خلاصہ خطبہ جمعہ

اخلاص و وفا کے پیکر بدری صحابی حضرت مقداد بن اسود؍عمرو ؓ کی سیرتِ مبارکہ کا دلنشیں تذکرہ

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 22؍نومبر2019ءبمقام مسجدبیت الفتوح، مورڈن، لندن، یوکے

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ  بنصرہ العزیز نے 22؍ نومبر 9102ء کو مسجدبیت الفتوح، مورڈن ، لندن ،یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا ۔ جمعہ کی اذان دینے کی سعادت مکرم حافظ امجد عارف صاحب (جاپان) کے حصہ میں آئی۔

تشہد،تعوذ،تسمیہ اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

بدری صحابہ کے ذکرمیں آج حضرت مقداد بن عمرو ؓکا ذکر کروں گا۔آپؓ کو بچپن میں اسود بن یغوث نے متبنیٰ بنالیا تھااس لیے آپؓ مقداد بن اسودکے نام سے معروف ہوگئے۔ حضرت مقداد ؓ کی شادی آنحضرتﷺ نے اپنے چچا حضرت زبیر بن عبدالمطلب کی بیٹی ضباعۃ سے کروائی تھی۔ آپؓ کا قد لمبا،رنگ گندمی،پیٹ بڑا اور سر میں کثرت سے بال تھے۔ آپؓ اپنی داڑھی کو زرد رنگ لگایا کرتے تھے ۔ آنکھیں سیاہ اور ابروباریک اور لمبے تھے۔آپؓ ان سات صحابہ میں شامل تھے جنہوں نےمکّے میں سب سے پہلے اسلام کا اظہار کیا۔ آپؓ حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والے صحابہ میں بھی شامل تھے۔ رسول اللہﷺ کی مدینے ہجرت کے وقت آپؓ ہجرت نہ کرسکے ۔آپؓ مکّے میں حضرت عبیدہ بن حارثؓ کے سریے تک رہے۔

حضورِانور نے ‘‘سیرت خاتم النبیین’’ کے حوالے سے ان واقعات کی تفصیل بیان فرمائی۔ غزوۂ ودان سے واپسی پر آپؐ نے ربیع الاول کے شروع میں اپنے قریبی رشتے دار حضرت عبید بن الحارث ؓکی امارت میں ساٹھ شتر سوار مہاجرین کا ایک دستہ قریش کے حملوں کی پیش بندی کے لیے بھجوایا۔ثنیۃ المرۃ مقام پر قریش کے دو سو مسلح نوجوان ابوجہل کی سرکردگی میں موجود تھے۔ دونوں فریقین کےدرمیان کچھ تیراندازی بھی ہوئی پھر مخفی خوف کے تابع قریش کا لشکر پیچھے ہٹ گیا ۔اس لشکر میں سے دو افراد جودل سے مسلمان ہوچکے تھے اور قریش کے ساتھ اس خیال سے آگئے تھے کہ یوں مسلمانوں سے آملیں گے ،موقع پاتے ہی مسلمانوں سے مل گئے۔ ان افراد میں سے ایک حضرت مقداؓد بھی تھے۔

ہجرتِ مدینہ کے وقت حضرت مقداد حضرت کلثوم بن ہدم کے گھر ٹھہرے۔ آنحضرتﷺ نے آپؓ کی مؤاخات حضرت جبار بن صخرؓ کے ساتھ قائم فرمائی۔

حضورِانورنے حضرت مقداؓد کی بیان کردہ ایک دل چسپ روایت بیان فرمائی ۔ہجرت کے بعد آپؓ اور چند دیگر مہاجرصحابہ رسول اللہﷺ کے پاس رہا کرتے تھے۔ آپ تمام کا یہ معمول تھا کہ بکریوں کا دودھ دوہتے اور خود بھی پیتے اور رسول اللہﷺ کے لیے رکھ چھوڑتے۔ایک رات کسی شیطانی خیال کے تابع حضرت مقدادؓ نے آنحضورؐ کے حصّے کا دودھ بھی پی لیا۔ دودھ پی لینے کے بعد آپؓ سخت نادم ہوئے ۔ جب آپؐ تشریف لائے تو دودھ نہ پاکر آپؐ نےدعا کی کہ اے خدا جو مجھے کھلائے تُو اسے کھلا اور جو مجھے پلائے تُو اسے پلا۔ اس پر حضرت مقداد ؓ،اس نیت سے اٹھے کہ باہر کھڑی بکریوں میں سے سب سے صحت مند بکری کو ذبح کریں اور آنحضورؐ کی خدمت میں پیش کرکے اس دعا کے وارث بنیں۔ جب آپ ؓبکریوں کی طرف گئے تو ان تمام کے تھنوں کو دودھ سے بھرا ہوا پایا۔ آپؓ نے دودھ دوہا اور رسول خداﷺ کی خدمت میں پیش کیا۔ آپؐ نے سیر ہوکر دودھ نوش فرمایا۔اللہ تعالیٰ کی طرف سے رحمت کے اس سلوک پر آپؓ مسکرا اٹھے۔ جس پر آنحضرتﷺ بھانپ گئے اور دریافت فرمانے لگے۔ آپؓ نے اس پر تمام واقعہ کہہ سنایا جسے سن کر حضورﷺنے فرمایا کہ یہ اللہ کی طرف سے رحمت ہے۔ تم نے پہلے یہ بات نہ بتائی ورنہ ہم دیگر ساتھیوں کو بھی جگالیتےاور وہ بھی پیتے اور اس رحمت سے حصّہ پاتے۔

حضرت مقدادؓ نے غزوۂ بدر سمیت تمام غزوات میں شرکت کی۔ آپؓ رسول اللہﷺ کے بہترین تیراندازوں میں شمار ہوتے تھے۔ غزوۂ بدر میں آپؓ نے رسول اللہﷺ سے عرض کی تھی کہ ہم اس طرح نہیں کہیں گے جیسے موسیٰؑ کی قوم نے کہا تھا کہ ‘‘جاتُو اور تیرارب جاکر لڑو۔بلکہ ہم تو آپؐ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی۔ آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی۔’’مقدادؓ بیان کرتے ہیں کہ ان کے اس بیان پر آپؐ کا چہرہ چمکنے لگااور آپؐ بہت خوش ہوئے۔ حضورِ انور نے‘‘سیرت خاتم النبیین’’ کے حوالے سے اس ایمان افروز واقعے کا پس منظر اور تفاصیل بیان فرمائیں۔

غزوۂ بدر میں اللہ کی راہ میں قتال کرنےوالے پہلے گھڑسوار ہونے کا شرف آپؓ کو حاصل ہوا۔ مختلف تاریخوں سے علم ہوتا ہے کہ غزوۂ بدر میں مسلمانوں کے پاس دو ،تین یا پانچ گھوڑے تھے۔
حضرت مقدادؓ نے رسول اللہﷺ سے دریافت کیاکہ اگر دورانِ جنگ میرا کسی کافر سے مقابلہ ہو اور وہ میرا ہاتھ کاٹ ڈالے اور پھر بھاگ کر کسی درخت کی اوٹ میں چھپ کر کہے کہ مَیں اللہ کی خاطر مسلمان ہوگیا تو کیامَیں اسے مار ڈالوں؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا تم اسے قتل نہ کرو۔ کیوں کہ اگرتم نے اسے قتل کردیا تو وہ اس درجے پر ہوجائے گا جو اس کو قتل کرنے سے پہلے تمہیں حاصل تھااور تم اس درجے پر ہوجاؤ گے جو کلمہ پڑھنے سے پہلے اسے حاصل تھا۔ حضورِانور نے فرمایا کہ یہ قیاسی بات پیش کی گئی تھی جس پر آپؐ نے کلمہ پڑھنے والے کا یہ مقام قائم فرمایا۔آج کل کے علما کہلانے والے اور حکومتیں یہ عمل دیکھیں۔ کاش یہ خود دیکھیں کہ اس حدیث کے مطابق وہ کس مقام پر کھڑے ہیں مومن کے مقام پر یا کافر کے مقام پر؟

آنحضرتﷺ کے اونٹ مدینے سے باہر چر رہے تھےکہ بنو فزارہ کے عیینہ بن حصن نے بنو غطفان کے کچھ گھڑسواروں کے ساتھ مل کر حملہ کردیا۔ چرواہے کو مار ڈالا اور اس کی بیوی اور اونٹوں کو ساتھ لے کر چلے گئے۔حضرت سلمہ بن اکوع ؓ کو سب سے پہلے اس کا علم ہوا۔ان کے ساتھ حضرت طلحہ بن عبیداللّٰہؓ کا غلام گھوڑالےکر نکلا۔آپؓ نے تیر برساتے ہوئے ان لوگوں کا پیچھا کیا۔ خبر ملنے پر رسول اللہﷺ نے مدینےمیں اعلان کروایا کہ دشمن کے مقابلےکےلیےفوراً گھروں سے نکلو۔ اس اعلان کے بعد گھڑ سوار آپؐ کی خدمت میں آنا شروع ہوگئے اور ان میں سب سے پہلے جو لبیک کہتےہوئے آئے وہ حضرت مقدادؓ تھے۔

آنحضرتﷺ نے جب مکّےپرچڑھائی کی تیاری شروع کی تو باوجود اس کے کہ صحابہ تیاری کر رہے تھے پھر بھی اس مہم کو بہت پوشیدہ رکھا گیا۔ اس موقعے پر ایک صحابی حضرت حاطب بن بلتعؓنے اپنی سادگی اور نادانی میں مکّے سے آئی ہوئی ایک عورت کے ہاتھ ایک خفیہ خط بھیج کر مسلمانوں کی ساری تیاریوں کی اطلاع کافروں تک بھجوانے کی کوشش کی۔ وہ عورت خط لےتوگئی لیکن اللہ تعالیٰ نے آنحضورﷺ کو اس کی خبر دے دی۔ آپؐ نے حضرت علیؓ کودو تین افراد کے ساتھ اس عورت کے تعاقب میں روانہ کیا۔ ان حضرات نے اس عورت کو جالیا اور خط واپس حاصل کرکے رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔

آنحضورﷺ نے حضرت مقدادؓ کو خیبر کی پیداوار میں سے پندرہ وسق سالانہ عطافرمایا تھاجو سوا چھپّن من سالانہ بنتا ہے۔

جنگِ یرموک میں حضرت مقدادؓ قاری تھے۔ رسول اللہﷺنے غزوۂ بدر کےبعد یہ سنّت جاری فرمائی تھی کہ جنگ کے وقت سورۃ انفال کی تلاوت کی جاتی تھی۔ آپؐ کی وفات کے بعد بھی لوگ اس بات پر عمل کرتے رہے۔ ایک سریے میں رسول اللہﷺ نے حضرت مقدادؓ کو امیرمقرر فرمایا۔ واپس لوٹنے پر آپؐ نے دریافت فرمایا کہ تُونے امارت کے منصب کو کیسا پایاتو انہوں نے عرض کیا کہ جب مَیں نکلا تو میری یہ حالت تھی کہ دوسرے لوگوں کو مَیں اپنا غلام تصور کر رہا تھا۔ آپؐ نے فرمایا کہ امارت اسی طرح ہے سوائے اس کے کہ جسے اللہ تعالیٰ اس کے شر سے محفوظ رکھے۔اس پر مقدادؓ نے عرض کیا کہ اس ذات کی قسم ! جس نے آپؐ کو حق کے ساتھ نبی بناکر بھیجاہے مَیں دو آدمیوں پر بھی نگران بننا پسندنہ کروں گا۔

حضورِانور نے فرمایا کہ یہ تقویٰ کا معیار تھاان لوگوں کا کہ افسر بننے سے تکبر پیدا ہوسکتا ہے اس لیےدو بندوں پر بھی افسر بننا پسند نہیں کیا ۔ پس ہمارے افسروں کو بھی یہ ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ اوّل تو خواہش نہیں کرنی اور جب افسر بنایا جائے، عہدہ دیا جائے تو اللہ تعالیٰ سے اس عہدے کے شر سے بچنے کی بھی دعا مانگنی چاہیے۔ اس کا فضل مانگنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کبھی تکبّر پیدا نہ کرے۔
حضرت مقدادؓ حمص کے محاصرے میں حضرت عبیدہ بن جراحؓ کے ساتھ تھے۔آپؓ نے مصر کی فتح میں بھی حصّہ لیا۔

آپؓ کا جسم بھاری بھرکم تھا اس کے باوجود آپؓ جہاد کے لیے نکلتے تھے۔ ایک دفعہ آپ کسی صندوق کے پاس بیٹھے تھے اور اس صندوق سے بھی بڑے دکھائی دیتے تھے۔ کسی نے آپؓ سے کہا کہ خداتعالیٰ نے آپؓ کو جہاد سے معذور فرمایا ہے۔ جس پر حضرت مقدادؓ نے جواباً سورۃ توبہ کی آیت انفروا خفافاً وثقالاً پڑھی یعنی جہاد کےلیے نکلو خواہ ہلکے ہو یا بھاری۔

حضرت مصلح موعودؓ اس آیت کے تناظر میں فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کےلیے نکلنے میں کوئی مشکل ان کے رستےمیں نہیں آنی چاہیے۔

حضرت علیؓ روایت کرتے ہیں کہ آنحضورﷺ نے فرمایاکہ ہر نبی کو سات سات نجیب رفقا دیے گئے ہیں۔ حضورِاکرم ﷺنے اپنے نجیب رفقا میں حضرت مقدادؓ کو بھی شامل فرمایا۔

حضرت مقدادؓ کی وفات 33ہجری میں مدینے سے تین میل کے فاصلے پر جرف مقام پر ہوئی ۔

حضرت عثمانؓ نے آپؓ کی نمازِ جنازہ پڑھائی اور جنت البقیع میں انہیں دفن کیا گیا۔ بوقتِ وفات آپؓ کی عمر ستّر برس یا اس کے قریب تھی۔

آخر میں حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اسلام کی حقیقت کو سمجھنے کی توفیق عطافرمائے۔ آنحضرتﷺ کی امّت میں ہونے کا حق ادا کرنے اور اپنے اندرخشیّت پیدا کرنے کی توفیق عطافرمائے۔آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button