اخلاص و وفا کے پیکر بدری صحابی حضرت محمد بن مسلمہ انصاری رضی اللہ عنہ کی سیرتِ مبارکہ کا تذکرہ
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 14؍فروری 2020ءبمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن، لندن، یوکے
مکرم تاج دین صاحب ولد صدر دین صاحب کی وفات۔ مرحوم کا ذکر خیر اور نماز جنازہ حاضر
امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے14؍فروری 2020ء کو مسجد بیت الفتوح ، لندن،یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا۔ جمعہ کی اذان دینے کی سعادت مکرم فیروز عالم صاحب کے حصہ میں آئی۔
تشہد،تعوذاور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا کہ
گذشتہ خطبے میں حضرت محمد بن مسلمہؓ کے بارے میں بیان ہوا تھا اور کچھ حصّہ رہ گیا تھا جو آج ان شاءاللہ بیان ہوگا۔ ایک حدیث کی غلط تشریح کے باعث اسلام میں تین مواقع پر جھوٹ کو جائز قرار دیے جانے کے متعلق حضورِانور نے گذشتہ خطبے میں ‘سیرت خاتم النبیین’سےوضاحت پیش فرمائی تھی۔ اسی معاملے پر سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے اپنی تصنیف‘نورالقرآن’ میں فتح مسیح نامی ایک مسیحی شخص کے اعتراض کے ضمن میں روشنی ڈالی ہے۔حضورؑ فرماتے ہیں۔
جس قدر راستی کے التزام کےلیے قرآن شریف میں تاکید ہےانجیل میں اس کا عشرِ عشیر بھی تاکید نہیں۔ قرآن نے دروغ گوئی کو بُت پرستی کے برابر ٹھہرایا ہے۔ انصاف کی تاکید کرتے ہوئے قرآنی تعلیم یہ ہے کہ سچّی گواہیوں کو للہ ادا کرو اگرچہ تمہاری جانوں یاتمہارے ماں باپ و اقارب ہی ان گواہیوں سے نقصان اٹھاویں۔ کسی حدیث میں جھوٹ بولنے کی ہرگز اجازت نہیں بلکہ حدیث میں تو یہ لفظ ہیں کہ سچ کو مت چھوڑ اگرچہ تُوقتل کیا جائے اور جلایا جائے۔ بالفرض اگر کوئی حدیث قرآن اوراحادیثِ صحیحہ کے مخالف ہو تو وہ قابلِ سماعت نہیں۔ ہم لوگ اُسی حدیث کو قبول کرتے ہیں جو احادیثِ صحیحہ اور قرآن کریم کےمخالف نہ ہو۔ ہاں بعض احادیث میں توریہ یعنی مصلحتاً ذومعنی الفاظ کے استعمال کے جواز کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے۔ حقیقی کذب اسلام میں پلید،حرام اور شرک کے برابر ہے۔ مگر توریہ جو درحقیقت کذب نہیں، اضطرار کے وقت عوام کے لیے اس کا جواز حدیث سے پایا جاتا ہے۔ لیکن افضل وہی لوگ ہیں جو توریہ سے بھی پرہیز کریں۔ اسلامی اصطلاح میں توریہ اس کو کہتے ہیں کہ فتنے کے خوف یا کسی اور مصلحت کے تحت ایک راز کی بات مخفی رکھنے کی غرض سے ایسی مثالوں اور پیرایوں میں اس کو بیان کیا جائے کہ عقل مند تو اس کوسمجھ لے لیکن نادان کی سمجھ میں وہ بات نہ آئے۔ گو بعض احادیث میں توریے کا جواز پایا جاتاہے لیکن بہت سی دیگر احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ توریہ اعلیٰ درجے کے تقویٰ کے برخلاف ہے۔ آنحضرتﷺ نے حتیٰ الوسع اس سے مجتنب رہنےکا حکم کیا ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ مَیں دیکھتا ہوں کہ جناب سیّد المرسلین ﷺ جنگِ احد میں اکیلے ہونے کی حالت میں برہنہ تلواروں کے سامنے کہہ رہے تھے مَیں محمد ہوں، مَیں نبی اللہ ہوں، مَیں ابنِ عبدالمطلب ہوں۔
حضورِانور نے اولاً کتاب کے حاشیے سے یہ وضاحت پیش فرمائی کہ یہ واقعہ غزوۂ حنین کا ہےاور پھر فرمایا کہ اب ریسرچ سیل نے ‘سیرت الحلبیہ’کا حوالہ بھجوایا ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ آنحضرتﷺ نے یہ الفاظ غزوۂ حنین اور غزوۂ احد دونوں مواقع پر فرمائے۔ حضورِ انور نے شعبہ اشاعت کو آئندہ یہ حاشیہ نکال دینے کی ہدایت فرمائی۔
سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ قرآن نے جھوٹوں پر لعنت کی ہے نیز فرمایا ہے کہ جھوٹے شیطان کے مصاحب ہوتے ہیں۔ صرف یہ نہیں فرمایا کہ تم جھوٹ مت بولو بلکہ فرمایا ہے کہ تم جھوٹوں کی صحبت بھی چھوڑ دو۔
حضورِانور نے اس وضاحت کےبعد حضرت محمد بن مسلمہؓ کا ذکر جاری رکھتے ہوئے فرمایا کہ جب بنو نضیر نے چکّی کا پاٹ گِرا کر آپؐ کو قتل کرنے کی کوشش کی تو اللہ تعالیٰ نے آنحضورﷺ کو بذریعہ وحی اس کی خبر دی چنانچہ آپؐ تیزی سے وہاں سے اٹھ کر چلے آئے اور محمد بن مسلمہؓ کو بلوایا۔ آپؐ نے محمد بن مسلمہؓ کو بنو نضیر کے پاس مدینے سے فوری انخلا کے پیغام کے ساتھ بھجوایا۔جب آپؓ یہود کے پاس پہنچے تو پہلےانہیں آنحضورﷺ کی بعثت سے قبل آنے والے نبی کے متعلق یہود کے خیالات یاد کروائے اور پھر رسولِ خداﷺ کا پیغام دیا۔محمد بن مسلمہؓ نے یہودکی سازش کو بےنقاب کرتے ہوئے اُنہیں آگاہ کیا کہ کس طرح یہود رسول اللہﷺ کو قتل کرنا چاہتے تھے۔ اس پر یہود نے چُپ سادھ لی اور ایک حرف تک نہ بول پائے۔ یہود کومدینے سے انخلا کے لیے دس دن کی مہلت دی گئی جس دوران وہ تیاری کرتے رہے۔
یہودیوں کے رویّے کے متعلق حضرت مصلح موعودؓ بنو قریظہ کے ذیل میں فرماتے ہیں کہ غزوۂ خندق سے واپسی پر آپؐ نے صحابہ کوشام تک بنو قریظہ کے قلعوں پر پہنچنے کا ارشاد فرمایا۔ حضرت علیؓ کو بنو قریظہ کے پا س بھجوایا گیا تاکہ وہ اُن سے اِس خطرناک غدّاری کی بابت دریافت کرسکیں۔ بجائے شرمندگی او رمعافی کے خواست گار ہونے کے اِن یہودیوں نے حضرت علیؓ اور اُن کے ساتھیوں کو برا بھلا کہنا شروع کردیا۔ جب حضرت علیؓ واپس ہوئے تو آپؐ یہود کے قلعوں کے پاس پہنچ رہے تھے۔ یہ ناپاک یہود حضورِاکرمﷺ کے اہلِ بیت کے متعلق نازیبا کلمات کہہ رہے تھے۔ حضرت علیؓ نے آنحضرتﷺ کو تکلیف دہ کلمات سننے سے بچانے کے لیے آپؐ کو روکنا چاہا۔ حضورﷺ نے فرمایا کیا ہوا اگر یہ گالیاں دےرہے ہیں موسیٰؑ نبی تواِن کا اپنا تھا اُس کو انہوں نے اِس سے بھی زیادہ تکالیف پہنچائی تھیں۔ یہود اپنے قلعوں میں محصور ہوگئے لیکن چند دن کے بعد ہی ان کو احساس ہوگیا کہ وہ زیادہ عرصہ مقابلہ نہیں کرسکتے۔ اس پر انہوں نےہتھیار ڈالنے کےبعد اپنا فیصلہ آنحضورﷺ کے بجائے قبیلہ اوس کے سردار حضرت سعد بن معاذؓ کے حوالے کردیا۔ اس موقعے پر یہود میں اختلاف بھی ہوا اُن میں سے بعض ذی فہم افراد کا کہنا تھا کہ اسلام یقیناً سچا مذہب ہے اس لیے یا تو اسلام قبول کرلیا جائے یاجزیہ دیا جائے۔ مگر یہود میں سے اکثریت نے ان دونوں صورتوں پر قتل ہونے کو ترجیح دی۔ ایک یہودی عمرو بن سُعدی نے اپنی قوم کو ملامت کی اور ان سے علیحدہ ہوکر قلعے سے باہر نکل آیا۔حضرت محمد بن مسلمہؓ نے اسے جانے دیا اور کچھ نہ کہا۔ رسولِ خداﷺ نے حضرت محمد بن مسلمہؓ کے اس فعل کو پسند فرمایا اور سراہا۔ مسلمانوں نے ہمیشہ آنحضرتﷺ کی تربیت کے مطابق مخالفین سے انصاف کا سلوک کیا۔
اس کے بعد حضورِانور نے حضرت صاحب زادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ کے حوالے سے ابو رافع یہودی کے قتل کا واقعہ پیش فرمایا۔
حیی بن اخطب کے کیفرِ کردار تک پہنچنے کے باوجود سلام بن ابی الحقیق جس کی کنیت ابو رافع تھی ابھی تک خیبر کے علاقے میں آزاد اور فتنہ انگیزی میں مصروف تھا۔ یہ شخص بہت بڑا تاجر اور امیر کبیر انسان تھا اور اس نے اپنا دستور بنالیا تھا کہ نجد کے وحشی اور جنگ جُو قبائل کو مسلمانوں کے خلاف اُکساتا رہتا تھا۔ ابورافع عداوتِ نبوی میں کعب کا مثیل تھا۔ا س نے غطفانیوں کو آنحضرتﷺ کے خلاف حملہ آور ہونے کے لیے اموالِ کثیرسے امداد بھی دی۔ اس نے جنگِ احزاب کی طرح نجد کے قبائل غطفان اور دوسرے قبیلوں کا پھر دورہ کیااور مسلمانوں کوتباہ کرنے کےلیے ایک لشکرِ عظیم ترتیب دینا شروع کردیا۔
اس ساری صورتِ حال میں قبیلہ خزرج کے بعض انصاری صحابہ آنحضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اس فتنے کا یہ علاج تجویز کیا کہ اس کے بانی مبانی ابو رافع کا خاتمہ کردیا جائے۔ آنحضرتﷺ نے ملک و قوم کو بڑے پیمانے پر کشت و خون سے بچانے کے لیے عبداللہ بن عتیکؓ کی سربراہی میں چار خزرجی صحابہ کو ابو رافع کی طرف روانہ فرمایا۔چلتے وقت آپؐ نے تاکید فرمائی کہ کسی عورت یا بچے کو ہرگز قتل نہ کرنا۔
ماہِ رمضان چھ ہجری میں یہ پارٹی روانہ ہوئی۔حضرت عبداللہ بن عتیک ؓ از خود رات کے وقت چادر لپیٹ کر قلعے میں داخل ہوئے اور نہایت ہوشیاری سے ابو رافع کو قتل کرکے صبح تسلّی کرنے کے بعد اپنے ساتھیوں سے آملے۔
ابو رافع کے قتل کے جواز کے حوالے سے کسی بحث کی ضرورت نہیں، اس فتنہ پرداز شخص کی خون آشام کارروائیاں تاریخ کا ایک کھلا ورق ہیں۔
حضرت عمرؓ نے اپنے دورِ خلافت میں حضرت محمد بن مسلمہؓ کو جہینہ قبیلے سے وصولئ زکوٰة کےلیے مقرر کیا تھا۔ حضرت عمرؓ کو آپؓ پر اعتماد تھا چنانچہ سرکاری محاصل کی وصولی کےلیےبھی ان ہی کو بھیجا جاتا۔حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد محمد بن مسلمہؓ نے گوشہ نشینی اختیار کرلی تھی۔
آپؓ کی تاریخِ وفات کے متعلق اختلاف ہے ۔مختلف روایات کے مطابق پینتالیس،چھیالیس یا سینتالیس ہجری میں مدینے میں آپؓ کی وفات ہوئی۔ اس وقت آپؓ کی عمر 77 برس تھی۔
خطبے کے آخر میں امیرالمومنین ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مکرم تاج دین صاحب ولد صدر دین صاحب کی نمازِ جنازہ حاضر پڑھانے کا اعلان فرمایا۔ مرحوم 10؍فروری کو84برس کی عمر میں وفات پاگئے تھے۔ آپ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے۔1967ءسے یوکے میں مقیم تھے۔ 1984ء میں جب اسلام آباد کی زمین خریدی گئی تو مرحوم نے ا س کے لیے اپنی خدمات پیش کردیں۔ بائیس برس تک اسلام آباد میں حضرت مسیح موعودؑ کے مہمانوں کو ہر سہولت پہنچانے میں سرگرمِ عمل رہے۔ ہر قسم کا ٹیکنیکل کام جانتے تھے۔ مرحوم صوم و صلوٰة کے پابند ،خوش مزاج، دین دار اور انتہائی اطاعت گزار شخص تھے۔
حضورِانور نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ مرحوم سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے اور ان کی اولاد کو اور نسلوں کو بھی ان کی طرح اخلاص و وفا میں بڑھائے اور صبر اور حوصلہ عطا فرمائے۔ آمین
٭…٭…٭