متفرق مضامین

ڈاکٹر ڈوئی کے ساتھ حضرت مسیح موعود کا روحانی مقابلہ

(ڈاکٹر مرزا سلطان احمد)

مورخہ 3 اور 4 ستمبر2015ء کو روزنامہ الفضل میں جان الیگزینڈر ڈوئی کی اس وقت کی زندگی کے بارے میں مضمون شائع ہوا تھا اور اس میں اس وقت تک اس کے حالات ِ زندگی کا جائزہ لیا گیا تھا جب اس کے افتراء اور گستاخیوں کے سبب حضرت اقدس مسیح موعود نے اسے روحانی مقابلہ کی دعوت دی تھی۔ ذیل کے مضمون میں حضرت مسیح موعود کے دو اشتہارات درج کیے جائیں گے جن میں ڈوئی کی بابت پیشگوئیاں کی گئی تھیں اور یہ جائزہ لیا جائے گا کہ ان اشتہارات کا اس وقت امریکہ کے اخبارات میں کس طرح چرچا ہوا اور اس پر ڈوئی اور اس کی تنظیم صیہون (Zion) نے کیا ردِ عمل دکھایا۔

6 ۔اگست 1902ء میں حضرت اقدس مسیح موعود کی مجلس میں ڈوئی کا اخبار پڑھا گیا اور معلوم ہوتا ہے کہ اس سے ایک عرصہ قبل سے یہ اخبار آپ کی خدمت میں پڑھ کر سنایا جاتا تھا۔اس موقع کی روئیداد جو اس وقت شائع ہوئی درج کی جاتی ہے۔

’’اس کے بعد امریکہ کے مشہور مفتری مدعی الیاس ڈوئی کا اخبار پڑھا گیا جو مفتی محمد صادق صاحب ایک عرصہ سے سنایا کرتے ہیں۔ ڈوئی نے اپنے مخالف قوموں بادشاہوں اور سلطنتوں کی نسبت  پیشگوئی کی ہے کہ وہ تباہ ہوجائیں گے۔ اس پر حضرت اقدس کی رگِ غیرت و حمیت دینی جوش میں آئی اور فرمایا کہ:

’’مفتری کذاب (دین) کا خطرناک دشمن ہے۔ بہتر ہے اس کے نام ایک کھلا خط چھاپ کر بھیجا جاوے اور اس کو مقابلہ کے لئے بلایا جاوے۔ (دین) کے سوا دنیا میں کوئی سچا مذہب نہیں ہے اور (دین) کی ہی تائید میں برکات اور نشان ظاہر ہوتے ہیں۔ میرا یقین ہے کہ اگر یہ مفتری میرا مقابلہ کرے گا، تو سخت شکست کھائے گا اور اب وقت آگیا ہے کہ خدا تعالیٰ اس کے افتراء کی اس کو  سزا دے۔‘‘

غرض یہ قرار پایا کہ 7 ۔اگست کو حضرت اقدس ایک خط اس مفتری کو لکھیں اور اسے نشان نمائی کے میدان میں آنے کی دعوت کریں۔ یہ خط انگریزی زبان میں ترجمہ ہو کر مختلف اخبارات میں بھی شائع ہو گا  اور بھیجا جاوے گا۔(ڈائری حضرت مسیح موعود 6 ۔اگست 1902ئ)

حضرت مسیح موعود کی طرف سے پہلا چیلنج

ستمبر 1902ء میں حضرت اقدس مسیح موعود نے ڈوئی کے نام ایک اشتہار شائع فرمایا۔ یہ اشتہار ریویو آف ریلجنز میں شائع کیا اور اس طرح امریکہ بھی اس کی کاپیاں پہنچ گئیں۔ اس اشتہار میں حضرت مسیح موعود نے عیسائیت کے عقائد کا ذکر کرکے تحریر فرمایا کہ ڈوئی نے یہ پیشگوئی کی ہے کہ تمام دنیا سے مسلمان نابود ہوجائیں گے اور دنیا میں صرف ایک مذہب عیسائیت ہی رہ جائے گا۔ حضرت مسیح موعود نے ڈوئی کو مخاطب کر کے تحریر فرمایا

’’اب ہم ڈوئی کومخاطب کرتے ہیں جو یسوع مسیح کو خدا بناتا اور اپنے تئیں اس کا رسول قرار دیتا ہے اور کہتا ہے کہ توریت استثناء باب 18 آیت 15 کی پیشگوئی میرے حق میں ہے اور میں ہی ایلیاء اور عہد کا رسول ہوں۔ نہیں جانتا کہ یہ مصنوعی خدا اس کا موسیٰ کے کبھی خواب و خیال میں بھی نہیں تھا موسیٰ نے بنی اسرائیل کو یہی بار بار کہا کہ خبردار کسی مجسم چیز انسان یا حیوان کو خدا قرار دینا نہ آسمان پر سے نہ زمین سے۔ خدا نے تم سے باتیں کیں۔ مگر تم نے اس کی کوئی صورت نہیں دیکھی۔ تمہارا خدا صورت اور تجسم سے پاک ہے۔ مگر اب ڈوئی موسیٰ  کے خدا سے برگشتہ ہوکر وہ خدا پیش کرتا ہے جس کے چار بھائی اور ایک ماں ہے اور بار بار اپنے اخبار میں لکھتا ہے کہ اس کے خدا یسوع مسیح نے اس کو خبر دی ہے کہ تمام مسلمان ہلاک اور تباہ ہو جائیں گے اور دنیا میں کوئی زندہ نہیں رہے گا بجز ان لوگوں کے جو مریم کے بیٹے کو خدا سمجھ لیں اور ڈوئی کو اس مصنوعی خدا کا رسول قرار دیں۔‘‘

پھر حضرت مسیح موعود نے ڈوئی کو یہ چیلنج دیا کہ وہ خدا سے یہ دعا کرے۔

’’… صرف مجھے اپنے ذہن کے آگے رکھ کر یہ دعا کر دیں۔ کہ ہم دونوں میں سے جو جھوٹا ہے وہ پہلے مر جائے۔ کیونکہ ڈوئی یسوع مسیح کو خدا جانتا ہے مگر میں اس کو ایک بندہ عاجز مگر نبی جانتا ہوں۔ اب فیصلہ طلب یہ امر ہے کہ دونوں میں سے سچا کون ہے۔ چاہئے کہ اس دعا کو چھاپ دے اور کم سے کم ہزار آدمی اس پر گواہی لکھے اور جب وہ اخبار شائع ہو کر میرے پاس پہنچے گی تب میں بھی بجواب اس کے یہی دعا کروں اور انشاء اللہ ہزار آدمی کی گواہی لکھ دوں گا اور میں یقین رکھتا ہوں کہ ڈوئی کے اس مقابلہ سے اور تمام عیسائیوں کے لئے حق کی شناخت کے لئے ایک راہ نکل آئے گی۔ میں نے ایسی دعا کے لئے سبقت نہیں کی بلکہ ڈوئی نے کی۔ اس سبقت کو دیکھ کر خدائے غیور نے میرے اندر یہ جوش پیدا کیا اور یاد رہے کہ میں اس ملک میں معمولی انسان نہیں ہوں۔ میں وہی مسیح موعود ہوں  جس کا ڈوئی انتظار کر رہا ہے۔ صرف یہ فرق ہے کہ ڈوئی کہتا ہے کہ مسیح موعود پچیس برس کے اندر اندر پیدا ہوجائے گا اور میں بشارت دیتا ہوں کہ وہ مسیح پیدا ہوگیا اور وہ میں ہی ہوں۔ صدہا نشان زمین سے اور آسمان سے میرے لئے ظاہر ہوچکے اور ایک لاکھ کے قریب میرے ساتھ جماعت ہے جو زور سے ترقی کر رہی ہے۔‘‘(مجموعہ اشتہارات جلد 2 صفحہ 569و570)

یہ چیلنج ریویو آف ریلجنز (انگلش) ستمبر 1902ء میں انگریزی  میں شائع ہوا اور اس کی وسیع پیمانے پر اشاعت کی گئی اور امریکہ بھی پہنچا دیا گیا۔

ڈوئی کا روحانی طریقہ علاج

اس اشتہار میں روحانی طریقہ علاج کے بارے میں ڈوئی کے دعاوی کے بارے میں حضرت مسیح موعود نے تحریر فرمایا:

’’ڈوئی … اپنے ثبوت میں لکھتا ہے کہ میں نے ہزارہا بیمار توجہ سے اچھے کئے ہیں۔ ہم اس کا جواب دیتے ہیں کہ کیوں پھر اپنی لڑکی کو اچھا نہ کر سکا اور وہ مر گئی اور اب تک  اس کے فراق میں روتا ہے اور کیونکر اپنے مرید کی اس عورت کو اچھا نہ کرسکا جو بچہ جن کر مر گئی اور اس کی بیماری پر بلایا گیا مگر وہ گزر گئی۔ یاد رہے کہ اس ملک کے صدہا عام لوگ اس قسم کے عمل کرتے ہیں اور سلب امراض  میں بہتوں کو مشق ہو جاتی ہے اور کوئی ان کی بزرگی کا قائل نہیں ہوتا۔پھر امریکہ کے سادہ لوحوں پر نہایت تعجب ہے کہ وہ کس خیال میں پھنس گئے۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات جلد 2 ص570)

مندرجہ بالا واقعات، جن کا ذکر حضرت اقدس مسیح موعود نے فرمایا ہے اس دور میں بہت متنازع واقعات سمجھے گئے تھے۔ ان پر اخبارات نے بھی بہت کچھ لکھا تھا، ان پر پی ایچ ڈی کے مقالہ جات میں بھی رائے زنی کی گئی تھی اور اس وقت کی عدالتوں نے بھی فیصلے سنائے تھے۔

سب سے پہلے تو ڈوئی کی اکلوتی بیٹی Esther Dowie کی موت کی تفصیلات درج کی جاتی ہیں۔ یہ لڑکی شکاگو یونیورسٹی کی طالبہ تھی۔ 14 مئی 1902ء کو یعنی ڈوئی کے دعویٰ رسالت کے چند ماہ بعد ڈوئی کی بیٹی صبح صبح شکاگو میں اپنے گھر میں اپنے بال صحیح کر رہی تھی کہ لیمپ سے اس کے کپڑوں کو آگ لگ گئی۔ جب ملازم کمرے میں پہنچے تو لڑکی کے جسم کا اکثر حصہ جل چکا تھا۔ لڑکی بہت تکلیف میں تھی۔ ڈوئی اور اس کی بیوی اس وقت نئے آباد ہونے والے شہر صیہون میں تھے۔ یہ خبر سن کر وہ شکاگو کے لئے روانہ ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ شکاگو میں اپنے گھر میں پہنچ کر ڈوئی لڑکی کے ساتھ بیٹھ کر دعا میں مصروف ہوگیا۔ لیکن لڑکی کی حالت ابتر ہوتی گئی اور رات کو نو بجے اسی تکلیف کی حالت میں وہ اس دنیا سے رخصت ہو گئی۔ چونکہ ڈوئی کا عقیدہ تھا کہ بیماروں کا صرف روحانی علاج کرنا چاہئے اس لئے کوئی طبی امدا د نہیں لی گئی۔ صرف زخموں پر پٹیاں رکھی گئیں۔ بعض کا دعویٰ تھا کہ اس کے ایک مرید ڈاکٹر کو بلایا گیا تھا۔ اخبارات میں اس وقت یہ شور مچا کہ اگر بر وقت طبی امداد دی جاتی تو اس لڑکی کی جان بچنے کا امکان تھا۔ یہ سب کچھ تو شاید اتنا قابل اعتراض نہ ہوتا کیونکہ یہ بھی کہا جاتا تھا کہ روحانی طریقہ کے بعدسو فیصد مریض تو نہیں بچتے لیکن اکثر کو فائدہ ہوتا ہے اور طبی علاج کے بعد بھی تو سو فیصد مریض نہیں بچتے مگر بعد میں ڈوئی نے یہ خلاف واقعہ عذر پیش کیا کہ ان سالوں میں اس کے خاندان کو صرف ایک ہی سانحہ پہنچا اور وہ اس کی بیٹی کی موت تھی اور اس کی بیٹی کی موت اس لئے ہوئی کہ ڈوئی اس کی موت سے قبل اس لڑکی تک نہیں پہنچ سکا تھا۔ یہ غلط بیانی تھی۔ یہ حقیقت اسی وقت اخباروں میں شائع ہو گئی تھی کہ ڈوئی اپنی بیٹی کی موت سے کئی گھنٹے قبل اس کے پاس پہنچ چکا تھا۔

(John Alexander Dowie and the Christian Catholic Apostolic Church IN ZION. By ROLVIX HARLAN page 46.

John Alexander Dowie by Gordon Lindsay, page 152-153.

Bismarck Daily Tribune 15th May 1902, p 1.

CAMERON COUNTY PRESS, THURSDAY, MAY 22, 1902.)

حضرت مسیح موعود نے جو دوسری مثال بیان فرمائی تھی وہ ڈوئی کے ایک نمایاں مرید Deacon Judd کی بیوی ایما لیسی جڈ (Emma Lacy Judd) کی تھی۔ بچہ کی پیدائش کے دوران اس خاتون کی حالت بگڑتی گئی اور ڈوئی کے چرچ کی روایت کے مطابق ڈاکٹروں کی مطلوبہ مدد نہیں لی گئی اور اسی تکلیف کی حالت میں اس کا انتقال ہوگیا۔ معاملہ بڑھا اور عدالت میں ڈوئی کو اور اس کے اس قریبی ساتھی کو طلب کیا گیا۔ عدالت میں جب ڈوئی نے اپنا بیان قلمبند کرایا ۔اس میں ڈوئی نے بیان کیا کہ پہلے اسے اس عورت کے لئے دعا کرنے کی درخواست ملی تھی پھر وہ اس عورت کی رہائش گاہ پر گیا اور اس پر ہاتھ رکھ کر دعا کی۔ اس وقت صیہون کی دو تربیت یافتہ مڈ وائف وہاں پر موجود تھیں۔ بعد میں اس خاتون کا انتقال ہوگیا۔ اس بیان  میں ڈوئی نے اس بات کا بھی اعادہ کیا کہ مریضوں کے علاج کے لئے ڈاکٹروں کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ بعد میں  اس خاتون کی قبر کھود کر لاش نکالی گئی لاش کا معائنہ کرایا گیا اور ماہرین نے عدالت میں رائے دی کہ  معمولی جراحت کے عمل سے اس عورت کی جان بچائی جاسکتی تھی۔ جیوری نے ڈوئی اور اس عورت کے خاوند کو ذمہ دار قرار دے دیا۔ ڈوئی کو حراست میں لینے کے لئے چھاپہ مارا گیا مگر ڈوئی اور اس کے ساتھی کو پکڑا نہیں جاسکا۔ اگلے روز ان کو حراست میں لیا گیا۔ جج کے سامنے پیش کیا گیا جج نے دونوں کی دس دس ہزار ڈالر کی ضمانت لی۔لیکن جب گرینڈ جیوری نے مقدمہ کی سماعت کی تو اس نے ڈوئی اور اس کے ساتھیوں کو بری کر دیا۔

(FRIDAY EVENING, MAY 17, 1901., The Colfax Gazette 31st May 1901, Billings Gazette 24th May 1901, The Dakota Farmers Leader, 7th June 1901)

چیلنج کے بعد ڈوئی کے حالات

ستمبر میں ڈوئی نے ایک بہت بڑے جلسے میں مستقبل کے بارے میں اپنی عالمی منصوبوں کا اعلان کیا۔ اس نے اعلان کیا کہ بیسویں صدی بڑی تبدیلیوں کی صدی ہے اور اس میں وہ خدا کے نائب کی حیثیت سے ایک عالمی مذہبی سلطنت پر حکومت کرے گا۔

(The Arizona Republican, 17th September 1902)

اس کے ساتھ یہ خبریں بھی گردش کرنا شروع ہوگئی تھیں کہ صیہون میں Lace کی صنعت کی پیداوار صحیح طرح فروخت نہیں ہو رہی۔اس منصوبہ کے اثاثے تو موجود ہیں لیکن اس کو چلانے کے لئے رقم کی کمی ہورہی ہے اور اس کے لئے ڈوئی اپنے مریدوں سے اپیل کر رہا ہے۔ لیکن اتنے بڑے منصوبے میں جب تیزی سے سرمایہ داری ہو رہی ہو تو ایسی صورت حال پیدا ہونا کوئی غیرمعمولی بات نہیں سمجھی جاتی۔

(Blue grass blade 19 Oct 1902, The Minneapolis Journal 4 th Oct. 1902, THE SAN FRANCISCO CALL, OCTOBER 12, 1902.)

ڈوئی کا توہین آمیز تبصرہ

حضرت مسیح موعود کی طرف سے پہلا چیلنج ملنے کے بعد ڈوئی نے مذکورہ طریق پر چیلنج قبول تو نہیں کیا اور یہ ہمت نہیں کی کہ وہ حضرت اقدس مسیح موعود کے مقابل پر روحانی مقابلہ کے لئے نکلے۔ لیکن دسمبر 1902ء کے آخر میں اس نے حضرت مسیح موعود کو اپنی تنقید کا نشانہ بنانے کی کوشش کی۔ جیساکہ ذکر کیا جاچکا ہے کہ حضرت مسیح موعود نے اشتہار میں واقعہ صلیب میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی معجزانہ بچنے اور سری نگر میں یوز آسف کی قبر کا ذکر فرمایا تھا ۔اس کے جواب میں ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے ڈوئی نے کہا:

There is one foolish man in India, a Messiah, who persists in writing to me  saying that the body of Christ is buried in Cashmir, in India, and can be found there. He never says that he has seen it, but the poor fanatical and ignorant creature keeps on with the raving that the Christ died in India.

The Christ rescinded into the heavens at Bethany, and he is there  in His celestial body. I can tell you exactly when He shall appear, and yet I name no day, I name no week,  I name no year.

(Leaves of healing, 27 th December 1902, p 306)

ترجمہ: ہندوستان میں ایک بیوقوف شخص ہے جو کہ (دین حق سے وابستہ) مسیح ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ وہ مسلسل مجھے لکھتا رہتا ہے کہ مسیح کا جسم ہندوستان کے کشمیر میں دفن ہے۔ وہ یہ کبھی نہیں کہتا کہ اس نے خود دیکھا ہے۔لیکن یہ بیچارہ، تنگ نظر اور جاہل شخص یہ لا یعنی دعویٰ کرتا رہتا ہے کہ مسیح کی وفات ہندوستان میں ہوئی تھی۔ مسیح بیت عنیاہ کے مقام پر آسمان پر چلا گیا تھا اور وہ وہاں پر اپنے روحانی جسم کے ساتھ موجود ہے۔ میں معین طور پر بتاسکتا ہوں کہ وہ کب ظاہر ہو گا ۔ لیکن میں کسی دن، کسی ہفتہ اور کسی  سال کا نام نہیں لیتا۔‘‘

امریکہ کے اخبارات کے تبصرے

اس دوران جہاں امریکہ کے اخبارات میں ڈوئی کی مخالفت بھی ہو رہی تھی وہاں اس کی غیرمعمولی شخصیت اور کامیابیوں کی بھی شہرت ہو رہی تھی۔ اس وقت ایک اخبار The Western News لکھتا ہے۔

Most remarkable of all the faith healers, Prophets or Messiahs who have rushed to the rescue of a sinful world in the last half century is John Alexander Dowie, of Zion City, general overseer of Zion, as he calls himself; or Elijah the Restorer; for he claims to be the reincarnation of Elijah the prophet; or, to be more exact, the third reincarnation, for the first Elijah was caught up to heaven in a whirlwind, and the second, John the Baptist, was beheaded.

(The Western News 25 Feb 1903)

ترجمہ: تمام روحانی شفا کا دعویٰ کرنے والوں اور گزشتہ نصف صدی میں جن لوگوں نے رسالت یا مسیح ہونے کا دعویٰ کر کے گنہگار دنیا کو نجات دلانے کا اعلان کیا ہے، سب سے زیادہ غیرمعمولی شخصیت صیہون شہر کے اور صیہون تنظیم کے جنرل اوور سیئر جان الیگزینڈر ڈوئی کی ہے۔ ڈوئی تجدید کرنے والے ایلیا ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ اس نے ایلیا (الیاس) کے بروز کے طور پر جنم لیا ہے۔ یا یوں کہنا چاہیے کہ یہ ایلیا کا  تیسرا ظہور ہے۔ کیونکہ پہلا ا ایلیا وہ تھا جو ایک بگولے میں آسمان پر اُٹھایا گیا تھا اور ایلیا کا دوسرا ظہور بتسمہ دینے والے یوحنا (یحییٰ) کی صورت میں ہوا تھا۔

پھر یہی اخبار لکھتا ہے۔

He is remarkable for the perfection of the organization he has formed. It not only prosecutes missionary work all over the world, but it also conducts a great variety of business enterprises. He is remarkable for the fact that everything is founded on his own personality. All property is in his name, everything is done by his direct orders, and everything depends for its existence on him. But most remarkable of all is the method by which he has accomplished this.

ترجمہ: وہ ایک غیرمعمولی شخصیت ہے کیونکہ اس نے ایک ایسی کامل تنظیم بنائی ہے جو کہ نہ صرف پوری دنیا میں مشنری سرگرمیاں چلا رہی ہے بلکہ بہت سی مختلف صنعتوں کو بھی چلا رہی ہے۔ وہ اس لئے بھی ایک غیر معمولی شخص ہے کیونکہ ان تمام چیزوں کا مرکز اس کی  اپنی ذات ہے۔ تمام جائیداد اس کے نام پر ہے، ہر قدم اس کے براہ راست حکم پراُٹھایا جاتا ہے اور ہر چیز کا دارومدار اس کی ذات پرہے۔ لیکن سب سے زیادہ غیرمعمولی بات وہ طریقہ کار ہے جس سے اس نے یہ کارنامہ سرانجام دیا ہے۔

اپنے آپ کو شکاگو کے نزدیک مستحکم کرنے کے بعد، ڈوئی نے امریکہ میں اپنے کام کو وسعت دینے کے لئے ایک اور بڑا منصوبہ بنانا شروع کیا۔ فروری و مارچ 1903ء میں ہی یہ خبریں شائع ہونا شروع ہوگئی تھیں کہ اب ڈوئی  نے نیو یارک میں اپنے پیغام کو پھیلانے کے لئے ایک بڑا منصوبہ بنانا شروع کیا ہے اور وہ منصوبہ یہ تھا کہ اکتوبر 1903ء میں ڈوئی کے تین ہزار پیروکار سپیشل ٹرینوں پر سوار ہو کر نیویارک پہنچیں گے اور دو ہفتہ کے لیے ڈوئی کا پیغام نیو یارک کے گھر گھر  میں پہنچائیں گے۔ اس غرض کے لئے اتنے ماہ پہلے ہی میڈیسن سکوائر کرائے پر لے لئے گیا تھا۔ ہوٹل ریزرو کرائے جارہے تھے اور ڈوئی کے پیروکاروں کا ہراول دستہ  نیو یارک پہنچ کر جائزہ لے رہا تھا اور منصوبہ بندی کر رہا تھا۔

(Jamestown weekly Alert 19 Feb 1903, Rock Island Argus 7 th March 1903)

اس وقت امریکہ میں حضرت مسیح موعود کو بہت کم لوگ جانتے ہوں گے۔ لیکن آہستہ آہستہ حضرت مسیح موعود کے چیلنج کی شہرت امریکہ کے اخبارات میں بھی ہونے لگی۔ایک اخبارنے لکھا۔

 A CHALLENGE TO DOWIE

Dowie has been challenged to a curious contest. The challenger is Mirza Ghulam Ahmad of Quaidian, Punjab, India,Come thou, O self styled prophet says Mirza in his defi. Let us kneel on our knees in the dust of the Earth, you and I together, and petition the Almighty that of us two whoever is the liar shall perish first. Elijah has not accepted the challenge, but neither has he declined it. He cannot afford to ignore it. The ,Review of Religions, published in Gurdaspur, India, through which the challenge is issued, says that Mirza is The Promised Messiah  sent for the reformation of the world exactly at the time fixed by calculations based on biblical prophecies as the time of   the advent of the Messiah, and he has the following of over 100000 members, rapidly growing. Mirza Ghulam Ahmad  declares that the proof Dr. Dowie furnishes in support of his extravagant claims to have healed hundreds of sick men. But why did his healing power fail in case of his own beloved daughter, where it should have been exercised in highest degree.

(ALEXANDRIA GAZZETTE, 24 TH JUNE 1903)

ترجمہ: ڈوئی کو چیلنج :

ڈوئی کو ایک دلچسپ مقابلہ کا چیلنج دیا گیا ہے۔ یہ چیلنج دینے والے قادیان، پنجاب کے مرزا غلام احمد ہیں۔ انہوں نے کہا ہے اے خود ساختہ رسول آؤ ہم دونوں زمین پر گھٹنے ٹیک کر دعا کریں اور خدا سے التجا کریں کہ ہم سے جو جھوٹا ہے وہ پہلے ہلاک ہو۔ ایلیا نے نے ابھی یہ دعوت قبول نہیں لیکن اس سے انکار بھی نہیں کیا۔ وہ اس بات کا متحمل نہیں ہوسکتا کہ اسے قبول نہ کرے۔ ریویو آف ریلجنز جس میں یہ چیلنج شائع ہوا ہے گورداسپور پنجاب میں شائع ہوتا ہے۔ اس رسالے کے مطابق مرزا مسیح موعود ہے جسے دنیا کی اصلاح کے لئے بھجوایا گیا ہے۔ ان کے پیروکاروں کی تعداد  ایک لاکھ سے زیادہ ہے اور ان میں اضافہ ہو رہا ہے۔مرزا غلام احمد کا کہنا ہے ڈاکٹر ڈوئی اپنے بلند و بانگ دعاوی کے ثبوت میں یہ دعویٰ پیش کرتا ہے کہ اس نے سینکڑوں بیماروں کو شفاء دی ہے۔ لیکن پھر وہ اپنی عزیز بیٹی کو شفاء کیوں نہیں دے سکا، حالانکہ اس صلاحیت کا سب سے زیادہ مظاہرہ اسی موقع پر ہونا چاہئے تھا۔

نوٹ: تقریباً اسی مضمون کی خبرThe Bellefontaine Republican 26th June 1903میں شائع ہوئی تھی۔

ایک اور اخبار Rock Island Argus نے 24th June 1903 کی اشاعت کے صفحہ اول پر حضرت مسیح موعود کے چیلنج کی تفصیلات لکھنے کے علاوہ یہ لکھاکہ ڈوئی کا شاید یہ ردِعمل ہو۔

Perhaps he will treat the challenge with scorn, and tell Mirza Ghulam Ahmad to go and get a reputation. However that may be, Mirza is no featherweight when it comes to pretensions. The Review of Religions published in Gurdaspur, India through which the challenge is issued, says Mirza is The Promised Messiah  sent for the reformation of the world exactly at the time fixed by calculations based on Biblical prophecies as the time of the advent of the Messiah and he has the following of over one hundred  thousand members, rapidly growing. The teaching of the Messiah is that Christ was a mere mortal, a good man, without divinity.

ترجمہ: شاید وہ (ڈوئی) اس چیلنج سے حقارت کا سلوک کرے اور مرزا غلام احمد سے کہے کہ جاؤ پہلے کچھ شہرت تو حاصل کرو۔ بہرحال جو کچھ بھی ہو جہاں تک دعاوی کا تعلق ہے مرزا بھی کوئی معمولی آدمی نہیں ہے۔ ریویو آف ریلجنز جو کہ گورداسپور (ہندوستان) سے شائع ہوتا ہے اور جس کی وساطت سے یہ چیلنج دیا گیا، لکھتا ہے کہ مرزا ’’مسیح موعود‘‘ ہے جسے عین اس وقت جبکہ بائیبل کی پیشگوئیاں مسیح کی آمد کی نشاندہی کر رہی تھیں، دنیا کی اصلاح کے لئے مامور کیا گیا ہے۔ اس کے پیروکاروں کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ ہے اور ان میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ مسیح اس بات کی تعلیم دیتا ہے کہ یسوع ایک نیک مگر فانی انسان تھا جسے خدائی کی خصوصیات حاصل نہیں تھیں۔

ایک اور اخبار The Saint Paul Globe نے 26جون 1903کی اشاعت میں لکھا:

"One cannot but fear that we are going to lose our only Dowie. He has been challenged to a prayer duel, something entirely new in religious stunts, and the terms laid down by the challenger make it look exceedingly shaky for the Zion leader. Mirza Ghulam Ahmad is the man who desires to endeavor to pray Dowie to a stand still, and he says that they shall petition the Almighty that of us two whoever is the liar shall perish first. Every patriotic American who knows anything of Dowie will not fail to put his money on the Zionist. The latter has not yet sent his acceptance, and it is supposed that he wants time to settle up his affairs.”

ترجمہ: اب اس بات کا خوف ہے کہ ہم اپنے اکلوتے ڈوئی سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ اسے دعاؤں کے ایک مقابلہ کے لیے چیلنج دیا گیا ہے اور اس چیلنج کے لیے جو شرائط  رکھی گئی ہیں وہ صیہون کے لیڈر کے لیے پریشانی کا باعث ہیں۔ یہ مذہبی شعبدہ بازیوں میں ایک بالکل ہی انوکھی مثال ہے۔ مرزا غلام احمد، جنہوں نے اس مقابلہ کا چیلنج دیا ہے کہ کہتے ہیں کہ ہم دونوں  خدا سے دعا کرتے ہیں کہ جو جھوٹا ہے وہ سچے کی زندگی میں ہلاک ہو جائے۔ ہر محب وطن امریکی جو کہ ڈوئی کو جانتا ہے صیہون کے قائد کے حق میں ہی شرط لگائے گا۔ ابھی اس نے چیلنج کو قبول نہیں کیا۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اسے معاملات ٹھیک کرنے کے لیے وقت درکار ہے۔

ایک اور اخبار نے اس چیلنج کا ذکر ان الفاظ میں کیا۔

Dr. Dowie’s pretensions as a prophet and Messiah  have  been challenged  to a praying duel  to the death. The challenger is Mirza Ghulam Ahmad of Quadian, Punjab, India. Come thou, O self styled prophet, to a duel says Mirza  in his defi.  Let us kneel on our knees in the dust of earth. You and I together, and pray  Almighty that of us two whoever  is the liar  shall perish first. Elijah II has not accepted the challenge. Letters and publications  say that  Mirza is the  Promised Messiah. He says I am the very Messiah, the promised one, for whom  he is so anxiously waiting. Between Dr. Dowie’s position and mine the difference is that Dowie fixes the appearance e of the Messiah with in the next twenty five years. While I give him  the glad tidings that the Messiah has already appeared. I am that Messiah. I will pray him to death to settle the question.

(The Omaha Daily Bee 5th July 1903)

ترجمہ: ڈاکٹر ڈوئی کے رسول اور مسیح ہونے کے دعاوی کو دعا کے ایک مقابلہ کے ذریعہ چیلنج دیا گیا ہے۔ یہ چیلنج کرنے والے ہندوستان میں پنجاب کے قادیان میں رہنے والے مرزا غلام احمد نے دیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ اے خود ساختہ رسول آؤ میں ہم  خدا کے حضور جھکیں کہ ہم میں سے جھوٹا ہے وہ پہلے ہلاک ہوجائے۔ ایلیا ثانی نے ابھی یہ چیلنج قبول نہیں کیا۔ خطوط اور جرائد میں یہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ مرزا مسیح موعود ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میں ہی وہ مسیح موعود ہوں جس کا ڈوئی اس بیتابی سے انتظار کر رہا ہے۔ میرے اور ڈوئی کے موقف میں صرف یہ فرق ہے کہ وہ کہتا ہے کہ مسیح پچیس سال میں ظاہر ہو گا اور میں اسے یہ خوشخبری دے رہا ہوں کہ مسیح تو ظاہر ہوچکا اور میں ہی وہ مسیح ہوں۔ میں اس بات کے فیصلہ کے لئے اس کی موت تک دعا کروں گا۔

بعض اخبارات اس خیال کا اظہار کر رہے تھے کہ اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ حضرت اقدس مسیح موعود اس روحانی مقابلہ میں کامیاب ہوجائیں۔ ایک اخبار Rosebud County News,نے 2 جولائی 1903ء کی اشاعت میں لکھا:

Lige Dowie is up against it now. Mirza Ghulam Ahmad of Quadian, Punjab, India, who claims to be the Messiah, has challenged him to a duel of prayer a lamort. The dusky Messiah says:Whoever of us is a liar may perish first . Mirza Ghulam Ahmad had better talk softly, for Lige is in no immediate danger of extinction. Heaven wouldnt have him and he’s too big a job for the devil to tackle.

ترجمہ: ایلیا ڈوئی کو ایک مخالف کا سامنا ہے۔ ہندوستان کے پنجاب کے قادیان میں رہنے والے مرزا غلام احمد نے اسے دعاؤں کے مقابلہ کے لیے چیلنج دیا ہے جو کہ موت تک جاری رہے گا۔ اس مسیح کا کہنا ہے کہ ہم میں سے جو جھوٹا ہے وہ پہلے مر جائے۔ مرزا غلام احمد کو چاہئے تھا کہ وہ نرمی سے بات کرتے کیونکہ اس ایلیا کے فوراً ہلاک ہونے کا کوئی امکان موجود نہیں ہے۔ آسمانی طاقتیں اسے ختم نہیں کر رہیں اور وہ شیطان کے قابو میں آنے والا نہیں ہے۔

اس وقت ڈوئی کا ستارہ عروج پر تھا ۔ اغلباً امریکہ کے بہت سے حلقوں کے لیے یہ بات سمجھنا  ممکن نہیں تھا کہ ایک محکوم اور پسماندہ ملک کے گمنام قصبہ میں رہنے والا ڈوئی جیسے شخص کو کس طرح چیلنج دے سکتا ہے۔ چنانچہ بعض اخبارات حضرت اقدس مسیح موعود کا اور آپ کے لباس کا ذکر بھونڈے پن کے ساتھ اور استہزاء کے رنگ میں کر رہے تھے۔ چنانچہ اخبار Saint Paul Globe نے ایک بار پھر اس روحانی مقابلہ کے چیلنج کی تفصیلات درج کرکے 19 جولائی 1903ء کی اشاعت میں لکھا۔

Dowie probably will not accept the Indian Messiah’s challenge for some time to come. His prayers are all taken for months ahead, and he is so busy getting ready for his Christianization of Gotham that he isn’t paying any particular attention to Punjabians of any caste, be they nude pariahs or Messiahs clad in old overcoats and white breeches.

If  Mirza Ghulam Ahmad takes it into his head to come to this country and beard the prophet  in his own land office, he will find that Dowie hasn’t been wasting time fooling with Messiahs. He will find instead that Dowie has been engineering town lot booms and directing the programe of collecting takers between prayers. He will find few stores where he can buy a new coat and a decent looking hat, if he has the money, and he will find the hotel where he may sleep if he does not neglect the Zion city cash drawer.

But  Mirza will not find warm welcome if he comes. Dowie isnt inviting rival prophets or Messiahs.

ترجمہ: اغلباً ڈوئی کچھ عرصہ کے لئے ہندوستان کے مسیح کا چیلنج قبول نہیں کرے گا۔ اس کی دعائیں آنے والے کئی ماہ میں مصروف ہیں اور اس وقت وہ نیویارک کو عیسائی بنانے میں مصروف ہے اور اس وقت وہ کسی بھی پنجابی کو خواہ اس کا تعلق کسی بھی ذات سے ہو، خواہ وہ برہنہ ملنگ ہو یا پرانے اوور کوٹ اور سفید پاجامہ میں مسیحیت کا کوئی دعویدار ہو، خاص توجہ نہیں دے سکتا۔ اگر مرزا غلام احمد کے ذہن میں یہ خیال آئے کہ وہ اس ملک میں آکر رسالت کے اس دعویدار کا اس کے دفتر میں سامنا کرے، تو اسے معلوم ہو جائے گا کہ ڈوئی مسیحیت کے اس دعویدار کا سامنا کرنے میں اپنا وقت نہیں ضائع کر نا چاہتا۔ وہ اپنے شہر کی زمین تقسیم کرنے اور دعاؤں کے درمیان عطایا وصول کرنے میں مصروف ہے۔ البتہ یہاں اسے ایسے سٹور مل جائیں گے جہاں اگر اس کے پاس پیسے ہوئے تو وہ نیا کوٹ اور پروقار ہیٹ خرید سکے گا اور ایسا ہوٹل مل جائے گا جہاں وہ سو سکے گا۔ سوائے اس کے کہ وہ صیہون کی تجوری کو نظرانداز نہ کر سکے۔ مگر یہاں پر مرزا کا پرتپاک استقبال نہیں کیا جائے گا۔ ڈوئی اپنے مقابل کسی رسالت کے دعویدار یا مدمقابل مسیح کو مدعو نہیں کرنا چاہتا۔

اس حوالے میں تکبر اور گرے ہوئے انداز میں استہزاء ظاہر ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے خدا تعالیٰ کی تقدیر نے جلد اس استہزاء کا انتقام لے لیا تھا۔

ڈوئی کو دوسری مرتبہ چیلنج:

ڈوئی نے مذکورہ طریق پر اس دعوت کو قبول نہیں کیا تو حضرت مسیح موعود نے ایک بار پھر اسے مخاطب فرمایا۔ اگست 1903ء میں حضرت مسیح موعود نے ایک اور اشتہار میں ڈوئی کو مخاطب فرمایا۔ آپ نے تحریر فرمایا:

’’… مسٹر ڈوئی اگر میری درخواست مباہلہ قبول کرے گا اور صراحتاً یا اشارةً میرے مقابلہ پر کھڑا ہوگا تو میرے دیکھتے دیکھتے بڑی حسرت اور دکھ کے ساتھ اس دنیائے فانی کو چھوڑ دے گا …۔

یاد رہے کہ اب تک ڈوئی نے میری اس درخواست مباہلہ کا کچھ جواب نہیں دیا اور نہ اپنے اخبار میں کچھ اشارہ کیا ہے ۔ اس لئے میں آج جو  23 ۔اگست 1903ء ہے اس کو پورے سات ماہ کی اور مہلت دیتا ہوں اگر وہ اس مہلت میں میرے مقابلہ پر آگیا اور جس طور سے مقابلہ کرنے کی میں نے تجویز کی ہے جس کو میں شائع کرچکا ہوں اس تجویز کو پورے طور پر منظور کر کے اپنے اخبار میں عام اشتہار دے دیا تو جلد تر دنیا دیکھ لے گی کہ اس مقابلہ کا انجام کیا ہوگا۔ میں عمر میں ستر برس کے قریب ہوں اور وہ جیساکہ بیان کرتا ہے پچاس برس کا جوان ہے۔ جو میری نسبت گویا ایک بچہ ہے۔ لیکن میں نے اپنی بڑی عمر کی کچھ پروا نہیں کی ۔کیونکہ اس مباہلہ کا فیصلہ عمروں کی حکومت سے نہیں ہوگا۔بلکہ وہ خدا جو زمین و آسمان کا مالک اور احکم الحاکمین ہے وہ اس کا فیصلہ کرے گا اور اگر مسٹر ڈوئی اس فیصلہ سے بھاگ گیا۔ تو دیکھو میں آج میں تمام امریکہ اور یورپ کے باشندوں کو اس بات پر گواہ کرتا ہوں۔ کہ یہ طریق اس کا بھی شکست کی صورت سمجھی جائے گی اور نیز اس صورت میں پبلک کو یقین کرنا چاہئے کہ یہ تمام دعویٰ اس کا الیاس بننے کا محض زبان کا مکر اور فریب تھا اور اگرچہ وہ اس طرح موت سے بھاگنا چاہے گا لیکن درحقیقت ایسے بھاری مقابلہ کرنے سے گریز کرنا بھی ایک موت ہے۔ پس یقین سمجھو کہ اس کے صیہون پر جلد تر ایک آفت آنے والی ہے کیو نکہ ان دونوں صورتوں میں سے ضرور ایک صورت اس کو پکڑ لے گی۔‘‘(مجموعہ اشتہارات جلد دوئم ص 606و607)

اس اشتہار میں حضرت مسیح موعود نے ڈوئی سے ہر ایک رعایت کر کے یہ اعلان کیا تھا ۔ اگر وہ مذکورہ طریق سے مباہلہ نہیں کر سکتا تو اگر اس نے  اشارہ بھی کیا تو بھی حضرت مسیح موعود کی زندگی میں اپنے دردناک انجام کو پہنچے گا۔ اگر اس نے بالکل گریز کیا تو بھی اس کے صیہون پر جلد تر ایک آفت آنے والی ہے۔گویا اب وہ قبول کرے یا نہ کرے ۔ مقابل پر آئے یا اشارہ کرے یا بالکل ہی فرار کا راستہ اختیار کرے تو بھی وہ اپنے بدانجام کو پہنچے گا۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ اس دوسرے  اشتہار میں یہ بات بالکل واضح تھی کہ اگر ڈوئی چیلنج کو مذکورہ طریق سے قبول نہ بھی کرے لیکن حضرت مسیح موعود کے مقابل پر اشارہ بھی کر دے تو وہ حضرت مسیح موعود کی زندگی میں اپنے دردناک انجام کو پہنچے گا۔ اگر وہ بالکل گریز بھی کر لے تو بھی صیہون پر جلد آفت آنے والی ہے۔ صیہون(Zion) کا لفظ اس کی تنظیم کے بارے میں بولا جاتا تھا اور اس کے شہر کا نام بھی تھا اور اس کے پیروکار بھی Zionist کہلاتے تھے۔ اس کی منادیوں اور مبلغوں کی فوج کا نام بھی Zion Restoration Host تھا۔ خواہ اس انذار کامخاطب ڈوئی کو سمجھا  جائے یا اس کی تنظیم کو، یا اس کے شہر کو، یہ نشان عظیم الشان طریق پر پورا ہوا۔ لیکن اب انٹر نیٹ پر بعض حلقے صرف  پہلے چیلنج کا ذکر کر کے یہ واویلا کر رہے ہیں کہ ڈوئی نے چیلنج قبول کیا ہی نہیں تھا تو یہ نشان پورا کس طرح ہوا۔ حالانکہ دوسرے اشتہار میں یہ واضح لکھا تھا کہ اگر ڈوئی صرف اشارہ بھی کر دے یا بالکل گریز بھی کرے تو بھی تباہی اس کی منتظر ہے اور ایسا دیر سے نہیں بلکہ جلد ہوگا۔البتہ یہ دیکھنا ضروری ہے کہ اس دوسرے چیلنج کے بعد ڈوئی کا کیا ردِعمل سامنے آیا۔ حضرت مسیح موعود کے دوسرے چیلنج کے بعد بھی بہت سے امریکی اخبارات نے حضرت مسیح موعود کی تصویروں کے ساتھ حضرت مسیح موعود کے چیلنج کی خبریں شائع کیں۔ ان کی مثالیں درج کی جاتی ہیں۔

1. Dakota Farmers Leader 13 November 1903.

2. Lincoln County Leader 11 December 1903.

3. The Spokane Press 10 October 1903.

نوٹ: سوائے لیوز آف ہیلنگز کے باقی اخبارات کے مذکورہ شمارے لائبریری آف کانگرس کے Internet Archives پر موجود ہیں۔

ڈوئی کا ردعمل

جیساکہ حوالہ درج کیا جا چکا ہے کہ حضرت  مسیح موعود نے دوسرے اشتہار میں ارشاد فرمایا تھا کہ ڈوئی چیلنج قبول کرے یا فرار کا راستہ اختیار کرے، صیہون پر جلد تباہی آنے والی ہے اور اس پیشگوئی کے تقریباً ایک ماہ کے بعد صیہون کے بارے میں ایک اعلان ڈوئی نے بھی کیا تھا  اور وہ یہ اعلان یا پیشگوئی  لیوز آف ہیلنگ کے 20 ستمبر 1903ء کے شمارے میں شائع ہوا تھا۔ ڈوئی نے تقریر کرتے ہوئے کہا:

Zion cannot be broken up for if it were necessary  we would all go on bread and water and oatmeal and hold together.

ترجمہ: صیہون کو پراگندہ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اگر ضرورت ہوئی تو ہم سب روٹی اور پانی پر گزارہ کرلیں گے، دلیہ کھا لیں گے مگر اتحاد سے رہیں گے۔

پھر ڈوئی نے اپنے مبلغوں کی فوج Zion Restoration Host کا ذکر کرتے ہوئے کہا:

This host will ride to battle and never ask  the reason why. You will go forward at the word of command and do what you are told . I know that you will.

ترجمہ: یہ فوج جنگ کو جائے گی اور کبھی یہ سوال نہیں کرے گی کہ اسے جنگ میں جانے کا حکم کیوں دیا جا رہا ہے۔ تم حکم ملنے پر پیش قدمی کرو گے اور جو کچھ حکم دیا جاتا ہے وہی کرو گے اور میں جانتا ہوں کہ تم ایسا ہی کرو گے۔

اور اس تقریر کے آخر میں ڈوئی نے کہا:

The purpose of God in the organization of Zion Restoration host is the conquest of the world for Christ our King. Will you follow under that banner until you die.

The host: Yes

ترجمہ: صیہون کی تجدید کے لشکر کی تشکیل میں خدا کا ارادہ یہ ہے کہ پوری دنیا کو ہمارے بادشاہ یسوع مسیح کے لئے فتح کیا جائے۔ کیا تم اپنی موت تک اس علم تلے جنگ کرو گے ؟

اس پر لشکر نے اثبات میں جواب دیا۔

ڈوئی کی اس تقریر کے دوران اس کے منادی پر جوش تالیاں بجاتے رہے۔

(Leaves of Healing 26 September 1903, p 721-723)

ڈوئی نے اس پر ہی بس نہیں کی بلکہ اس نے اپنے رسالے کے اسی شمارے میں یہ گستاخانہ فقرے بھی شائع کئے۔ یہ اس نے اپنی اس تقریر میں کہے  تھے جو کہ اس نے حضرت مسیح موعود کے پہلے چیلنج کے کچھ عرصہ بعد 31 مئی 1903ء کو کی تھی۔ اس شمارے میں شائع ہونے والے الفاظ یہ تھے :

People sometimes say to me: Why do you not reply to this, and that and other thing? Reply! And do you think that I shall reply to these gnats and flies? John  L Sullivan, the heavy weight prize fighter  was  insulted once by a bantam fighter  by, when someone who stood by said, Why do you not hit him? Hit him  said the big fellow. He is not in my class; if I should him I would kill him. And you ask me to reply to these little flesh flies; these wretched little gnats? If I would put my foot on them I would crush out their lives . I give them chance to fly away and live. The idea of bothering about these little things. Zion has got no time to stop its wheels to answer them. It is like a mouse looking at a buzz saw and saying, You stop or I will bite you ! Let it bite the buzz saw and that is the end of it.(Laughter)(page  726)

ترجمہ: لوگ بعض دفعہ مجھے کہتے ہیں کہ تم اِس کو کیوں نہیں جواب دیتے تم اُس کو جواب کیوں نہیں  دیتے۔ میں جواب دوں! تم کیا سمجھتے ہو کہ میں ان  مچھروں اور مکھیوں کو جواب دوں گا۔ جون سلیوان جو کہ نامی ہیوی ویٹ پہلوان تھا، ایک بار ایک کم درجہ کے پہلوان نے اس کی توہین کی۔ وہاں پر موجود ایک آدمی نے کہا کہ تم اسے مارتے کیوں نہیں ہو۔ اس بڑے پہلوان نے کہا کہ میں اسے کس طرح ماروں۔ یہ میرے معیار کا آدمی نہیں ہے۔ اگر میں اس پر ہاتھ اُٹھاؤں گا تو یہ مر جائے گا۔ اور تم مجھ سے کہتے ہو کہ میں ان مکھیوں اور حقیر مچھروں کو جواب دوں۔ میں اگر ان پر پاؤں رکھوں تو یہ کچلے جائیں گے ۔ میں انہیں موقع دیتا ہوں کہ وہ اڑ جائیں اور اپنی زندگی بچا لیں۔ صیہون کے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ وہ رک کر ان کو جواب دے۔ ان کی مثال اسی طرح ہے جیسے ایک چوہا ایک بجلی سے چلنے والی آری کو کہے کہ تم رک جاؤ ورنہ میں تمہیں کاٹ لوں گا۔ اسے کاٹنے دو اسی وقت اس کا خاتمہ ہو جائے گا۔ (اس پر حاضرین ہنس پڑے)

اس وقت کے کئی اخبارات انٹر نیٹ پر موجود ہیں۔ ہر کوئی جائزہ لے سکتا ہے۔ اس وقت سوائے حضرت اقدس مسیح موعود کے اور کسی نے روحانی مقابلہ کے لئے ڈوئی کو دعوت نہیں دی ہوئی تھی اور اس وقت وسیع پیمانے پر اس چیلنج کا تذکرہ ہو رہا تھا اور جیساکہ ہم نے حوالے درج کئے ہیں اس وقت امریکہ کے اخبارات میں یہ سوال اُٹھایا جا رہا تھا کہ ڈوئی اس چیلنج کا جواب دے گا کہ نہیں دے گا۔ اس لئے ایک یہی نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ اس گستاخی کا نشانہ حضرت مسیح موعود کی ذات ہی تھی۔ حضرت مسیح موعود نے فرمایا تھا کہ ڈوئی اگر اشارہ بھی کرے گا تو حضرت مسیح موعود کی زندگی میں درد اور دکھ کے ساتھ ہلاک ہوگا لیکن اس عبارت میں تکبر اور گستاخی کی انتہا کر دی گئی تھی۔ اگر روحانی مقابلہ کی دعوت بھی نہ ہوتی تو بھی مامور من اللہ کی شان میں اس قسم کی گستاخی پر جلد یا بدیر گستاخی کرنے والا اللہ تعالیٰ کے عذاب کی پکڑ میں آ جاتا ہے اور اگلے چند سالوں میں دنیا نے دیکھا کہ ڈوئی اس پیشگوئی کے نتیجہ میں اپنے عبرتناک انجام کو پہنچا اور اس کی شان و شوکت اس کے کسی کام نہ آ سکی۔

(نوٹ: اس مضمون کے لئے لیوز آف ہیلنگ کے حوالے ریسرچ سیل نے مہیا کئے۔ اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے۔ آمین)

٭…٭…٭…٭

(روزنامہ الفضل  7 ۔اکتوبر 2015ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button