امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا دورۂ جرمنی 2019ء (8؍ جولائی)
جارجیا، البانیا اور لٹویا کے وفود کی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ الگ الگ ملاقاتیں
……………………………………………
08؍جولائی2019ءبروزسوموار(حصہ دوم)
……………………………………………
٭ بعدازاں پروگرام کے مطابق جارجیا سے آنے والے وفد کی حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سےملاقات شروع ہوئی۔
امسال 85 ؍افراد پرمشتمل وفد جلسہ سالانہ جرمنی میں شامل ہوا۔
٭ رشیا کے کسی بھی ملک سے آنے والا یہ سب سے بڑا وفد تھا۔
وفد کے ممبران نے عرض کیاکہ حضورانور نے جلسہ کے تین دنوں میں اپنے ایڈریسز میں جو پیغامات دیے ہیں ہم اس پر حضورانور کا شکریہ اداکرتے ہیں۔
٭ جارجیا سے ممبر پارلیمنٹ Sergio Rathiani بھی اس پروگرام میں شریک تھے۔ یہ ایک یونیورسٹی میں پروفیسر بھی ہیں۔
جواد احمد بٹ صاحب مربی سلسلہ جارجیا نے بیان کیاکہ حضور انور کی غیر احمدی مہمانوں سے تقریر کے دوران مہمان خاکسار کو باربار اشارہ کرکے کہہ رہے تھے کہ کیا ہی عمدہ تقریر ہے۔کہتے ہیں کہ حضورِ انور نے to the pointبات کی۔ انہوں نے بہت خوشی کا اظہار کیا کہ ایسی تقریر بہت کم سننے میں ملتی ہے۔یہی سیاستدان حضور انور کو ملنے کے بعد بہت خوش تھے اورباربار اقرار کررہے تھے کہ حضور انور کوچھوٹے سے ملک جارجیا کے بارے میں بھی بہت معلومات ہیں ۔
کہتے ہیں کہ اسلام کا مطلب ہی امن ہےاور امن پھیلانا آپ کی جماعت کااہم ترین مقصدہے۔بہت خوشی ہے کہ جماعت امن کے پیغام کو پھیلا رہی ہے۔جماعت کی انتظامیہ اور مہمان نوازی بہت عمدہ تھی ۔ کسی قسم کی کوئی بد نظمی نہیں اور ہر چیز اپنے معینہ وقت پر ہورہی ہے۔
٭ ایک خاتون نے عرض کیاکہ ہمیں خلیفۃ المسیح سے مل کر بہت خوشی ہوئی ہے۔ انتظامیہ نے جلسہ کو بہت اچھا آرگنائز کیاتھا۔ ہر کام اپنے وقت پر ہورہاتھا۔ بہت مؤثر پیغام تھا۔ اتحاد و سلامتی کا پیغام تھا۔ اسی کی ہمیں ضرورت ہے۔ 40 ہزار لوگ تھے لیکن سب میں مکمل اتحادتھا۔ خواتین کا علیحدہ سیکشن تھا۔ بہت اچھا آرگنائز تھا۔ آج ہم نے سب کو اپنی آنکھوں سے دیکھاہے۔ نوجوان نسل نے ہمیں بہت متاثر کیاہے۔
٭جارجیا سے دو خواتین Laura Gamkrelitdze اور Lika صاحبہ دوسری مرتبہ جلسہ میں شامل ہوئی ہیں۔ اختتامی تقریب سے پہلے ان کی طبیعت خراب ہوگئی اور ہسپتال جانا پڑا۔ بیماری کی حالت میں جب پتہ چلا کہ سوموار کو جارجیا کے وفد کی حضورِ انور سے ملاقات ہے تو کہنے لگیں کہ وہ ضرورملاقات کے لیے جائیں گی اور پھرکمزوری اوربیماری کے باوجود ملاقات کے لیے آئیں۔
یہ کہتی ہیں کہ جب وہ پہلی مرتبہ جلسہ پر آئیں تو بہت حیران ہوئیں اور اب ایک مرتبہ پھر شمولیت کے بعد یہ یقین ہو گیا ہے کہ عورت کو جو مقام اسلام دیتا ہے وہ دیگر مذاہب اور مغربی معاشرے سے بہت بلند ہے۔
٭ جارجیا کےوفد میں دینی علوم کی طالبہ Nanuka Zumbululidze بھی شامل تھیں۔بیعت کی تقریب کے حوالہ سے یہ اپنے جذبات بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ بیعت کی تقریب جذبات سے بھرپورتھی۔ مجھے مذہبی اتحاد کاایک نظارہ دیکھنے کو ملا اور معلوم ہوا کہ کس طرح مختلف رنگ ونسل کے لوگ امن کے ساتھ اکٹھے رہ سکتے ہیں۔میں دینی علم حاصل کررہی ہوں۔جلسہ پر پہلی مرتبہ آئی ہوں اور میرا یقین ہے کہ یہ جلسہ امن کے حصول کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔
٭ ایک مہمان نے عرض کیاکہ میں پہلی دفعہ آیاہوں۔ کانفرنس میں بہت سے لوگوں سے ملاہوں۔ سب ہی بہت خوش تھے۔ خلیفۃ المسیح نے امن پر بات کی اور امن کے پیغامات دیے۔ ہم نے جلسہ میں دیکھاکہ لوگ اپنے ایمان میں ، روحانیت میں بڑھ رہے ہیں۔ ہر احمدی امن کے قیام کے لیےکوشاں نظرآیا۔
موصوف نے آخر پر دعاکی درخوست کی۔
حضورانور نے فرمایاکہ آپ کے تبصرہ کا شکریہ۔جزاک اللہ۔
٭ ایک مہمان خاتون نے عرض کیاکہ میں نے اسلام کے بارہ میں بہت لکھاہے۔ میں نے ‘اسلام میں عورت کے مقام’ پر بہت ریسرچ کی ہے۔ اور میں نے کئی کانفرنسز attend کی ہیں۔ یہاں کے تین دن میرے لئے بہت متاثر کن تھے۔ حضورانور کے خطابات نے بہت اثر ڈالاہے۔ عورتوں کی طرف بھی سب کچھ بہت اچھاتھا۔ میں نے بہت سے سوالات کیے جن کے جوابات مجھے دیے گئے۔
حضورانور نے فرمایاکہ آپ ہمارالٹریچر پڑھیں۔یوکے میں ایک پروفیسر اپنے آپ کو اسلام پر authentic سمجھتا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ کیا آپ نے اسلامی تعلیمات پڑھی ہیں؟ کیا آپ نے ‘اسلامی اصول کی فلاسفی’ پڑھی ہے اور اس طرح دیگر کتب پڑھی ہیں؟ اس نے جواب دیا کہ نہیں پڑھیں۔ اس پر میں نے اس کو کہاکہ آپ کو اسلام کا پوری طرح پتہ نہیں ہے۔ چنانچہ کچھ عرصہ بعد دوبارہ ملا تو بتایاکہ میں نے اسلام کے حوالہ سے کافی پڑھاہے۔ اب میں اسلام پر ایک chapter نہیں بلکہ پوری کتاب لکھوں گا اور قادیان، ربوہ بھی جاؤں گا۔ چنانچہ اس نے Islam in British Empireکے عنوان سے کتاب لکھی۔
حضورانور نے موصوفہ مہمان خاتون سے فرمایاکہ آپ بھی جماعت کے لٹریچر کا مکمل گہرائی سے مطالعہ کریں۔
حضورانور نے فرمایاکہ ہمارا کام مشنری ورک ہے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایاتھاکہ آخری زمانہ میں ایک ریفارمر، ایک مصلح مسیح اور مہدی کے نام کیساتھ آئے گا اور وہ آنے والا موسوی مسیح کے قدموں پر آئے گا۔ چنانچہ نبی کریم ﷺ کی پیشگوئی کے مطابق چودہویں صدی میں حضرت مرزاغلام احمدعلیہ السلام قادیان میں مبعوث ہوئے اور اسلامی تعلیمات کا احیائے نو کیا اور ساری دنیا کے سامنے اسلام کی حقیقی اور سچی تعلیمات پیش کیں۔
حضورانور نے فرمایا: ہم اس وقت ساری دنیا میں ، جارجیا میں ، یورپ میں ، افریقہ ، امریکہ، ایشیا، آسٹریا اور جزائر میں اسلام کی حقیقی تعلیمات پھیلارہے ہیں۔ جو چاہے قبول کرے جو چاہے نہ کرے۔ ہماراپیغام کھلا ہے، ظاہر ہے۔ اگر کوئی قبول کرے تو ٹھیک ہے اگر نہ بھی کرے تب بھی ہم بحیثیت انسان اس کو خوش آمدید کہیں گے۔ خواہ اس کا کوئی بھی مذہب ہو۔
٭ مشرقی علوم کے طالبِ علم Giga Gigauri بھی اس وفد میں شامل تھے۔ یہ کہتے ہیں: لوگ بہت ہمدرد تھے جس کی وجہ سے میں یہاں ہوں۔بیعت کی تقریب کو میں ایک زائر کے طور پر دیکھ رہا تھا۔ میرے پاس الفاظ نہیں کہ میں اپنے جذبات کا اظہار کرسکوں۔ لوگوں کا اس رنگ میں اکٹھا ہونا ایک شاندار امر ہے۔
٭ ایک فلاحی ادارے سے منسلک وکیل Mary بھی جلسہ میں شریک ہوئیں۔ انہوں نے اپنے خیالات کا اظہارکرتے ہوئے کہاکہ اس جلسہ کا مقصد امن کا قیام اور ایک دوسرے کے ساتھ رواداری اور بھائی چارہ کے ساتھ رہنا ہے۔اسی وجہ سے یہ جماعت آگے بڑھ رہی ہے۔یہ وہ چیزیں ہیں جو دیگر جماعتوں میں دیکھنے کو نہیں ملتیں۔نظر آتا ہے کہ یہ جماعت سخت محنت کررہی ہے اور کامیابی حاصل کررہی ہے۔
٭ جارجیا سے ایک غیر مسلم مہمان نے عرض کیا: مجھے جلسہ پر بہت سے لوگوں کے ساتھ بات کرنے کا موقع ملا۔ میں بہت خوش ہوں کہ میرے بہت سے نئے دوست بنے ہیں۔
٭ ایک مہمان نے عرض کیا کہ میں جارجیا میں مسلم کمیونٹی کا ممبر ہوں اور وہاں امام بھی ہوں۔ یہاں کا ہر انتظام بہت اچھا تھا۔
اس پر حضورانور نے فرمایا: یہاں کوئی پولیس نہ تھی۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ مسلمان جب بڑی تعداد میں جمع ہوں تو پر امن ہوکر اکٹھے نہیں بیٹھ سکتے لیکن یہاں چالیس ہزار لوگ بڑے پر امن طریقے سے بیٹھے تھے۔
موصوف نے عرض کیا کہ جلسہ کے انتظامات کا بہت اعلیٰ معیار تھا۔ بڑا اچھا انتظام تھا۔
حضورانور نے فرمایاکہ ہمارا مشن یہ ہے کہ سب ایک بھائی کی طرح رہیں۔ امن وسلامتی ہو اور اس کے لیے ہم کوشاں ہیں۔ احمدیہ کمیونٹی اس پر کام کررہی ہے۔
٭ ایک اور خاتون وکیل Salome بھی جارجیا کے وفد میں شامل تھیں۔ انہوں نے عرض کیا؛مجھے خوشی ہے کہ اس تقریب میں مختلف ملکوں سے مقررین شامل ہوئے اور مجھے خوشی ہے کہ ایک مقرر جارجیا کےسیاستدان تھے جس سے جارجیا کی نمائندگی ہوئی۔
٭ ایک خاتون نے کہا؛میں اور میرے کچھ ساتھی خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کی کتاب Islam’s Response to Contemporary Issues کا جارجین زبان میں ترجمہ کریں گے اور اس کے بعد ایک کانفرنس مقرر کرکے اس کتاب کا تعارف کروائیں گے اورجماعت احمدیہ کے عقائد اور تعلیمات پر تبادلہ خیال کروائیں گے۔
٭ ایک خاتون Nana Kurdiani صاحبہ نے عرض کیا؛ میں نہ تو مسلمان ہوں اور نہ ہی عیسائی ہوں لیکن اس جلسہ پرآنے کے بعد میں اپنے آپ کو اسلام کی طرف جھکا ہوا دیکھتی ہوں۔میں یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ میں اپنے مذہب کے بارے میں کچھ فیصلہ کروں۔
٭ ایک اور خاتون نےحضورِ انور کے خطاب کے حوالہ سے عرض کیا ؛میں اس بات پر یقین رکھتی ہوں کہ حضورِ انور نہایت ذہین اور وسیع النظر انسان ہیں۔آپ دور اندیش ہیں اور اُس کے مطابق آپ تیاری کرتے ہیں۔
٭ ایک فلاحی ادارے کے چیئرمین Besso صاحب نے بیان کیا؛بہت سے احمدی احباب سے بات کرنے کاموقع ملا اور میں نے اس بات چیت میں یہ جائزہ لینے کی کوشش کی کہ یہ جماعت کس قدر مذہبی رواداری کا خیال رکھنے والی ہے۔ اس غرض سے دواحمدیوں سے بات چیت کے دوران میں نے انہیں اچانک بتایا کہ میں مسلمان نہیں ہوں بلکہ عیسائی ہوں۔ میراخیال تھاکہ یہ جان کر ان لوگوں کا رویہ بدل جائے گا۔ لیکن میں بہت حیران ہواکہ احمدی دوست جس طرح پہلے خوش اخلاقی سے بات کررہے تھے اُسی طرح اپنے اخلاق کا اظہار کرتے رہے اور کسی قسم کے تعصب کا اظہار نہیں کیا۔
٭ گزشتہ سال جارجیا کی یونیورسٹی کے پانچ طلبہ وطالبات جلسہ سالانہ جرمنی میں شامل ہوئے تھے۔امسال بھی یہ لوگ جلسہ میں شریک تھے ۔ انہوں نے بیان کیا؛ ہمیں ایسا لگا جیسے ہم دوبارہ اپنی فیملی کے پاس واپس آگئے ہیں۔گزشتہ سال جلسہ سالانہ پر جب یہ طلباء تشریف لائے تھے تو ہر ایک نے اپنے لیے ایک موضوع مقرر کیا تھا جس پر جلسہ سالانہ جرمنی کے دوران انہوں نے تحقیق کرنی تھی۔مثلاً اسلام میں عورت کے حقوق وغیرہ۔جلسہ سے واپس جانے کے بعد انہوں نے اسلام سے متعلق ان موضوعات پرمربی صاحب کی موجودگی میں یونیورسٹی میں ایک تفصیلی پروگرام منعقد کیا۔
٭ جارجیا سے آنے والے ایک مہمان نے عرض کیاکہ میں ایران سے ہوں۔ میری بیک گراؤنڈ شیعہ ہے۔ کانفرنس میں خلیفۃ المسیح نے جو بھی فرمایاہے میں ہر بات سے اتفاق کرتاہوں۔
اس پر حضورانور نے فرمایا :قرآن کریم کہتاہے کہ ‘لااِکرَاہَ فی الدِّین ’کہ مذہب میں کوئی جبر نہیں ہے۔
حضورانور نے فرمایا:مسلمان پرامن ہیں اور ہم سب پر اسلام کا حقیقی پیغام پھیلانا فرض ہے۔ قرآن کریم نے سب مذاہب کو ایک ہی بات پر اکٹھاہونے کاپیغام دیا ہے۔ ‘تَعَالَوا اِلیٰ کلمۃ سواء بیننا و بینکم۔’ یعنی ایسے پوائنٹ پر اکٹھے ہوجاؤ جو سب میں مشترکہ ہے اور وہ خدا تعالیٰ کی ہستی ہے۔
حضورانور نے فرمایاکہ اسلام میں 73 فرقے ہیں۔ یہودیت میں بھی فرقے ہیں۔ شیعہ لوگ ہیں ، ان کے آگے اپنے کئی فرقے ہیں تو اس طرح مذاہب آگے بٹے ہوئے ہیں۔
حضورانور نے فرمایا: آسٹریلیا میں ایک جگہ ایک میٹنگ تھی ۔ وہاں عیسائی چرچ کےلوگوں سے اسلام کے فرقوں کے حوالہ سے بات ہوئی تو ایک دوست کہنے لگے کہ ہم تین مختلف چرچز کے لوگ یہاں بیٹھے ہیں۔ یہاں ہم ایک ہیں لیکن باہر جاکر ہم علیحدہ علیحدہ ہوں گے۔
حضورانور نے فرمایا کہ اگر آپ انسانی اقدار کو سمجھیں گے اور ایک دوسرے کی قدروں کو سمجھیں گے تو تب خدا تعالیٰ کو بھی پہنچانیں گے۔
اس پر موصوف نے عرض کیاکہ میں حضورانور کی اس بات سے اتفاق کرتاہوں۔
٭ جارجیا کے ایک غیر مسلم مہمان نے اِس بات کا اظہار کیا کہ وہ ایشین لوگوں اور خصوصاً مسلمانوں سے خوف رکھتے تھے اوریہ اُمید نہیں رکھتے تھے کہ یہاں لوگ اس قدر پُر امن اورمہمان نواز ہونگے۔یہ کہتے ہیں کہ رَش میں بھی لوگوں کو ایک دوسرے کو دھکیلتے ہوئے یا ایک دوسرے پر چلاتے ہوئے نہیں دیکھا۔انہی اخلاق کی بدولت آپ کی جماعت اس قدر مضبوط ہے۔
٭ جارجیا سے یونیورسٹی کا ایک طالبِ علم Georgio Rashwadze بھی جلسہ میں شریک ہوا۔ یہ ایک امام کا بھتیجا ہے، جو کہ گذشتہ سال جلسہ میں شریک ہوئے تھے۔ ان امام صاحب نے جلسہ سے واپس جاکر جلسہ پر جانے کی تلقین کی۔ یہ طالبِ علم کہتے ہیں کہ
میں برائے نام مسلمان ہوں لیکن اب جلسہ پر شامل ہوکرامام جماعت احمدیہ کی محبّت کو دیکھ کر میں جماعت احمدیہ کے بارہ میں مزید مطالعہ کروں گا۔
جلسہ پر ان کا موبائل گم ہوگیا تھا۔جب فون کیا تو کسی احمدی نے اُٹھایا اورپھر اس طرح موبائل واپس مل گیا ۔ جس کا ان پر بہت اچھا اثر پڑا کہ وہ اس جماعت میں ہر طرح محفوظ ہیں۔
٭ جارجیا سے ایک وکیل اور یونیورسٹی لیکچرار Temor Shengelaya پہلی مرتبہ جلسہ میں شامل ہوئےاور بہت متاثر ہوئے۔ بیعت کی تقریب کے بعد باربار کہتے رہے کہ یہ ایک معجزہ ہے، یہ ایک معجزہ ہے۔
کہنے لگے کہ جماعت میں باہمی محبت بہت زیادہ ہے۔ بالخصوص میں نے مشاہدہ کیا ہے کہ آپ لوگوں کے چہروں پر ہمیشہ مسکراہٹ رہتی ہے۔
٭ ایک مہمان نے عرض کیاکہ میں بھی جارجیا میں ایک مسجد کا امام ہوں۔ جارجیا میں بہت سی قومیں آبادہیں ۔ میرا تعلق آذر بائیجان سے ہے۔ ہمارا جو اسلام ہے وہ باقیوں سے مختلف ہے۔ اسلام امن و سلامتی کا دین ہے۔ آج کل مسلمانوں کے جو حالات ہیں وہ اس بات کو ظاہرکرتے ہیں کہ احمدیوں کا جو نظریہ ہے اس کو اپنایاجائے۔ آج کل radicalismاور extremism بڑھ گئی ہے۔ ان حالات میں احمدی جو کانفرنسز منعقد کرتے ہیں ان کی ضرورت دنیا میں اور زیادہ بڑھ گئی ہے۔ ہم نے خلیفۃ المسیح کی تمام تقاریر سنی ہیں۔ ہم نے محسوس کیاہے کہ جو خلیفۃ المسیح نے بیان کیاہے وہ ساری دنیا کو بتانے کی ضرورت ہے۔
اس پر حضورانور نے فرمایا ہم صرف ایک اُس اسلام کوجانتے ہیں جو خدا تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ پر قرآن کریم کی صورت میں اتارا۔ ہم اس اسلام کو جانتے ہیں جو آنحضرت ﷺ کی سنت اور احادیث اور روایات سے ثابت ہے۔ ہمارے نزدیک تو اصل اور حقیقی اسلام یہی ہے ۔ اس کے علاوہ کوئی دوسرا اسلام نہیں۔ باقی حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی فرقے بنے ہوئے ہیں۔ حقیقت میں اسلام یہ ہے کہ ایک خدا، ایک نبی اور ایک قرآن کو ماننا اور اس کی تعلیم پر عمل کرناہے۔
حضورانور نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے کامل شریعت کے لیےآنحضرت ﷺ کو بھیجا اور آپ پر یہ شریعت کامل ہوئی۔ بعد میں ایک تاریک دور میں بگاڑ پیداہوا۔ پھر آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی کے مطابق آپ ﷺ کی غلامی میں اس آخری زمانہ میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو بھیجا تاکہ آپ اسلام کی تعلیم کا احیائے نو کریں اور دنیا کو بتائیں کہ خدا تعالیٰ کے حقوق کس طرح اداکرنے ہیں۔ چنانچہ آپ ﷺ نے دنیا کو اسلام کی اصل اور حقیقی تعلیم سے روشناس کیا۔
حضورانور نے فرمایا: ہماری دعاہے کہ اللہ کرے کہ دنیا اپنے پیداکرنے والے کو پہچان لے اور لوگ ایک دوسرے کے حقوق اداکریں۔
حضورانور نے فرمایا: میں نے سنا ہے کہ جارجیا میں فرقے شیعہ ، سنی وغیرہ بڑے آرام سے امن سے رہتے ہیں۔ ہمارے لئے یہ خوشی کی بات ہے کہ جارجیا میں فرقے امن سے رہتے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں حضورانور نے فرمایا: ہم کسی سے دشمنی ، نفرت نہیں رکھتے۔ ہماری ہرچیز کھلی ہے۔ محبت سب سے نفرت کسی سے نہیں۔ ہم سب سے محبت رکھتے ہیں۔ کسی سے انتقام نہیں لینا، کسی کا برا نہیں چاہنا، کسی کو تکلیف نہیں پہنچانا۔ اگر یہ ہوگا تو پھر معاشرہ میں امن ہوگا اور سب امن سے رہیں گے۔ اسلام کی حقیقی تعلیم پر عمل کریں گے۔ یہ صرف سمجھنے والی بات ہے۔ اگر آپ امن سے رہنا چاہتے ہیں تو رہ سکتے ہیں جیسے جارجیا میں رہ رہے ہیں۔
جارجیا کے وفد کی حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ملاقات بارہ بجکر پانچ منٹ تک جاری رہی۔ آخر پر وفد کے ممبران نے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ تصاویر بنوانے کی سعادت پائی۔
……………………………………………………………………
اس کے بعد پروگرام کے مطابق ملک البانیا (Albania) سے آنے والے وفد نے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ملاقات کی سعادت پائی۔
البانیا سے 26؍افراد پر مشتمل وفد بذریعہ بس 2 ہزار کلومیٹر کا سفرطے کرکے جلسہ میں شامل ہوا۔ اس وفد میں 14 مرد اور 12خواتین تھیں جن میں آٹھ احمدی احباب اور باقی زیر تبلیغ احباب تھے۔ ان میں سے دو احباب جلسہ کے آخری دن بیعت کرکے جماعت میں شامل ہوئے۔
سب سے پہلے تمام مہمانوں نے اپنا تعارف کروایا۔
٭ ایک نومبائع ‘پَلُّومب بے یا’Pellumb Beja صاحب سے حضورانور نے دریافت فرمایاکہ آپ کے بیعت کرنے کی کیا وجہ بنی؟
اس پر موصوف نے عرض کیاکہ میں نے حضور کے ہاتھ پر بیعت کی اور جماعت میں داخل ہونے کی سعادت پائی اور اس کے لئے میں اللہ تعالیٰ کا بے حد شکرگزار ہوں کہ اس نے مجھے احمدیت میں آنے کی توفیق عطافرمائی ہے۔ میری بیعت کی وجہ یہ بنی کہ شک سے یقین کی طرف اور اندھیرے سے نور کی طرف سفر کرنے سے احمدی ہواہوں ۔ میں اللہ تعالیٰ کا بے حد شکر گزار ہوں۔ ایک سال قبل میں ایمان سے خالی تھا۔ اس سال اللہ تعالیٰ نے مجھے ایمان کی دولت نصیب فرمائی ہے ۔ میری پیدائش اور پرورش مکمل لامذہب ماحول میں ہوئی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے جلسہ سالانہ میں شمولیت اور حضور انور سے ملاقات کے ذریعہ مجھے ایمان سے آراستہ کیا۔
٭ ایک مہمان Besim Gjozi بیسِم جوزی صاحب نے عرض کیا :میں ایک دن قبل یعنی جلسہ کے آخری روز ہی بیعت کرکے جماعت احمدیہ مسلمہ میں شامل ہوا ہوں اور اس کے لئے میں اللہ تعالیٰ کا بہت شکرگزار ہوں ۔ پہلے میں عملی طور پر مسلمان نہ تھا۔ کل میں نے خدا تعالیٰ سے عہد کیا کہ اسلام کے تمام احکامات کی پابندی اپنے اوپر لازم کروں گا۔ خدا کا شکر ہے کہ میں جماعت احمدیہ کا ممبر بن گیاہوں۔
اس پر حضورانور نے فرمایاکہ خدا تعالیٰ استقامت عطافرمائے۔ آمین
٭ ایک مہمان Sinan Breshanaj سِنَان بڑے شانائےصاحب نے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا: میرے جماعت میں شامل ہونے کا سبب چند سال قبل حضورانور سے ملاقات تھی۔ جس کے بعد میں ہر سال جرمنی کے جلسہ میں شامل ہوتا ہوں ۔ میں نے چند سال قبل حضور سے اپنے نواسوں کے لئے دعا کی درخواست کی تھی اور گھر واپس پہنچنے سے قبل ہی اللہ تعالیٰ نے میرے نواسوں کی سکالرشپ کے سامان فرمائے۔ یہ میرے ازدیاد ایمان کا باعث بنا۔
٭ ایک احمدی دوست Bekim Bici بیکِم بِیتسِی صاحب نے بیان کیا : میں نے 2004ء میں بیعت کی۔ جرنلزم میں گریجوایشن میں اعلیٰ کامیابی حاصل کی اور اس بنا پر2016ءکےجلسہ سالانہ پر حضور انورکے دست مبارک سے میڈل حاصل کرنے کی بھی سعادت پائی۔ اس کے بعد میں نے البانیا میں بعض آن لائن اخباروں میں بطور صحافی کام کیا۔ گزشتہ سال جلسہ سالانہ جرمنی پر آنے کے لئے جب میں نے چھٹی کی درخواست دی تو منظور نہیں ہوئی۔ اس پر میں نے کام سے استعفیٰ دے دیا کیونکہ میں اس جلسہ سالانہ سے غیر حاضر نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے اسی دن میرے لیے دوسرے میڈیا کمپنی میں کام دلادیا جہاں پر یہ شرط بھی منظور کر لی گئی کہ میں اس سال جلسہ سالانہ جرمنی میں شامل ہوکر واپس آنے کے بعد کام شروع کر سکتا ہوں ۔ اسی طرح اس سال بھی مجھے صرف 4 ماہ ہوئے تھے کہ ایک آن لائن اخبار میں کام کر رہا تھا ، کمپنی کے قوانین کے مطابق پہلے 6ماہ میں چھٹی نہیں لے سکتا تھا۔ پھر بھی میں نے جلسہ کے لئے چھٹی کی درخواست دی جو منظور نہیں ہوئی۔ میں نے کام سے استعفیٰ دے دیااور اسی دن مجھے تین اور کمپنیوں کی طرف سے کام کی آفر ملی۔ چنانچہ میں نے ایک جگہ پر اس شرط کے ساتھ قبول کیا کہ میں جلسہ سالانہ جرمنی میں شامل ہوکر واپس آنے کے بعد کام شروع کروں گا۔
اب میں نے 16؍ جولائی سے نئے کام پر جانا ہے۔ اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایاکہ ‘‘اللہ تعالیٰ فضل فرمائے۔’’
٭ ایک مہمان نے عرض کیاکہ میری والدہ بیمار ہیں ان کی صحت کے لیے دعاکی درخواست ہے۔ انہوں نے بھی بیعت کی ہوئی ہے۔ والد صاحب بھی بیمارہیں۔ اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایاکہ ‘‘اللہ تعالیٰ فضل فرمائے۔’’
٭ پھر شادیوں کے حوالہ سے حضورانور نے فرمایاکہ لڑکوں کی شادیاں ہوجاتی ہیں، لڑکیوں کی زیادہ فکر ہوتی ہے۔
٭ ایک مہمان نے عرض کیاکہ کچھ نوجوان ہمارے زیرِ تبلیغ ہیں۔ اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایاکہ دعاکرتے رہیں۔ کوشش کرتے رہیں۔ انشاء اللہ قریب آجائیں گے۔
٭ ایک مہمان نے حضورانور کی خدمت میں دعاکی درخواست کی کہ ہمارے دوست احبابِ جماعت فعال ہوجائیں۔ اکتوبر میں ہمارا جلسہ سالانہ ہے۔ اس کے لیے دعاکی درخواست ہے۔ ہمارے جلسہ پر 350 کے قریب لوگ آتے ہیں۔
٭ ایک دوست نے اپنے بھائی کے لیے دعا کی درخواست کی کہ اس کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں رہتا۔ اس پر حضورانور نے فرمایا: ‘‘اللہ تعالیٰ فضل فرمائے۔’’
٭ ایک احمدی دوست Gëzim Muzhaqi (گَزِیم مُژَاچِی) صاحب جن کا تعلق لامذہب سوسائٹی سے تھا ان کا چند سال قبل جماعت سے رابطہ ہوا۔ مذہب اور خصوصاً اسلام سے متعلق جو دلائل جماعت احمدیہ دیتی ہے وہ انہیں بہت معقول لگے اور پسند آئے۔ اس سے قبل مولویوں کی کہانیوں کی وجہ سے ان کا دل مذہب سے بےزار تھا۔ چنانچہ چند سال قبل انہوں نے بیعت کی اور اب آہستہ آہستہ اسلامی شعار کی پابندی کررہے ہیں۔ موصوف نے عرض کیا:
اس دفعہ جلسہ سالانہ مجھے بہت خاص لگا۔ انتظامات اور مہمان نوازی ہر سال کی طرح نہایت ہی اعلیٰ تھے۔ حضور انور کا لجنہ سے خطاب اور اختتامی خطاب بہت اچھا لگا۔ عورتوں سے خطاب فرماتے ہوئے جو پیغام حضور انور نے مردوں کو دیا وہ بھی بہت اعلیٰ تھا۔
٭ ایک مہمان خاتون Blertina Koka (بلیڑتِینا کوکا) صاحبہ نے اپنے تأثرات بیان کرتے ہوئے کہا :
میں پہلی بار جلسہ میں شامل ہوئی ہوں ۔ میں نے البانین زبان میں ماسٹرز کیا ہے اور جماعت کی البانین website کے لئے حضور انور کے خطابات کے بعض حصوں اور پریس ریلیز کا ترجمہ بھی کیا ہے ۔ اب تک میرا حضور سے محض غائبانہ تعارف تھا اور حضور کے امن سے متعلق کوششیں اور پیغامات پڑھ کر متاثر ہوئی تھی ۔ لیکن آپ سے ملاقات کے بعد آپ کی سادگی اور ملنساری سے بےحد متاثر ہوئی ہوں اور فی الحقیقت آپ کی شخصیت کی قدر و منزلت آپ سے متعلق جو میرا خیال تھا اس سے کہیں زیادہ ہے۔ میں آپ کی بہت شکر گزار ہوں۔
٭ ایک اور احمدی خاتون Xhensila Kadriu ‘جینسیلا کادری اُو’ صاحبہ نے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا کہ
میں بھی جلسہ میں پہلی بار آئی ہوں۔ میرے والد صاحب ہر سال جلسہ پر آتے ہیں، لیکن اس بار صحت کی خرابی کی وجہ سے نہیں آسکے۔ البانین قوم مہمان نوازی کے لئے مشہور ہے۔ لیکن یہاں آکر پتہ چلا کہ مہمان نوازی کے اس سے اعلیٰ معیار بھی ہوتے ہیں۔
اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر ہ العزیز نے فرمایاکہ آپ نے البانیا سے جرمنی کا مقابلہ کرادیا ہے۔ اب تو جرمنی والوں کو اور بھی اچھا معیار کرنا پڑے گا۔
٭ ایک مہمان نے عرض کیاکہ مجھے یہاں جلسہ پر چھےمرتبہ آنے کا موقع ملا ہے۔ میں پہلی دفعہ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ملاقات کی وجہ سے احمدی بنا تھا۔ خدا تعالیٰ حضورانور کا مدد گار ہو۔ میرے لئے دعاکریں۔ میں بوڑھاہوں۔ پتہ نہیں اگلے سال رہوں یا نہ رہوں۔ اس پر حضورانور نے فرمایاکہ آپ بوڑھے نہیں لگتے۔ خدا تعالیٰ آپ کو صحت دے، زندگی دے۔
٭ ایک دوست نے عرض کیاکہ البانیا میں مربی اکیلا ہے۔ کام بہت زیادہ ہے۔ اس پر حضورانور نے فرمایاکہ آپ جماعت بنائیں، جماعت کی تعداد بڑھائیں۔ اب یہ آپ لوگوں کے لیے چیلنج ہے۔
٭ ایک مہمان اِلیڑ چُولانجی ILIR CYLANDJIصاحب جوکہ البانین ہیں لیکن جرمنی میں مقیم ہیں انہوں نے بیان کیا: جلسہ سالانہ ہر احمدی مسلمان کے لئے ایک عظیم الشان روحانی اجتماع ہے، جس میں افرادِ جماعت کے علاوہ دیگر مذاہب اور قوموں سے تعلق رکھنے والے افراد کی بھی ایک بڑی تعداد شامل ہوتی ہے۔ جلسہ سالانہ میں شامل ہوکر اُنہیں جہاں اسلام کی بنیادی تعلیمات سے تعارف حاصل ہوتا ہے، وہیں جماعت احمدیہ میں قائم نظامِ خلافت کے ذریعہ اِن خوبصورت تعلیمات کا عملی نمونہ دیکھنے کا بھی تجربہ ہوتا ہے۔ اِن تین دنوں کے دَوران مردوں اور خواتین کے جلسہ گاہ میں مختلف اجلاسات کا انعقاد ہوتا ہے جس میں موجودہ زمانہ کے تغیرات اور چیلنجز کے بالمقابل اسلام کی خوبصورت تعلیمات کو پیش کیا جاتا ہے۔
میں بحیثیت ایک احمدی مسلمان سارا سال اِس روحانی جلسہ کا بڑے اہتمام سے انتظار کرتا ہوں کیونکہ یہاں ایک حقیقی اخوت کی روح نظر آتی ہے، جسے بیان کرنا ناممکن ہے۔ اس خالص اور فطری محبت کا اظہار تمام اراکین جماعت کی طرف سے ہوتا ہے۔ اس جلسہ میں آکر مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ گویا میں جنّت میں ہوں اور دُنیا کا سب سے خوش قسمت انسان ہوں۔ جلسہ ختم ہونے کے ساتھ ہی اگلے جلسہ کا بے صبری سے انتظار ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ اس جماعت کو اپنے بے شمار فضلوں سے نوازتا چلا جائے۔ آمین
٭ جرمنی میں مقیم ایک اورالبانین دوست سکندر مفتاری Skënder Myftari صاحب نے بیان کیا:
جلسہ سالانہ میرے لیے غیر معمولی خوشی اور فرحت کا سامان لے کر آتا ہے کیونکہ اس میں ہمیں پیارے حضور سے ملاقات کا موقعہ ملتا ہے، نیز آپ کے پیچھے نمازیں پڑھنے اور آپ کے خطابات سننے کا موقعہ ملتا ہے۔ اسی طرح دوسرے ممالک سے تشریف لانے والے احمدی بھائیوں سے ملاقات ہوجاتی ہے۔
٭ البانیا کے ایک دوست ہائری تُربیتاری Hairi Turbetariنے عرض کیا کہ
مجھے اس بات کی انتہائی مسرت اور خوشی ہے کہ مَیں اس جماعت کا حصہ ہوں۔ مجھے بیعت کیے ہوئے تقریباً پانچ سال ہوچکے ہیں، اور ہر سال جلسہ پر آنے سے ضرور بہت کچھ نیا سیکھنے کو ملتا ہے۔ مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میں جماعت احمدیہ کا حصہ ہوں۔ میری یہی دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اس بابرکت جماعت کا حصہ بنائے۔ آمین
٭ ایک احمدی دوست نے عرض کیاکہ یہ میرے لئے بہت بڑی سعادت ہے کہ میں نے احمدیت قبول کی ہے۔ کئی دفعہ مجھے خیال آتاہے کہ اسلام کے لیے بڑا آدمی بنوں۔ اس پر حضورانور نے فرمایاکہ تبلیغ کرتے رہیں۔ پانچوں وقت کی نمازیں پڑھیں، آپ بڑے آدمی بن جائیں گے۔
البانین وفد کی حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے یہ ملاقات بارہ بجکر تیس منٹ پر ختم ہوئی۔ آخر پر وفد کے ممبران نے حضورانور کے ساتھ تصاویر بنوانے کی سعادت پائی۔
…………………………………………………………………………
بعدازاں ملک لٹویاسے آنے والے وفد نے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ملاقات کا شرف پایا۔
٭ ایک مہمان فخر الدین صاحب نے عرض کیا:
ہم بہت زیادہ خوش ہیں۔ جس قدر احترام اور عزت و محبت کے ساتھ ہمارا استقبال کیا گیا ہے اس کا میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ آپ لوگوں کی مہمان نوازی لاجواب تھی۔ آپ لوگوں کے اللہ تعالیٰ پر مضبوط ایمان اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں جو کام آپ سرانجام دے رہے ہیں اس کو دیکھ کر میں بہت ہی خوش ہوا ہوں۔ جلسہ کے انتظامات مجھے بہت ہی پسند آئے۔ امام جماعت احمدیہ کے خطابات عقل و فراست سے بھرے ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ یورپ کے مسلمانوں کا آپس میں ایک دوسرے کا اس قدر عزت و اکرام کرنا ایک الگ ہی چیز تھی۔ ہم نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے۔ اس کے لئے ہم جماعت احمدیہ کے بے حد ممنون ہیں۔ جو مساجدجرمنی میں جماعت نے تعمیر کی ہیں وہ بہت ہی خوبصورت ہیں۔ سب مساجد کو تو ہم نہیں دیکھ سکے مگر یہ یقین رکھتے ہیں کہ وہ اس مسجد (سبحان) سے بھی زیادہ خوبصورت ہوں گی۔ ایک دفعہ پھر ہم شکریہ ادا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو اُن خدمات کا اجرعظیم عطا فرمائے جو آپ لوگ بجالارہے ہیں یہ خدمات دیکھ کر ہمیں بھی بہت خوشی ہوئی ہے۔
٭ ایک اور دوست ہمایوں صاحب نے کہا:مجھے سب کچھ بہت پسند آیا ہے۔ جلسہ کی انتظامیہ نے مہمانوں کے ساتھ بہت ہی اچھا سلوک کیا ہے۔ پروگرام بھی بہت ہی اعلیٰ رنگ میں سرانجام پائے۔ ٹرانسپورٹ کے شعبہ نے بہت اچھا کام کیا ہے۔ اس سلسلہ میں میرے تاثرات بہت ہی مثبت ہیں۔ خلیفۃ المسیح سے ملاقات ہمارے لئے بہت بڑے اعزاز کی بات ہے۔
٭ ایک مہمان بیک تاش (Bektash) صاحب نے بیان کیا؛مجھے یہ جلسہ بہت ہی پسند آیا ہے۔ خاص طور پر مجھے وہاں خدمت کرنے والے کارکنان کا رویہ اور سلوک بہت ہی اچھا لگا۔ ہم نے تقاریر بھی سنی ہیں۔ مجھے سب تقاریر بہت پسند آئی ہیں۔ اس جلسہ میں 43000 تنتالیس ہزار سے زائد لوگ آئے ہوئے تھے۔ سب نے ہمارے ساتھ بہت ہی پیار و محبت کا سلوک کیا ہے۔ خلیفۃ المسیح سے ملاقات بھی بہت اچھی رہی۔ ہمیں جلسہ کی دعوت دینے کا بہت شکریہ۔
٭ جلسہ میں شامل ہونے والے ایک مہمان جہانگیر صاحب نے بیان کیا:
مجھے ایئر پورٹ پر استقبال اور پھر وہاں سے مسجد ‘‘سبحان’’ میں لے جانا بہت اچھا لگا۔ مسجد بھی نئی اور بہت ہی خوبصورت تعمیر کی گئی ہے۔ مہمانوں کا استقبال اور ہوٹل میں قیام وغیرہ سب کچھ ہی بہت عمدہ تھا۔ سچی بات یہ ہے کہ کوئی بھی کمی نہیں تھی۔ یہ تعریف نہیں ہے بلکہ حقیقت ہے جو میں عرض کر رہا ہوں۔ تقاریر بہت ہی اچھی تھیں۔ اسلام کو بہت ہی خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ کارکنان جلسہ کا رویہ بہت اچھا تھا۔ ان کے چہروں پر مسکراہٹ تھی اور وہ بات کو اچھی طرح سمجھاتے تھے بلکہ بعض اوقات ساتھ جا کر متعلقہ جگہ پر چھوڑ آتے تھے۔ ڈیوٹی والے سب افراد مسکرا کر ملتے تھے۔ کارکنان کی خدمات بہت ہی قابل تعریف ہیں۔ مجھے کوئی کمی نظر نہیں آئی۔ سب باتوں کو تو بیان نہیں کیا جا سکتا۔ جلسہ میں بے شمار اہم اور مفید باتیں بیان کی گئی ہیں۔ لوگ بہت سے ممالک سے آئے ہوئے تھے ان سے بھی میل ملاقات کا موقع ملا اور بات چیت ہوئی۔ آنے والے سب لوگوں کے تاثرات بہت ہی اچھے تھے۔ میں بہت خوش ہوں۔ اس جلسہ سے میں نے بہت کچھ سیکھا ۔
٭ ایک مہمان برات (Barot) صاحب نے کہا: میرے تاثرات بہت ہی مثبت ہیں۔ سب سے پہلے اگر انتظامات کی بات کی جائے تو وہ بہت ہی اعلیٰ تھے۔ ایئر پورٹ سے مسجد اور وہاں سے ہوٹل اور پھر ہوٹل سے جلسہ گاہ تک لے کر آنا جانا غیر معمولی خدمت کا مظاہرہ کرتا ہے۔ گاڑی چلانے والے کارکنان بھی بہت اچھے لوگ تھے۔ استقبال اور کارڈ وغیرہ کی تیاری، رہائش کی جگہ اور سکیورٹی کا بہت اچھا انتظام تھا۔ کھانے بھی اچھے تیار کیے گئے تھے۔ جلسہ میں چائے کافی وغیرہ کا بھی انتظام تھا جو کہ ایک بڑی اہم بات تھی۔ چھوٹے بچوں کا بار بار مہمانوں سے پانی پوچھنا بھی بہت اچھا لگ رہا تھا۔ جلسہ کا موضوع ‘‘اسلام’’ تھا۔ ہمیں اس جلسہ میں بہت ہی اچھی معلومات حاصل ہوئی ہیں۔ جلسہ کی تقاریر بہت اہم موضوعات پر مشتمل تھیں اور اکیسویں صدی کے تقاضوں کے مطابق تیار کی گئی تھیں۔ جو نعرے بلند کیے جا رہے تھے میرے خیال میں ان کا ترجمہ بھی بتانا چاہیے تھا۔ جلسہ میں پڑھی گئی نظمیں مجھے بہت اچھی لگیں۔ ہمیں بعض مساجد اور جامعہ احمدیہ کا وزٹ کروایا گیا جو کہ بہت اچھا تھا۔ رہائش بھی بہت اچھی تھی۔
لٹویا کے وفد کی یہ ملاقات بارہ بجکر چالیس منٹ تک جاری رہی۔ آخر پر وفد کے ممبران نے تصاویر بنوانے کی سعادت پائی۔ لٹویا کی مجلس عاملہ کے ممبران نے ایک علیحدہ تصویر بھی بنوائی۔
(باقی آئندہ)
٭…٭…٭