شمائلِ مہدی علیہ الصلوٰۃ والسلام
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے عیادت کرنے کا بیان(حصہ دوم)
صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کا واقعہ
ایک مرتبہ آپ نے کشف میں صاحبزادہ مبارک احمدصاحب کے متعلق دیکھا کہ وہ مبہوت اور بدحواس ہو کر دوڑتا ہوا آپ کے پاس آیا ہے اور نہایت بے قرار ہے اور حواس اڑے ہوئے ہیں اور کہتا ہے کہ ابا پانی یعنی مجھے پانی دو۔ حضرت اقدس اس وقت باغ میں مقیم تھے او ردو گھنٹہ بعد اس کشف کے بعینہ یہ واقع پیش آیا۔آٹھ بجے صبح کا وقت تھا اور حضرت اقدس ایک درخت کے نیچے کھڑے تھے۔مبارک احمد چار برس کی عمر کا تھا۔یکایک وہ اسی طرح مبہوت حضرت کی طرف آیا اور کشف پورا ہو گیا آپ فرماتے ہیں ۔
“میں نے اس کو گود میں اٹھا لیا اور جہاں تک مجھ سے ہو سکا میں تیز قدم اٹھا کر اور دوڑ کر کنوئیں تک پہنچا اور اس کے منہ میں پانی ڈالا۔”
اس نقشہ کا تصور کریں کہ جب آپ چا ر برس کے بچے کو اٹھاتے ہوئے کنوئیں کی طرف بھاگے جا رہے تھے۔آپ نے یہ پروا ہ نہیں کی کہ میں آواز دے کر اپنے بیسیوں خادموں کو بلا سکتا ہوں پانی ہی منگوا سکتا ہوں ۔کسی کا انتظار نہیں کیا بلکہ خود اٹھا کر بھاگتے ہوئے کنوئیں کی طرف چلے گئے۔
اپنی اولاد اور اقارب کے ساتھ ہی یہ بات مخصوص نہ تھی بلکہ ہر ایک کے ساتھ ہی آپ کو اسی قسم کا درد تھا۔اور آپ دوسروں کے لئے اپنا آرام قربان کر دیتے تھے۔
حضرت ام المومنینؓ پر جب کبھی بیماری کا حملہ ہوتا تو آپ ہر طرح آپ کی ہمدردی اور خدمت کرنا ضروری سمجھتے تھے اور اپنے عمل سے آپ نے یہ تعلیم ہم سب کو دی کہ بیوی کے کیا حقوق ہوتے ہیں ؟ جس طرح پر وہ ہماری خدمت کرتی ہے عند الضرورت و ہ مستحق ہے کہ ہم اسی قسم کا سلوک اس سے کریں ۔
چنانچہ آپ علاج اور توجہ الی اللہ ہی میں مصروف نہ رہتے بلکہ بعض اوقات حضرت ام المومنین کو دباتے بھی تاکہ آپ کو تسلی اور سکون ملے۔احمق اور نادان ممکن ہے اس پر اعتراض کریں مگر حقیقت میں نسوانی حقوق کی صیانت اور ان کے حقوق کی مساوات کا یہ بہترین نمونہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دکھایا۔
حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ کی تیمارداری اور عیادت کے واقعات اوپر بیان ہو چکے ہیں حضرت حکیم الامت اور بعض دوسرے دوستوں کی علالت میں بھی آپ کا کرم و رحم بےحد تھا۔اور مرض الموت میں یہی انسان کے لئے تسلی بخش ہوتا ہے۔
(سیرت حضرت مسیحِ موعودؑ از یعقوب علی عرفانی صاحبؓ صفحہ 285-286)
حضرت مولانا حکیم نور الدین صاحبؓ کی عیادت کے لئے جموں تشریف لے جانا
حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ بیان کرتے ہیں :
“حضرت مولانا نور الدین صاحبؓ جموں میں شاہی طبیب تھے اور حضرت اقدسؑ کے ساتھ جو محبت اور عقیدت کا عملی رنگ آپ میں تھا دوسروں میں اس کی نظیر نہیں ۔اس کمال کا نتیجہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آپؓ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کے بعد آپ کا خلیفہ اور جانشین بنا دیا۔1888ء میں مولوی صاحب بیمار ہو گئے۔حضرت حکیم فضل الدین صاحبؓ نے حضرت اقدس کو اطلاع کی۔آپ نے فوراً اس خط کے آنے پر جموں جانے کا ارادہ کر لیا۔چنانچہ روانگی سے پہلے آپ نے … خط لکھا… اس اطلاع کے بعد آپ حسب وعدہ جموں تشریف لے گئے۔”
(سیرت حضرت مسیح موعودؑ از شیخ یعقوب علی عرفانیؓ صفحہ 184، 185)
حضرت شیخ یعقوب علی عرفانیؓ بیان کرتے ہیں :۔
“عیادت کے لئے باوجودیکہ آپ تشریف لے جاتے تھے۔لیکن یہ بھی ایک صحیح واقعہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے آپ کے قلب کو مخلوق کی ہمدردی اور غمگساری کے لئے جہاں استقلال سے مضبوط کیا ہوا تھا وہاں محبت اور احساس کے لئے اتنا رقیق تھا کہ آپ اپنے مخلص احباب کی تکالیف کو اپنی آنکھ سے نہ دیکھ سکتے تھے۔اور اندیشہ ہوتا تھا کہ اگر آپ اس موقعہ تکلیف پر پہنچ جاویں تو طبیعت بگڑ نہ جاوے اس لئے بعض اوقات عیادت کے لئے خود نہ جاتے اور دوسرے ذریعہ سے عیادت کر لیتے یعنی طبیب یا ڈاکٹر کے ذریعہ سے حالات دریافت کرتے رہتے اور مریض کے عزیزوں اور رشتہ داروں کے ذریعہ تسلی دیتے رہتے۔”
(سیرت حضرت مسیح موعودؑ از شیخ یعقوب علی عرفانیؓ صفحہ 186)
میر عباس علی صاحب کی عیادت کے لئے لودھیانہ جانا
حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ بیان کرتے ہیں :
“عیادت کے لئے بعض اوقات آپ نے سفر بھی کیے ہیں۔ لودہانہ میں ایک میر عباس علی صاحب صوفی تھے۔ابتدا میں حضرت اقدس کے ساتھ ان کو بڑی محبت اور اخلاص تھا … حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ان کی بیماری کا خط ملا آپ نے باوجودیکہ خود بیمار تھے اور از بس مصروف تھے مگر حق دوستی اور اخوت کی اس قدر رعایت کی کہ خود ان کی عیادت کے لئے لودہانہ جانا ضروری سمجھا۔چنانچہ پہلے ان کو ایک خط لکھا…
چنانچہ حضرت اقدس اس وعدہ کے مطابق 14 اکتوبر 1884ء کو لودہانہ تشریف لے گئے اور میر صاحب کی عیادت کر کے واپس چلے آئے اور خدا تعالیٰ نے ان کو شفا بھی دے دی۔”
(سیرت حضرت مسیح موعودؑ از شیخ یعقوب علی عرفانیؓ صفحہ 183، 184)
ایک غریب الوطن لڑکے کی تیمار داری
مکرمی سیٹھ حسن صاحب رئیس یادگیر نے (جوسلسلہ کے ایک مخلص اور پرانے احمدی ہیں ) عبدالکریم نامی ایک لڑکے کو تعلیم کے لئے قادیان بھیجا۔اتفاق سے اس کو ایک دیوانہ کتے نے کاٹا۔اس کو علاج کے لئے کسولی بھیجا گیا۔وہاں سے شفایاب ہوکر جب وہ قادیان میں آیا تو یکایک اس کی بیماری عود کر آئی۔اور دیوانگی کے آثار اس پر ظاہر ہوئے۔حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو جب اس واقعہ کی خبر ہوئی تو آپ کا دل اس غریب الوطن کی حالت پر پگھل گیا۔اور آپ کو دعا کے لئے ایک خاص رقت پیدا ہوئی۔عبدالکریم کو بورڈنگ سے نکال کر اس مکان کے ایک حصہ میں رکھا جس میں خاکسار راقم الحروف عرفانی رہتا تھا۔وہ مکان سید محمد علی شاہ صاحب مرحوم کا تھا۔کسولی سے بذریعہ تار معلوم کیا گیا تو انہوں نے اسے لاعلاج بتایا۔مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس غریب اور بے وطن لڑکے کے لئے اس قدر توجہ فرمائی کہ حیرت ہوتی تھی۔تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد آپ اس کی خبر منگواتے تھے۔اور اپنے ہاتھ سے دوا تیار کر کے اس کے لئے بھجواتے تھے۔آپ اس قدر بے قرار تھے کہ کوئی اپنے عزیز کے لئے بھی نہیں ہو سکتا۔جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو بچا لیا اور وہ اب تک زندہ ہے اور صاحب اولاد ہے۔اس واقعہ کی تفصیل حضرت اقدس کی تصانیف میں ہے۔مگر میں اس واقعہ کو دیکھنے والا ہوں یہ نشان میری آنکھوں کے سامنے میرے مکان میں ظاہر ہوا۔خود حضرت مسیح موعود نے بھی اس بے قراری اور اضطراب کا اظہار فرمایا ہے۔جو اس کے لئے آپ کے دل میں پیدا ہوا چنانچہ فرماتے ہیں :
‘‘اس غریب اور بے وطن لڑکے کے لئے میرے دل میں بہت توجہ پیدا ہوگئی۔اور میرے دوستوں نے بھی اس کے لئے دعاکرنے کے لئے بہت ہی اصرار کیا کیونکہ اس غربت کی حالت میں وہ لڑکا قابل رحم تھا اور نیز دل میں یہ خوف پیدا ہوا کہ اگر وہ مر گیا تو ایک برے رنگ میں اس کی موت شماتت اعداء کا موجب ہو گی تب میرا دل اس کے لئے سخت درد اور بے قراری میں مبتلا ہوا۔اور خارق عادت تو جہ پیدا ہوئی۔’’
(تتمہ حقیقۃ الوحی صفحہ 47 طبع اول و روحانی خزائن جلد 22صفحہ 480)
(سیرت حضرت مسیح موعود از یعقوب علی عرفانی صاحبؓ صفحہ288تا 292)
ایوب صادق مرحوم کی علالت پر خط
حضرت شیخ یعقوب علی عرفانیؓ بیان کرتے ہیں :
‘‘مرحوم ایوب صادق ایک نہایت ہی مخلص اور پر جوش احمدی نوجوان تھا۔حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام سے اس کو عاشقانہ ارادت تھی۔وہ بیمار ہو گئے اور اسی بیماری میں آخر وہ مولیٰ کریم کے حضور جا پہنچے۔اپنی زندگی کے آخری ایام میں وہ اپنے بھائی ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب کے پاس بمقام فاضلکا تھے۔ان پر حضرت اقدس کی محبت کا غلبہ ہوا تو انہوں نے خواہش کی کہ حضرت کو دیکھیں خود ان کا آنا نہایت ہی مشکل ہو گیا تھا۔کیونکہ سفر کے قابل نہ تھے۔اور اس جوش کو دبا بھی نہ سکتے تھے۔انہوں نے حضرت اقدس کو خط لکھا کہ حضور اس جگہ فاضلکا میں آن کر مل جاویں میرا دل بہت چاہتا ہے کہ میں حضور کی زیارت کروں۔پھر اسی مضمون کا ایک تار بھی دیا۔حضرت مسیحِ موعود نے اس کے جواب میں جو خط ان کو لکھا اس سے اس فطرت کا اظہار نمایاں طور پر ہوتا ہے جو آپ میں رقت قلبی کی تھی۔’’
اس خط کا کچھ حصہ درج ذیل ہے:
‘‘…اس وقت جو میں درد سر اور موسمی تپ سے یک دفعہ سخت بیمار ہو گیا ہوں مجھ کو تار ملی۔جس قدر میں عزیزی مرزا ایوب بیگ کے لئے دعا میں مشغول ہوں اس کا علم تو خدا تعالیٰ کو ہے۔خدا تعالیٰ کی رحمت سے ہر گز ناامید نہ ہونا چاہئے۔میں تو سخت بیماری میں بھی آنے سے فرق نہ کرتا لیکن میں تکلیف کی حالت میں ایسے عزیز کو دیکھ نہیں سکتا۔میرا دل جلد صدمہ قبول کرتا ہے یہی چاہتا ہوں کہ تندرستی اور صحت میں دیکھوں جہاں تک انسانی طاقت ہے اب میں اس سے زیادہ کوشش کروں گا مجھے پاس اور نزدیک سمجھیں نہ دور۔میرے پاس وہ الفاظ نہیں جن سے میں اس درد کو بیان کروں ۔خدا کی رحمت سے ہر گز ناامید مت ہو۔خدا بڑے کرم اور فضل کا مالک ہے اس کی قدرت اور فضل اور رحمت سے کیا دور ہے کہ عزیزی ایوب بیگ کو تندرست جلد تر دیکھوں ۔اس علالت کے وقت جو تار مجھ کو ملی میں ایسا سراسیمہ ہوں کہ قلم ہاتھ سے چلی جاتی ہے۔میرے گھر میں بھی ایوب بیگ کے لئے سخت بیقرار ہیں ۔اس وقت میں ان کو بھی اس تار کی خبر نہیں دے سکتا۔کیونکہ کل سے وہ بھی تپ میں مبتلا ہیں اور ایک عارضہ حلق میں ہو گیا ہے۔مشکل سے اندر کچھ جاتا ہے۔اس کے جوش سے تپ بھی ہو گیا ہے وہ نیچے پڑے ہوئے ہیں ۔اور میں اوپر کے دالان میں ہوں ۔میری حالت تحریر کے لائق نہ تھی لیکن تار کے درد انگیز اثر نے مجھے اس وقت اٹھا کر بٹھا دیا۔آپ کا اس میں کیا حرج ہے کہ اس کی ہر روز مجھ کو اطلاع دیں معلوم نہیں کہ جو میں نے ابھی ایک بوتل میں دوا روانہ کی تھی وہ پہنچی یا نہیں ریل کی معرفت روانہ کی گئی تھی اور مالش معلوم نہیں ہرروز ہوتی ہے یا نہیں ۔آپ ذرہ ذرہ حال سے مجھے اطلاع دیں۔ اور خدا بہت قادر ہے۔تسلی دیتے رہیں ۔چوزہ کا شوربا یعنی بچہ خورد کا ہر روز دیا کریں ۔معلوم ہوتا ہے کہ دستوں کی وجہ یہ ہے کہ کمزوری نہایت درجہ تک پہنچ گئی ہے۔’’
(سیرت حضرت مسیحِ موعودؑ از یعقوب علی عرفانی صاحبؓ صفحہ 186تا 188)
حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب بیان کرتے ہیں :
‘‘جس طرح آپ اپنی بیماری میں ایک سکون اور اطمینان کی حالت میں رہتے تھے۔اور اگر خدانخواستہ کوئی بیمار ہو جاتا تھا تو آپ اس کے علاج اور تیمار داری میں اس طرح منہمک ہو جاتے تھے کہ دیکھنے والے کو حیرت ہوتی تھی۔مگر آپ کا یہ انہماک اور مصروفیت اِیَّاکَ نَعْبُدُکی ایک تفسیر ہوتی تھی اور جس قدر انسانی قدرت اور ہمت میں ہے آپ تمسک بالاسباب کر کے خدا تعالیٰ پر توکل کرتے اور آپ کی ساری توجہ اسی شافی الامراض کی طرف ہوتی تھی۔آپ خود ڈاکٹروں اور طبیبوں کو بھی ہمیشہ اسی قسم کا وعظ اور ہدایت فرماتے رہتے تھے…’’
(سیرت حضرت مسیحِ موعودؑ از یعقوب علی عرفانی صاحبؓ صفحہ 284)
(باقی آئندہ)