شرائط بیعت اور ہماری ذمہ داریاں
ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی بیعت اس شرط پر کی کہ ہم سنیں گے اور اطاعت کریں گے ، آسانی میں بھی اورتنگی میں بھی ، خوشی میں بھی اور رنج میں بھی اور ہم اُولوالامر سے نہیں جھگڑیں گے
بیعت کیا ہے
حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ بیعت ہے کیا۔ اس کی وضاحت میں احادیث اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے اقتباسات سے کرتاہوں۔
حضور علیہ السلام فرماتے ہیں:’’یہ بیعت جو ہے اس کے معنے اصل میں اپنے تئیں بیچ دینا ہے۔ اس کی برکات اور تاثیرات اسی شرط سے وابستہ ہیں جیسے ایک تخم زمین میں بویا جاتا ہے تو اس کی ابتدائی حالت یہی ہوتی ہے کہ گویا وہ کسان کے ہاتھ سے بویا گیا اور اس کا کچھ پتہ نہیں کہ اب وہ کیا ہوگا۔ لیکن اگر وہ تخم عمدہ ہوتا ہے اور اس میں نشوونما کی قوت موجود ہوتی ہے تو خدا کے فضل سے اور اس کسان کی سعی سے وہ اُوپر آتا ہے اور ایک دانہ کا ہزار دانہ بنتا ہے۔ اسی طرح سے انسان بیعت کنندہ کو اوّل انکساری اور عجز اختیار کرنی پڑتی ہے اور اپنی خودی اور نفسانیت سے الگ ہونا پڑتا ہے تب وہ نشوونما کے قابل ہوتا ہے لیکن جو بیعت کے ساتھ نفسانیت بھی رکھتا ہے اُسے ہرگز فیض حاصل نہیں ہوتا۔‘‘
(ملفوظات۔ جلد ششم۔ صفحہ 173)
بیعت سے مراد خدا تعالیٰ کو جان سپرد کرنا ہے
پھر آپؑ فرماتے ہیں:’’بیعت سے مراد خدا تعالیٰ کو جان سپرد کرنا ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ ہم نے اپنی جان آج خدا تعالیٰ کے ہاتھ بیچ دی۔ یہ بالکل غلط ہے کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں چل کر انجام کار کوئی شخص نقصان اٹھاوے۔ صادق کبھی نقصان نہیں اٹھا سکتا۔ نقصان اسی کا ہے جو کاذب ہے۔ جو دنیا کے لئے بیعت کو اور عہد کو جو اللہ تعالیٰ سے اس نے کیا ہے توڑ رہا ہے۔ وہ شخص جو محض دنیا کے خوف سے ایسے امور کا مرتکب ہو رہا ہے، وہ یاد رکھے بوقت موت کوئی حاکم یا بادشاہ اُسے نہ چھڑا سکے گا۔ اس نے احکم الحاکمین کے پاس جانا ہے جو اُس سے دریافت کرے گا کہ تُو نے میرا پاس کیوں نہیں کیا؟ اس لئے ہر مومن کے لئے ضروری ہے کہ خدا جو مَلِک السمٰوات والارضہے اس پر ایمان لاوے اور سچی توبہ کرے۔‘‘
(ملفوظات۔ جلد ہفتم۔ صفحہ 30-29)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ان ارشادات سے واضح ہے کہ بیعت چیز کیاہے ۔اگر ہم میں سے ہر ایک یہ بات سمجھ جائے کہ میری ذات اب میری اپنی ذات نہیں رہی ۔اب ہمیں بہرحال اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پابندی کرنی ہوگی ، ان کا تابع ہونا ہوگا اور ہمار ا ہر فعل خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے ہوگا تویہی خلاصہ ہے دس شرائط بیعت کا ۔
اب مَیں مختلف احادیث پیش کرتاہوں جن میں بیعت کے متعلق مختلف الفاظ ملتے ہیں۔
عائذ اللہ بن عبد اللہ روایت کرتے ہیں کہ عبادہؓ بن صامت ان صحابہ میں سے تھے جنہوں نے غزوۂ بدر میں شمولیت اختیارکی اور جنہوں نے بیعت عقبہ میں شمولیت اختیار کی تھی۔ عبادہ بن صامت ؓنے انہیں بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ بات اس وقت فرمائی جب آپ کے گرد صحابہ کی ایک جماعت موجود تھی کہ آئو میری اس شرط پر بیعت کرو ’’اَلَّا تُشْرِکُوْا بِاللّٰہِ شَیْئًا‘‘کہ تم اللہ کا کسی چیز کو بھی شریک نہ قرار دوگے اور نہ تم چوری کروگے اور نہ ہی تم زنا کروگے اور نہ تم اپنی اولاد کو قتل کرو گے اور نہ تم بہتان طرازی کروگے اور نہ ہی تم کسی معروف بات میں میری نافرمانی کروگے۔
پس تم میں سے جس نے اس عہد بیعت کو پورا کر دکھایا تو اس کو اجر دینا اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے۔ اور جس نے اس عہد میں کچھ بھی کمی کی اور اس کی اسے دنیا میں سزا مل گئی تو یہ سزا ا س کے لئے کفاّرہ بن جائے گی۔اور جس نے ا س عہد بیعت میں کچھ کمی کی پھر اللہ تعالیٰ نے اس کی پردہ پوشی فرمائی تو اس کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ اگر چاہے تو اسے سزا دے اور اگر وہ پسند فرمائے گا تو اس سے درگزر فرمائے گا۔
( صحیح بخاری۔ کتاب مناقب الانصار۔ باب وفود الانصار الی النبی ؐ بمکۃربیعۃ العقبۃ)
پھر ایک حدیث ہے۔حضرت عبادہ بن صامت ؓ روایت کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی بیعت اس شرط پر کی کہ ہم سنیں گے اور اطاعت کریں گے ، آسانی میں بھی اورتنگی میں بھی ، خوشی میں بھی اور رنج میں بھی اور ہم اُولوالامر سے نہیں جھگڑیں گے اور جہاں کہیں بھی ہم ہوںگے حق پر قائم رہیں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے۔
(بخاری، کتاب البیعۃ۔ باب البیعۃ علی السمع والطاعۃ)
ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم آیت کریم
ہیٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ اِذَا جَآءَکَ الۡمُؤۡمِنٰتُ یُبَایِعۡنَکَ عَلٰۤی اَنۡ لَّا یُشۡرِکۡنَ بِاللّٰہِ شَیۡئًا وَّ لَا یَسۡرِقۡنَ وَ لَا یَزۡنِیۡنَ وَ لَا یَقۡتُلۡنَ اَوۡلَادَہُنَّ وَ لَا یَاۡتِیۡنَ بِبُہۡتَانٍ یَّفۡتَرِیۡنَہٗ بَیۡنَ اَیۡدِیۡہِنَّ وَ اَرۡجُلِہِنَّ وَ لَا یَعۡصِیۡنَکَ فِیۡ مَعۡرُوۡفٍ فَبَایِعۡہُنَّ وَ اسۡتَغۡفِرۡ لَہُنَّ اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ (الممتحنۃ:13)
یعنی اے نبی !جب تیرے پاس عورتیں مسلمان ہو کر آئیں اور بیعت کرنے کی خواہش کریں ، اس شرط پر کہ وہ اللہ کا شریک کسی کو نہیں قرار دیں گی اور نہ ہی چوری کریں گی اور نہ ہی زنا کریں گی اور نہ ہی اولاد کو قتل کریں گی اور نہ ہی کوئی جھوٹا بہتان کسی پر باندھیں گی۔ اور نیک باتوں میں تیری نافرمانی نہیں کریں گی۔ تو ان کی بیعت لے لیا کر، اور ان کے لئے استغفار کیا کر۔ اللہ بہت بخشنے والا (اور)بے حد رحم کرنے والا ہے)کے مطابق عورتوں کی بیعت لیتے تھے۔
حضرت عائشہ ؓفرماتی ہیں کہ بیعت لیتے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دست مبارک کسی عورت کے ہاتھ سے مس نہ ہوتا تھا سوائے اس عورت کے جو آپ کی اپنی ہوتی۔
( صحیح بخاری۔ کتاب الاحکام۔ باب بیعۃ النساء)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت لینے کے آغاز سے قبل بعض نیک فطرت اور اسلام کا درد رکھنے والے بزرگوں کو یہ احسا س تھاکہ اس وقت اسلام کی اس ڈولتی کشتی کو ڈوبنے سے بچانے والا اور اسلام کا صحیح درد رکھنے والا اگر کوئی شخص ہے تووہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی ہی ہیں اور یہی مسیح و مہدی بھی ہیں ۔ چنانچہ لوگ آپ سے درخواست کیا کرتے تھے کہ آپ بیعت لیں لیکن حضورہمیشہ یہی جواب دیتے تھے کہ ’’لَسْتُ بِمَامُوْرٍ‘‘(یعنی میں مامور نہیں ہوں)۔ چنانچہ ایک دفعہ آپ نے میر عباس علی صاحب کی معرفت مولوی عبدالقادر صاحب ؓ کو صاف صاف لکھا کہ ’’اس عاجز کی فطرت پر توحید اور تفویض الی اللہ غالب ہے اور …… چونکہ بیعت کے بارے میں اب تک خداوند کریم کی طرف سے کچھ علم نہیں۔ اس لئے تکلف کی راہ میں قدم رکھنا جائز نہیں۔ لَعَلَّ اللّٰہَ یُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِکَ اَمْرًا۔مولوی صاحب اخوت دین کے بڑھانے میں کوشش کریں۔ اور اخلاص اور محبت کے چشمہ صافی سے اس پودا کی پرورش میں مصروف رہیں تو یہی طریق انشاء اللہ بہت مفید ہو گا۔ ‘‘
(حیات احمد۔ جلد دوم۔ نمبر دوم۔ صفحہ13-12)
(شرائط بیعت اور ہماری ذمہ داریاں صفحہ 11تا15)
…………………………………باقی آئندہ
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حقیقی معنوں میں بیعت کی اغراض و مقاصد کو سمجھنے اور اُن پر عمل کی توفیق دے تاکہ ہماری زندگیاں اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول مقبول ﷺ کے فرمودات کے مطابق گزریں ۔ آمین