رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی بن سلول اور اس کےساتھیوں کی اسلام اور آنحضورﷺ کے خلاف تکلیف دہ منافقانہ کارروائیوں اور ان کے مقابل نبی اکرم ﷺ کے عفو و درگزر اور بے مثال شفقتوں کا تذکرہ
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 15؍نومبر2019ءبمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ،سرے،یوکے
اس تحریر کو بآواز سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے:
مکرمہ امۃ الحفیظ صاحبہ اہلیہ مولانا محمدعمر صاحب کیرالہ انڈیا، مکرم چوہدری محمد ابراہیم صاحب سابق مینیجر اور پبلشر ماہ نامہ انصاراللہ پاکستان، مکرم راجہ مسعود احمد صاحب ابن مکرم راجہ محمد نواز صاحب پنڈ دادن خان اورمکرمہ صالحہ انورابڑو صاحبہ اہلیہ انورعلی ابڑو صاحب سندھ کی وفات۔ مرحومین کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب
امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 51؍ نومبر 9102ء کو مسجدمبارک، اسلام آباد،ٹلفورڈ یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا ۔ جمعہ کی اذان دینے کی سعادت مکرم فیروز عالم صاحب کے حصہ میں آئی۔
تشہد،تعوذ،تسمیہ اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےفرمایا:
بدری صحابہ کے متعلق خطبات کےسلسلے کا گذشتہ خطبہ مَیں نے جرمنی میں دیاتھاجو حضرت عبداللہؓ کے باپ عبداللہ بن ابی بن سلول کے جنگِ احد سے اپنے ساتھیوں سمیت واپس مدینے لوٹ آنےتک تھا۔ جنگِ احد کےبعد عبداللہ بن ابی بن سلول کے رویّے، آنحضرتﷺاور مسلمانوں کو تکالیف اور استہزا کی باتوں کی کچھ تفصیل آج بیان کروں گا۔ ان واقعات سے حضرت عبداللہؓ بن عبداللہ کی اسلام اور آنحضورؐ سے محبت بھی ظاہرہوتی ہے۔
حضورِانورنے ‘سیرت خاتم النبیین’ سے رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی بن سلول اور اس کےساتھیوں کی اسلام اور آنحضورؐکو تکالیف پہنچانے اور استہزا کرنے کی تفصیل بیان فرمائی۔ غزوۂ احد کے بعد مدینے کےیہود اور منافقین کچھ مرعوب ہوئے لیکن آنحضورﷺ کےصرفِ نظر فرمانے اور نرمی کاسلوک کرنے سے یہ لوگ شرمندہ ہونے کی بجائے ڈھٹائی اوردریدہ دہنی میں بڑھتے چلے گئے۔ 5ہجری میں غزوہ بنو مصطلق سے واپسی پر آنحضورﷺ نےچند دن مریسیع میں قیام فرمایا۔یہاں انصاری سنان نامی شخص اور مہاجرین میں سے حضرت عمرؓ کے ایک جاہل غلام جہجاہ کی لڑائی ہوگئی۔ جو بڑھتے بڑھتے قریب تھا کہ مسلمانوں کے دونوں گروہوں میں خانہ جنگی تک پہنچ جاتی۔ لیکن بعض مخلص اور سمجھ دار انصار و مہاجر صحابہ موقعےپر پہنچ گئے یوں معاملہ رفع دفع ہوا۔ آنحضورﷺ نے جاہلیت کے اس مظاہرے پر سخت سرزنش فرمائی اور آپؐ کی موقع شناسی اور مقناطیسی اثر نے اس فتنے کے خطرناک نتائج سے مسلمانوں کو محفوظ رکھا۔ منافقین کے سردار نے اس واقعے کو ہو ادےکرفتنے کی آگ بھڑکانا چاہی اور اس بدبخت نے یہاں تک کہا کہ مدینے جاکر عزت والا شخص یاگروہ ذلت والے شخص یا گروہ کو اپنے شہرسےنکال دےگا۔ (المنافقون) جب آنحضورﷺ کو اس معاملے کی خبر ہوئی تو آپؐ نے عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں کوبلوایا۔ وہ سب قسمیں کھاگئے کہ ہم نے تو ایسی کوئی بات نہیں کی۔
آنحضورﷺ نے اپنے طریقِ عمل کے برعکس دوپہر کےوقت اسلامی لشکرکو کُوچ کا حکم دیا۔ انصارکے معروف رئیس اسید بن حضیر آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اورحضور اکرمﷺ نے جب اسید کو ساری بات بتائی تو اسید نے عرض کی کہ واللہ ! عزت والے تو آپؐ ہیں۔ مدینے پہنچ کر آپؐ عبداللہ کو شہر سے باہر نکال سکتے ہیں۔ پھر اسید نے حضورﷺ کو بتایا کہ اہلِ مدینہ حضورﷺکی آمد سے پیشتر عبداللہ بن ابی کو اپنا بادشاہ بنانے والے تھے۔ اسی بات کا حسد اس کے دل میں بیٹھ گیا ہے۔ اس لیے آپؐ اس کی بکواس کی پرواہ نہ کیا کیجیے۔اس کے بعد عبداللہ بن ابی کے بیٹے حضرت عبداللہؓ جو نہایت مخلص صحابی تھے گھبراہٹ کے عالَم میں حاضر ہوئے ۔ آپؐ کی خدمت میں عبداللہؓ نے عرض کی کہ اگر آپؐ میرے باپ کی فتنہ پردازی کے سبب اس کے قتل کا حکم دینے والے ہیں تو مجھے حکم فرمائیں۔ انہیں یہ خوف تھا کہ کہیں کسی اَور کے قتل کرنے پر ان کی رگِ جہالت نہ پھڑک اٹھے اور وہ اپنے باپ کے قاتل کو نقصان پہنچابیٹھیں۔ آپؐ نے عبداللہؓ کو تسلی دی کہ ہمارا ایسا کوئی ارادہ نہیں۔
عبداللہ ؓکو اپنے باپ کے خلاف اتنا جوش تھا کہ مدینے واپسی پر آپؓ اپنے باپ کے راستے میں کھڑے ہوگئے اور اسے مجبور کرکے یہ الفاظ کہلوائےکہ رسول اللہﷺ معزز ہیں اور وہ ذلیل ہے۔
غزوہ بنو مصطلق سے واپسی پر حضرت عائشہؓ پر منافقین کی طرف سے ایک ناپاک تہمت لگائی گئی۔ اس واقعے کو تاریخ میں ‘واقعہ افک ’کہا جاتا ہے۔ اس کا بانی مبانی بھی عبداللہ بن ابی بن سلول ہی تھا۔
حضورِ انور نے حضرت عائشہؓ کی بیان کردہ روایت کی روشنی میں اس واقعے کی تفاصیل پیش فرمائیں۔ مدینے واپسی پر ایک رات آپؐ نے کُوچ کا حکم دیا۔ عائشہؓ رفع حاجت کے لیے گئیں اور واپسی پر آپؓ کو علم ہوا کہ ان کا ہار ٹوٹ کر کہیں گر گیا ہے۔ آپؓ وہ ہار لینے واپس گئیں۔ پیچھے سے آپؓ کا اونٹ تیار کرنے والوں نے اس خیال سے کہ آپ ؓہودج میں ہی موجودہیں آپؓ کا ہودج اونٹ پر رکھ دیا۔ جب عائشہؓ واپس لوٹیں تو یہ سوچ کر کہ لشکروالے آپؓ کو لینے واپس آئیں گے وہیں بیٹھ گئیں اور اسی اثنا میں آپؓ کی آنکھ لگ گئی۔ صفوان بن معطلؓ فوج کے پیچھے رہا کرتے تھے تاکہ دیکھ سکیں کہ کوئی چیز پیچھے تو نہیں رہ گئی۔ جب صفوانؓ کی نظر حضرت عائشہؓ پر پڑی تو انہوں نے زور سے اِنّا للہ پڑھا۔ جس سے عائشہؓ کی آنکھ کھل گئی۔ صفوانؓ نے اپنی اونٹنی کو بٹھایااور حضرت عائشہؓ اس پر سوار ہوگئیں۔
مدینے پہنچ کر حضرت عائشہ ؓبیمار ہوگئیں اور لوگوں میں تہمت لگانے والوں کی باتوں کا چرچا ہونے لگا۔ حضرت عائشہؓ کو امِّ مسطح کےذریعے اس تہمت کا علم ہوا تو آپؓ سخت غم گین ہوئیں اور رسول اللہﷺ سے اجازت حاصل کرکے اپنے والدین کے گھر تشریف لے آئیں۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ وہ رات مَیں نے اس طرح کاٹی کہ نہ میرے آنسو تھمے اور نہ مجھے نیند آئی۔
حضورﷺ نے اس بارے میں قریبی صحابہ سے مشورہ بھی کیا۔حضرت عائشہؓ کی خادمہ بریرہ سے بھی پوچھا۔ایک روز حضرت عائشہؓ سے براہِ راست بھی دریافت فرمایا۔ آپؓ نے فرمایا کہ میری مثال یوسفؑ کے باپ کی سی ہے کہ جنہوں نے کہا تھا فصبرٌ جمیل واللّٰہ المستعان علٰی ماتصفون۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے خودوحی کے ذریعے حضرت عائشہؓ کی بریت ظاہرفرمائی۔
ان تمام تکلیف دہ حرکتوں اور الزامات کے باوجود آپؐ نے رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کی نمازِ جنازہ پڑھائی۔ عبداللہؓ بن عبداللہ کی درخواست پر اپنی قمیض بطور کفن کے عطافرمائی۔ حضرت عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے آنحضورﷺ سے عرض کی کہ آپؐ ابنِ ابی کی نمازِ جنازہ پڑھتے ہیں اور یہ کہہ کر اس کےجرائم گنوانے شروع کردیے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا عمر ہٹ جاؤ۔ اگر مجھے علم ہو کہ مَیں ستّر بار سے زیادہ اس کےلیے دعائے مغفرت کروں تو وہ بخشا جائے تو ضرور مَیں اس سے بھی زیادہ کروں۔ اس کے بعد سورۃ توبہ کی وہ آیات نازل ہوئیں کہ جن میں منافقین کی نمازِ جنازہ پڑھنے اور ان کی قبر پر کھڑا ہونے سے مناہی کے احکامات نازل ہوئے۔
خطبے کے دوسرے حصّے میں حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے چار مرحومین کا ذکرِ خیر اور نمازِجنازہ غائب پڑھانے کا اعلان فرمایا۔
ان میں پہلا ذکر مکرمہ امۃ الحفیظ صاحبہ اہلیہ مولانا محمدعمر صاحب کیرالہ انڈیاکا تھا۔ آپ 20 اکتوبر کو 72برس کی عمر میں وفات پاگئی تھیں۔ اِنّا لِلّٰہ وَاِنّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن
مرحومہ کو چنئی میں سیکریٹری مال اور کیرالہ میں لمباعرصہ بطور صدر لجنہ خدمت کی توفیق ملی۔ بہت مہمان نواز، خدمتِ خلق کے جذبے سے سرشار ،نیک اور خلافت سے گہرا عقیدت کا تعلق رکھنے والی خاتون تھیں۔ مرحومہ موصیہ تھیں۔ پس ماندگان میں چار بیٹیاں شامل ہیں۔
دوسرا جنازہ مکرم چوہدری محمد ابراہیم صاحب سابق مینیجر اور پبلشر ماہ نامہ انصاراللہ پاکستان کا تھا۔ آپ 16 اکتوبر کو 83 برس کی عمر میں وفات پاگئے تھے۔ اِنّا لِلّٰہ وَاِنّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ
1960ء میں ماہ نامہ انصاراللہ کےآغاز سے آپ کو اس کا مینیجر اور پبلشر مقرر کیا گیا۔ 2004ء تک آپ یہ فرائض بڑی خوش اسلوبی سے انجام دیتے رہے۔ آپ پر تقریباً 26مقدمات قائم ہوئے اور ایک ماہ آپ کو اسیرِ راہِ مولیٰ رہنے کی بھی سعادت نصیب ہوئی۔ مرحوم موصی تھے اور پس ماندگان میں ایک بیٹی،پانچ بیٹے اور متعدد پوتے پوتیاں ہیں۔
تیسرا جنازہ مکرم راجہ مسعود احمد صاحب ابن مکرم راجہ محمد نواز صاحب پنڈ دادن خان کا تھا۔ آپ 19 اکتوبر کو بڑی طویل علالت کےبعد 69برس کی عمر میں وفات پاگئے تھے۔ اِنّا لِلّٰہ وَاِنّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن
ان کے خاندان میں احمدیت ان کے والد صاحب کے ذریعے آئی۔ جنہوں نے 34۔1933ءمیں قادیان کے جلسے پر ایک ایسا نظّارہ دیکھا جو ان کی بیعت کا سبب بن گیا۔
آپ نے دیکھاکہ ایک خوب صورت، خوب رو نوجوان ایک میلے کچیلے بچے کو گود میں اٹھائے لےکے آرہا ہے۔ جب اس بچے کا ناک بہہ رہا تھا تو اس نوجوان نے اپنی جیب سے رومال نکالا اور اس کا ناک صاف کیا۔ سٹیج پر حضرت مصلح موعودؓ تقریر فرمارہے تھے یہ نوجوان بچے کو گود میں اٹھائے پیچھے کھڑا رہا۔ جب بچہ رو دیا تو حضورؓنے پیچھے دیکھا اور بچے کی گم شدگی کا اعلان کیا۔ راجہ مسعود صاحب کے والد نے یہ نظارہ دیکھ کر دریافت کیا کہ یہ نوجوان کون ہے ۔ جب علم ہوا کہ یہ حضرت مرزا ناصر احمدصاحب ہیں جو حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے بڑے بیٹے ہیں تو اس چیز نے انہیں بےحد متاثر کیا اور یہ بات آپ کے بیعت کرنے کا باعث بن گئی۔ حضورِ انور نے اس واقعے کے تناظر میں فرمایا کہ جلسوں پر آنے والے بعض لوگ ہمیشہ سے ہی ان نظاروں کو دیکھ کر سلسلہ احمدیہ میں شامل ہوتےرہے ہیں۔
چوتھاجنازہ مکرمہ صالحہ انورابڑو صاحبہ اہلیہ انورعلی ابڑو صاحب سندھ کا تھا۔آپ یکم اکتوبر کو وفات پاگئی تھیں۔اِنّا لِلّٰہ وَاِنّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن
مرحومہ بڑی دلیر،باہمت،عبادت گزار،مالی قربانی میں پیش پیش،حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرنےوالی خاتون تھیں۔لمبے عرصے تک آپ ضلع لاڑکانہ کی صدر لجنہ رہیں۔ ان کےدو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔
حضورِانور نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ مغفرت کا سلوک فرمائے اور ان کے بچے بھی خلافت اور جماعت کے ساتھ اسی طرح وابستہ رہیں اور قربانیاں کرنے والے ہوں۔ آمین
٭…٭…٭