ملفوظات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور فارسی ادب (قسط 25)
صدق اختیار کرو
‘‘حضر ت سید عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے ذکر میں درج ہے کہ جب وہ اپنے گھر سے طلب ِعلم کے لیے نکلےتو آپ کی والدہ صاحبہ ؓنے ان کے حصہ کی اَسّی اشرفیاں اُن کی بغل کے نیچے پیراہن میں سی دیں اور یہ نصیحت کی کہ بیٹا۔جھُوٹ ہرگز نہ بولنا۔حضرت سید عبدالقادر جب گھر سے رخصت ہوئے۔تو پہلی ہی منزل میں ایک جنگل میں سے اُن کا گزر ہوا۔جہاں چوروں اور قزاقوں کا ایک بڑا قافلہ رہتا تھا۔جہاں اُن کو چوروں کا ایک گروہ ملا۔اُنھوں نے آپؒ کو پکڑکر پُوچھا کہ تمھارے پاس کیا ہے؟آپؒ نے دیکھا کہ یہ توپہلی ہی منزل میں امتحان درپیش آیا۔اپنی والدہ صاحبہؓ کی آخری نصیحت پر غور کیا اور فوراًجواب دیا کہ میرے پاس اَسّی اشرفیاں ہیں۔ جو میری بغل کے نیچے میری والدہ صاحبہ نے سی دی ہیں۔وہ چوریہ سُن کر سخت حیران ہوئے کہ یہ فقیر کیا کہتاہےایساراستباز ہم نے کبھی نہیں دیکھا۔وہ آپ کو پکڑ کر اپنے سردار کے پاس لے گئے اور سارا قصّہ بیان کیا۔اس نے بھی جب آپؒ سے سوال کیا۔تب بھی آپؒ نے وہی جواب دیا۔آخر جب آپ کے پیراہن کے اس حصہ کو پھاڑ کر دیکھا گیا۔توواقعی اس میں اَسّی اشرفیاں موجود تھیں۔اُن سب کو حیرانی ہوئی۔اس پر اُن کے سردار نے پوچھا کہ یہ کیا بات ہے۔اس پر آپؒ نے اپنی والدہ صاحبہ کی نصیحت کا ذکر کر دیا۔ اور کہا کہ میں طلبِ دین کے لیے گھر سے نکلاہوں،اگر پہلی ہی منزل پر جھوٹ بولتا تو پھر کیا حاصل کر سکتا ۔اس لیے میں نے سچ کو نہیں چھوڑا ۔جب آپ نے یہ بیان فرمایا،تو قزاقوں کا سردار چیخ مار کر رو پڑا اور آپ کے قدموں پرگِر گیا ۔اور اپنے سابقہ گناہوں سے توبہ کی۔کہتے ہیں کہ آپ کا سب سے پہلا مرید یہی شخص تھا۔
غرض صدق ایسی شے ہے جو انسان کو مشکل سے مشکل وقت میں بھی نجات دلا دیتی ہے۔سعدی ؒنے سچ کہا ہے کہ ؎
کس ندیدم کہ گم شد از رہِ راست
پس جس قدر انسان صدق کو اختیار کرتا ہے اور صدق سے محبت کرتا ہے۔ اسی قدر اس کے دل میں خدا تعالیٰ کے کلام اور انبیاءؑ کی محبت اور معرفت پیدا ہوتی ہے۔کیونکہ وہ تمام راستبازوں کے نمونے اور چشمے ہوتے ہیں۔کُوْنُوْ مَعَ الصَّادِقِیْنَ(التوبہ:119)کا ارشاد اسی اصول پر ہے۔’’
(ملفوظات جلد اول صفحہ 370)
*۔ اس میں حضرت اقدس مسیح موعو د علیہ السلام نے شیخ سعدی کے شعر کا ایک مصرع استعمال کیا ہے جوکہ گلستان سعدی کے پہلے باب بعنوان ‘‘بادشاہوں کی سیرت ’’ میں موجود طویل حکایت کے ایک شعر کا دوسرا مصرع ہے ۔مکمل شعر مع حکایت ذیل میں درج ہے۔
حکایت :۔دوستوں میں سے ایک دوست ناموافق حالات کی شکایت لےکر میرے (سعدی)پاس آیا ۔کہ میں آمدنی تھوڑی رکھتاہوں اور بال بچے زیادہ۔اور فاقہ کشی کی اب طاقت نہیں رہی ۔کئی مرتبہ دل میں آیا کہ کسی دوسرے ملک چلا جاؤں تاکہ جس حالت میں بھی زندگی کٹے کسی کو میرے اچھے برے کی اطلاع نہ ہو۔پھر دشمنوں کی خوشی کا خیال کرتا ہوں کہ میری پیٹھ پیچھے طعنہ زنی کرکے ہنسی اڑائیں گے۔ اور میری اس کوشش کو بال بچوں کے بارے میں بے مروتی پر محمول کریں گے اور کہیں گے ۔اس بے غیرت کو دیکھو کہ ہرگز وہ نیک بختی کا منہ نہ دیکھے گا کہ اپنے لیے آسانی اختیار کرتاہے اور بیوی بچوں کو سختی میں چھوڑتاہے۔
جیسا کہ جناب کو معلوم ہےمیں علم حساب میں سے کچھ جانتاہوں اگر جناب کے مرتبہ کے طفیل (یعنی آپ کی سفارش سے)کوئی خدمت میرے لیے مقرر ہوجائے تو اس احسان کے شکریہ سے سبکدوش نہ ہو سکوں گا۔ میں نے کہا بھائی بادشاہ کی نوکری دو پہلو رکھتی ہے ۔ روٹی کی امید اور جان کا خطرہ ۔اور اس امید میں اس خطرہ میں پڑنا عقل مندوں کی رائے کے خلاف ہے۔
اُس نے کہا جناب نے یہ بات میرے مناسب حال نہیں فرمائی اور میرے سوال کا جواب نہیں دیا۔آپ نے یہ نہیں سنا کہ بزدلی کی وجہ سے اس کا ہاتھ کانپتا ہے جو خیانت کرتاہے۔ شعر
رَاسْتِیْ مُوْجِبِ رِضَایِ خُدَاسْت
کَسْ نَدِیْدَمْ کِہْ گُمْ شُدْ اَزْ رَہِ رَاسْت
سچائی خد اکے راضی ہونے کا سبب ہے ۔میں نے کسی کو نہیں دیکھا کہ سیدھے راستہ پر بھٹکا ہو۔
عقلمندوں نے کہا ہے کہ چار آدمیوں کی چار آدمیوں سے جانی دشمنی ہوتی ہے ۔ڈاکو کی بادشاہ سے ۔چور کی چوکیدار سے۔بدکار کی چغلخور سے ۔رنڈی کی کوتوال سے ۔جس کا حساب پاک ہےاس کو حساب کتا ب کا کیا ڈر……
٭…٭…٭