چاہیے کہ تقویٰ اختیار کریں کیونکہ تقویٰ ۔۔۔ شریعت کا خلاصہ ہے
مجلس انصار اللہ برطانیہ کے سالانہ اجتماع 2019ء کے اختتامی اجلاس سے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا بصیرت افروز خطاب
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز لجنہ اماء اللہ برطانیہ کے اجتماع گاہ سے مجلس انصار اللہ کے مرکزی پنڈال میں تشریف لا کر نماز ظہر و عصر جمع کر کے پڑھائیں۔
نمازوں کی ادائیگی کے بعد 3 بج کر 20 منٹ پر حضور انور کرسیٔ صدارت پر تشریف فرما ہوئے اور اختتامی اجلاس کا آغاز فرمایا۔ مکرم حافظ طیب احمد صاحب نے سورۂ آلِ عمران آیات 103تا 105کی تلاوت کرنے کی سعادت پائی۔مکرم ڈاکٹر اظہر صدیق صاحب نے متلوآیات کا انگریزی ترجمہ پڑھ کر سنایا۔
بعد ازاں سب حاضرین نے حضور انور کی اقتدا میں انصار اللہ کا عہد دہرایا۔ مکرم محمد اسحٰق صاحب نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے منظوم کلام ؎
کس قدر ظاہر ہے نور اس مبدء الانوار کا
بن رہا ہے سارا عالم آئینہ ابصار کا
میں سے منتخب اشعار خوش الحانی کے ساتھ پڑھے۔
بعد ازاں مکرم ڈاکٹر اعجاز الرحمٰن صاحب صدر مجلس انصار اللہ نے مختصر رپورٹ پیش کی۔ محترم صدر صاحب نے رپورٹ کا آغاز فرمایا تو حضورِ انور نے ازراہِ شفقت محترم صدر صاحب کی رہنمائی کرتے ہوئے فرمایا۔ ‘‘پہلے بسم اللہ پڑھیں!’’۔ چنانچہ مکرم صدر صاحب نے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھنے کے بعد رپورٹ پیش کی۔
آپ نے بتایا کہ مجلس انصار اللہ یوکے کا یہ اجتماع ایک بار پھر نہایت تاریخ ساز ثابت ہوا۔ حضور انورنے از راہ شفقت پہلی مرتبہ مجلس انصار اللہ کے اجتماع گاہ سے خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا اور اس کے بعد پرچم کشائی کے ساتھ اجتماع کا باقاعدہ آغاز فرمایا۔ میں حضور انور سے دعاؤں کی درخواست کرنا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں حضور انور کی توقعات کو اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئےپورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم حضور انور کے اعتماد پر پورا اترنے والے ہوں۔ امسال اجتماع کا مرکزی عنوان سال کے آغاز ہی میں ‘‘برکات خلافت’’رکھا گیا تھا۔ دورانِ سال 136مجالس میں سے 64نے اپنے لوکل اجتماعات کا انعقاد کیا اور تمام 18ریجنز کو اپنے ریجنل اجتماع منعقد کرنے کی توفیق ملی۔امسال جون کے آغاز سے نیشنل اجتماع کی تیاریوں کا آغاز ہوا۔ مکرم فہیم انور صاحب ناظم اعلیٰ اجتماع اور آپ کی ٹیم نے اس اجتماع کو کامیاب بنانے کے لیے ان تھک محنت کی۔میں مجلس خدام الاحمدیہ اور جلسہ کی ٹیمز کی معاونت کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔
مکرم صدر صاحب نے بتایا کہ انصار نے مختلف تقاریر سنیں اورعلمی اور ورزشی مقابلہ جات میں حصہ لیا۔ امسال مختلف workshops کا بھی انعقاد ہوا جن کا مقصد انصار کے علم میں اضافہ کرنا تھا ۔انٹرنیٹ کے خطرات، بچوں کو انٹرنیٹ کے صحیح استعمال سے آگاہی، کاروبار کا آغاز،طبی معاملات اور معلومات، وصیت لکھنا وغیرہ موضوعات پر یہ workshops ہوئیں۔ قیادت تبلیغ ، شعبہ تبلیغ یوکے، الفضل انٹرنیشنل، Voice of Islam، ہیومینٹی فرسٹ اور مسرور آئی انسٹیٹیوٹ(Masroor Eye Institute)کی طرف سے نمائش لگائی گئی۔
مکرم صدر صاحب نے کہا کہ خاکسار مجلس انصار اللہ یوکے کی طرف سے حضور انور کی شفقتوں کا ایک بار پھر تہِ دل سے شکریہ ادا کرنا چاہتا ہے اور دعا کی درخواست کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں حضور انور کی ہدایات کے مطابق اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور ہم حقیقی معنوں میں حضور کی تمام توقعات کو پورا کرتے ہوئے حقیقی انصار بننے والے ہوں۔ آمین۔
……………………………………………………………………
بعد ازاں حضور انور نے درج ذیل بہترین مجالس،ریجنزاوراجتماع پر بہترین حاضری کے انعامات تقسیم کیے:
1۔حاضری کے لحاظ سے بہترین ریجن: فضل ریجن
2۔ حاضری کے لحاظ سےبہترین مجلس: اسلام آباد مجلس
3۔ کارکردگی کے لحاظ سے بہترین ریجن: فضل ریجن
4۔ کارکردگی کے لحاظ سے بہترین چھوٹی مجلس: Liverpool
5۔کارکردگی کے لحاظ سے بہترین مجلس: Balham جو نور ریجن میں ہے انہیں علَم انعامی بھی ملا۔
خطاب حضورِ انور
3 بج کر 45 منٹ پر حضور انور نے اختتامی خطاب کا آغاز فرمایا۔تشہد، تعوذاور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کی تعداد میں ترقی کے ساتھ مجلس انصار اللہ کی بھی ترقی ہو رہی ہے اور اعدادو شمار کے مطابق مختلف پروگراموں میں اور مختلف ایکٹویٹیز میں مجلس انصار اللہ کے ممبران کی نمائندگی بھی بڑھ کر نظر آتی ہے ۔ لیکن ان تمام باتوں کے ساتھ مجلس انصار اللہ کے ممبران کو اپنا حقیقی جائزہ لینا چاہئے کہ کیا ہم انصار اللہ کہلاتے ہوئے اپنی زندگیاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خواہش کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہم سے کیا چاہتے ہیں؟ جب تک ہم ایک فکر کے ساتھ اس بات کی تلاش نہیں کریں گے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیم کی روشنی میں جو حقیقۃً قرآن کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم ہے اپنا لائحہ عمل ترتیب دے کر بار بار اس کا جائزہ نہیں لیں گے ہم اپنی زندگیاں اس تعلیم کی روشنی میں ڈھال نہیں سکتے۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ ایک بار ہمارے سامنے ایک ہی طرح کی بعض باتیں دہرائی جاتی ہیں۔ بعض دفعہ میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعض حوالے بار بار پیش کرتا ہوں۔ اس سے شاید کوئی یہ خیال کرے بلکہ بعض یہ خیال کرتے بھی ہیںکہ کیا ان حوالوں سے ہمیں باہر نکلنا بھی ہے کہ نہیں۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تو ہر مضمون پر بے شمار لکھا۔ ہر قسم کے حوالے موجود ہیں۔ آپ کی کتب میں، ارشادات میں ہمیں قرآن کریم کی ایک تفسیر ملتی ہے۔ لیکن بعض باتیں ایسی ہیں جو بنیادی ہیں اور جنہیں بار بار ہمیں اپنے سامنے لاتے رہنا چاہئے۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ میں کہتا ہوں کہ کیا ہم میں سے اسّی فیصد نے ان باتوں پر عمل کرنا شروع کر دیا جو آپ کے سامنے بار بار لائی جاتی ہیںا ور اپنی زندگیوں کو اس کے مطابق ڈھال رہے ہیں؟ یا اسّی فیصد تو بڑی بات ہے ساٹھ فیصد یا پچاس فیصد یا چالیس فیصد بھی اس پر عمل ہو رہا ہے جو ہم باتیں سنتے ہیں؟ صرف اگر ہم باجماعت نماز ہی کو لے لیں تو وہاں بھی ہمارے معیار بہت پیچھے ہیں۔ اگر ہم اپنا جائزہ لیں تو باوجود انصار اللہ کہلانے کے ہماری حالت قابل فکر ہے۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو ہر فرد جماعت سے اعلیٰ معیار چاہتے ہیں کجا یہ کہ ‘انصار اللہ’ کہلا کر اس طرف توجہ نہ دیں جو توجہ کا حق ہے۔
فرمایا کہ ہمارے نمونے ہی ہیں جو نوجوانوں کے لئے بھی صحیح سمت متعین کرنے والے ہوں گے۔ ہمارے نمونے ہی ہیں جو ہمارے بچوں کے لئے بھی رہنما ہوں گے۔ ہمارے نمونے ہی ہیں جو معاشرے میں تبدیلیاں لانے والے ہوں گے۔ ہمیں اپنی عبادتوں کے معیاروں کو بھی دیکھنا ہو گا، اپنے اخلاق کے معیاروں کو بھی دیکھنا ہو گا اور پھر عہدیداروں کو، ہر سطح کے عہدیداروں کو ایک حلقے کے عہدیدار سے لے کے ریجن کے عہدیدار سے لے کر مرکزی عہدیداروں تک اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ کیا جو انصار اللہ کا نام ہے ہم حقیقت میں اس نام کا پاس رکھ رہے ہیں، حقیقت میں اس کے مطابق اپنی زندگیاں گزار رہے ہیں؟ پس ہر ناصر خود اپنے جائزے لے سکتا ہے۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے کچھ اقتباسات اب پیش کرتا ہوں جو مزید ہمیں اس طرف توجہ دلاتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ
میں کھول کر کہتا ہوں کہ جب تک ہر بات پر اللہ تعالیٰ مقدم نہ ہو جاوے اور دل پر نظر ڈال کر وہ نہ دیکھ سکے کہ یہ میرا ہی ہے یعنی ایسا مقدم ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ خود یہ ذکر کرے کہ یہ بندہ جو ہے یہ میرا ہی ہے اور میرے احکام کی پیروی کر رہا ہے۔ اس وقت تک کوئی سچا مومن نہیں کہلا سکتا۔ ایسا آدمی تو آل یعنی عرف عام کے طور پر مؤمن یا مسلمان ہے۔ جیسے چوہڑے کو بھی مصلی یا مومن کہہ دیتے ہیں۔ فرماتے ہیں مسلمان وہی ہے جو اسلم وجھہ للہ کا مصدا ق ہو گیا ہو۔ وجہ منہ کو کہتے ہیں مگر اس کا اطلاق ذات اور وجودپر بھی ہوتا ہے۔ پس جس نے ساری طاقتیں اللہ کے حضور رکھ دیں ہوں وہی سچا مسلمان کہلانے کا مستحق ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ مجھے یاد آیا کہ ایک مسلمان نے کسی یہودی کو دعوت اسلام کی کہ تُو مسلمان ہو جا۔ مسلمان جو تھا وہ فرمایا کہ مسلمان تو خود فسق وفجور میں مبتلا تھا۔ برائیوں میں مبتلا تھا۔ یہودی نے اس فاسق مسلمان کو کہا کہ تو پہلے اپنے آپ کو تو دیکھ مجھے جو تبلیغ کر رہا ہے اور تو اس بات پر مغرور نہ ہو کہ تو مسلمان کہلاتا ہے۔ خدا تعالیٰ اسلام کا مفہوم چاہتا ہے نہ نام اور لفظ۔ پھریہودی نے اپنا قصہ بیان کیا اس مسلمان کو کہ میں نے اپنے لڑکے کا نام خالد رکھا تھا مگر دوسرے دن مجھے اسے قبر میں گاڑنا پڑا، فوت ہو گیا دوسرے دن۔ خالد کا مطلب ہے ہمیشہ رہنے والا۔ کہنے لگا کہ اگر صرف نام ہی میں برکت ہوتی تو وہ کیوں مرتا۔ اگر کوئی مسلمان سے پوچھتا ہے کہ کیا تُو مسلمان ہے؟ تو وہ جواب دیتے ہیںالحمد للہ لیکن صرف نام کے مسلمان۔ پس آپؑ نے اپنی جماعت کو فرمایا کہ تم نام کے مسلمان نہ بنو۔
( ماخوذ از ملفوظات جلد ۱ صفحہ 48 ،ایڈیشن 1988ء)
پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ یاد رکھو کہ صرف لفاظی اور لسّانی کام نہیں آ سکتی جب تک کہ عمل نہ ہو۔ محض باتیں عندا للہ کچھ بھی وقعت نہیں رکھتیں چنانچہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے:کَبُرَ مَقْتاً عِنْدَاللّٰہِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَالَا تَفْعَلُوْنَ۔
کہ اللہ کے نزدیک اس بات کا دعویٰ کرنا جو تم کرتے نہیں بہت ناپسندیدہ بات ہے۔
(ماخوذ از ملفوظات جلد 1 صفحہ 48،ایڈیشن 1988ء)
حضورِ انور نے فرمایا کہ پس ہمیں اس بات کے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ کیا ہمارے قول و فعل برابر ہیں۔ نحن انصار اللہ یعنی ہم اللہ کے انصار ہیں کا دعویٰ ہمارے عمل سے ثابت ہے یا نہیں؟ہم اسلام کو دنیا میں پھیلانے کا دعویٰ کرتے ہیں،اس کو پورا کرنے کے لئے ہماری اپنی کوشش اور حالت کیا ہے؟
پھر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اگر تم اسلام کی حمایت اور خدمت کرنا چاہتے ہو تو پہلے خود تقویٰ اور طہارت اختیار کرو جس سے خود تم خدا تعالیٰ کی پناہ کے حصن حصین میں آسکو اور پھر تمہیں اس خدمت کا شرف اور استحقاق حاصل ہو۔ اللہ تعالیٰ کی پناہ کے قلعہ میں آؤ۔ فرمایا کہ تم دیکھتے ہو کہ مسلمانوں کی بیرونی طاقت کیسی کمزور ہو گئی ہے۔ قومیں ان کو نفرت اور حقارت کی نظر سے دیکھتی ہیں۔ اگر تمہاری اندرونی اور قلبی طاقت بھی کمزور اور پست ہو گئی تو پھر تو خاتمہ ہی سمجھو۔ تم تو بڑے دعوے کرتے ہو ،مسلمانوں کی حالت تو آج کل تو اَور بھی زیادہ ظاہر ہو رہی ہے۔ فرمایا کہ اگر تم احمدی ہو کے بھی یہی رہے تو پھر تو خاتمہ ہی سمجھنا۔ فرمایا کہ تم اپنے نفسوں کو ایسے پاک کرو کہ قدسی قوت ان میں سرایت کرے اور وہ سرحد کے گھوڑوں کی طرح مضبوط اور محافظ ہو جائیں۔ اللہ تعالیٰ کا فضل ہمیشہ متقیوں اور راستبازوں ہی کے شامل حال ہوا کرتا ہے۔ اپنے اخلاق اور اطوار ایسے نہ بناؤ جن سے اسلام کو داغ لگ جاویں۔ بد کاروں اور اسلام کی تعلیم پر عمل نہ کرنے والے مسلمانوں سے اسلام کو داغ لگتا ہے۔ فرمایا کہ بدکاروں اور اسلام کی تعلیم پر عمل نہ کرنے والے مسلمان جو ہیں وہ تو اسلام کو داغ لگانے والے ہیں۔ فرمایا کوئی مسلمان شراب پی لیتا ہے تو کہیں قَے کرتا پھرتا ہے۔ پگڑی گلے میں ہوتی ہے۔ موریوں اور گندی نالیوں میں گرتا پھرتا ہے۔ پولیس کے جوتے پڑتے ہیں۔ ہندو اور عیسائی اس پر ہنستے ہیں۔ اس کا ایسا خلافِ شرع فعل اس کی تضحیک ہی کا موجب نہیں ہوتا بلکہ در پردہ اس کا اثر نفس اسلام تک پہنچتا ہے۔ ایک شخص کا عمل جو ہے وہ اسی تک محدود نہیں رہتا بلکہ اس کے اثرات پھر اسلام تک پہنچتے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں یہ مسلمان ہے دعویٰ یہ کرتا ہے عمل یہ کرتا ہے۔ فرمایا اپنی بداعتدالیوں سے صرف اپنے آپ کو نقصان نہیں پہنچاتے بلکہ اسلام پر ہنستی کرواتے ہیں۔ پس اپنے چال چلن اور اطوار ایسے بنا لو کہ کفار کو بھی تم پر جو درس اسلام پر ہوتی ہے نکتہ چینی کرنے کا موقع نہ ملے۔
(ماخوذ از ملفوظات جلد ۱ صفحہ 48 ایڈیشن 1988ء )
پھر اپنے اخلاق اور عملی حالتوں کو بہتر کرنے کی نصیحت فرماتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:
اگر تم چاہتے ہو کہ تمہیں فلاح دارَین حاصل ہو، ہمیشہ کی فلاح حاصل ہو، دونوں جہانوں کی فلاح حاصل ہو اور لوگوں کے دلوں پر فتح پاؤ تو پاکیزگی اختیار کرو ۔عقل سے کام لو اور کلام الٰہی کی ہدایات پر چلو۔ کلام الٰہی کی ہدایات پر چلنے کے لئے، ان کو حاصل کرنے کے لئے قرآن کریم کو پڑھنا ضروری ہے۔ اسے سمجھنا ضروری ہے۔ نہ صرف ترجمہ بلکہ تفسیر جاننا بھی ضروری ہے۔ فرمایا کہ خود اپنے تئیں سنوارو اور دوسروں کو اپنے اخلاق فاضلہ کا نمونہ دکھاؤ تب البتہ کامیاب ہو جاؤ گے۔ کسی نے کیا اچھا کہا ہے کہ ؎
سخن کزدل بروں آید نشیند لا جرم بردل
کہ دل سے نکلی ہوئی بات دل پر اثر کرتی ہے۔ پس فرمایا کہ پس پہلے دل پیدا کرو۔ اگر دلوں پر اثر اندازی چاہتے ہو تو عملی طاقت پیدا کرو کیونکہ عمل کے بغیر قولی طاقت اور انسانی قوت کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکتی۔ بڑی اہم بات ہے، فرمایا کہ عمل کے بغیر قولی طاقت اور انسانی قوت صرف باتیں یا کوئی اَور طاقت کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی۔ زبان سے قیل وقال کرنے والے تو لاکھوں ہیں۔ بہت سے مولوی اور علما کہلا کر منبروں پر چڑھ کر اپنے تئیں نائب الرسول اور وارث الانبیا قرار دے کر وعظ کرتے پھرتے ہیں ،کہتے ہیں کہ تکبراور غرور اور بد کاریوں سے بچو مگر جو ان کے اپنے اعمال ہیں اور جو کرتوتیں وہ خود کرتے ہیں وہ ایسی باتیں ہیں کہ اس سے تم اندازہ لگا سکتے ہو ان کی باتوں کا اثر نہیں ہوتا ان کے نصیحت کرنے والوں پر۔ اس لئے ہم میں سے ہر ایک کے لئے آپ نے فرمایا کہ تم نے اگر واعظ بننا ہے، تم نے اسلام کا پیغام پہنچانا ہے تو ہر ایک کو اپنے قول و فعل کو ایک کرنا ہو گا تا کہ پھر دنیا پر بھی ہم اپنا اثر قائم کر سکیں۔
(ماخوذ از ملفوظات جلد ۱ صفحہ 42 ایڈیشن 1988ء)
پھر آپؑ فرماتے ہیں اگر اس قسم کے لوگ عملی طاقت بھی رکھتے، جو یہ نصیحتیں کرتے ہیں اگر ان کی عملی طاقت بھی ہوتی اور کہنے سے پہلے خود کرتے تو قرآن شریف میں لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ کہنے کی کیا ضرورت پڑتی۔ یہ آیت بتلاتی ہے کہ دنیا میں کہہ کر خود نہ کرنے والے موجود ہیں اور ہوں گے لیکن جو اللہ تعالیٰ کی نصیحتوں پر عمل کریں گے ان کی اصلاح بھی ہو جائے گی۔
(ماخوذ از ملفوظات جلد 1 صفحہ 42ایڈیشن 1988ء )
حضورِ انور نے فرمایا کہ اپنی باتوں اور نصیحتوں پر عمل کرنے اور عقل اور کلام الٰہی سے کام لینے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ
میری یہ باتیں اس لئے ہیں کہ تا تم جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہو اور اس تعلق کی وجہ سے میرے اعضا ہو گئے ہو ان باتوں پر عمل کرو اور عقل اور کلام الٰہی سے کام لو تا کہ سچی معرفت اور یقین کی روشنی تمہارے اندرپیدا ہو اور تم دوسرے لوگوں کو ظلمت سے نور کی طرف لانے کا وسیلہ بنو۔ اس لئے کہ آج کل اعتراضوں کی بنیاد طبیعی اور طبابت اور ہیئت کے مسائل کی بناء پر ہے۔ اس لئے لازم ہواکہ ان علوم کی ماہیت اور کیفیت سے آگاہی حاصل کریں تا کہ جواب دینے سے پہلے اعتراض کی حقیقت تو ہم پر کھل جائے۔
(ماخوذ از ملفوظات جلد ۱ صفحہ 43 ایڈیشن 1988ء)
حضورِ انور نے فرمایا کہ آپ علیہ السلام نے بارہا نصیحت فرمائی کہ جو آپ علیہ السلام کی باتوں پر عمل کرنے و الوں سے خدا تعالیٰ کا ترقی کا وعدہ ہے۔ آپؑ نے یہ نہیں فرمایا کہ میرے ماننے والے علم و معرفت میں ترقی کریں گے بلکہ فرمایا یہ ان سے وعدہ ہے جو عمل کرنے والے ہیں نہ کہ ہر ایک جو کہے کہ میں مسیح موعودؑ کی بیعت میں آ گیا ہوں اور عمل نہیں ہے۔ اس سے وعدہ ہرگز نہیں ہے۔ اگر عمل نہیں تو وعدہ بھی پورا نہیں ہو گا۔ ایک جگہ اس بات کو بیان فرماتے ہوئے آپؑ نے فرمایا کہ
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے وَجَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ یہ تسلی بخش وعدہ ناصرہ میں پیدا ہونے والے ابن مریم سے ہوا تھا مگر میں تمہیں بشارت دیتا ہوں کہ یسوع مسیح کے نام سے آنے واے ابن مریم کو بھی اللہ تعالیٰ نے انہی الفاظ میں مخاطب کر کے بشارت دی ہے۔ آپؑ نے فرمایا کہ اب آپ سوچ لیں کہ جو میرے ساتھ تعلق رکھ کر اس وعدہ عظیم اور بشارت عظیم میں شامل ہونا چاہتے ہیں کیا وہ وہ لوگ ہو سکتے ہیں جو امارہ کے درجے میں پڑے ہوئے فسق وفجور کی راہوں پر کار بند ہیں؟ جن کے دل انہی چھوٹی چھوٹی، چھوٹی برائیوں اور بڑی برائیوں میں مبتلا ہیں ان کی اصلاح نہیں ہو رہی۔ فرمایا نہیں، ہر گز نہیں۔ فرمایا کہ یہ وعدہ تو ان لوگوں کے ساتھ ہے جو اللہ تعالیٰ کے اس وعدہ کی سچی قدر کرتے ہیں اور میری باتوں کو قصہ کہانی نہیں جانتے۔ آپ فرماتے ہیں یاد رکھو اور دل سے سن لوکہ اگر اس بشارت سے حصہ لینا چاہتے ہو کامیابی اس وقت تک حاصل نہ ہو گی جب تک لوامہ کے درجہ سے گزر کر مطمئنہ کے مینار تک نہ پہنچ جاؤ۔ اپنی نیکی اور تقویٰ کے معیار کو تمہیں بڑھانا ہو گا، اللہ تعالیٰ سے خاص تعلق ہمیں پیدا کرنا ہو گا۔ یہ نہیں کہ کوئی کہ پانچ نمازیں بھی وقت پر نہ پڑھ سکیں اور اپنے کام کی مصروفیت کا بہانہ ہم کر دیں۔ آپؑ فرماتے ہیں اس سے زیادہ اَور میں کچھ نہیں کہتا کہ تم لوگ ایک ایسے شخص کے ساتھ پیوند رکھتے ہو جو مامور من اللہ ہے۔ پس اس کی باتوں کو دل کے کانوں سے سنو اور اس پر عمل کرنے کے لئے ہمہ تن تیار ہو جاؤ تا کہ ان لوگوں میں سے نہ ہو جاؤ جو اقرار کے بعد انکار کی نجاست میں گر کر ابدی عذاب خرید لیتے ہیں۔
(ماخوذ از ملفوظات جلد ۱ صفحہ 64-65 ایڈیشن 1988ء)
ایک موقع پر اس طرف توجہ دلاتے ہوئے کہ ہر احمدی کو تقویٰ کی راہ اختیار کرنی چاہئے کیونکہ یہ شریعت کا خلاصہ ہے آپؑ فرماتے ہیں
چاہئے کہ تقویٰ کی راہ اختیار کریں کیونکہ تقویٰ ہی ایک ایسی چیز ہے جس کو شریعت کا خلاصہ کہہ سکتے ہیں اور اگر شریعت کو مختصر طور پر بیان کرنا چاہیں تو مغزِ شریعت تقویٰ ہی ہو سکتا ہے۔ تقویٰ کے مدارج اور مراتب بہت ہیں لیکن اگر طالبِ صادق ہو کر ابتدائی مراتب اورمراحل کو استقلال اور خلوص سے طَے کرے تو وہ اس راستی اور طلبِ صدق کی وجہ سے اعلیٰ مدارج کو پا لیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّمَا یَتَقَبَّل اللّٰہُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَگویا اللہ تعالیٰ متقیوں کی دعائوں کو قبول فرماتا ہے۔ یہ گویا اس کا وعدہ ہے اور اس کے وعدوں میں تخلف نہیں ہوتا۔ جیسا کہ فرمایا ہے۔ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُخْلِفُ الْمِیْعَادپس جس حال میں تقویٰ کی شرط قبولیت دعا کے لیے ایک غیر منفک شرط ہے تو ایک انسان غافل اور بے راہ ہو کر اگر قبولیت دعا چاہے تو کیا وہ احمق اور نادان نہیں ہے۔ فرمایا لہٰذا ہماری جماعت کو لازم ہے کہ جہاں تک ممکن ہو ہر ایک ان میں سے تقویٰ کی راہوں پر قدم مارے تاکہ قبولیت دعا کا سرور اور حظّ حاصل کرے اور زیادتی ایمانی کا حصہ لے۔
(ماخوذ از ملفوظات جلد ۱ صفحہ 68ایڈیشن 1988ء)
پھر تزکیہ نفس اور تقویٰ اختیار کرنے کے بارے میں آپؑ فرماتے ہیں کہ
اللہ تعالیٰ نے جس قدر قویٰ عطا فرمائے ہیں وہ ضائع کرنے کے لئے نہیں دیے گئے۔ ان کی تعدیل اور جائز استعمال کرنا ہی ان کی نشوونما ہے۔ اسی لئے اسلام نے قوائے رجولیت یا آنکھ کے نکالنے کی تعلیم نہیں دی بلکہ ان کا جائز استعمال اور تزکیہ نفس کروایا ہے جیسے فرمایا قد افلح المؤمنون اور ایسے ہی یہاں بھی فرمایا ہے۔ متقی کی زندگی کا نقشہ کھینچ کر آخر میں بطور نتیجہ یہ کہا ہے کہ واولئک ھم المفلحون۔ یعنی وہ لوگ جو تقویٰ پر قدم مارتے ہیں ایمان بالغیب لاتے ہیں۔ نماز ڈگمگاتی ہے پھر اسے کھڑا کرتے ہیں خدا کے دئیے ہوئے سے دیتے ہیں باوجود خطرات نفس بلا سوچے سمجھے گذشتہ اور موجودہ کتاب اللہ پر ایمان لاتے ہیں اور آخر کار وہ یقین تک پہنچ جاتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جو ہدایت کے سر پر ہیں وہ ایک ایسی سڑک پر ہیں جو برابر آگے کو جا رہی ہے۔ پس یہی لوگ فلاح یاب ہیں جو منزل مقصود تک پہنچ جائیںگے اور راہ کے خطرات سےنجات پا چکے ہیں اس لئے شروع میں اللہ تعالیٰ نے ہم کو تقویٰ کی تعلیم دے کر ایک ایسی کتاب ہم کو عطا کی جس میں تقویٰ کے وصایا بھی دئیے ہیں سو ہماری جماعت یہ غم کل دنیوی غموں سے بڑھ کر اپنی جان پر لگائے۔ یعنی تقویٰ حاصل کرنے کا غم، اللہ تعالیٰ سے ملنے کا غم ۔غم سے مراد ہے فکر۔
(ماخوذ از ملفوظات جلد ۱صفحہ 22 ایڈیشن 1988ء)
حضورِ انور نے فرمایا کہ پس یہ یقین پیدا کرنا ہو گا جو آگے تک لے جاتا چلا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کی ذات پر یقین ہو گا۔ ایمان بالغیب کرنا ہو گا جس سے آدمی فلاح تک پہنچتا ہے، پھر کامیابیاں حاصل ہو جائیںگی ۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمیں اپنے جائزے لینے کی طرف توجہ دلا رہے ہیں۔
اس کے بعد حضورِ انور نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات پڑھ کر سنائے جن سے متقیوں کی نشانیوں کا پتہ لگتا ہے۔ ان ارشادات کے مطابق اہل تقویٰ کے لئے شرط ہے کہ وہ اپنی زندگی غربت اور مسکینی میں بسر کریں۔ یہ تقویٰ کی ایک شاخ ہے جس کے ذریعہ سے ہمیں ناجائز غضب کا مقابلہ کرنا ہے۔ بڑے بڑے عارف اور صدیقوں کے لئے آخری اور کڑی منزل غضب سے بچنا ہی ہے۔ عجب و پندار غضب سے پیدا ہوتا ہے،نخوت یا تکبر اور غرور یہ غضب سے پیدا ہوتا ہے اور ایسا ہی خود غضب عجب و پندار کا نتیجہ ہوتا ہے کیونکہ غضب اس وقت ہو گا جب انسان اپنے نفس کو دوسرے پر ترجیح دیتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ میری جماعت والے ایک دوسرے کو چھوٹا یا بڑا نہ سمجھیں، ایک دوسرے کو حقارت سے نہ دیکھیں، ایک دوسرے کے نام نہ رکھیں۔ اللہ کے نزدیک بڑا اور معزّز وہ ہے جو متقی ہے۔
(ماخوذ از ملفوظات جلد ۱ صفحہ 22-23 ایڈیشن 1988ء)
پھر حضورِ انور نے حضرت مسیح موعودؑ کے ارشادات کے حوالے سے بیان فرمایا کہ سچی فراست اور سچی دانش اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کئے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی۔اوراللہ کی طرف رجوع اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک تقویٰ میسّر نہ ہو۔پس تقویٰ ہو گا تو دینی علوم کے ساتھ دنیوی علوم کے بھی راستے کھلیں گے۔ اللہ تعالیٰ ان کے بھی راستے دکھائے گا۔ ان کا بھی ادراک حاصل ہو گا اور اس سے پھر علم و معرفت میں بھی ترقی ہو گی۔
حضورِ انور نے راستبازی اور تقویٰ کی طرف توجہ دلانے والے ارشادات حضرت اقدسؑ پیش فرمائے۔ اور پھرحضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی حکمتیں بیان فرمائیں۔کہ کس طرح اسلام کے خلاف دشمن سازشیں کر رہا تھا۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ فی زمانہ تو صرف کتابیں نہیں بلکہ ہر قسم کے میڈیا کے ذریعہ سے اسلام کو بدنام اور ختم کرنے کے لئے کوششیں کی جا رہی ہیں۔ اس لئے اب ہماری سب سے بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ اسلام کو سمجھیں اپنی حالتوں کو بہتر کریں اور اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کریں اور حقیقی اسلام دنیا کو دکھانے کے لئے میدان میں اتریں۔
پھر حضورِ انور نے ارشادات عالیہ حضرت اقدس مسیح موعودؑ سے اپنے اخلاق کو عمدہ اور اعلیٰ معیار پر لے جانے اور توبہ اور عبادت کی طرف توجہ دلانے والے نصائح پر مبنی ارشادات پیش فرمائے۔
حضورِ انور نے خاص طور پر انصاراللہ سے مخاطب ہوتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک ارشاد پیش فرمایا کہ:
راتوں کو اٹھواور دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ تم کو اپنی راہ دکھلائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے بھی تدریجاً تربیت پائی۔ وہ پہلے کیا تھے ،ایک کسان کی تخمریزی کی طرح تھے پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آبپاشی کی آپ نے ان کے لیے دعائیں کیں۔ بیج صحیح تھا اور زمین عمدہ تو اس آبپاشی سے پھل عمدہ نکلا جس طرح حضور علیہ السلام چلتے اسی طرح وہ چلتے۔ وہ دن کا یارات انتظار نہ کرتے تھے۔ تم لوگ سچے دل سے توبہ کرو تہجد میں اٹھو دعا کرو دل کو درست کرو کمزوریوں کوچھوڑ دو اور خدا تعالیٰ کی رضا کے مطابق اپنے قول وفعل کوبنائو۔ یقین رکھو کہ جو اس نصیحت کو ورد بنائے گا اور عملی طور پر دعا کرے گا اور عملی طور پر التجا خدا کے سامنے لائیگا اللہ تعالیٰ اس پر فضل کرے گا اور اس کے دل میں تبدیلی ہو گی۔ خدا تعالیٰ سے ناامیدمت ہو؎
برکریماںکا رہا دشوار نیست
کہ نیک لوگوں کے لئے کوئی بھی کام مشکل نہیں ہوتا۔
(ماخوذ از ملفوظات جلد ۱ صفحہ 28ایڈیشن 1988ء )
حضورِ انور نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعودؑ نے پھر بڑے درد سے نصیحت کرتے ہوئے اور آخرت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا:
پس میں پھر پکار کر کہتا ہوں اور میرے دوست سن رکھیں کہ وہ میری باتوں کو ضائع نہ کریں اور ان کوصرف ایک قصہ گویا داستان کی کہانیوں ہی کا رنگ نہ دیں بلکہ میں نے یہ ساری باتیں نہایت دل سوزی اور سچی ہمدردی سے جو فطرتاً میری روح میں ہے کی ہیں۔ ان کو گوش دل سے سنو اور ان پر عمل کرو۔ہاںخوب یاد رکھو اور اس کو سچ سمجھو کہ ایک روز اللہ کے حضور جانا ہے۔ پس اگر ہم عمدہ حالت میں یہاں سے کوچ کرتے ہیں تو ہمارے لئے مبارکی اور خوشی ہے ورنہ خطر ناک حالت ہے۔
(ماخوذ از ملفوظات جلد ۱ صفحہ 90ایڈیشن 1988ء )
حضورِ انور نے فرمایا کہ انصار کی عمر تو ایسی ہوتی ہے کہ ان کو تو بڑی فکر رہنی چاہئے۔ فرمایا
یاد رکھو کہ جب انسان بری حالت میں جاتا ہے تو مکان بعید اس کے لئے یہیں سے ہی شروع ہو جاتا ہے یعنی نزع ہی کی حالت ہی سے اس میں تغیر شروع ہو جاتا ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہےانہ من یات ربہ مجرما فا ن لہ جھنم لا یموت فیھا ولا یحی۔ یعنی جو شخص مجرم بن کر آوے گا اس کے لئے ایک جہنم ہے جس میں نہ مرے گا اور نہ ہی زندہ رہے گا۔ یہ کیسی صاف بات ہے۔ اصل لذت زندگی کی راحت اور خوشی ہی میں ہے۔ بلکہ اسی حالت میں وہ زندہ متصور ہوتا ہے جبکہ ہر طرح کے امن و امان میں ہو۔ اگر وہ کسی درد مثلاً قولنج یا درد دانت ہی میں مبتلا ہو جاوے تو وہ مردوں سے بد تر ہوتا ہے اور حالت ایسی ہوتی ہے کہ نہ تو مردہ ہی ہوتا ہے اور نہ ہی زندہ کہلا سکتا ہے۔ پس اس پر قیاس کر لو اسی کو سامنے رکھو جو ظاہری بیماریاں دنیا میں ہوتی ہیں اسی کو سامنے رکھ کر دیکھو کہ جہنم کے درد ناک عذاب میں کیسی بری حالت ہو گی۔
(ماخوذ از ملفوظات جلد ۱ صفحہ90ایڈیشن 1988ء)
اپنے خطاب کے آخر میں حضورِ انور نے فرمایا کہ
اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کی نصائح پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آپؑ کی خواہشات کے مطابق آپ کی بیعت میں آنے کا حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے حکموں پر عمل کرتے ہوئے ہم اپنی دنیا و آخرت سنوارنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حقیقی انصار اللہ بننے اور اپنی نسلوں کے لئے نیک نمونے چھوڑ کر جانے کی توفیق عطا فرمائے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کو ہم حاصل کرنے والے ہوں۔ اب دعا کر لیں۔ (دعا)
دعا کے بعد حضورِ انور نے انصار اللہ اور پھر لجنہ اماء اللہ کے اجتماع کی حاضری کے بارے میں فرمایا کہ
انصار کی کُل حاضری 3107 ہے،مہمان 1515 ہیں اور اس طرح اس وقت یہاں کل حاضری 4622ہے۔یہ حاضری پچھلے سال سے زیادہ ہے۔پھر فرمایا کہ اس وقت لجنہ کی حاضری 5822 ہے اور پچھلے سال سے یہ بھی زیادہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے لجنہ نے بھی کافی کام کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نیکیوں میں بھی آگے بڑھنے کی ہم سب کو توفیق عطا فرمائے۔ السلام علیکم ورحمة اللہ۔
٭…٭…٭
Excellent