احمدیت کا مقدمہ
چند تحریکیں…ایک جائزہ
سقوطِ بغداد کے بعد اسلامی سلطنت کے مشرقی اور مغربی کناروں نے قیادت کا بیڑہ اٹھایا۔ اسلامی تہذیب کی ترکیب میں کچھ ایسے لا فانی جوہر پوشیدہ تھے کہ یہ تہذیب دو خوفناک مرحلوں سے یوں سنبھل کر نکلی کہ کوئی اس امر کا قیاس نہیں کر سکتا تھا ، یہ تھے یونانی فلسفہ اور تاتاریوں کی خوفناک یلغار۔ لیکن اٹھارھویں صدی عیسوی میں اسے ایک بار پھر چیلنج کا سامنا تھا ۔ یہ دعوتِ مقابلہ ماضی کی دعوت ہائے مقابلہ سے اس اعتبار سے مختلف تھی کہ ماضی میں یونانیوں کی سیاسی برتری کا طلسم پاش پاش ہو چکا تھا اور تاتاریوں کے پاس کوئی اپنا مربوط نظامِ فکر نہیں تھا۔ لیکن اس بار ایک طرف مغربی اقوام کی سیاسی برتری کا سیلاب تیزی سے اسلامی سلطنتوں کو اپنی لپیٹ میں لے رہا تھا تو دوسری طرف فکری لحاظ سے بھی زمانہ قیامت کی چال چل رہا تھا ۔ اس کےساتھ ساتھ سماجی تبدیلیوں کا عمل اس قدر روز افزوں تھا کہ انسانی تاریخ نے ہزاروں سال سے اس کا مشاہدہ نہیں کیا تھا۔ یہ مرحلہ اربابِ فکر کے لیے حددرجہ نازک اور اہم تھا ۔ ایک طرف تو انہیں بدلے ہوئے سیاسی حالات سے سمجھوتہ کر کے کوئی نئی راہ نکالنی تھی تو دوسری طرف اس بات کو بھی ثابت کرناتھا کہ دینی تعلیمات جوکہ عالمگیر ہیں نہ صرف ہر قسم کے ترقی یافتہ سماجی نظام کا ساتھ دینے کے اہل ہیں بلکہ اس کی رہنمائی کے لیے بھی اپنے اندر صلاحیت رکھتی ہیں ۔
اب ضرورت اس امر کی تھی کہ اس بات کا تعین کیا جائے کہ اسلام کا اصل پیغام اور اس کی بنیادی روح کیا ہے ۔ گذشتہ صدیوں میں اسے ایک مخصوص قسم کے سماجی نظام میں جن پارچوں میں لپیٹ دیا گیا ہے اسے احتیاط سے ان سے الگ کیا جائے کہ نہ تو اس عمل میں اس کی بنیادی روح مسخ ہو جائے اور نہ ہی وہ گرد جو مرور ایام سے اس پر پڑ چکی باقی رہے یہ صورتحال کسی ایسی شخصیت کی متقاضی تھی کہ جو بے مثال فکری صلاحیتوں کی حامل ہونے کے ساتھ ساتھ حق الیقین کی اس منزل پر ہوکہ تہذیب ِجدید کی چکاچوند کے سامنے معذرت خواہانہ رویے کی بجائے للکار کر کہہ سکے ‘‘کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زرِ کم عیّار ہوگا’’
آئیے ہم یہاں جدید دور کی مختلف تحریکیں اس معیار پر پرکھتے ہیں کہ وہ کس حد تک اس دعوت مقابلہ سے عہدہ برآ ہو سکیں۔
بابی تحریک
سب سے پہلے ہم بابی تحریک کا ایک مختصر جائزہ لیں گے ۔ اس تحریک کے بانی جناب علی محمد باب نے ایران میں دعویٰ کیا کہ جس مہدی صاحب الامر کا انتظار کیا جارہا ہے وہ میں ہی ہوں ۔ وہ اپنی کتاب ‘بیان ’میں فرماتے ہیں:
‘‘ جناب محمد کے مخاطب وحشی اور بدوی لوگ تھے اس لحاظ سے کہ وہ بعثت، معاد، جنت ، نار وغیرہ کا صحیح مفہوم سمجھنے سے قاصر تھے۔ آنحضرت ان کے مفہوم مادی صورتوں میں ان کے سامنے پیش کرتے تھے تاکہ وہ آسانی سے سمجھ سکیں لیکن دورہ بیان میں مخاطب دانا اور متمدن لوگ یعنی ایرانی ہیں اس لیے الفاظ اور اصطلاحاتِ مذکورہ کو دوسری طرز میں بیان کیا گیا اور ان الفاظ کے ایسے معنی مراد لیے گئے جو عقل و فہم سے زیادہ قریب تھے مثلاً قیامت سے مراد ہر زمانے میں شجر حقیقت کا ظہور ہے قیامت کے لیے کوئی مرد ہ قبروں سے نہیں اٹھے گا بلکہ بعثت یہی ہے کہ اس زمانہ کے پیدا ہونے والے لوگ زندہ ہو جاتے ہیں ۔ قیامت کا دن بھی دوسرے دنوں کی مانند ہے۔’’
اب ہم یہاں اس بات کا جائزہ لیں گے کہ یہ تحریک اپنی اس تمثیلی تفسیر اور اپنے اس علم الکلام کے انداز کے ساتھ کس حد تک منفرد اور اچھوتا پہلو اپنے اندر رکھتی ہے ۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ تحریک بھی ایران کی اس مخصوص مذہبی فضا سے پوری طرح منسلک ہے جو کہ مختلف فرقوں اور تحریکوں کی آماجگاہ رہی ہے۔
اسماعیلی فرقہ اور بابی تحریک
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اسماعیلی باطنی جب کسی شخص کو اپنے حلقے میں شامل کرتے تو اسے 9مراحل سے گزرنا پڑتا جس کے بعد وہ شریعت کی پابندیوں سے آزاد ہو جاتا ۔ چھٹے مرحلے پر ان تازہ واردان بساط سیاست کو جو تعلیم دی جاتی پروفیسر براؤن اپنی کتاب ‘لٹریری ہسٹری آف پرشیا ’میں تحریر کرتے ہیں:
‘‘ یہاں نووارد کو اسلامی فرائض و عادات کے تمثیلی معنوں سے آگاہ کیا جاتا اور اس بات کی ترغیب دی جاتی کہ ان کی ظاہری بجا آوری کسی اہمیت کی حامل نہیں اور اسے ترک کیا جاسکتا ہے کیونکہ اسے دانا اور اہل دانش شریعت دینے والوں نے صرف وحشی اور جاہل لوگوں کو نظم و ضبط میں رکھنے کے لیے وضع کیا ہے۔’’
مندرجہ بالا دونوں اقتباسات کی مماثلت سے اس امر کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ بابی مذہب کا یہ طرز استدلال اسماعیلی فرقہ سے ماخوذ ہے اور اپنے اندر کوئی ندرت نہیں رکھتاجیسا کہ BAHAULLAH AND THE NEW ERA کے مصنف کا دعویٰ ہے ۔
بابیوں کے ہاں قیامت سے مراد مخصوص معنی لیے جاتے ہیں ہمیں اس پر اعتراض نہیں لیکن اس کے حقیقی معنی سے صرف نظر کرنا اور اس کے محض مخصوص معنی پر اصرار کرنا کوئی ایسا عمل نہیں جو ان کے ساتھ مخصوص ہے ۔ اس سے قبل بھی فاطمین مصر کے زمانہ میں باطنی داعی اور درزی اس کا استعمال کر چکے ہیں ۔چنانچہ مصر کے ایک فاطمی خلیفہ حاکم کو اس کے بعض پیروؤں نے مجسم خدا سمجھنا شروع کر دیا اس سےدرزی شیعوں کی ایک شاخ نکلی۔ چنانچہ ایک باطنی داعی فرغانی نے کرمانی کو ایک خط لکھا جس میں اس نے اپنے چند عقائد ظاہر کیے مثلاً حاکم مجسم خدا ہے اعمال شریعت کی اب کوئی ضرورت نہیں ۔ جس نے امام کو پہچان لیا وہ مرتبہ انبیاء اولیاء سے بڑھ گیا ۔ دنیا کا دور ختم ہوگیا ہے قیامت قائم ہو چکی ہے۔(تاریخ فاطمین مصر از ڈاکٹر زاہد علی)
اس سے اس امر کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ بابی تحریک اپنے اندر کی اصطلاحات کی تکرار لیے ہوئے ہے جس کا اعادہ اس کی پیشرو تحریکوں میں ہو چکا ہے ۔ بغداد میں بنی بویہ اور شام میں ہمدانیوں کے برسر اقتدار آ جانے سے جب فرقہ باطنیہ کو فروغ ہوا تو انہوں نے تاویل کو اپنے مذہب کی اساس قرار دیا ۔ ان کا عقیدہ تھا کہ ہر ظاہر کا صدور باطن سے ہوتا ہے جس کا وہ مظہر ہوتا ہے۔
امام احمد بن یحییٰ المرتضیٰ فرقۂ باطنیہ کے ذکر میں لکھتے ہیں:
‘‘ وحی اور نزولِ ملائکہ سے انکار کرتے ہیں اور وہ ایسی باتوں کو اشارے اور استعارے سمجھتے ہیں جن کو عام لوگ نہیں سمجھتے ۔ ان کے نزدیک موسیٰ کے اژدہا سے ظاہر قرآن کے موافق اژدہا مراد نہیں بلکہ موسیٰ کی حجت مراد ہے اور بادلوں کا سایہ کرنے سے موسیٰ کا اپنی قوم پر حاکم ہونا مراد ہے ۔’’
(بحوالہ تاویلاتِ اقبال ا ز علی عباس جلال پوری)
اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسماعیلی باطنیوں نے یہ تاویل اور تمثیل کا عمل کیسے اختیار کیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ بڑی حد تک اس زمانے کے سیاسی اور معاشرتی حالات کی بنا پر تھا ۔ چنانچہ ڈی بوئر اپنی کتاب THE HISTORY OF PHILOSOPHY IN ISLAM میں لکھتے ہیں:
‘‘ مشرق میں جہاں ہر مذہب ایک سلطنت کی حیثیت موجودہ سلطنت کے اندر پیدا کر لیتا ہے ۔ہر سیاسی فرقہ ہمیشہ ایک خاص مذہبی فرقہ کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے تاکہ کسی نہ کسی طریقہ سے اس کو پیرومل سکیں۔’’
چنانچہ ایران میں زمانہ قبل از اسلام میں جب مانی اور مزدکی مذاہب کا ظہور ہوا تو زرتشتی پیشواؤں نے سیاسی طاقت کے بل بوتے پر انہیں کچل کر رکھ دیا چنانچہ یہ لوگ زیر زمین چلے گئے اور انہوں نے نہ صرف اپنا خفیہ تبلیغ کا ایک نظام وضع کیا بلکہ فلسفہ سے واقفیت بہم پہنچا کر تاویل کا ایک حیرت انگیز فن بھی ایجاد کر لیا تاکہ عوام کوبہلایا پھسلایا جا سکے ۔ چنانچہ جب اسماعیلی باطنیو ںنے حصولِ اقتدار کے لیےکشمکش کا آغاز کیا تو انہوں نے یہ تمام اسرار و رموز مانیوں اور مزدکیوں سے سیکھنے شروع کیے۔ اس لحاظ سے بابیوں کی جڑیں نہ صرف اسماعیلیوں، درزیوں تک پھیلی ہوئی ہیں بلکہ زرتشتیوں مزد کیوں اور مانوی مذاہب تک تلاش کی جاسکتی ہیں چنانچہ زرتشتیوں کا یہ تصور کہ ہر ہزار سال کے بعد نیا دَور شروع ہوتا ہے بابیوں کا ایک اساسی عقیدہ ہے ۔ اسی لیے اسماعیلہ ، قرامطہ ، صبّاحیہ ، بابکیہ اور فاطمئین کے لٹریچر کا جائزہ لیتے ہوئے پروفیسر براؤن اس نتیجہ پر پہنچا:
‘‘ یہ غالی شیعہ فرقے جن کے بارے میں ہم نے غور کرنا ہے اور جنہوں نے مقنع (خراسان کا نقاب پوش مدعی نبوت )بابک اور دوسروں کی قیادت میں ایسی شورش بپا کرکے حلول وتجسیم کی اسی روایت کا اعادہ کیا ہے جیسا کہ بعد میں اسماعیلہ، باطنیہ، قرامطہ اورحشیشین نے کیا اور یہ روایت (حلول وتجسیم) ایران میں اس طرح سے رچی بسی ہے کہ ہر وقت کسی مناسب محرک کی موجودگی میں وبا کی صورت اختیار کرنے کو تیار رہتی ہے ہمارے وقت میں یہ بابی تحریک کی صورت میں ایک مرتبہ پھر ظاہر ہوئی ہے ۔ ان فرقوں میں مشابہت (جن کی تاریخ پچھلی گیارہ صدیوں میں واضح طور پر تلاش کی جاسکتی ہے ) اس قدر نمایاں ہے کہ جزئیات تک پھیلی ہوئی ہے۔’’
(پروفیسر براؤن ۔ لٹریری ہسٹری آف پرشیا صفحہ 311)
تاویل
اس سے پہلے کہ ہم اس بحث کو مزید آگے بڑھائیں ہم یہاں مختصرًا تاویل یا تفسیر کے بارے میں ذکر کرنا ضروری سمجھتے ہیں کیونکہ یہ نہایت اہم مسئلہ ہے ۔ تاویل کے لغوی معنی کسی بات کے نتیجے کے ہیں ۔ اصطلاح میں ایسا لفظ جو ظاہری مطلب سے ہٹا ہوا ہو۔ قدیم رسوماتی مذاہب میں کوئی شے ایسی نہیں جس کا فلسفہ مخالفت کرے لیکن جب اعلیٰ مذاہب کا ظہور ہوا تو حقیقت ایک متنازعہ فی ذہنی حلقہ بن گئی ۔ فلسفہ اور الہام کے لیے زندہ رہو اور زندہ رہنے دو کے اصول پر کاربند رہنا ناممکن ہو گیا ۔ بعد ازاں فلسفہ کو اجازت مل گئی کہ وہ انبیاء کے پیغامات کی تشکیل ازسرنو فلسفیانہ انداز میں کرے ۔
سب سے پہلے فیلو یہودی اور نوفلا طونی عیسائی متکلم کلیمنٹ ولی نے فلسفہ اور تورات و انجیل کے نصوص میں توفیق و تطبیق کی کوشش کی۔
’’فیلو یہودی کی فلسفہ عقل و نقل میں تطبیق کی یہ پہلی کوشش تھی جس نے بعد میں عیسائی اور مسلمان صوفیاء اور حکماء کو بہت متاثر کیا ہے ۔ بیشتر محققین کے نزدیک جب نوفلاطونی افکار کی اشاعت دنیا ئے اسلام میں ہوئی تو مسلمان متکلمین بھی تاویل کو بروئے کار لاکر مذہب اور فلسفہ کے درمیان مفاہمت کرنے لگے۔جعد بن درہم نے کہا کہ خدا عرش پر متمکن نہیں ہے ۔راسخ العقیدہ علماء نے اس کی سخت مخالفت کی۔ سب سے پہلے اخوان الصفّا نے جو باطنی العقیدہ تھے تاویل آیات کرکے اسلامی شعائر کو از سر نَو افلاطونیت کی بنیادوں پر مرتّب کرنے کی کوشش کی۔ اخوان الصفّا کے رسائل سے فلاسفہ ، متکلمین اور صوفیاء نے بیش از پیش استفادہ کیا ۔ بقول ڈی بوئر امام غزالی نے بھی ان کے نظریات سے استفادہ کیا ۔ فلاسفہ میں ابن رشد سے لے کر ملّا ہادی سبزواری تک اور صوفیاء میں منصور حلاج سے لے کر شیخ اکبر نے ان نظریات سے استفادہ کیا۔‘‘
( تاویلات اقبال از علی عباس جلالپوری)
مگر ہم یہاں ان محققین سے اختلاف کی جسارت کریں گے جو یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام میں تاویل ،تفسیر اور تصوف کی روایت تمام کی تمام بیرونی اثرات کا نتیجہ ہے اگر چہ ہم ان کے جزوی اثرات سے انکار نہیں کرسکتے ۔ بعض فرقوں کے معاملے میں توکُلّی اثرات سے بھی انکار ممکن نہیں ہے ۔ جہاں تک تاویل کا تعلق ہے قرآن میں خود اس کی مثال موجود ہے مثلاً حضرت یوسف علیہ السلام سے قیدیوں کا خواب بیان کرنا اور اس کی تعبیر کا واقعہ۔
درحقیقت ہر کلچر ابتدا میں ایک بیج کے مشابہ ہوتا ہے گو اس میں اس وقت ایک مکمل شجر بننے کے تمام امکانات موجود ہوتے ہیں لیکن اگر اس وقت کوئی مُصِر ہو کہ بیج میں تنا اور شاخیں بھرپور شکل میں دکھاؤ تو یہ ممکن نہیں۔
چنانچہ تاویل کی مثال خود قرآن نے دی ہے اور اس سلسلہ میں ایک درمیانی راہ متقاضی ہے ۔ نہ ہی یہ عمل درست ہے کہ باطنیوں کی طرح مخصوص مقاصد ذہن میں رکھ کر ہر ہر نص کی تاویل کی جائے اور نہ ہی اربابِ ظاہر کی طرح تاویل کو یکسر فراموش کر کے خدا کو ایک معین اور محدود ہستی سمجھ لیا جائے جو کہ ایک کرسی پر ایک بشری انداز میں انسانی دنیا سے دور الگ بیٹھی ہے ۔ چنانچہ بعد کے دور میں یہ درمیانی راہ کہیں کھو گئی۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ جن علاقوں میں اسلام پھیلا وہاں پر موجود روایات اور تصورات کے لیے دو راستے تھے یا تو انہیں مسترد کر دیا جاتا یا انہیں قبول کر لیا جاتا ۔ لیکن ہوا یہ کہ بقول آئی ۔ایچ ۔قریشی:
‘‘کسی چیز کو مسترد کرنا شعوری عمل ہے جو کہ جائزے اور جانچ پرکھ پر مشتمل ہوتاہے لیکن کسی چیز کو جذب کرنا ہمیشہ شعوری نہیں ہوتا یہ بڑی حد تک تحت الشعوری عمل ہوتا ہے اور نئے تصورات ہمارے عقائد میں بغیر کسی تنقیدی جائزےکے داخل ہوجاتے ہیں۔’’( مسلم کمیونٹی ان انڈوپاکستان)
چنانچہ یہ بیرونی اثر ات اس طرح لاشعوری طور پر ہماری روایت میں داخل ہوگئے اور حقیقت خرافات میں کھو گئی ۔ تاویل کے ضمن میں یہ بات ضرور تحریر کریں گے کہ الفاظ چراغ کے مشابہ ہوتے ہیں ۔ اُن سے معنی اس طرح پھوٹتے ہیں جیسے چراغ کے پاس کھڑے قدموں سے سایہ پھوٹتا ہے۔ اگر ہم چراغ سے آگے نکلتے ہیں تو یہ سایہ مناسب فاصلے تک ہماری رہنمائی کرتا ہے لیکن اگر ہم چراغ سے بہت دور نکل جائیں تو یہ سایہ ہماری رہنمائی کی بجائے لمبا ہوتا ہوا تاریکی میں شامل ہو جائے گا اور ہماری گمراہی کا باعث ہوگا ۔ یہی کچھ باطنیوں اور بابی تاویلوں میں ہوا ہے ۔ ان کی تاویلیں اور تفسیریں چراغ سے دور نکل جانے کے باعث محض لفظی گورکھ دھندا بن کر رہ گئی ہیں۔
( ہندوستان) پس منظر
ہندوستان کی اٹھارہویں اور انیسویں صدی عیسوی کی اصلاحی تحریکوں کا جائزہ لینے سے پیشتر ایک نگاہ واپسیں ڈالنا بےجا نہ ہوگا۔ ہندوستان میں اسلام کا پھیلاؤ بڑی حد تک صوفیاء کا رہینِ منت رہا ہے لیکن جب تصوف کی عجمی روایت کے حامل صوفیا ءنے ہندو جوگیوں کو بھی وہی معارف بیان کرتے سنا جو وہ اپنے مرشد سے ایران میں سُن چکے تھے تو انہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ روحانی ترقیات کے حصول کے لیے کسی خاص عقیدہ کا حامل ہونا ضروری نہیں۔چنانچہ وسیع المشربی (HETRODOXTY)کی یہی زیریں لہر تھی جو کہ بالآخر دینِ الٰہی کی صورت میں ظاہر ہوئی ۔ اس وجہ سے ہم دین الٰہی کو محض اکبر کی ذہنی خرافات نہیں کہہ سکتے۔ قدامت پسند علماء جن کو بیشتر عرصہ دربار کی حمایت بھی حاصل رہی ہمیشہ قدامت پرستی کا مظاہرہ کرتے رہے اور انہوں نے قطع نظر اس بات کے کہ کوئی تحریک اپنے اندر مثبت یا منفی پہلو رکھتی ہے بلا امتیاز اپنا تختہ مشق بنایا ۔ چنانچہ انہوں نے مہدوی تحریک پر جو کئی اعتبار سے اپنے اندر مثبت پہلو لیے ہوئے تھی بے دریغ مشک نازکی ۔ ان قدامت پسند علماء نے مقامی روایت اور حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کسی قسم کی تخلیقی صلاحیت یا اجتہاد کا مظاہرہ نہیں کیا ۔ وہ ہمیشہ رہنمائی کے لیے وسط ایشیا ایران اور عرب کی طرف دیکھتے رہے ۔ برصغیر میں انگریزوں کی سیاسی برتری سے ذرا پیشتر اقتدار مسلمانوں کے ہاتھ سے نکلنا شروع ہو گیا ۔ حضرت شاہ ولی اللہ نے اس امر کا احساس کیا اور مختلف اسلامی فرقوں میں یک جہتی اور ہم آہنگی کے فروغ کے لیے گراں قدر خدمات سرانجام دیں ۔ انہوں نے ایک طرف فقہی اختلافات کو ختم کرنے کی کوشش کی تو دوسری طرف وحدت الشہود اور وحدت الوجود کے جھگڑے کو یہ کہہ کر ختم کیا کہ یہ محض لفظی نزاع ہے ۔ حضرت سیّد احمد شہید بریلوی کی تحریک گو اپنے سیاسی مقاصد کے حصول میں ناکام ہوگئی لیکن اس تحریک نے مسلمانوں میں ہندوؤں سے الگ جداگانہ تشخص قائم کرنے میں عظیم کردار ادا کیا۔
علی گڑھ تحریک
1857ء کے سانحہ کے بعد مسلمانوں کا وہ طبقہ جو کہ قیادت کے منصب پر فائز تھا ذلت و ادبار کی اتھا ہ گہرائیوں میں اتر گیا ۔ سرسید نے ان تمام واقعات کا مشاہدہ دیدۂ عبرت سے کیا تھا۔ انہوں نے سوچا کہ اگر مسلمانوں نے اپنے آپ کو بدلتے ہوئے حالات سے ہم آہنگ نہ کیا تو وہ بحیثیت قوم حرفِ غلط کی طرح مٹ جائیں گے چنانچہ انہوں نے اسلام کو بدلتے ہوئے سماجی تقاضوں اور نئے نئے علمی انکشافات سے ہم آہنگ کرنے کی خاطر کوششوں کا آغاز کیا ۔ پہلے پہل تو انہوں نے قرآن کے سیدھے سادھے معنی لینا چاہے لیکن بعد ازاں اسے موزوں نہ پا کراخوان الصفّا کی طرز پر تمثیلی تفسیر لکھنے کا آغاز کیا ۔ اس جوشِ تطابق میں انہوں نے بالعموم اور ان کے رفقاء نے بالخصوص حدیث ، فقہ اور اجماع کو ناقابل اعتبار قرار دے کر نظر انداز کر دیا ۔ چنانچہ سمتھ اپنی کتاب ‘‘ماڈرن اسلام ان انڈیا ’’ میں لکھتے ہیں:
‘‘ یہ سر سید ہیں جنہوں نے قدیم فقہ کو مسترد کرکے اس کے متبادل کوئی نئی فقہ پیش نہیں کی نہ ہی ان کے کسی پَیرو نے ایسا کیا۔ چنانچہ پیشگوئیوں کی حامل مکی دور کی آیات زیاہ سے زیادہ اور قانونی نوعیت کی مدنی دَور کی ٓایات کم سے کم پیش کی جاتیں ۔ ’’
(ماڈرن اسلام اِن انڈیا)
سرسیدآگے بڑھے اور مذہب کو تہذیب وتمدن کے ارتقاء کے معاملے میں ثانوی حیثیت دے دی اور اخلاقیات کو بھی مذہب سے جدا کر دیا ۔ ان کے رفقاء ایک قدم اور آگے بڑھے اور اسلامی تعلیمات کے بنیادی ماخذوں کو نذرِ خط ِتنسیخ کرکے یہ کہا کہ قرآنی تعلیمات کا غالب حصہ احکام ،اخلاق ،تاریخی امور، کہانیوں اور پیش گوئیوں پر مشتمل ہے جن کا نسل انسانی کی اجتماعی، تہذیبی اور سیاسی زندگی سے کوئی تعلق نہیں۔
(بحوالہ سر سید سے اقبال تک مصنف قاضی جاوید)
سرسید اور مولوی چراغ علی اس بات کو نظر انداز کر گئے کہ جن سماجی تقاضوں اور علمی انکشافات کی قربان گاہ پر وہ اپنا سارا ورثہ قربان کرنے پر تُلے ہوئے ہیں وہ کوئی مستقل اور پائیدار سچائیاں اپنے اندر نہیں رکھتے ممکن ہے آنے والے وقت کی گردشیں ان بظاہر پائیدار نظر آنے والی حقیقتوں کو سراب ثابت کردیں۔ چنانچہ علی گڑھ تحریک کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ نئی نسل اپنی روایات سے بیگانہ ہو گئی ۔ وہ ایک طرح سے دو تمدنوں کے درمیان تقسیم ہو کر رہ گئی لہٰذا وہ کسی قسم کی خلاقیت کا کوئی مظاہرہ نہ کر سکی۔ احساس کمتری کا یہ عالم تھا کہ ڈپٹی نذیر احمد کے ناولوں کے مثالی کردار یہ کہتے ہوئے نظر آ تے ہیں ‘‘یہ ہے پادری صاحب کی اعلیٰ اخلاقیات والی کتاب ۔’’ مذہب کے مابعد الطبیعاتی کردار کو ختم کرکے اور مذہب کو تہذیب و تمدن سے لا تعلق ثابت کر کے وہ بقول ٹائن بی اس بات کو نظر انداز کر گئے:
‘‘ جب کبھی بھی لوگوں نے اپنے مذہب پر اعتقاد کھو دیا تو ان کی تہذیب سماجی تشتت و افتراق کا شکار ہو کر رہ گئی۔’’
(CHOOSE LIFE Page 288)
ردِّ عمل
اس کے برعکس علماء کا ایک ایسا طبقہ بھی تھا کہ جس نے اقتضائے وقت کا کچھ احساس نہیں کیا ۔ اس طبقے کی نمائندگی دارالعلوم دیوبند ، مولانا شبلی اور ان کے رفقاء کر رہے تھے۔ دیوبند کے لوگ تو دنیا سے یکسر الگ ہو کر بیٹھ رہے اور آزمائشوں سے محفوظ رہے ۔ ان کے برعکس جو لوگ اپنی قدیم ڈگر کے ساتھ کارزارِ حیات میں شریک ہوئے ان کے قول و فعل میں ایک عظیم تضاد پیدا ہو گیا ۔ بقول پروفیسر اکرام ‘‘خواب تو ہندوستان میں حکومت الہٰیہ ’’ قائم کرنے کے دیکھتے اور عملی استعداد کا یہ عالم ہوتا کہ کاغذ کی کمیابی کے زمانے میں 50صفحہ کا ایک رسالہ جاری نہ رہ سکتا۔
ان تحریکوں کا جب ہم جائزہ لیتے ہیں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ ان تحریکوں میں سے کوئی تحریک بھی ایسی صفت اپنے اندر نہیں رکھتی تھی کہ مسلمانوں کے تمام طبقوں میں مقبول ہو سکے اور ان کے درد کا درماں اپنے اندر رکھتی ہو۔ان میں سے ہر ایک تحریک سماجی تبدیلیوں کی کسی خاص چیز پر ظاہر ہوئی اور کسی مخصوص طبقے کی مقتضیات کی تشفی کر کے نقش بر آب ہوگئی۔
ہم جب اس امر پر غور کرتے ہیں کہ یہ تحریکیں آخر کس وجہ سے کامیابی سے ہمکنار نہ ہو سکیں تو سید سلیمان ندوی کی کتاب ‘‘خطبات مدراس ’’ کا یہ اقتباس ہمارے دامن گیر ہوتا ہے:
‘‘ ہم اوائل فروری 1924ء میں حجاز و مصر سے سے واپس آرہے تھے ۔ اتفاق سے مشہور شاعر ڈاکٹر ٹیگور بھی اس پر واپس ہو رہے تھے ۔ ان سے سوال کیا کہ برہمو سماج کی ناکامی کا سبب کیا ہے ؟ حالانکہ اس کے اصول بہت منصفانہ ، صلح کل کے تھے۔ اس میں عقل اور منطق کے خلاف کوئی چیز نہیں تھی …فلسفی شاعر نے جواب میں …نکتہ بیان کیا …کہ یہ اس لیے ناکامیاب ہوا کہ اس کے پیچھے کوئی شخصی زندگی اور عملی سیرت نہ تھی جو ہماری توجہ کا مرکز بنتی اور ہماری نیکوکاری کا نمونہ بنتی۔’’
یہی وجہ اسلامی دنیا کی جدید اصلاحی تحریکوں کی ناکامی کا سبب بنی ۔ کسی تحریک کے قائد یا رہنما جو کہ روحانی تجربے کی لذت سے ناآشنا تھے طبائع میں وہ انقلاب آفریں ایمان پیدا نہ کرسکے جو کہ کشمکشِ حیات میں ان کا چراغ راہ اور اصل سرمایۂ حیات بنتا ۔ ایک ما بعد الطبعیاتی ایمان قوم اور تہذیبوں کی زندگی میں ایک ایسا ناگزیر عنصر ہے کہ جس کے بغیر کوئی قوم کوئی تہذیب کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکتی بلکہ اب تو یہ انسانیت کی نجات کے لیے بھی اس قدر ناگزیر ہے کہ مشہور مؤرخ ٹائن بی دنیا کی 26 تہذیبوں کے مطالعے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا:
‘‘ تہذیب کی کشتی تاریخ کے سمندر میں پانچ یا چھ ہزار سال کا فاصلہ طے کر آئی ہے اب وہ چٹانوں کی طرف بڑھ رہی ہے جن سے چکر کھا کر نکل جانا کشتی چلانے والے کے بس میں نہیں۔’’
( ٹائن بی مطالعہ تاریخ تلخیص سومرویل۔ ترجمہ غلام رسول مہر)
تو ضرور ت کسی ایسے مردِ حق کی تھی جس کی زندگی سیرتِ محمدیہ کا کامل نمونہ ہونے کے ساتھ ساتھ اس امر پر بھی شاہد ہو کہ
وہ خدا اب بھی بناتا ہے جسے چاہے کلیم
اب بھی اس سے بولتا ہے جس سے وہ کرتا ہے پیار
ایک طرف وہ دلائل و براہین سے اسلام کی حقانیت ثابت کردے تو دوسری طرف مذہب کے مابعد الطبعیاتی کردار پر پڑنے والے شکوک و شبہات کی پرچھائیوں کو یہ کہہ کر فنا کر سکے کہ
‘‘ آگ سے ہمیں مت ڈراؤ آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے۔’’
چنانچہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے ایک طرف تو دین حق کی حقانیت دلائل و براہین سے ثابت کی تو دوسری طرف خدائی تائید و نصرت سے ایسے نشانات ظاہر کیے کہ لوگوں کا ایک زندہ خدا پر ایمان قوی ہو گیا ۔ آپ نے اسی قرآنی تعلیمات کی شمع فروزاں میں (جس سے دور نکل جانے کے باعث بابیوں کی تفسیریں لفظی گورکھ دھندہ بن گئیں) ایک جہانِ معنی پوشیدہ دیکھا۔
آپ نے اسی قرآن میں ہر زمانے کے لیے حیات آفرین روشنی پائی جو کہ فقدانِ نیر الہام کے باعث عقلی تحریکوں کے رہنما نہ پا سکے ۔ آپ نے قرآن کی روح کو مجروح کیے بغیر ایسی تفاسیر کیںکہ دل قرآن کی صداقت اور آپ کی بصیرت پر عش عش کر اٹھےاور جب تفسیرحرف یَنْسَلُوْنَ پر انگلی رکھی تو روحیںجھوم کے پکار اٹھیں
‘‘تم مسیحا بنو خدا کے لیے’’
اس دور کا منظر یوں لگتا ہے جیسے چراغ مصطفویؐ سے شرارِ بولہبی سرگرم ستیز ہو اور ذہن شکوک و شبہات میں اس طرح پراگندہ وپریشان ہوں جیسے تیز آندھی میں بکھرتے ہوئے پتے ہر کھڑکی ہر دریچہ سے پناہ مانگتے ہیں ۔ اس طرح کہ جیسے سامنے کوئی پل صراط ہے اسے پار کرنا ہو اور کوئی اسے پار کرنے کی جرأت دل میں نہ پاتا ہو۔ کسی نے اسے پار کرنے سے انکار کردیا ہو اور کسی نے پار کرتے ہوئے کبھی قرآن کو چھوڑا ہو اورکبھی سنت کو،کبھی حدیث کو ترک کیا ہو کبھی اجماع کو ۔ اچانک جب یہ ظاہر ہو رہا تھا کہ وقت اپنے بے رحم ہاتھوں سے اس امت کی تقدیر کا فیصلہ لکھ دے گا ۔ قادیان کے گمنام گوشے سے ایک شخص باہر نکلا اور پکار کر کہا سنو ! قرآن کا ایک شوشہ بھی منسوخ نہیں ہوگا اور وہ آگے بڑھا اس پل کو اس طرح پار کیا کہ نہ قرآن کو ہاتھ سے چھوڑا نہ حدیث کو۔ نہ سنت کو ترک کیا نہ اجماع کو اور نہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات باجود کی مرکزیت پر کوئی زد آنے دی۔ وہ اپنے کارواں کو لے کر یوں پار نکلا کہ تاریکیاں سمٹ سمٹ کر راستہ دینے لگیں اور نگاہوں کے سامنے صراطِ مستقیم روشن ہوگئی۔ ذہنوں کے افق وسیع ہوئے اور بے یقینی کی اس کڑی دھوپ میں تحریک احمدیت ایسے شجر ِسایہ دار کی صورت اختیار کر گئی جس کی جڑیں زمین میں اور شاخیں آسمان میں ہوں جو کہ اپنی وسعتوں میں نہ صرف ایک امت کو بلکہ پوری انسانیت کو سمیٹ لینے کے امکانات رکھتی ہو اور ان کے درد کا درماں اپنے اندر رکھتی ہو۔
اس بام سے نکلے گا تیرے حُسن کا خورشید
اس کُنج سے پھوٹے گی کرن رنگِ حنا کی
اس در سے بہے گا تیری رفتار کا سیماب
اس راہ پہ پھولے گی شفق تیری قبا کی
(بشکریہ ماہنامہ انصار اللہ ۔ اپریل 1991ء)
٭…٭…٭