ بات تھی کہ آپ نے تمام مسائل بیان کرنے کے بعد مذہب سے اس کا حل پیش فرمایا اور بتایا کہ ان تمام مسائل کا حل خدا کو پہنچاننے میں ہے۔ آپ نے یہ ثابت کیا ہے کہ مذہب مسئلہ نہیں بلکہ مسائل کا حل ہے۔ میں بہت متاثر ہوئی ہوں اور اس موقع کو کبھی بھُلا نہیں پاؤں گی۔’’
٭ سوئٹزرلینڈ سے پروفیسر ہاشم اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں:
‘‘جب کہ دیگر لوگ اپنے پوشیدہ مقاصد کے لیے جھگڑ رہے ہیں، خلیفہ لوگوں کو انسانیت کی طرف بُلا رہا ہے اور امن کے لیے جہاد کر رہا ہے۔ آپ کا طریق محبت ہے۔ آج آپ کی تقریر خالصتاً بنی نوع انسان سے محبت پر مشتمل تھی۔آپ نے بتایا ہے کہ خدا چاہتا ہے کہ ہم امن سے رہیں۔ یہ بہت اہم نقطہ ہے کہ خدا نے ہمیں باہمی لڑائیوں کے لیے نہیں بھیجا۔ بلکہ خدا نےتو ہمیں ایک دوسرے کا احترام کرنے کے لیے بھیجا ہے۔خلیفہ نے یہ بھی بتایا ہے کہ اسلام مغربی تہذیب کے لیے خطرہ نہیں ہے۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ مسلمان حقیقی اسلام کی پیروی کرتے ہوئے بھی مغربی معاشرےمیں integrate کرسکتے ہیں۔ اور آپ یہ خود اپنی مثال قائم کرتے ہوئے ثابت کررہے ہیں کیونکہ آپ کی جماعت بہترین انداز میں یہاں integration کررہی ہے۔ آخر پر میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میں دل سے خلیفہ سے محبت کرتا ہوں۔ مجھے آپ سے اور آپ کی جماعت جس کی آپ قیادت کررہے ہیں سے محبت کرنے کے لیے احمدی ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ تقریر کے بعد مجھے خلیفہ سے مصافحہ بھی کرنے کا موقع ملا اور میں اس لمحہ کو تمام عمر یاد رکھوں گا۔’’
٭ ایک جرمن لڑکی Soraya Brecht اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہے:
‘‘مجھے یہ بات بہت اچھی لگی کہ آپ کی تقریر میں حالیہ مسائل پر بات کی گئی۔ آپ سے پہلے بھی بعض سیاستدانوں نے بات کی لیکن ان کی باتوں میں کوئی وزن نہ تھا۔ وہی معمول کی باتیں تھیں جو کوئی بھی کہہ سکتا ہے۔ لیکن خلیفہ کی تقریر بالکل مختلف تھی۔ آپ نے حقیقی مسائل کے بارے میں بات کی۔ آپ نے جوہری جنگ کی بات کی، آپ نے ماحولیاتی تبدیلیوں کی بات کی، آپ نے امیگریشن کی بات کی۔ یہ وہ مسائل ہیں جو اہم ہیں اور پھر آپ نے ان کا حل بھی بتایا کہ مذہب پر قدغنیں لگانے کی بجائے مذہب کو فروغ دیا جائے۔ لوگ خدا کی طرف آئیں۔
میں سمجھتی ہوں کہ تمام دنیا میں آپ اسلام کے بہترین نمائندہ ہیں۔ آپ وہ شخصیت ہیں جو لوگوں کو اسلام قبول کرنے پر مجبور کردیں گے اور اس بات پر لوگوں کو یقین دلا دیں گے کہ اسلام امن کا مذہب ہے۔ خلیفہ نے اپنی تقریر میں بعض جملے استعمال کیے جو مجھے بہت پسند آئے، جیسا کہ آپ نے فرمایا کہ ہر کوئی چاہتا ہے کہ اسکے گھر اور ملک میں امن قائم ہو، اس خواہش کے باوجود ایسے کام کرتے ہیں جن سے صرف نفرت ہی بڑھ سکتی ہے۔ ہر ایک کو اس بارے میں سوچنا چاہیے اور اس طرف توجہ دینی چاہیے۔
خلیفۃ المسیح نے بہت واضح انداز میں بتادیا ہے کہ آج کل جو جنگیں ہو رہی ہیں اس کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ آپ نے سیاسی معاملات پر اس طرح روشنی ڈالی ہے جس طرح بہترین تجزیہ کار بھی نہیں کرپاتے۔ جیسا کہ آپ نے فرمایا ہے کہ طاقتور ممالک کمزور ممالک سے فائدے اٹھاتے ہیں، بعض دفعہ یہ فائدے ظاہری طور پر اٹھائے جاتے ہیں اور بعض دفعہ پوشیدہ طور پر بھی اٹھائے جاتے ہیں اور ان کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ طاقتور ملکوں کے مفادات کا تحفظ کریں۔ میں یہی کہنا چاہتی ہوں کہ خلیفہ بہت عظیم شخصیت ہیں اور میں ان کی عظمت کی قائل ہو گئی ہوں۔’’
٭ ایک اورجرمن خاتون نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا:
‘‘میں دوسری مرتبہ جلسہ پر آئی ہوں اور خلیفہ سے ملی ہوں۔ آپ بہت اعلیٰ شخصیت کے مالک ہیں۔ آپ کی اس سال تقریر تو گذشتہ سال سے بھی زیادہ طاقتور تھی۔ دوسرے لوگ سیاستدانوں کی طرح باتیں کرتے ہیں، وہ صرف اپنے سامعین کو خوش کرنا چاہتے ہیں۔ تاہم خلیفہ کا مقصد ہی کچھ اور ہے اور آپ کا مقصد صرف اور صرف سچ بولنا ہے۔ آپ نے واضح کیا ہے کہ کون سے امور امن کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ یہ بہت شاندار بات تھی کہ خلیفہ نے دیگر مقررین کی تقاریر میں اٹھائے گئے پوائنٹس پر بھی روشنی ڈالی، اس سے آپ کی عاجزی ظاہر ہوتی ہے اور یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ آپ حقیقی علمی شخصیت ہیں۔ جس بات نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ خلیفہ کی جرأت تھی۔ آپ نے جس طرح امریکہ، روس، چین، اسرائیل اور تمام بڑی طاقتوں کی بات کی ہے اور بتایا ہے کہ یہ ناانصافی سے کام لے رہےہیں، یہ باتیں کوئی عام شخص نہیں کرسکتا۔ آپ نے بتایا کہ یہی ناانصافیاں انسانیت کو تاریکیوں میں دھکیل رہی ہیں۔ مجھے خلیفہ کے اختتامی کلمات بھی بہت اچھے لگے ہیں جہاں آپ نے دنیا کے لیے دعا کی ہے، آپ نے دعا کی ہے کہ کاش امن کانیلا آسمان طلوع ہو۔ جب میں نے یہ الفاظ سنے تو مجھے معلوم ہوا کہ خلیفہ صرف مذہبی رہنما اور علمی شخصیت ہی نہیں بلکہ آپ اچھا شاعرانہ مزاج رکھتے ہیں۔’’
٭ ایک کُرد لڑکی اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہے:
‘‘چند سال قبل میری والدہ نے احمدیت قبول کی تھی لیکن اس وقت میں تیار نہ تھی۔ آج حضور کو دیکھنے اور حضور کا خطاب سننے سے میرے تمام خدشات دور ہو گئے ہیں۔ گذشتہ سال بھی میں آئی تھی لیکن یہ کیفیت نہ تھی جو آج ہے۔ مجھے آپ کے وجود سے نور نکلتا محسوس ہوا۔ میری والدہ بہت خوش ہو گی کیونکہ اب مجھے یہ احساس بہت شدت سے ہونے لگا ہے کہ مجھے احمدی ہوجانا چاہیے۔’’
٭ ایک جرمن لڑکی Hana Jakupi اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہے:‘‘مجھے یہ بہت اچھا لگا کہ خلیفہ نے صرف مذہب پر ہی بات نہیں کی بلکہ سیاست پر بھی بات کی ہے۔ یہ میرے لیے کسی معجزہ سے کم نہیں کہ میں ایک مذہبی رہنما کو اس طرح کھل کر دنیا کے مسائل پر بات کرتے دیکھ رہی ہوں۔ لوگ کہتے ہیں کہ دنیا میں تمام برائیاں اور لڑائیاں مذہب کی وجہ سے ہیں لیکن آپ نے یہ ثابت کردیا ہے کہ یہ بالکل غلط ہے۔ یہ جنگیں حقیقت میں معاشی فوائد کے گرد گھومتی ہیں یا پھر سماجی وجوہات ہیں، جہاں لوگ ناانصافیوں کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں۔ آپ کی تقریر وقت کی اہم ضرورت ہے۔ آپ کی عاجزی بہت پسند آئی۔ خلیفہ کی تقریر کے آخری حصہ نے بہت اثر کیا۔ مجھے وہ محبت محسوس ہوئی جو خلیفہ کو انسانیت سے ہے۔ ’’
٭ اسماء کفتارو وہ صاحبہ اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں: ‘‘خلیفہ کے مہمانوں کو انگریزی میں خطاب کے بعد میری دلی کیفیت بدل گئی اور مجھے اپنے اندر نئی امید کا احساس پیدا ہوا۔ یہ کام جو آپ کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہت اعلیٰ اور ارفع ہے۔ میں نے خلیفہ کو ایک بہترین قائد اور بہترین خطیب اور مومن انسان پایا۔’’
(باقی آئندہ)