متفرق مضامین

ہجرت قادیان اور بعض الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام

(سلطان نصیر احمد۔استاذ جامعہ احمدیہ ربوہ)

’’داغِ ہجرت‘‘

مذاہب عالم کی معلوم تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ اکثر انبیاء اور ان کے ماننے والوں کے ساتھ ہجرت ایک لازمی چیز رہی ہے۔اسی سنت کےماتحت،قیامِ پاکستان کے وقت جماعت احمدیہ کو بھی قادیان سے ہجرت کرنی پڑی۔اس ہجرت سے قریباً 53؍برس پہلے18؍ستمبر1894ءکوحضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ‘‘داغ ہجرت’’ کا الہام ہوا جس میں ہجرت کی واضح پیش گوئی بھی کی گئی تھی۔اس خبر میں ہجرت کے ساتھ ‘‘داغ ’’کا پُر حکمت لفظ استعمال کیا گیا تھاجو اردو زبان میں زخم،گھاؤ،جراحت اور رنج اور صدمہ کے لیےبھی استعمال ہوتاہے،جس سے یہ چیز بھی اخذ کی جا سکتی ہے کہ اس میں یہ بات مضمر تھی کہ جماعت احمدیہ کو اپنے مرکز قادیان سے جن حالات میں ہجرت کرنا پڑے گی وہ نہایت ہی خوفناک،پُر آشوب اور تکلیف دہ ہوں گے۔چنانچہ ایسا ہی وقوع میں آیا۔

حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

‘‘پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک الہام ہے ‘‘داغِ ہجرت’’اور ہجرت ہمیشہ ایک مقام کی طرف ہوتی ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں یہ ہجرت مدینہ کی طرف کی گئی تھی اور یہاں بھی ہجرت کسی اَور مقام کی طرف ہوگی۔ میری رؤیا میں بھی صاف طور پر بتایا گیا ہے کہ میں کسی جگہ پر مرکز بناؤں گا اور قادیان کو واپس لینے کی کوشش کروں گا۔ جب یہ چیز بالکل واضح ہے تو ایک حصہ کے بعد دوسرے حصہ کو چھوڑ دینے کی کیا وجہ ہے۔ پس ضروری ہے کہ ہم ایک نیا مرکز بنائیں اور وہاں اکٹھے ہو کر قادیان کو واپس لینے کی کوشش کریں۔ پھر مصلح موعود والی رؤیا میں بھی اسی طرف اشارہ ہے۔ مصلح موعود والی رؤیا میں مجھے دکھایا گیا تھا کہ قادیان پر حملہ ہوا ہے اور میں وہاں سے بھاگا ہوں۔’’

(انوار العلوم جلد 21،تقریر جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ لاہور1948ء،ص 34،35)

حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

‘‘ہماری ہجرت کے متعلق پہلے سے پیشگوئی موجود تھی۔ اگر یہ پیشگوئی پہلے سے موجود نہ ہوتی تب بھی کوئی بات تھی۔ ہم تو دیکھتے ہیں کہ یہ پیشگوئی صراحتًا موجود ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الہام ہے ‘‘داغِ ہجرت’’جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ہمیں قادیان چھوڑنی پڑے گی۔’’

(انوار العلوم جلد 21،تقریر جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ لاہور1948ء،ص 28)

حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ مزید فرماتے ہیں:

‘‘بے شک میں نے پہلے یہ فیصلہ کیا تھا کہ میں قادیان میں ہی رہوں لیکن بعد میں جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہامات پر غور کر کے مجھے یقین ہو گیا کہ جماعت کے لیے ایک ہجرت مقدر ہے تو میں نے سوچا کہ میرا کام قادیان یا صرف ایک مُلک سے وابستہ نہیں بلکہ دوسرے ممالک سے بھی میرا تعلق ہے۔ اگر میں قادیان میں رہتا ہوں تو اِس کے یہ معنی ہیں کہ میں اُن سب کاموں کو ترک کر دیتا ہوں جو میرے سپرد ہیں اور ایک جگہ اپنے آپ کو مقید کر لیتا ہوں جیسا کہ بعد میں قادیان والوں کی حالت ہوگئی تھی لیکن اگر میں قادیان سے باہر چلا جاتا ہوں تو میں صرف ایک چھوٹے سے دائرے سے الگ ہوتا ہوں اور ایک وسیع دنیا کو بُلانے پر قادر ہو جاتا ہوں۔ سقراط نے اپنے شہر کو اس لیے نہیں چھوڑا کہ اُن کے مخاطب صرف اس شہر والے تھے اور حضرت مسیح علیہ السلام نے فلسطین کو چھوڑا تو اس لیے کہ فلسطین میں ان کے مخاطبوں میں سے صرف دو قبیلے تھے اور دس قبیلے فلسطین سے باہر تھے۔حضرت مسیح علیہ السلام نے بھی لوگوں کی خاطر فلسطین کو چھوڑا وہ فلسطین میں بسنے والوں سے سینکڑوں گنا زیادہ تھے لیکن میں نے جن لوگوں کی خاطر قادیان کو چھوڑا، قادیان اور اُس کی آبادی اس کا ہزارواں حصہ بھی نہیں۔ پس یہ صحیح ہے کہ پہلے یہی فیصلہ کیا گیا تھا کہ میں قادیان نہیں چھوڑوں گا لیکن جب میں نے دیکھا کہ ہمارے لیے ہجرت مقدر ہے تو میں نے قادیان کو چھوڑ کر یہاں چلے آنے کا فیصلہ کیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ الہام موجود تھا کہ ‘‘داغِ ہجرت’’ اور اِدھر میری خوابوں میں بھی یہ بات تھی کہ ہمیں قادیان سے باہر جانا پڑے گا۔ میں نے دیکھا کہ یہ الہام تو موجود ہے مگر ابھی تک ہجرت نہیں ہوئی اِس لیے یا تو یہ مثیل مسیح پر پیشگوئی صادق آئے گی اور یا اسے جھوٹا ماننا پڑے گا۔ یہی وہ چیزیں تھیں جن کی وجہ سے ہمیں قادیان کو چھوڑنا پڑا۔ پھر یہ فیصلہ میں نے خود نہیں کیا بلکہ جماعت کے دوستوں کی طرف سے مجھے یہ مشورہ دیا گیا کہ میں قادیان سے باہر آ جاؤں۔ ویسے میری ذاتی دلچسپیاں تو قادیان سے ہی وابستہ تھیں لیکن میرے سامنے دو چیزیں تھیں اوّل یہ کہ میں قادیان سے باہر چلا جاؤں اور قادیان میں ایک نائب امیر مقرر کر دوں۔ دوم یہ کہ میں اُن سب کاموں کو ترک کر دوں جو میرے سپرد کیے گئے ہیں اور قادیان میں ایک قیدی کی حیثیت سے بیٹھا رہوں۔ اور اس بات کے حق میں کہ میں قادیان میں ہی بیٹھا رہوں ایک رائے بھی نہیں تھی۔ 7؍ستمبر کو یہ فیصلہ ہوا کہ چونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ اسلام کی اشاعت کا کام قادیان سے باہر آنے پر ہی ہو سکتا ہے اِس لیے ہم جذباتی چیز کو حقیقت پر قربان کریں گے۔ ’’

(انوار العلوم جلد 21،قادیان سے ہجرت اور نئے مرکز کی تعمیر،ص 200،199)

پھرحضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

‘‘یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو وفات پا گئے ہیں اور پیشگوئی آپ کے بعد پوری ہوئی۔ اگر اس پیشگوئی نے پورا ہونا تھا تو آپ کی زندگی میں ہی کیوں پوری نہ ہوئی؟ اس سوال کا جواب خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں موجود ہے۔ آپؐ فرماتے ہیں میرے ہاتھ میں قیصر و کسریٰ کے خزانوں کی کنجیاں دی گئی ہیں لیکن واقعہ یہ ہے کہ قیصروکسریٰ کے خزانوں کی کنجیاں آپ کے ہاتھ میں نہیں دی گئیں بلکہ حضرت عمرؓ کے ہاتھ میں دی گئیں جو آپ کے خلیفہ دوم تھے۔ گویا اُس چیز کو جو حضرت عمرؓ کے ہاتھ میں آنے والی تھی اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں دیا جانا قرار دیا۔ درحقیقت یہ ایک عام دستور ہے کہ کبھی وہ بات جو ماتحت کے ساتھ کی جاتی ہے اُسے بزرگ کی طرف منسوب کر دیا جاتا ہے اور کبھی وہ بات جو بزرگ کے ساتھ کی جاتی ہے اُسے ماتحت کی طرف منسوب کر دیا جاتا ہے۔ یہاں بھی ایسا ہی ہوا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھایہ تھا کہ آپ کے ہاتھ میں قیصرو کسریٰ کے خزانوں کی کنجیاں دی گئی ہیں مگر ہوا یہ کہ وہ کنجیاں حضرت عمرؓ کے ہاتھ میں دی گئیں۔

اسی طرح آپ کی ایک اور رؤیا بھی ہے۔ آپ فرماتے ہیں میں نے دیکھا کہ ایک فرشتہ میرے پاس جنتی انگوروں کے دوخوشے لایا میں نے اس سے پوچھا یہ کس کے لیے ہیں؟ تو اس نے جواب دیا کہ ان میں سے ایک خوشہ آپ کے لیے ہے اور دوسرا ابوجہل کے لیے۔ آپ فرماتے ہیں کہ میں اس کے جواب میں اتنا گھبرایا کہ میری آنکھ کھل گئی اور میں نے کہا کہ کیا خداتعالیٰ کے نزدیک اس کا ایک نبی اور دشمن دونوں ایک ہی مقام پر ہیں؟ خداتعالیٰ کے نبی کے لیے بھی بہشت کے انگوروں کا خوشہ آیا ہے اور اس کے دشمن کے لیے بھی بہشت سے انگوروں کا خوشہ آیا ہے۔آپ فرماتے ہیں میرے دل پر اس رؤیا کی وجہ سے ایک بوجھ سا رہا۔ یہاں تک کہ عکرمہؓ ایمان لایا تب اس رؤیا کی تعبیر میری سمجھ میں آئی کہ ابوجہل سے مراد عکرمہؓ تھا۔
اب دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک جگہ ابوجہل دکھایا گیا مگر اس سے مراد اس کا بیٹا تھا اور دوسری جگہ آپ کو یہ دکھایا گیا کہ قیصروکسریٰ کے خزانوں کی کنجیاں آپ کو ملیں مگر ملیں حضرت عمرؓ کو جو آپ کے دوسرے خلیفہ تھے۔ اسی طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ ‘‘داغِ ہجرت’’کا الہام تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہوا مگر یہ پیشگوئی درحقیقت آپ کے خلیفہ دوم کے ساتھ وابستہ ہے۔ چنانچہ یہ ہجرت کا واقعہ میری زندگی میں ہوا اور میں ہی آپ کا خلیفہ دوم ہوں۔

اس کے علاوہ خدا تعالیٰ نے خود مجھ پر اس پیشگوئی کو اس طرح بار بار کھولا ہے کہ حیرت آ جاتی ہے میں نے اپنے رؤیا کئی لوگوں کو سنائے ہیں اور وہ اقرار کرتے ہیں کہ یہ واقعی حیرت انگیز ہیں۔ میں نے 1941ء میں ایک رؤیا دیکھا تھا جو 13؍ جنوری1942ء کے الفضل میں شائع شُدہ موجود ہے میں نے دیکھا کہ قادیان پر حملہ ہوا ہے اور اس حملہ میں دشمن نے ہر قسم کے ہتھیار استعمال کیے ہیں اس کے نتیجہ میں ہمیں قادیان چھوڑنا پڑا ہے۔ پھر میں نے دیکھا کہ میں قادیان سے اس غرض کے لیے نکلا ہوں کہ میں مرکز کے لیے نئی جگہ تلاش کروں تا کہ ہم وہاں اکٹھے ہو کر قادیان کو واپس لینے کی کوشش کریں۔ جب میں اس جگہ پر پہنچا ہوں (میں تفصیل کو چھوڑتا ہوں کیونکہ وہ الفضل میں چھپی ہوئی ہے) تو ایک شخص میرے پاس آیا اور اس نے کہا بڑی تباہی ہے، بڑی تباہی ہے۔ جالندھر میں بھی بڑی تباہی ہوئی ہے اور لوگوں کو کہیں پناہ نہیں ملی۔ پھر میں نے دیکھا کہ قادیان کے سارے محلے دشمن نے لے لیے ہیں۔ میں نے ایک دوست سے پوچھا۔ مسجد مبارک کا کیا حال ہے؟ اس نے جواب دیا کہ وہ لوگ تو اب تک مقابلہ کر رہے ہیں۔ میں نے کہا اگر وہ مقابلہ کر رہے ہیں تو پھر ہمیں کامیابی ہو جائے گی۔

بھلا 1942ء میں کس کو خیال تھا کہ جنگ ہوگی۔ پھر کس کو خیال تھا کہ توپیں چلیں گی رائفلوں سے لڑائیاں ہوں گی اور پھر قادیان اس علاقہ میں ہوگا جس پر دشمن کا قبضہ ہوگا پھر یہ تباہی جالندھر تک ہوگی اور یہ کہ قادیان کے تمام محلے خالی ہو جائیں گے۔ صرف حلقہ مسجد مبارک اپنی جگہ پر جما رہے گا۔ میری یہ رؤیا اخبار میں چھپی ہوئی موجود ہے اور اخبار ساری دنیا میں پھیل جاتے ہیں اور اُن کی ایک کاپی سرکاری دفاتر میں بھی محفوظ رہتی ہے اس لیے اس میں بناوٹ کا احتمال نہیں ہو سکتا یہ پیشگوئی ساری کی سار ی پوری ہوئی ہے حملے بھی ہوئے، تباہی بھی آئی اور پھر یہ غیرمعمولی بات ہے کہ سارے مشرقی پنجاب میں صرف قادیان ایک ایسا مقام ہے جہاں مسجد مبارک کے حلقہ میں اب تک اذانیں دی جاتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے نام کو بلند کیا جاتا ہے یہ باتیں ایسی ہیں جنہیں دیکھ کر کوئی انسان اس پیشگوئی میں شُبہ نہیں کر سکتا اور اسے ماننا پڑتا ہے کہ ہمیں خدائی کلام کے ماتحت قادیان چھوڑنا پڑا ہے اور وہ بہرحال ہمیں ایک دن واپس ملے گا۔‘‘

(انوار العلوم جلد 21،تقریر جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ لاہور1948ء،ص 28تا 30)

حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو الہام ہوا ‘‘داغِ ہجرت’’ اور جب اس کے پورا ہونے کا وقت آیا تو خداتعالیٰ نے مجھے بعض نظارے دکھائے جن سے معلوم ہوتا تھا کہ یہ الہام اِسی زمانہ کے متعلق تھا سو پورا ہو گیا۔

(انوار العلوم جلد 21،قادیان سے ہماری ہجرت ایک آسمانی تقدیر تھی،ص 360)

ایک خواب

حضرت سیدنا فضل عمر خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعودؓ کی ہجرت پاکستان سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ایک خواب پوری ہوئی جس میں حضور پر انکشاف کیا گیا تھا کہ آپ خود یا آپ کا کوئی خلیفہ ہجرت کرے گا۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ

‘‘ایک دفعہ میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ ایک شخص میرا نام لکھ رہا ہے تو آدھا نام اس نے عربی میں لکھا ہے اور آدھا انگریزی میں لکھا ہے۔ انبیاء کے ساتھ ہجرت بھی ہے لیکن بعض رویاء نبی کے اپنے زمانہ میں پورے ہوتے ہیں اور بعض اولاد یا کسی متبع کے ذریعے سے پورے ہوتے ہیں۔ مثلاً آنحضرتﷺ کو قیصر و کسریٰ کی کنجیاں ملی تھیں تو وہ ممالک حضرت عمرؓ کے زمانہ میں فتح ہوئے۔’’

(تذکرہ ،ص477)(بدر 7 ستمبر 1905ءص2،الحکم 10 ستمبر 1905ص 3)

یروشلم سے مراد قادیان ہے

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:

‘‘ذکریا14 باب میں مذکور ہے کہ آخری زمانہ میں مسیح موعود کے عہد میں سخت طاعون پڑے گی۔ اس زمانہ میں تمام فرقے دنیا کے متفق ہوں گے کہ یروشلم کو تباہ کر دیں۔ تب انہی دنوں میں طاعو ن پھوٹے گی اور اُسی دن یوں ہو گا کہ جیتا پانی یروشلم سے جاری ہوگا یعنی خدا کا مسیح ظاہر ہو جائے گا۔ اور اس جگہ یروشلم سے مراد بیت المقدس نہیں ہے بلکہ وہ مقام ہے جس سے دین کے زندہ کرنے کے لیے الٰہی تعلیم کا چشمہ جوش مارے گا اور وہ قادیان ہے جو خدا تعالیٰ کی نظر میں دارالامان ہے۔ خدا تعالیٰ نے جیسا کہ اس اُمت کے خاتم الخلفاء کا نام مسیح رکھا ایسا ہی اس کے خروج کی جگہ کا نام یروشلم رکھ دیا اور اُس کے مخالفوں کا نام یہود رکھ دیا۔ ’’

(نزول المسیح ،روحانی خزائن جلد 18صفحہ420حاشیہ)

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:

‘‘پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی کتاب نزول المسیح میں بیان فرمایا ہے کہ زکریا کی کتاب کے چودھویں باب میں جہاں یروشلم کا ذکر ہے وہاں یروشلم سے مراد بیت المقدس نہیں بلکہ قادیان ہے اور اِس باب میں جو خبر دی گئی ہے وہ یہ ہے کہ ایک زمانہ میں یروشلم پر حملہ ہوگا۔ شہر والے مغلوب ہو جائیں گے اور پھر پہاڑوں کی ایک وادی کی طرف بھاگ جائیں گے جہاں پناہ لیں گے۔’’

(انوار العلوم جلد 21،قادیان سے ہماری ہجرت ایک آسمانی تقدیر تھی،ص 357)

یُخْرِجُ ھَمُّہٗ وَ غَمُّہٗ دَوْحَةَ اِسْمٰعِیْلَ۔ فَاَخْفِھَا حَتّٰی تَخْرُجَ

حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کو8؍فروری 1906ء کو الہام ہوا

‘‘یُخْرِجُ ھَمُّہٗ وَ غَمُّہٗ دَوْحَةَ اِسْمٰعِیْلَ۔ فَاَخْفِھَا حَتّٰی تَخْرُجَ’’

(تذکرہ،ص507)

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:

‘‘پھر آپ(حضرت مسیح موعودؑ)کا ایک اَور الہام یہ بھی ہے کہ یُخْرِجُ ھَمُّہٗ وَ غَمُّہٗ دَوْحَةَ اِسْمٰعِیْلَ۔ فَاَخْفِھَا حَتّٰی تَخْرُجَ یعنی تمہارے ہمّ اور غم کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ایک اسماعیلی درخت اُگائے گا لیکن یہ راز چھپائے رکھو یہاں تک کہ وہ درخت نکل آئے۔ سو اِس ہجرت پر پردہ پڑا رہا یہاں تک کہ قادیان پر جن دنوں حملہ ہو رہا تھا اور میں بتا رہا تھا کہ تم خدائی وعدہ کے مطابق قادیان سے نکلو گے، آپ لوگ یہ کہہ رہے تھے کہ ہم نے تو یہاں سے ہلنا نہیں۔ پھر ان لوگوں میں سے جو کہہ رہے تھے کہ ہم نے ہلنا نہیں بعض نکل آئے مگر دوسرے لوگ پھر بھی کہہ رہے تھے کہ ہم نے تو یہاں سے نہیں جانا۔ حقیقت یہ ہے کہ قادیان سے محبت کی وجہ سے کسی کا اِس طرف خیال ہی نہیں جاتا تھا کہ ہجرت ہوگی اور ہم قادیان کو چھوڑ کر باہر آ جائیں گے۔ جیسے رسول کریمﷺ نے جب وفات پائی تو حضرت عمرؓ کی یہ کیفیت تھی کہ باوجود اس کے کہ رسول کریمﷺفوت ہوچکے تھے وہ یہ کہنے لگے کہ میں تو مان ہی نہیں سکتا کہ رسول کریمﷺ فوت ہو گئے ہیں۔ پس جہاں محبت ہوتی ہے وہاں ایسا خیال ہی پیدا نہیں ہو سکتا۔ اِسی طرح خداتعالیٰ کا قادیان کو دائمی اور مستقل مرکز قرار دینا اِس بات پر پردہ ڈال رہا تھا کہ ہمیں قادیان سے ہجرت کرنی پڑے گی۔ مگر آخر وہی بات ہو گئی کہ فَاَخْفِھَا حَتّٰی تَخْرُجَ جب تک وہ درخت نکل نہ آئے اُسے ظاہر نہ کرنا۔ ورنہ یہ لوگ قادیان آنے سے رُک جائیں گے اور اگر یہ رُک گئے تو قادیان میں مکان کیسے بنائیں گے حالانکہ ہمارا یہ ارادہ ہے کہ یہ لوگ قادیان میں مکان بناتے چلے جائیں۔ جب قادیان ہاتھ سے نکل جائے گا تو جو سچا متبع ہوگا وہ تو کہے گا کہ جیسے ہم نے پہلے چھتہ بنایاتھا ویسے ہی پھر بنا لیں گے اور جو کمزور ہوگا اُس کا دل تو یہ کہتا ہوگا کہ میں نے جو کرنا تھا کر لیا لیکن بظاہر وہ کہے گا اچھایہ اَور مرکز بنا رہے ہیں یہ قادیان کو بھول رہے ہیں اور اس طرح وہ اپنی منافقت کو ظاہر کر دے گا۔

(انوار العلوم جلد 21،قادیان سے ہماری ہجرت ایک آسمانی تقدیر تھی،ص358،357)

نئی زمین اور نیا آسمان

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:

‘‘ایک دفعہ کشفی رنگ میں مَیں نے دیکھا کہ مَیں نے نئی زمین اور نیا آسمان پیدا کیا۔’’(تذکرہ،ص154)

حضرت مصلح موعودؓفرماتے ہیں:

‘‘پھر خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بتایا تھا کہ آپ ایک نئی زمین اور نیا آسمان بنائیں گے۔ بے شک سلسلہ بھی ایک نئی زمین اور نیا آسمان ہے لیکن بعض لوگ یہ سمجھتے تھے کہ چونکہ انہیں بنا بنایا مرکز مل گیا ہے اس لیے انہیں طاقت حاصل ہوگئی ہے۔ چنانچہ جب میری خلافت کا انکار کیا گیا اور منکرین خلافت قادیان چھوڑ کر لاہور آگئے تو اُس وقت اُنہوں نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ جماعت کا پچانوے فیصدی حصہ ہمارے ساتھ ہے لیکن ایک ماہ کے اندر اندر خداتعالیٰ کے فضل سے جماعت کا اکثر حصہ میرے ساتھ شامل ہو گیا۔ اُس وقت وہ لوگ یہی جواب دیتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وجہ سے جماعت کو قادیان سے محبت ہے اس لیے یہ نہیں جیتا قادیان جیتی ہے۔ خداتعالیٰ نے اُن کو اِس اعتراض کا جواب دینا تھا اب لاہور میں جو اِن کا 35سالہ مرکز ہے اُن کا بھی جلسہ ہو رہا ہے وہ ذرا ربوہ کے جلسہ کی سی شان تو دکھا دیں۔ اِس وادیٔ بے آب و گیاہ میں بھی لوگ جمع ہوئے ہیں یا نہیں؟ کہاں گئی اُن کی وہ دلیل کہ میں قادیان کی وجہ سے جیتا ہوں۔ اگر اُس وقت میں قادیان کی وجہ سے جیتا تھا تو اب قادیان میرے ہارنے کا بھی موجب ہونا چاہیے تھا کیونکہ میں قادیان میں نہیں تھا۔ مجھ سے عقیدت رکھنے والے لوگ تو یہ کہہ سکتے تھے کہ میں مصیبت کی وجہ سے یہاں آ گیا ہوں مگر جو مخالف تھے انہیں تو مجھے چھوڑ دینا چاہیے تھا۔’’

(انوار العلوم جلد 21،قادیان سے ہماری ہجرت ایک آسمانی تقدیر تھی،ص359،358)

إِنَّ الَّذِي فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لَرَادُّكَ إِلَى مَعَادٍ

حضرت مسیح موعودؑ کو الہام ہوا:

إِنَّ الَّذِي فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لَرَادُّكَ إِلَى مَعَادٍ

ترجمہ:یعنی وہ قادر خدا جس نے تیرے پر قرآن فرض کیا پھر تجھے واپس لائے گا۔

(تذکرہ ص256)

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:

‘‘اسی طرح آپ(حضرت مسیح موعودؑ)پر اللہ تعالیٰ نے وہی وحی نازل فرمائی جو اس نے رسول کریمﷺ پرہجرت کے متعلق نازل فرمائی تھی۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے إِنَّ الَّذِي فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لَرَادُّكَ إِلَى مَعَادٍ ہم اس ہستی کی قسم کھا کر کہتے ہیں جس نے تجھ پر قرآن کریم فرض کیا ہے کہ تو مکہ سے نکالا جائے گا اور پھر مکہ میں واپس لایا جائے گا۔ یہی الہام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہوا۔ جب یہی الہام آپ کو ہوا ہے تو پھر اس کے معنی بھی وہی ہوں گے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی کے تھے کہ وہ تمہیں قادیان سے نکالے گا اور پھر قادیان میں اپنے فضل سے واپس لائے گا۔’’

(انوار العلوم جلد 21،تقریر جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ لاہور1948ء،ص 28)

یاتی علیک زمن کمثل زمن موسیٰ

حضرت مسیح موعودؑ کو الہام ہوا:

یاتی علیک زمن کمثل زمن موسیٰ

(تذکرۃ الشہادتین،روحانی خزائن جلد20ص5)

ترجمہ :تیرے پر ایک ایسا زمانہ آئے گاجیسا کہ موسیٰ پر زمانہ آیا تھا۔

(تذکرۃ الشہادتین،روحانی خزائن جلد20ص8)

اس سے ظاہر ہوتا تھا کہ یہ ہجرت نہایت بے بسی اور خطرے کی حالت میں ہو گی۔چنانچہ ایسا ہی وقوع میں آیا۔

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:

‘‘پھر ایک اور چیز بھی قابل غور ہے اور وہ یہ کہ اگر تم اپنے وطنوں سے نکالے گئے ہو، اگر تم میں سے بعض قتل کیے گئے ہیں اور تمہاری جائیدادیں لوٹی گئی ہیں تو تمہارے ساتھ دوسرے لوگ بھی تو ہیں جن کے ساتھ ایسا سلوک ہوا یہ کیوں ہوا؟ میں کہتا ہوں آؤ ذرا قرآن کریم دیکھو۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مصر سے نکلنے کے متعلق جہاں ذکر آتا ہے، وہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب موسیٰ علیہ السلام نے مصر کو چھوڑا تو ان کے ساتھ وہ لوگ بھی تھے جو آپ کی جماعت میں شامل نہیں تھے۔ پس بعض دفعہ خداتعالیٰ کی طرف سے ایسے ابتلاء بھی لائے جاتے ہیں کہ وہ صرف نبی کی قوم پر ہی نہیں آتے بلکہ اُن کے ساتھ دوسروں پر بھی آتے ہیں مگر مقصود صرف نبی کی جماعت ہوتی ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ جو غیر از جماعت لوگ آئے کنعان اُنہیں نہیں ملا۔ کنعان حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کو ملا۔ اِسی طرح تمہارے ساتھ جو دوسرے لوگ مشرقی پنجاب سے نکلے تھے اُنہیں کوئی مرکز نہیں ملا۔ مرکز ملا ہے تو تمہیں ملا ہے کیونکہ اس سے مقصود صرف تم ہی تھے۔ تم نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ ہم اکٹھے رہیں گے خواہ جنگل میں ہی ہمیں بسنا پڑے۔ یہی عزم نبیوں کی جماعتوں میں پایا جاتا ہے مثلاً حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے عزم کر لیا تھا کہ وہ اکٹھے رہیں گے۔ خداتعالیٰ نے انہیں کنعان کا مُلک دے دیا لیکن اس کے غیر نے یہ عزم نہیں کیا تھا۔ یہی عزم ہے جو انبیاء کی جماعتوں کو کامیاب بناتا ہے۔ یہی عزم ہے جس کی طرف میں تمہیں توجہ دلاتا ہوں۔ تم یہ عزم کر لو کہ ہم اکٹھے رہیں گے اور خواہ ہمیں کتنی ہی تکلیفیں دی جائیں ہم کبھی جدا نہیں ہوں گے۔’’

(انوار العلوم جلد 21،قادیان سے ہماری ہجرت ایک آسمانی تقدیر تھی،ص363)

یَا جِبَالُ اَوِّبِیْ مَعَہٗ وَ الطَّیْرَ

حضرت مسیح موعودؑ کو الہام ہوا:

یَا جِبَالُ اَوِّبِیْ مَعَہٗ وَ الطَّیْرَ

ترجمہ:اے پہاڑو اور اے پرندو میرے اِس بندہ کے ساتھ وَجد اور رِقّت سے میری یاد کرو۔(تذکرہ ص550)

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:

‘‘میں نے کل پرندوں کا ذکر کیا تھا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک الہام بھی ہے کہ یَاجِبَالُ اَوِّبِیْ مَعَہٗ وَ الطَّیْرَاے پہاڑو اور اے پرندو! تم اس مسیح کے ساتھ مل کر خداتعالیٰ کے ذکر کو بلند کرو۔ اس الہام میں یہ اشارہ کیا گیا تھا کہ آئندہ کسی وقت پہاڑوں میں بھی خداتعالیٰ کا ذکر بلند کیا جائے گا اور اس میں مسیح بھی شامل ہوگا۔ لیکن جب وقت لمبا ہو گیا اور لوگوں میںیہ خیال پیدا ہو گیا کہ وہ سوسائٹیاں بنا کر اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائیں گے تو خداتعالیٰ نے مجھے بتایا کہ تمہیں انہیں رستوں سے گزرنا ہوگا جن سے پہلے انبیاء کی جماعتیں گذری ہیں۔ چنانچہ مجھے الہامات ہونے شروع ہوئے کہ ہمیں قادیان چھوڑنا پڑے گا اور کسی پہاڑی مقام میں پناہ لینی پڑے گی پھر وہاں سے ہم خداتعالیٰ کے ذکر کو بلند کریں گے۔ یہ چیز بتاتی تھی کہ پہلی پیشگوئی ختم نہیں بلکہ ابھی چل رہی ہے۔ چنانچہ بعد میں عملاً لڑائیاں ہوئیں اور قادیان ہمیں چھوڑنا پڑا سو اَب تعبیر کی ضرورت نہیں۔’’

(انوار العلوم جلد 21،قادیان سے ہماری ہجرت ایک آسمانی تقدیر تھی،ص361)

اَنَا الْمَسِیْحُ الْمَوْعُوْدُ مَثِیْلُہٗ وَ خَلِیْفَتُہٗ

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:

‘‘خداتعالیٰ نے جب دیکھا کہ لوگ کہیں گے کہ یہ پیشگوئی تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ پوری ہونی تھی تو اُس نے میرے منہ سے نکلوا دیا کہ اَنَا الْمَسِیْحُ الْمَوْعُوْدُ۔ میں بھی مسیح موعود ہوں گویا ساڑھے تین سال قبل اِس کی پیش بندی کر دی… غرض تمام پیشگوئیوں سے ظاہر ہے کہ یہ زمانۂ مسیح موعود ہے اور میں اُن کا بروز اور اُن کا نام پانے والا ہوں۔ پس جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خدا مسیح موعود سے کہے گا کہ پہاڑ پر چلے جاؤ تو اِس سے مراد میں تھا۔ چنانچہ مجھے بتایا گیا کہ میں قادیان سے ہجرت کر کے ایک پہاڑی علاقہ میں جاؤں گا۔ پھر جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ آؤ ہم ایک نیا آسمان اور نئی زمین بنائیں جس میں سلسلہ کا نیا مرکز بنانے کی طرف اشارہ تھا تو اِس سے بھی مراد میں تھا۔ پھر جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ ہر نبی کے لیے ہجرت ضروری ہے اس لیے ان کو بھی ہجرت کا موقع ملے گا تو اس سے میں ہی مراد تھا کہ میرے ذریعہ سے آپ کو ہجرت نصیب ہوگی اور یہ سمجھایا گیا تھا کہ نادان اور کمزور کہیں گے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی لاش کو قادیان میں چھوڑ کر چلے گئے اس لیے اُن کو سمجھانے کے لیے خداتعالیٰ نے کہا کہ نہیں مسیح موعود خود قادیان سے نکل کر ہجرت کر گیایعنی میرے وجود میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی روح حلول کر کے قادیان سے آ گئی ہے۔ نادان کہے گا وہ اَور تم اَور، دو وجود ایک کیسے ہوگئے؟میں انہیں کہتا ہوں یہ اُسی طرح ہوا جس طرح خدا کی باتیں ہوا کرتی ہیں۔ جب مریم اور مسیح ایک ہو سکتے ہیں تو میں اور مسیح ایک کیوں نہیں ہو سکتے۔’’

(انوار العلوم جلد 21،قادیان سے ہماری ہجرت ایک آسمانی تقدیر تھی،ص365،364)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button