ہدایات زرّیں (مبلغین کو ہدایات) (قسط چہارم)
از: حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ
ان باتوں کو اپنے اندر پیدا کرنا چاہیے
پس اعلیٰ نتائج پیدا کرنے کے لیے ان دونوں ذریعوں سے کام لینا ضروری ہے مگر یہ بھی اسی وقت کام دے سکتے ہیں جبکہ انسان خودنمونہ کے طور پر بن جائے۔ تم دلائل عقلی پیش کرو۔ مگر تمہاری اپنی حالت ایسی نہ ہو کہ دیکھنے والے سمجھیں کہ عقلاً تم جس بات پر قائم ہو اس سے تم کو کوئی فائدہ نہیں ہے تو ان پر کبھی ان دلائل کا خاص اثر نہ ہوگا۔ کیونکہ اگر تم پر ان دلائل نے کوئی اثر نہیں کیا تو خوب یاد رکھو کہ تمہاری دلیل دوسروں پر بھی کوئی اثر نہ کرے گی۔ تم جو دلائل دو پہلے اپنے آپ کو ان کا نمونہ بناؤ۔ اپنے اوپر ان کا اثر دکھاؤ اور پھر دوسروں سے ان دلائل کے تسلیم کرنے کی توقع رکھو۔ اسی طرح جذبات کا حال ہے جذبات کو اُبھارنے والی وہی تقریر اثر کرے گی جس وقت انسان تقریر کر رہا ہواس کے دل میں بھی ایسے ہی جذبات پیدا ہورہے ہوں کیونکہ دوسروں کے جذبات اس وقت تک نہیں ابھر سکتے جب تک ظاہری الفاظ کے ساتھ اندرونی جذبات بھی نہ ہوں۔ اس کے لیے اپنے دل میں بھی ان جذبات کا پیدا کرنا ضروری ہے۔ ورنہ ایسی تقریر کا کوئی اثر نہ ہوگا۔ اسی طرح عقلی دلائل اس وقت تک اثر نہ کریں گے جب تک ان کے ماتحت انسان خود اپنے اندر تبدیلی نہ پیدا کرے گا۔ اگر انسان خود تو ان دلائل کے ماتحت تبدیلی پیدا نہ کرے اور دوسروں کو کہے تو وہ ہرگز اس کی باتوں کی طرف توجہ نہ کریں گے۔ اور اس کی مثال ایسی ہی ہوگی جیسا کہ کہتے ہیں کہ کسی لومڑ کی دُم کٹ گئی تھی۔ اس نے اپنی شرمندگی مٹانے کے لیے تجویز کی کہ سب کی دُمیں کٹانی چاہئیں اس نے دوسرے لومڑوں کو بتایا کہ دم کی وجہ سے ہی ہم قابو آتے ہیں اس کو کٹا دینا چاہیے تاکہ ہم پکڑے نہ جائیں یہ سن کر سب کٹانے کے لیے تیار ہوگئےکہ ایک بوڑھے لومڑ نے کہا ذرا تم خود تو دکھاؤ کہ تمہاری دم ہے یا نہیں۔ اگر ہے تو ہم سب کٹانے کے لیے چلیں اور اگر تمہاری پہلے ہی کٹی ہوئی ہے تو معلوم ہوا کہ تم ہماری بھی کٹوانی چاہتے ہو۔ باقی یونہی باتیں ہی ہیں۔
تو عقلی دلائل کا اس وقت تک اثر نہیں ہوتا جب تک کہ خود دلیل دینے والے میں اس دلیل کا ثبوت نہ پایا جاتا ہو۔ ایسی صورت میں لوگ یہی کہیں گے کہ بیشک دلیل تو معقول ہے مگر یہ بتاؤ اس کا نتیجہ کیا نکلا اور تم نے اس سے کیا فائدہ اٹھایا؟ اگر نتیجہ کچھ نہیں اور کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا تو پھر کیوں ہم سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر تمہارے مذہب کو قبول کریں اور خواہ مخواہ نقصان اٹھائیں۔
اسی طرح جذبات کو اُبھارتے وقت اگر صرف الفاظ استعمال کیے جاویں اور ان کے ساتھ روح نہ ہو تو وہ الفاظ بھی اثر نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہوتی ہے کہ بہت لوگ جو بڑے زور شور سے تقریریں کرنے والے ہوتے ہیں ان کا کچھ اثر نہیں ہوتا۔ مگر جن مقرروں کے اپنے جذبات ابھرے ہوئے ہیں خواہ کسی سچی وجہ سے یا جھوٹی وجہ سے ان کے الفاظ اثر کرتے ہیں۔ مثلاً اگر کوئی سمجھے کہ مجھے دُکھ پہنچا ہوا ہے حالانکہ دراصل ایسا نہ ہو تو بھی اس کا اثر اس کی آواز میں پایا جائے گا اور پھر سُننے والوں پر ہوگا۔ اس کے بالمقابل اگر کسی کو فی الواقعہ کوئی تکلیف پہنچی ہو لیکن اس کا قلب اسے محسوس نہ کرتا ہو تو کوئی اس کی باتوں سے متاثر نہ ہوگا۔
پس دوسروں کے جذبات اُبھارنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ جب انسان بول رہا ہو تو اس کے اپنے جذبات بھی اُبھرے ہوئے ہوں مثلاً جب کوئی مبلغ مسلمانوں میں تقریر کر رہا ہو اور کہہ رہا ہو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر کسی کو فضیلت نہ دینی چاہیے۔ ان کی عزت، ان کا رُتبہ ، ان کا درجہ سب انبیاءؑ سے اعلیٰ ہے تو اس کے ساتھ ہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اس کے دل میں بھی موجزن ہونی چاہیے اور اس کے دل سے بھی جذبات کی لہر اٹھنی چاہیے تب دوسروں پر اثر ہوگا۔ مسمریزم کیا ہے؟ یہی کہ جذبات کو اُبھارنا اور شعور کا دل سے کام لینا۔ اس کی بڑی شرط یہی ہے کہ جس شخص کو سلانا ہو اس کےسامنے کھڑے ہو کر انسان یہ یقین کرے اور اس حالت کو اپنی آنکھوں کے سامنے لائے کہ وہ سو گیا ہے۔ جب یہ کیفیت کسی انسان میں پیدا ہوجاتی ہے تو دوسرا آدمی فوراً سو جاتا ہے۔ اسی طرح قلب میں جو کیفیت بھی پیدا کر لی جائے اس کا اثر دوسروں پر ضرور ہوجاتا ہے۔
غرض تبلیغ کرنے والوں کے لیے یہ دونوں باتیں نہایت ضروری ہیں کہ وہ عقلی دلائل کا ظاہری نمونہ بھی ہوں اور پھر جذبات بھی ان میں موجود ہوں۔ یوں تو ہر وقت ہی ہوں مگر تقریر کرتے وقت خاص طور پر اُبھرے ہوئے ہوں۔
یہ جو باتیں میں نے بتائی ہیں یہ تو اُصولی ہیں۔ اب میں کچھ فروعی باتیں بتاتا ہوں جو ہر ایک مبلغ کو یاد رکھنی چاہئیں۔
پہلی ہدایت
سب سے پہلے یہ ضروری بات ہے کہ مبلغ بے غرض ہو اور سننے والوں کو معلوم ہو کہ اس کی ہم سے کوئی ذاتی غرض نہیں ہے۔ ورنہ اگر مبلغ کی کوئی ذاتی غرض ان لوگوں سے ہوگی تو وہ خواہ نماز پر ہی تقریر کررہا ہوگا سننے والوں کو یہی آواز آرہی ہوگی کہ مجھے فلاں چیز دے دو۔ فلاں دے دو۔ مسلمانوں کے واعظوں میں یہ بہت ہی بُری عادت پیدا ہوگئی ہے کہ وہ اپنے وعظ کے بعد کوئی غرض پیش کر کے امداد مانگنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس سے سُننے والوں کے ذہن میں یہ بات داخل ہوگئی ہے کہ وعظ کرنے والے کو کچھ نہ کچھ دینا چاہیے اور اسے ایک فرض سمجھا جاتا ہے۔
یہ ایسی بُری رسم پھیلی ہوئی ہے کہ جب کوئی واعظ وعظ کر رہا ہو تو سننے والے حساب ہی کر رہے ہوتے ہیں کہ ہمارے پاس کیا ہے اور ہم اس میں سے کس قدر مولوی صاحب کو دے سکتے ہیں اور کتنا گھر کے خرچ کے لیے رکھ سکتے ہیں۔ اس رسم کی وجہ یہی ہے کہ عام طور پر مولوی وعظ کے بعد مانگتے ہیں کہ مجھے فلاں ضرورت ہے اسے پورا کر دیا جائے۔ اس کا بہت بُرا اثر ہورہا ہے۔ کیونکہ واعظ کی باتوں کو توجہ اور غور سے نہیں سنا جاتا۔
پس واعظ کو بالکل مستغنی المزاج اور بے غرض ہونا چاہیے۔ اگر کسی وقت شامت اعمال سے کوئی طمع یا لالچ پیدا بھی ہو تووعظ کرنا بالکل چھوڑ دینا چاہیے اور توبہ و استغفار کرنا چاہیے اور جب وہ حالت دُور ہوجائے پھر بے غرض ہو کر کھڑا ہونا چاہیے۔ اور وعظ کے ساتھ اپنے اندر اور باہر سے لوگوں پر ثابت کردینا چاہیے کہ وہ ان سے کوئی ذاتی فائدہ اور نفع کی امید نہیں رکھتا اور نہ ان سے اپنی ذات کے لیے کچھ چاہتا ہے۔ جب کوئی مبلغ اپنے آپ کو ایسا ثابت کر دے گا تو اس کے وعظ کا اثر ہوگا ورنہ وعظ بالکل بے اثر جائے گا۔
اسی طرح دوسرے وقت میں بھی سوال کرنے سے واعظ کو بالکل بچنا چاہیے۔ سوال کرنا تو یوں بھی منع ہے اور کسی مومن کے لیے پسندیدہ بات نہیں ہے۔ لیکن اگر واعظ سوال کرے گا تو یہ سمجھا جائے گا کہ وعظ اسی وجہ سے ہی کرتا ہے۔ پس یہ نہایت ہی ناپسندیدہ بات ہے اور واعظوں کو خاص طورپر اس سے بچنا چاہیے ورنہ ان کے وعظ کا اثر زائل ہوجائے گا یا کم ہوجائے گا۔
دوسری ہدایت
دوسری بات واعظ کے لیے یاد رکھنے کے قابل یہ ہے کہ دلیر ہو۔ جب تک واعظ دلیر نہ ہو اس کی باتوں کا دوسروں پر اثر نہیں پڑتا اور اس کا دائرہ اثر بہت محدود رہ جاتا ہے کیونکہ وہ انہی لوگوں میں جانے کی جرأت کرتا ہے جہاں اس کی باتوں پر واہ واہ ہوتی ہے۔ لیکن اگر دلیر ہوتا تو ان میں بھی جاتا جو گالیاں دیتے، دھکّے دیتےاور بُرا بھلا کہتے ہیں اور اس طرح اس کا حلقہ بہت وسیع ہوتا۔ ہماری جماعت کے مبلغ سوال کرنے سے تو بچے ہوئے ہیں اور ان میں سے بہت میں غناء کی حالت بھی پائی جاتی ہے۔ مگر یہ کمزوری ان میں بھی ہے کہ جہاں اپنی جماعت کے لوگ ہوتے ہیں وہاں تو جاتے ہیں اور وعظ کرتے ہیں لیکن جہاں کوئی نہیں ہوتا وہاں نہیں جاتے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ ان کے دل میں مخفی طور پر واہ واہ سننے کی عادت جاگزیں ہوتی ہے۔ وہ دورے کرتے ہیں اور بیس بیس دفعہ جاتے ہیں مگر انہی مقامات پر جہاں پہلے جا چکے ہیں اور جہاں احمدی ہوتے ہیں اور جس جگہ کوئی احمدی نہ ہو وہاں اس خیال سے کہ ممکن ہے کوئی گالیاں دے یا مارے نہیں جاتے۔ حالانکہ سب سے زیادہ ضرورت انہی مقامات پر جانے کی ہوتی ہے جہاں کوئی احمدی نہ ہو۔ کیونکہ جہاں بیج ڈال دیا گیا ہے وہاں وہ خود بڑھے گا۔ اور جہاں ابھی بیج ہی نہیں پڑا وہاں ڈالنا چاہیے اور خدا تعالیٰ کی بھی یہی سنت معلوم ہوتی ہے کہ کسی ایک جگہ ساری کی ساری جماعت نہیں ہوتی بلکہ متفرق طور پر ہوتی ہے اسی قادیان میں دیکھ لو یہاں کے سارے باشندوں نے تو حضرت مسیح موعودؑ کو نہیں مان لیا۔ بلکہ اشد ترین مخالف یہاں ہی ہیں مگر بٹالہ کے کچھ لوگوں نے آپؑ کو مان لیا پھر وہاں بھی سب نے نہیں مانا بلکہ اکثر مخالف ہی ہیں۔ پھر لاہور میں کچھ لوگوں نے مان لیا۔ اسی طرح کچھ نے کلکتہ میں مانا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے بیج کی طرح صداقت کو بویا ہوا ہے۔ اور اس طرح خدا تعالیٰ صداقت کے مقام اور چھاؤنیاں بناتا جاتا ہے تاکہ ان کے ذریعہ اردگرد اثر پڑے۔
پس یہ خیال بالکل نادرست ہے کہ فلاں جگہ کے سب لوگوں کو احمدی بنا لیں تو پھر آگے جائیں۔ اگر ایسا ہونا ضروری ہوتا تو قادیان کے لوگ جب تک سب کے سب نہ مان لیتے ہم آگے نہ جاتے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا اور نہ ہونا چاہیے تھا۔ کیونکہ بعض ایسی طبائع ہوتی ہیں کہ دس بیس دن میں مان جاتی ہیں بعض اس سے زیادہ عرصہ میں بعض دو تین سال میں اور بعض دس پندرہ سال میں اور ہر جگہ ایسی طبائع کے لوگ ہوتے ہیں۔ اب اگر ان لوگوں کی وجہ سے جنہوں نے لمبے عرصہ کے بعد ماننا ہے دوسری جگہ نہ جائیں گے تو وہاں کے ایسے لوگوں کو جو جلدی ماننے والے ہیں اپنے ہاتھ سے کھودیں گے اور ان کو اپنے ساتھ نہ ملا سکیں گے۔ مگر ہمارے مبلغوں نے ابھی تک اس بات کو سمجھا نہیں اور اسی کے نہ سمجھنے کی وجہ سے ہزاروں اور لاکھوں آدمی ایسے ہیں جو صداقت کو قبول کرنے سے ابھی تک محروم ہیں۔ اگر سب جگہ ہماری جماعت کے مبلغ جاتے تو بہت سے لوگ مان لیتے۔ چونکہ ہر جگہ ایسی طبیعتیں موجود ہیں جو جلد صداقت کو قبول کرنے والی ہوتی ہیں اس لیے ہر جگہ تبلیغ کرنی چاہیے۔
(جاری ہے )