شمائلِ مہدی علیہ الصلوٰۃ والسلام
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صدقہ و خیرات کرنے کا بیان(حصہ دوم۔آخر)
حضرت بھائی عبد الرحمٰن صاحب قادیانیؓ بیان کرتے ہیں :
’’… لاہور پہنچنے کے بعد حضور کو الہام ہوا
’’اَلرَّحِیْلُ ثُمَّ الرَّحِیْل‘‘
حضور پُرنور کی عادت وسنت تھی کہ خواب اورالہامات کو حتی الوسع ظاہری رنگ میں پورا کرنے کی کوشش فرمایا کرتے تھے۔چنانچہ اس سلسلہ میں حضور اکثر صدقات، خیرات اور قربانیاں ادا کرتے رہتے تھے بلکہ بعض اوقات تو بعض خدام اور بچوں تک کی خوابوں کو پورا کرتے اور قربانیاں کروایا کرتے۔اسی طرح اس الہام کو ظاہر طور پر پورا کرنے کی غرض سے حضور نے یہ نقل مکانی اختیار فرمائی تھی۔‘‘
(تتمہ سیرت المہدی جلد دوم صفحہ 402-403)
حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ فرماتے ہیں:
’’آپؑ خیرات و صدقات کے پہلو کو بھی کسی حالت میں ترک نہیں کرتے تھے… جس قدر آپ ؑ کی زندگی کے اس پہلو کو ہم واقعات کی روشنی میں دیکھیں گے۔اسی قدر اس کی عظمت معلوم ہوتی ہے۔اور زہد و غنا کی عجیب شان جلوہ گر ہے۔قناعت اور سادگی کا دلکش منظر ہے۔‘‘
(حیات احمد جلد اول صفحہ 319)
نام رکھنے کا بیان
خوا جہ عبدالرحمٰن صاحب ساکن کشمیر نے بیان کیا کہ
’’ایک دفعہ ایک کشمیری بھائی نے اپنے نوزائیدہ لڑکے کی ولادت پر مجھے خط لکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے نام دریافت کرکے تحریر کرو۔مَیں نے حضرت اقدس سے اس بارہ میں استفسار کیا۔حضور نے فوراً ہی ’’عبدالکریم‘‘ نام تجویز فرمایا۔پھر کچھ خیال آیا۔تو مجھ سے دریافت فرمایا کہ اس کے باپ کا کیا نام ہے۔مَیں نے نام بتایا جواب مجھے یاد نہیں۔ حضور نے فرمایا۔کہ اچھا جو نام پہلے مونہہ سے نکلا ہے۔(یعنی عبدالکریم) وہی ٹھیک ہے۔‘‘
(سیرت المہدی جلداول روایت نمبر 503)
ایک اور روایت میں خوا جہ عبدالرحمٰن صاحب ساکن کشمیر نے بیان کیا کہ
’’اکثر اصحاب اپنے بچوں کے نام حضور علیہ السَّلام سے رکھواتے تھے اور حضور نام تجویز فرما دیتے تھے۔حضرت مولوی شیر علی صاحب کے بڑے لڑکے کا نام عبدالرحمٰن اور بندہ کی دو بہنوں کے نام حلیمہ اور امۃ اللہ بھی حضور ہی کے تجویز کردہ ہیں۔
خاکسار (حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے) عرض کرتا ہےکہ حضرت صاحب عموماً بچہ کا نام رکھتے ہوئے قریبی رشتہ داروں کے ناموں کی مناسبت ملحوظ رکھتے تھے۔‘‘
(سیرت المہدی جلداول روایت نمبر 504)
حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحبؓ نے بیان کیا کہ
’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام بھی بعض اوقات ناموں سے تفاؤل لیتے تھے۔ نیز تبرّک کے طور پر لوگ آپ سے بچوں کے نام رکھوا لیتے تھے۔ اور آپ اکثر اس بات کا خیال رکھتے تھے۔کہ باپ بیٹے کے نام میں یا بھائی بھائی کے نام میں مناسبت ہو۔نیز آپ عموماً بچوں کے نام رکھنے میں فاطمہ اور سعید نام نہ رکھتے تھے۔فاطمہ کے متعلق فرمایا کرتے تھے۔کہ اگر خواب میں بھی نظر آئیں تو بالعموم اس سے مرادھم و غم ہوتا ہے۔کیونکہ حضرت فاطمہ کی تمام عمر رنج و تکالیف میں گزری اور سعید کے متعلق فرماتے تھے کہ ہم نے جس کا نام بھی سعید سُنا اُسے بالعموم برخلاف ہی پایا…‘‘
(سیرت المہدی جلداول روایت نمبر 505)
سیّد محمد علی شاہ صاحب انسپکٹر نظارت بیت المال نے بیان کیا کہ
’’1906ء کے قریب میرے ہاں لڑکا تولد ہوا۔اس کا نام حضور علیہ السلام نے احمد علی رکھا۔قریباً دس ماہ بعد وہ لڑکا فوت ہو گیا جس کی اطلاع پر حضور علیہ السلام نے نعم البدل لڑکے کی بشارت دی۔1907ء میں دوسرا لڑکا پیدا ہوا۔جس کا نام حضور علیہ السلام نے عنایت علی شاہ رکھا۔اور اس کے لئے دعائیں فرمائیں۔ جو قبول ہوئیں۔‘‘
(سیرت المہدی جلداول روایت نمبر 542)
اہلیہ محترمہ قاضی عبد الرحیم صاحب بھٹی قادیان نے بیان کیا کہ
’’ہم اور حضرت مفتی محمد صادق صاحب ایک ہی مکان میں رہتے تھے۔ورانڈہ میں ہم نے دیوار کر لی تھی۔میرے لڑکا پیداہوا۔حضور علیہ السلام نے اس کا نام ’’عبد السلام‘‘ رکھا تھا۔ میری نند امۃ الرحمن صاحبہ نے حضور اقدسؑ سے کہا کہ ’’ہم اور مفتی صاحب ایک ہی مکان میں رہتے ہیں۔ان کے بچے کا نام بھی ’’عبد السلام‘‘ ہے اور ہمارے کا نام بھی ’’عبد السلام‘‘ ہے۔حضور علیہ السلام نے ہنس کر فرمایا کہ‘‘پھر کیا ہوا وہ اپنے باپ کا بیٹا ہے یہ اپنے باپ کا ہے۔’’
(سیرت المہدی جلددوم روایت نمبر 1468)
اہلیہ صاحبہ ماسٹر عبد الرحمن صاحب (مہر سنگھ) بی اے نے بیان کیا کہ
’’ایک دفعہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میرے لڑکا پیداہوا اور فاطمہ اہلیہ مولوی محمد علی صاحب پوچھتی ہیں ’’بشریٰ کی اماں ! لڑکے کا نام کیا رکھا ہے!‘‘ اتنے میں دائیں طرف سے آواز آتی ہے کہ ’’نذیر احمد۔‘‘ میرے خاوند نے یہ خواب حضرت اقدسؑ کو سنادیا۔جب میرے ہاں لڑکا پید اہوا تو ماسٹر صاحب نام پوچھنے گئے تو حضورؑ نے فرمایا کہ ’’وہی نام رکھو جوخدا نے دکھایا ہے۔‘‘ جب میں چلّہ نہا کر گئی تو حضورؑ کو سلام کیا اور دعا کے لئے عرض کی۔آپ نے فرمایا۔’’انشاء اللہ۔‘‘ پھر حضورعلیہ السلام ہنس پڑے اور فرمایا۔ ’’ایک نذیر دنیا میں آنے سے تو دنیا میں آگ برس رہی ہے اور اب ایک اَور آگیا ہے۔‘‘
(سیرت المہدی جلددوم روایت نمبر 1326)
اہلیہ صاحبہ مولوی حکیم قطب الدین صاحب قادیان نے بیان کیا کہ
’’میری لڑکیاں زندہ نہیں رہتی تھیں۔ جب یہ چھٹی پیدا ہوئی جس کا نام عائشہ ہے تو میں اس کو لے کر حضور کی خدمت میں گئی۔حضرت ام المومنین نے فرمایا کہ ’’حضرت جی! اس کی لڑکیاں زندہ نہیں رہتیں۔مر جاتی ہیں۔آپؑ دعا کریں کہ یہ زندہ رہے اور اس کانام بھی رکھ دیں۔ ’’حضور علیہ السلام نے لڑکی کو گود میں لے کر دعا کی اور فرمایا۔ ’’اس کا نام جیونی ہے۔‘‘ چونکہ جیونی اس نائن کا نام بھی تھا جو خادمہ تھی۔میں نے کہا کہ حضورؑ جیونی تو نائن کا نام بھی ہے۔حضورؑ نے فرمایا۔ ’’جیونی کے معنی ہیں زندہ رہے۔اس کا اصل نام عائشہ ہے۔‘‘
(سیرت المہدی جلددوم روایت نمبر 1334)
مراد خاتون صاحبہ اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب نے بیان کیا کہ
’’صلاح الدین کی ولادت سے ایک دو دن قبل میری والدہ نے سموسے پکائے اور کچھ ان میں سے تھالی میں لگا کر رومال سے ڈھانپ کر حضورؑ کی خدمت میں لے گئی۔حضورؑ نے فرمایا کہ ’’کیا لائی ہو؟‘‘ انہوں نے عرض کی کہ سموسے ہیں۔حضورؑ نے فرمایا کہ ’’میں نے خیال کیا تھا کہ لڑکا پیدا ہونے پر پتاشے لائی ہو۔‘‘ حضور علیہ السلام جب ایسا ذکر ہوتا تھا لڑکا ہی فرمایا کرتے تھے۔ چنانچہ جب ٹھیک دودن گزرنے پر لڑکا پیدا ہوا تو حضورؑ بہت خوش ہوئے نام ’’صلاح الدین‘‘ رکھا…‘‘
(سیرت المہدی جلددوم روایت نمبر 1367)
میاں فضل محمد صاحب دکاندار محلہ دارالفضل نے بیان کیا کہ
’’ایک دفعہ جبکہ مولوی کرم الدین کے ساتھ مقدمہ تھا، گورداسپور میں پیشی تھی۔جب آواز پڑی تو سب دوست اندر چلے گئے صرف میں یعنی یہ عاجز اور حضرت اقدس دونوں ہی ایک شیشم کے درخت کے نیچے رہ گئے چنانچہ حضورؑ لیٹ گئے اور میں حضورؑ کے پاوٴں دبا رہا تھااور بہت سی باتیں حضورؑ کے ساتھ ہوتی رہیں۔چنانچہ ان میں سے صرف دو باتیں یاد رہیں ایک یہ کہ میں نے عرض کیا کہ حضور ! مجھے اللہ تعالیٰ نے ایک اور بچہ عطا فرمایا ہے۔حضوراس کا نام رکھ دیویں۔حضورؑ نے فرمایا کہ ‘‘پہلے کانام کیا ہے؟’’ تو میں نے عرض کی کہ حضور پہلے کا نام عبد الغفور ہے۔تب حضور نے فرمایا کہ اس کا نام ’’عبد الرحیم‘‘ رکھ دو۔‘‘
(سیرت المہدی جلددوم روایت نمبر 1255)
حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحبؓ نے بیان کیا کہ:
’’دہلی میں ایک احمدی تھے۔وہ ایک دفعہ حضور علیہ السلام کی زندگی میں قادیان آئے۔حضور ایک دن سیر کو نکلے تو احمدیہ چوک میں سَیر میں ہمراہ جانے والوں کے انتظار میں کھڑے ہوگئے۔ان دہلی والے دوست کا بچہ بھی پاس کھڑا تھا۔فرمایا کہ یہ آ پ کا لڑکا ہے؟ انہوں نے عرض کیا۔جی ہاں۔پھر پوچھا اس کا کیا نام ہے انہوں نے کہا ’’خورشید الاسلام‘‘ مسکرا کر فرمانے لگے خورشید تو فارسی لفظ ہے اور ترکیب نام کی عربی ہے۔یہ غلط ہے۔صحیح نام شمس الاسلام ہے۔اس کے بعد ان صاحب نے اس بچہ کا نام بدل کر شمس الاسلام رکھ دیا۔‘‘
(سیرت المہدی جلداول روایت نمبر 859)
حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحبؓ نے بیان کیا کہ:
’’مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی مرحوم کا نام اصل میں کریم بخش تھا۔حضرت صاحب نے ان کا یہ نام بدل کر عبدالکریم رکھ دیا۔مَیں نے اس تبدیلی کے بہت دیر بعد بھی مولوی صاحب مرحوم کے والد صاحب کو سُنا کہ وہ انہیں کریم بخش ہی کہہ کر پکارتے تھے۔
خاکسار (حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے) عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو عربی ترکیب کے نام زیادہ پسند تھے۔‘‘
(سیرت المہدی جلداول روایت نمبر 604)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک خط میں حضرت منشی ظفر احمد صاحبؓ کپورتھلوی کو تحریر فرمایا:۔
’’… لڑکا نوزاد مبارک ہو۔ اس کا نام محمد احمد رکھ دیں۔ خدا تعالیٰ باعمر کرے۔‘‘
(اصحاب احمد جلد چہارم صفحہ 69)
(ماشاء اللہ یہ وہی محمد احمد ہیں۔ جو حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر کے نام سےمعروف ہیں۔آپ ام الالسنہ کے ماہر،فارسی کے چوٹی کے شاعر، معروف ایڈووکیٹ اور خلافت کے فدائی وشیدائی تھے۔ آپؓ 98 سال عمرپاکرخداکے حضور حاضر ہوئے اور بہشتی مقبرہ میں مدفون ہیں۔مؤلف)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔اے بیان کرتے ہیں کہ
’’حافظ نور محمد صاحب ساکن فیض اللہ چک نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ … میں نے حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کی۔کہ لڑکا خدا کے فضل سے اور حضور کی دعاؤں کی برکت سے صحت یاب ہوگیا ہے۔اور اس کا ایک بھائی بھی پیدا ہوا ہے۔حضور اس کا نام تجویز فرما دیں۔ آپ نے فرمایا کہ اس کا نام رحمت اللہ رکھو۔‘‘
(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 959)
(باقی آئندہ)