کلام امام الزمان علیہ الصلاۃ والسلام

ملائکہ کے وجود کی حقیقت

محققین اہلِ اسلام ہر گز اس بات کے قائل نہیں کہ ملائک اپنے شخصی وجود کے ساتھ انسانوں کی طرح پیروں سے چل کر زمین پر اتر تے ہیں اور یہ خیال ببداہت باطل بھی ہے۔

کیوںکہ اگر یہی ضرور ہوتا کہ ملائک اپنی اپنی خدمات کی بجاآوری کے لیے اپنے اصل وجود کے ساتھ زمین پر اُترا کرتے تو پھر ان سے کوئی کام انجام پذیر ہونا بغایت درجہ محال تھا۔ مثلاً فرشتہ ملک الموت جو ایک سیکنڈ میں ہزار ہا ایسے لوگوں کی جانیں نکالتا ہے جو مختلف بلادو امصار میں ایک دوسرے سے ہزاروں کوسوں کے فاصلہ پر رہتے ہیں۔ اگر ہر یک کے لیے اس بات کا محتاج ہو کر اول پیروں سے چل کر اس کے ملک اور شہر اور گھر میں جاوے اور پھر اتنی مشقت کے بعد جان نکالنے کا اس کو موقع ملے تو ایک سیکنڈ کیا اتنی بڑی کارگزاری کے لیے تو کئی مہینے کی مہلت بھی کافی نہیں ہو سکتی۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ایک شخص انسانوں کی طرح حرکت کرکے ایک طُرفۃ العَین کے یا اس کے کم عرصہ میں تمام جہان گھوم کر چلا آوے۔ ہرگز نہیں بلکہ فرشتے اپنے اصلی مقامات سے جو ان کے لیے خدائے تعالیٰ کی طرف سے مقرر ہیں ایک ذرّہ کے برابر بھی آگے پیچھے نہیں ہوتے جیسا کہ خدائے تعالیٰ ان کی طرف سے قرآن شریف میں فرماتا ہے

وَ مَا مِنَّاۤ اِلَّا لَہٗ مَقَامٌ مَّعۡلُوۡمٌ۔ وَّ اِنَّا لَنَحۡنُ الصَّآفُّونَ (الصّٰفّٰت:166،165)

پس اصل بات یہ ہے کہ جس طرح آفتاب اپنے مقام پر ہے اور اُس کی گرمی و روشنی زمین پر پھیل کر اپنے خواص کے موافق زمین کی ہریک چیز کو فائدہ پہنچاتی ہے اسی طرح روحانیات سماویہ خواہ اُن کو یونانیوں کے خیال کے موافق نفوس فلکیہ کہیں یا دساتیر اور وید کی اصطلاحات کے موافق ارواح ِکواکب سے اُن کو نامزد کریں یا نہایت سیدھے اور موحّدانہ طریق سے ملائک اللہ کا انکو لقب دیں٭درحقیقت یہ عجیب مخلوقات اپنے اپنے مقام میں مستقر اور قرار گیر ہے اور بہ حکمت کاملہ خداوند تعالیٰ زمین کی ہریک مستعد چیز کو اس کے کمال مطلوب تک پہنچانے کے لیے یہ روحانیات خدمت میں لگی ہوئی ہیں ظاہری خدمات بھی بجا لاتے ہیں اور باطنی بھی۔ جیسے ہمارے اجسام اور ہماری تمام ظاہری قوتوں پر آفتاب اور ماہتاب اور دیگر سیاروں کا اثر ہے ایسا ہی ہمارے دل اور دماغ اور ہماری تمام روحانی قوتوں پر یہ سب ملائک ہماری مختلف استعدادوں کے موافق اپنا اپنا اثر ڈال رہے ہیں۔ جو چیز کسی عمدہ جوہر بننے کی اپنے اندر قابلیت رکھتی ہے وہ اگرچہ خاک کا ایک ٹکڑہ ہے یا پانی کا وہ قطرہ جو صدف میں داخل ہوتا ہے یا پانی کا وہ قطرہ جو رحم میں پڑتا ہے وہ ان ملائک اللہ کی روحانی تربیت سے لعل اور الماس اور یاقوت اور نیلم وغیرہ یا نہایت درجہ کا آبدار اور وزنی موتی یا اعلیٰ درجہ کے دل اور دماغ کا انسان بن جاتا ہے۔………

قرآن شریف نے جس طرز سے ملائک کا حال بیان کیا ہے وہ نہایت سیدھی اور قریب قیاس راہ ہے اور بجز اس کے ماننے کے انسان کو کچھ بن نہیں پڑتا۔ قرآن شریف پر بدیدہ تعمق غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان بلکہ جمیع کائنات الارض کی تربیت ظاہری و باطنی کے لیے بعض وسائط کا ہونا ضروری ہے اور بعض بعض اشارات قرآنیہ سے نہایت صفائی سے معلوم ہوتاہے کہ بعض وہ نفوس طیّبہ جو ملائک سے موسوم ہیں اُن کے تعلقات طبقات سماویہ سے الگ الگ ہیں ۔بعض اپنی تاثیرات خاصہ سے ہوا کے چلانے والے اور بعض مینہ کے برسانے والے اور بعض بعض اور تاثیرات کو زمین پر اتارنے والے ہیں پس اس میں کچھ شک نہیں کہ بوجہ مناسبت نوری وہ نفوس طیّبہ ان روشن اور نورانی ستاروں سے تعلق رکھتے ہوں گے کہ جو آسمانوں میں پائے جاتے ہیں مگر اس تعلق کو ایسا نہیں سمجھنا چاہیئے کہ جیسے زمین کا ہر یک جاندار اپنے اندر جان رکھتاہے بلکہ ان نفوس طیّبہ کو بوجہ مناسبت اپنی نو رانیت اور روشنی کے جو روحانی طور پر انہیں حاصل ہے روشن ستاروں کے ساتھ ایک مجہول الکُنہ تعلق ہے اور ایسا شدید تعلق ہے کہ اگر اُن نفوس طیّبہ کا ان ستاروں سے الگ ہونا فرض کر لیا جائے توپھر اُن کے تمام قویٰ میں فرق پڑجائے گا۔ انہیں نفوس کے پوشیدہ ہاتھ کے زور سے تمام ستارے اپنے اپنے کام میں مصروف ہیں اور جیسے خدائے تعالیٰ تمام عالم کے لیے بطور جان کے ہے ایسا ہی (مگر اس جگہ تشبیہ کامل مراد نہیں) وہ نفوس نورانیہ کواکب اور سیارات کے لیے جان کا ہی حکم رکھتے ہیں اور ان کے جدا ہو جانے سے ان کی حالت وجودیہ میں بکُلّی فساد راہ پاجانالازمی و ضروری امر ہے اور آج تک کسی نے اس امر میں اختلاف نہیں کیا کہ جس قدر آسمانوں میں سیارات اور کواکب پائے جاتے ہیں وہ کائنات الارض کی تکمیل و تربیت کے لیے ہمیشہ کام میں مشغول ہیں غرض یہ نہایت جچی ہوئی اور ثبوت کے چرخ پر چڑھی ہوئی صداقت ہے کہ تمام نباتات اور جمادات اور حیوانات پر آسمانی کواکب کا دن رات اثر پڑ رہا ہے اور جاہل سے جاہل ایک دہقان بھی اس قدر تو ضرور یقین رکھتا ہو گا کہ چاند کی روشنی پھلوں کے موٹا کرنے کے لیے اور سورج کی دھوپ ان کو پکانے اور شیریں کرنے کے لیے اور بعض ہوائیں بکثرت پھل آنے کے لیے بلاشبہ مؤثر ہیں اب جبکہ ظاہری سلسلہ کائنات کا ان چیزوں کی تاثیرات مختلفہ سے تربیت پارہا ہے تو اس میں کیا شک ہو سکتا ہے کہ باطنی سلسلہ پر بھی باذنہ ٖتعالیٰ وہ نفوس نورانیہ اثر کر رہی ہیں جن کا اجرام نورانیہ سے ایسا شدید تعلق ہے کہ جیسے جان کو جسم سے ہوتا ہے۔

اب اِس کے بعد یہ بھی جاننا چاہیئے کہ اگرچہ بظاہر یہ بات نہایت دورازادب معلوم ہوتی ہے کہ خدائے تعالےٰ اور اُس کے مقدس نبیوں میں افاضہ انوار وحی کے لیے کوئی اَور واسطہ تجویز کیا جائے لیکن ذرا غور کرنے سے بخوبی سمجھ آجائے گا کہ اس میں کوئی سوء ادب کی بات نہیں بلکہ سراسر خدائے تعالیٰ کے اس عام قانون قدرت کے مطابق ہے جو دنیا کی ہریک چیز کے متعلق کھلے کھلے طور پر مشہود و محسوس ہو رہا ہے کیوں کہ ہم دیکھتے ہیں کہ انبیاء علیہم السلام بھی اپنے ظاہری جسم اور ظاہری قویٰ کے لحاظ سے انہیں وسائط کے محتاج ہیں اور نبی کی آنکھ بھی گو کیسی ہی نورانی اور بابرکت آنکھ ہے مگر پھر بھی عوام کی آنکھوں کی طرح آفتاب یا اس کے کسی دوسرے قائم مقام کے بغیر کچھ دیکھ نہیں سکتی اور بغیر توسط ہوا کے کچھ سُن نہیں سکتے لہٰذایہ بات بھی ضروری طور پر ماننی پڑتی ہے کہ نبی کی روحانیت پر بھی ان سیارات کے نفوس نورانیہ کا ضرور اثر پڑتا ہو گا۔ بلکہ سب سے زیادہ اثر پڑتا ہوگا کیوںکہ جس قدر استعداد صافی اور کامل ہوتی ہے اُسی قدر اثر بھی صافی اور کامل طور پر پڑتا ہے۔ قرآن شریف سے ثابت ہے کہ یہ سیارات اور کواکب اپنے اپنے قالبوں کے متعلق ایک ایک روح رکھتے ہیں جن کو نفوس کواکب سے بھی نامزد کر سکتے ہیں اور جیسے کواکب اور سیاروں میں باعتبار اُن کے قالبوں کے طرح طرح کے خواص پائے جاتے ہیں جو زمین کی ہریک چیز پر حسب استعداد اثر ڈال رہے ہیں ایسا ہی ان کے نفوس نورانیہ میں بھی انواع اقسام کے خواص ہیں جو باذن حکیم مطلق کائنات الارض کے باطن پر اپنا اثر ڈالتے ہیں اور یہی نفوس نورانیہ کامل بندوں پر بشکل جسمانی متشکّل ہو کر ظاہرہو جاتے ہیں اور بشری صورت سے متمثل ہو کر دکھائی دیتے ہیں اور یاد رکھنا چاہیئے کہ یہ تقریر از قبیل خطابیات نہیں بلکہ یہ وہ صداقت ہے جو طالب حق اور حکمت کو ضرور ماننی پڑ ے گی…۔

(توضیح مرام۔ روحانی خزائن جلد 3صفحہ 72-66)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button