شمائل مہدی علیہ الصلوٰۃ والسلام
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا تعزیت کرنے کا بیان(حصہ دوم ۔آخر)
حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کو تعزیت کا مکتوب
حضرت مولانا نور الدین صاحب خلیفۃ المسیح الاولؓ ابھی جموں میں ملازم تھے اور حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام نے بیعت کا اعلان بھی نہیں کیا تھا۔مولوی صاحب کو اسی زمانہ سے آپؑ کے ساتھ اخلاص و ارادت کا بے نظیر تعلق تھا۔اگست 1885ء میں حضرت مولوی صاحب کے دو بچے یکے بعد دیگرے فوت ہو گئے اور تیسرا بیمار ہو گیا۔آپؑ نے اس موقعہ پر حضرت مولوی صاحب کو تعزیت کا خط لکھا۔اس کا نمونتاً کچھ حصہ درج ذیل ہے:
’’…حال صدمہ وفات دو لخت جگر آں مخدوم وعلالت طبیعت پسر سوم سُن کر موجب حزن و اندوہ ہوا۔اللہ تعالیٰ جلّشانہ آپ کو صدمہ گزشتہ کی نسبت صبر عطا فرماوے اور آپ کے قرۃالعین فرزند سوم کو جلد تر شفا بخشے۔انشاء اللہ القدیر یہ عاجز آپ کے فرزند کی شفا کے لیے دعا کرے گا۔اللہ تعالیٰ مجھ کو اپنے فضل و کرم سے ایسی دعا کی توفیق بخشے جو اپنی جمیع شرائط کی جامع ہو۔یہ امر کسی انسان کے اختیار میں نہیں ہے صرف اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔اسی کی مرضات حاصل کرنے کے لیے اگر آپ خفیہ طور سے اپنے فرزند دلبند کی شفا حاصل ہونے پر اپنے دل میں کچھ نذر مقرر کر رکھیں تو عجیب نہیں کہ وہ نکتہ نواز جو خود اپنی ذات میں کریم و رحیم ہے آپ کے اس صدق دلی کو قبول فرما کر ورطۂ غموم سے آپ کو مخلصی عطا فرماوے۔وہ اپنے مخلص بندوں پر ان کے ماں باپ سے بہت زیادہ رحم کرتا ہے۔اس کو نذروں کی کچھ حاجت نہیں مگر بعض اوقات اخلاص آدمی کا ایسی راہ سے متحقق ہوتا ہے۔استغفار اور تضرع اور توبہ بہت ہی عمدہ چیز ہے اور بغیر اس کے سب نذریں ہیچ اور بے سُود ہیں اپنے مولیٰ پر قوی امید رکھو اور اس کی ذات بابرکات کو سب سے زیادہ پیارا بناؤ کہ وہ اپنے قوی الیقین بندوں کو ضائع نہیں کرتا اور اپنے سچے رجوع دلانے والوں کو ورطۂ غموم میں نہیں چھوڑتا۔رات کے آخری پہر میں اُٹھو اور وضو کرو اور چند دوگانہ اخلاص سے بجالاؤ اور دردمندی اور عاجزی سے یہ دعا کرو۔
اے میرے محسن اور میرے خدا! میں ایک تیرا ناکارہ بندہ پُرمعصیت اور پُرغفلت ہوں ۔تو نے مجھ سے ظلم پر ظلم دیکھا اور انعام پر انعام کیا اور گناہ پر گناہ دیکھا اور احسان پر احسان کیا۔تو نے ہمیشہ میری پردہ پوشی کی اور اپنی بے شمار نعمتوں سے مجھے متمتع کیا۔سو اَب بھی مجھ نالائق اور پُر گناہ پر رحم کر اور میری بیباکی اور ناسپاسی کو معاف فرما اور مجھ کو میرے اس غم سے نجات بخش کہ بجز تیرے اور کوئی چارہ گر نہیں ۔آمین ثم آمین
(مکتوباتِ احمد جلد دوم صفحہ 10 مکتوب نمبر 2 بنام حضرت حکیم مولانا نور الدین صاحبؓ خلیفۃ المسیح الاول)
چوہدری رستم علی صاحبؓ کے نام تعزیت کا مکتوب
حضرت چوہدری رستم علی صاحبؓ سلسلہ کے اول الخادمین اور مخلصین میں سے ایک تھے۔اپنی ساری عمر ساری کمائی کو وہ اس راہ میں خرچ کر دینا ایک معمولی بات خیال کرتے تھے۔ان کے گھر میں ایک ہی بیٹا تھا جو فوت ہو گیا۔آپؑ نے ان کو مندرجہ ذیل تعزیت کا خط اپنے ہاتھ سے لکھ کر بھیجا۔اس کا نمونہ درج ذیل ہے:
‘‘…چونکہ وفات پسر مرحوم کی خدا تعالیٰ کا فعل ہے اور صبر پر وہ اجر ہے جس کی کوئی انتہاء نہیں ۔اس لئے آپ جہاں تک ممکن ہو اس غم کو غلط کریں ۔خدا تعالیٰ نعم البدل اجر عطا کردے گا۔وہ ہر چیزپر قادر ہے۔خدا تعالیٰ کے خزانوں میں بیٹوں کی کمی نہیں۔غم کو انتہاء تک پہنچانا اسلام کے خلاف ہے۔
(مکتوباتِ احمد جلد دوم صفحہ 578 مکتوب نمبر 181 بنام منشی رستم علی صاحب)
حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ کو ایک خط میں فرماتے ہیں :
’’…آج صدمہٴ عظیم کی تار مجھ کو ملی
اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
اللہ تعالیٰ آپ کو صبر جمیل عطا فرماوے اور اس کے عوض کوئی آپ کو بھاری خوشی بخشے۔میں اس درد کو محسوس کرتاہوں جو ا س ناگہانی مصیبت سے آپ کو پہنچا ہو گا اور میں دعا کرتا ہوں کہ آئندہ خدا تعالیٰ ہر ایک بلاسے آپ کو بچائے اورپردہ غیب سے اسباب راحت آپ کے لئے میسر کرے۔میرا اس وقت آپ کے درد سے دل درد ناک ہے اور سینہ غم سے بھرا ہے۔خیال آتا ہے کہ دنیا کیسی بے بنیاد ہے۔ایک دم میں ایسا گھر کہ عزیزوں اور پیاروں سے بھرا ہو اہو،ویران بیابان دکھائی دیتا ہے۔اللہ تعالیٰ آپ کے اس رفیق کو غریق رحمت کرے اور اس کی اولاد کو عمر اور اقبال اور سعادت بخشے۔لازم ہے کہ ہمیشہ ان کو دعائے مغفرت میں یاد رکھیں۔میری یہ بڑی خواہش رہی کہ آپ ان کو قادیان میں لاتے اور اس خواہش سے مدّعا یہ تھا کہ وہ بھی سلسلہ بیعت میں داخل ہوکر اس گروہ میں شریک ہو جاتے کہ جو خداتعالیٰ تیار کررہا ہے۔مگر افسوس کہ آپ کی بعض مجبوریوں سے یہ خواہش ظہور میں نہ آئی۔اس کا مجھے بہت افسوس ہے۔‘‘
(مکتوباتِ احمد جلد دوم صفحہ 232، 233مکتوب نمبر 34 بنام نواب محمد علی خان صاحبؓ)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صدقہ و خیرات کرنے کا بیان
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ
’’بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعودؑ صدقہ بہت دیا کرتے تھے اور عموماً ایسا خفیہ دیتے تھے کہ ہمیں بھی پتہ نہیں لگتا تھا۔خاکسار نے دریافت کیا کہ کتنا صدقہ دیا کرتے تھے ؟والدہ صاحبہ نے فرمایا بہت دیاکرتے تھے۔اور آخری ایام میں جتناروپیہ آتا تھا اس کا دسواں حصہ صدقے کے لیے الگ کردیتے تھے اور اس میں سے دیتے رہتے تھے۔والدہ صاحبہ نے بیا ن فرمایا کہ اس سے یہ مراد نہیں کہ دسویں حصہ سے زیادہ نہیں دیتے تھے بلکہ آپؑ فرمایا کرتے تھے کہ بعض اوقات اخراجات کی زیادت ہوتی ہے تو آدمی صدقہ میں کوتاہی کرتا ہے لیکن اگرصدقہ کا روپیہ پہلے سے الگ کر دیاجاوے تو پھر کوتاہی نہیں ہوتی کیونکہ وہ روپیہ پھردوسرے مصرف میں نہیں آسکتا۔والدہ صاحبہ نے فرمایا اسی غرض سے آپ دسواں حصہ تما م آمد کا الگ کر دیتے تھے ورنہ ویسے دینے کو تو اس سے زیادہ بھی دیتے تھے۔خاکسار نے عرض کیا کہ کیا آپ صدقہ دینے میں احمدی غیر احمدی کا لحاظ رکھتے تھے ؟ والدہ صاحبہ نے فرمایا نہیں بلکہ ہر حاجت مند کو دیتے تھے۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس زمانہ میں قادیان میں ایسے احمدی حاجت مند بھی کم ہی ہوتے تھے۔‘‘
(سیرۃ المہدی جلد اول روایت نمبر 53)
اہلیہ محترمہ قاضی عبد الرحیم صاحب بھٹی قادیان نے بیان کیا کہ
’’جب بڑی سخت طاعون پڑی تھی تو حضورؑ نے حکم دیا تھا کہ لوگ صدقہ کریں۔چنانچہ لوگوں نے صدقے کئے اور حضورعلیہ السلام نے بھی کئی جانور صدقہ کئے تھے گوشت اس قدر ہوگیا تھا کہ کوئی کھانے والا نہیں ملتا تھا۔‘‘
(سیرۃ المہدی جلد دوم روایت نمبر 1444)
محترمہ صفیہ بیگم بنت مولوی عبد القادر صاحب مرحوم لدھیانوی نے بیان کیا کہ
’’ایک دفعہ ایک سوالی دریچے کے نیچے کُرتا مانگتا تھا۔ حضرت صاحب نے اپنا کرتا اتار کر دریچہ سے فقیر کو دے دیا والد صاحب مرحوم نے فرمایا کہ اللہ اللہ کیسی فیاضی فرما رہے ہیں۔‘‘
(سیرۃ المہدی جلد دوم روایت نمبر 1565)
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے بیان فرماتے ہیں کہ
’’جن دنوں 1905ء کا بڑا زلزلہ آیا تھا اور آپ باغ میں رہائش کے لیے چلے گئے تھے مفتی محمد صادق صاحب کے لڑکے محمد منظور نے جواِن دنوں میں بالکل بچہ تھا خواب میں دیکھا کہ بہت سے بکرے ذبح کئے جارہے ہیں ۔حضرت صاحب کو اس کی اطلاع پہنچی تو کئی بکرے منگوا کر صدقہ کروا دیئے اور حضرت صاحب کی اتبا ع میں اور اکثر لوگوں نے بھی ایسا ہی کیا۔میرا خیال ہے اس وقت باغ میں ایک سو سے زیادہ بکرا ذبح ہو ا ہو گا۔‘‘
(سیرۃ المہدی جلد اول روایت نمبر 31)
آپؑ نے ایک مرتبہ معاشرت نسواں کے بارے میں گفتگو فرماتے ہوئے فرمایا کہ
’’میرا یہ حال ہے کہ ایک دفعہ میں نے اپنی بیوی پر آوازہ کسا تھا۔اور میں محسوس کرتا تھا۔کہ وہ بانگ بلند دل کے رنج سے ملی ہوئی ہے۔اور بایں ہمہ کوئی دل آزار اور درشت کلمہ میں نے منہ سے نہیں نکالا تھا۔اس کے بعد میں بہت دیر تک استغفار کرتا رہا۔اور بڑے خشوع و خضوع سے نفلیں پڑھیں اور کچھ صدقہ بھی دیا۔کہ یہ درشتی زوجہ پر کسی پنہانی معصیت الٰہی کا نتیجہ ہے۔‘‘
(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 289)
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے بیان فرماتے ہیں کہ
’’مولوی عبدالکریم صاحب نے لکھا ہے کہ ایک دفعہ جب حضرت صاحب باہر سے اندرونِ خانہ تشریف لے جارہے تھے۔کسی فقیر نے آپ سے کچھ سوال کیا مگر اس وقت لوگوں کی باتوں میں آپ فقیر کی آواز کو صاف طور پر سن نہیں سکے۔تھوڑی دیر کے بعد آپ پھر باہر تشریف لائے اور فرمایا کہ کسی فقیر نے سوال کیا تھا وہ کہاں ہے ؟ لوگوں نے اسے تلاش کیا مگر نہ پایا۔لیکن تھوڑی دیر کے بعد وہ فقیر خود بخود آگیا اور آپؑ نے اسے کچھ نقدی دے دی اس وقت آپ محسوس کر تے تھے کہ گویا آپ کی طبیعت پر سے ایک بھاری بوجھ اُٹھ گیا ہے۔اور آپ نے فرمایا کہ میں نے دعا بھی کی تھی کہ اللہ تعالیٰ اس فقیر کو واپس لائے۔‘‘
(سیرۃ المہدی جلد اول روایت نمبر 298)
حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحبؓ نے بیان کیا کہ
’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام صدقہ میں جانور کی قربانی بہت کیا کرتےتھے گھر میں کوئی بیمار ہوا یا کوئی مشکل درپیش ہوئی یا خود یا کسی اور نے کوئی منذر خواب دیکھا۔تو فوراً بکرے یا مینڈھے کی قربانی کرادیتے تھے۔زلزلہ کے بعد ایک دفعہ غالباً مفتی محمد صادق صاحب کے لڑکے نے خواب میں دیکھا کہ قربانی کرائی جائے۔جس پر آپ نے چودہ بکرے قربانی کرا دئیے۔غرضیکہ ہمیشہ آپ کی سنّت یہی رہی ہے۔اور فرماتے تھے کہ یہی آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی سنّت بھی تھی۔
خاکسار (حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے) عرض کرتا ہے کہ ایسے صدقہ کے موقعہ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ غرباء اور یتامٰی اور بیوگان کو تلاش کر کے گوشت پہنچانا چاہئےتاکہ ان کی تکلیف کے دور ہونے سے خدا راضی ہو اور فرماتے تھے کہ کچھ گوشت جانوروں کو بھی ڈال دینا چاہئےکہ یہ بھی خدا کی مخلوق ہے۔‘‘
(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 557)
(باقی آئندہ)