حقیقی ارتقا
جناب ایڈیٹر صاحب ۔ 1980ء کی دہائی تھی سوشلزم کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں طلبا اکثر اس نظریے کے سحر سےمسحور ہو رہےتھے ۔ طلبا کو اسی نظریے میں قرار ملتا تھا ۔ بعض اساتذہ جو اس نظریے کے علَم بردار تھے اس نظریے کی ترویج بھی اپنے فرائض میں شامل سمجھتے تھے۔ اس دوران ٹی آئی کالج میں ایک کیمسٹری کے پروفیسر فاروقی صاحب کا تقرر ہوا۔ وہ نہ صرف سوشلسٹ تھے بلکہ سوشلزم کا پرچار ا س اندازسے کرتے تھے کہ طلبا ان کے دلفریب اندازِ بیان سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہتے۔ یہاں تک کہ کالج میں موجود غیراحمدی مولوی پروفیسر بھی ان سے نظریں چرانے لگے۔ خاکسار ان دنوں پرائیویٹ بی اے کی تیاری کر رہا تھا۔ خاکسار نے اپنے دوستوںعزیزوں سے جو سائنس کے طالب علم تھے درخواست کی کہ ہمارا بھی ان سے تعارف کروائیں ہم بھی ان سے کچھ سوال پوچھنا چاہتے ہیں ۔ احباب خاکسار کو یوں دیکھنے لگے جیسے کہہ رہے ہوں ‘‘اپنی عزت اپنے ہاتھ میں ہوتی ہے’’ بہرحال ‘‘شوق، ہر رنگ، رقیب ِسر و ساماں نکلا’’ہمیں بھی ایک محفل میں ان کے روبرو ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ انہوں نے بڑی شفقت سے سوشلزم کا تعارف کرایا کہ کس طرح قبائلی نظام کو جاگیرداری نظام نے تبدیل کیا اور کس طرح اب سوشلزم سرمایہ داری نظام کو چاروں شانے چت کرے گا اور انسانی سماج ایک stateless سوسائٹی کی شکل اختیار کرے گا ، استحصال ختم ہو جائے گااور اس کے بعد خیر ہی خیر ہے۔
خاکسار نے عرض کی آج تو سرمایہ داری نظام مردود اور مقہور ہے لیکن جب یہ جاگیرداری نظام سے سرگرمِ ستیز تھا اس وقت یہ نیک مطلوب تھا؟ پروفیسر صاحب کچھ سوچ کر بولے ‘‘ہاں’’ اور اس کے بعد گہری سوچ میں ڈوب گئے۔ ادھر دیکھتے ہی دیکھتے روس کا اژدھا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی پیش گوئی کے مطابق پانی ہو کر بہ نکلا۔ (اسلام کا اقتصادی نظام صفحہ 154)
ھیگل اور کارل مارکس کا نظریۂ ارتقا بالترتیب جرمن ریاست اور statelessسوسائٹی کی منزل پر پہنچ کر اختتام پذیر ہو جاتا ہے لیکن اسلام کا نظریہ ارتقا ترقیات غیر متناہیہ کی طرف رہ نمائی کرتا ہے ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔
‘‘جو شخص… ہماری جماعت میں داخل ہو جائے ……جیسا کہ …اپنی نما ز میں یہ اقرار کرتا ہے کہ خدا رب العالمین ہے اور خدا رحمٰن ہے اور خدا رحیم ہے اور خدا ٹھیک ٹھیک انصاف کرنے والا ہے ۔ یہی چاروں صفتیں اپنے اندر بھی قائم کرے ……یعنی نوع انسان اور نیز غیر انسان کا مربی بننا……خدا کی رحمانیت یعنی بغیر عوض کسی خدمت کے مخلوق پر رحم کرنا……خدا کی رحیمیت یعنی کسی کے نیک کام میں اس کام کی تکمیل کے لیے مدد کرنا ……ایسا ہی خدا کا انصاف جس نے ہر ایک حکم عدالت کے تقاضا سے دیا ہے نہ نفس کے جوش سے۔
‘‘……سچا عابد کہ جو تمام الٰہی صفات اپنے اندر لینا چاہتا ہے ……جیسا کہ وہ خدا کے لیے ان چار صفتوں کو پسند کرتا ہے ۔ ایسا ہی اپنے نفس کے لیے بھی یہی پسند کرے گا ۔ لہٰذا خدا نے سورہ الفاتحہ میں یہی تعلیم کی تھی۔’’(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد 15، صفحہ518تا519)
یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نزدیک اِیَّاکَ نَعْبُدُ نماز میں پڑھنے والا اگر ان چاروں صفات کو اپنے اندر قائم نہیں کرتا اور اپنے محبت کے رنگ میں نہیں آتا تو وہ جھوٹا ہے۔
اگر کوئی فرد یا سوسائٹی ان چاروں صفات کو اپنے قائم کرنے کی راہ پہ چل پڑتی ہے تو نہ صرف معاشرہ جنت نظیر بن جائے گا بلکہ ایک ایسا غیر متناہی سلسلہ ترقیات کا جاری ہو گا جو کہ موت کے بعد بھی جاری رہے گا۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام
نُوۡرُہُمۡ یَسۡعٰی بَیۡنَ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ بِاَیۡمَانِہِمۡ یَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَاۤ اَتۡمِمۡ لَنَا نُوۡرَنَا وَ اغۡفِرۡ لَنَا ۚ اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ
کی تفسیر میں لکھتے ہیں‘‘جو لوگ دنیا میں ایمان کا نور رکھتے ہیں ان کا نور قیامت کو ان کے آگے اور ان کے داہنی طرف دوڑتا ہوگا وہ ہمیشہ یہی کہتے رہیں گے کہ اے خدا ہمارے نور کو کمال تک پہنچا ۔ یہ ترقیات غیر متناہیہ کی طرف اشارہ ہے یعنی ایک کمال نورانیت کا انہیں حاصل ہوگا۔ پھر دوسرا کمال نظر آئے گا۔ اس کو دیکھ کر پہلےکمال کو ناقص پائیںگے۔ پس کمال ثانی کے حصول کے لیے التجا کریں گے ۔ …… غرض اسی طرح غیر متناہی سلسلہ ترقیات کا چلا جائے گا۔ تنزل کبھی نہیں ہو گا اور نہ ہی کبھی بہشت سے نکالے جائیں گے ۔ بلکہ ہر روز آگے بڑھیں گے ۔’’
آؤ لوگوکہ یہیں نورِ خدا پاؤ گے
لو تمہیں طور تسلی کا بتایا ہم نے
(پروفیسر نصیر حبیب)