خلافتِ احمدیہ کامیابی وکامرانی کی طرف گامزن
مسلمانوں میں جہاں قیام خلافت کی تڑپ پائی جاتی ہے وہاں وہ اس مسئلہ کو لے کر تذبذب اور اضطراب کا شکار نظر آتے ہیں
مولانا روم اپنی مثنوی میں فرماتے ہیں:
آفتاب آمد دلیل آفتاب
گر دلیلت باید از وی رو متاب
یعنی اگر تم سورج کی دلیل چاہتے ہو تو اس کی طرف منہ کر کے اس کو دیکھ لو کہ سورج کی دلیل سورج کا اپنا وجو د ہی ہوتی ہے۔ چنانچہ ایک امر جو کہ لمبے عرصہ تک عمل میں آ چکاہو دل و دماغ پر اس کا اثر گہرا ہوتا جاتا ہے اور ایک لحظہ کے لیے بھی ذہن سے اتر نہیں سکتا۔ چنانچہ جماعتِ احمدیہ میں خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کا قیام ہوئے ایک صدی سے زائد عرصہ ہو گیا ہے اور اگر آج کوئی زندہ خدا کی تائید اور نصرت کے نظارے یکھنا چاہتا ہے تو وہ خلوص دل کے ساتھ خلافتِ احمدیہ کے ساتھ خدا تعالیٰ کے سلوک کو دیکھ لے۔ بلا شبہ اسے ہر بار زندہ خدا کی تائید اور نصرت کا عملی نظارہ دیکھنے کو ملے گا۔
قدرت سے اپنی ذات کا دیتا ہے حق ثبوت
اس بے نشاں کی چہرہ نمائی یہی تو ہے
اس کے برعکس جب ہم دیگر مسلمانوں کو دیکھتے ہیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ مسلمانوں میں جہاں قیام خلافت کی تڑپ پائی جاتی ہے وہاں وہ اس مسئلہ کو لے کر تذبذب اور اضطراب کا شکار نظر آتے ہیں۔ چنانچہ اس تڑپ اور اضطراب کا اظہار داعش یا اس جیسی دیگر دوسری تحریکوں کی صورت میں نظر آتا ہے۔ دور حاضر میں مسلمانوں کی قیام خلافت کی یہ خواہش کوئی اس صدی یا موجودہ زمانہ کی پیدا ور نہیں بلکہ اس کا اظہار ہمیں تاریخ کے اوراق میں بھی نظر آتا ہے۔ چنانچہ فیج اعوج کا ہزار سالہ دور اس بات کا گواہ ہے کہ کس طرح ملوکیت کو خلافت کا لبادہ پہنانے کی کوشش کی جاتی رہی اور بات یہاں تک پہنچی کہ گیارہویں صدی عیسوی میں آٹھ شخصیتیں خلافت کی دعویدار تھیں اور یہ حال تو اشرافیہ یا دنیا داروں کا تھا جبکہ گروہ اولیاء اور صلحاء بھی خداکے حضور دعا گو رہتے کہ اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کو خلافت جیسی عظیم الشان نعمت سے سرفراز فرمائے۔ چنانچہ حضرت سید شاہ محمد اسماعیل شہید ؒفرماتے ہیں:
’’نزول نعمت الٰہی یعنی خلافت راشدہ سے کسی زمانہ میں مایوس نہ ہونا چاہئے اور اسے مجیب الدعوات سے طلب کرتے رہنا چاہئے اور اپنی دعاکی قبولیت کی امید رکھنا اور خلیفہ ٔراشد کی جستجو میں ہر وقت ہمت صرف کرنا چاہئے شاید کہ یہ نعمت کاملہ اسی زمانہ میں ظہور فرماوے اور خلافت راشدہ اسی وقت ہی جلوہ گر ہو جائے۔‘‘
(منصب امامت از حضرت سید شاہ محمد اسماعیلؒ شہیدصفحہ 86)
اکثر مسلمانوں کی خواہش تو ہے کہ انہیں خلافت جیسی عظیم الشان نعمت نصیب ہو اور اس کے قیام کے لیے وہ کسی نہ کسی رنگ میں کوشش بھی کرتے ہیں مگر ایسا کرنے میں وہ مخبر صادق حضرت رسول کریمﷺ کی درج ذیل حدیث مبارکہ کو پس پشت ڈال دیتے ہیں جو کہ ایک عظیم الشان پیشگوئی کا رنگ اپنے اندر رکھتی ہے۔
فرمایا: ’’تمہارے اندر نبوت موجود رہے گی جب تک خدا چاہے گا پھر اللہ تعالیٰ اسے اٹھا لے گا پھر خلافت علیٰ منہاج النبوۃ ہوگی جب تک خدا چاہے گا پھر اللہ تعالیٰ یہ نعمت بھی اٹھا لے گا پھر ایک طاقتور اور مضبوط بادشاہت کا دور آئےگا جب تک اللہ چاہے گا وہ رہےگی پھر اسے بھی اللہ اٹھا لے گا اور ظالم اور جابر حکومت کا زمانہ آئےگا پھر اللہ جب چاہے گا اسے بھی اللہ اٹھا لے گا پھر خلافت علیٰ منہاج النبوۃ قائم ہو گی۔ اس کےبعد حضور خاموش ہوگئے۔‘‘
(مسند احمد بن حنبل جلد 4صفحہ 273مطبوعہ دارالفکر، بیروت)
مذکورہ بالا حدیث مبارکہ کی روشنی میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا جو نسخہ آنحضرتﷺ نے بیان فرمایا وہ خلافت علیٰ منھاج النبوۃ ہے۔ جبکہ مسلمان اس بھید سے بے خبر ہیں اسی لیے تو ان کی طرف سے خود ساختہ خلافت کی تحریکیں وقو ع پذیر ہوتی رہتی ہیں اور خلافت کی یہ تحریکیں چار دن کی چاندنی دکھا کر اپنی موت آپ ہی مر تی جاتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے نصوص قرآنی اور احادیث مبارکہ کے عین مطابق خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے غلام صادق امام آخر الزماں حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لیے امام مہدی اور مسیح موعود بنا کر مبعوث فرمایا توآیت
وَاٰخَرِیۡنَ مِنۡہُمۡ
کے تحت ایک بار پھر نور نبوت چہار دانگ عالم میں اپنی کرنیں بکھیرنے لگا اور خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کا قیام عمل میں آیا۔
حضرت مسیح موعود ؑکی وفات کے بعد خلافت علیٰ منھاج النبوۃ کا قیام کوئی اتفاقی امر نہیں تھا اور اگر یہ کوئی اتفاقی امر ہوتا اور خدا تعالیٰ کا غیبی ہاتھ اس کے پیچھے کار فرما نہ ہو تا تو یہ سلسلہ مسلمانوں کی دیگر قیام خلافت کی کوششوں کی طرح کب کا ختم ہو گیا ہوتا۔ چنانچہ خلافتِ احمدیہ ایک صدی کے زائد عرصہ سے اسلام کی نشاۃٔ ثانیہ کا عَلم تھامے حضرت مسیح موعودؑ کے مشن کو لے کر فتح اور کامرانی کی طرف گامزن ہے۔ ایک صدی سے زائد عرصہ میں خلافتِ احمدیہ کے راستہ میں اندرونی اور بیرونی فتنوں کے زلازل اور خوف ناک آندھیاں آئیں مگر دیکھتے ہی دیکھتے یہ فتنے
ہَبَآءً مَّنۡثُوۡرًا
ہو گئے۔
قوموں کی زندگی میں تاریخ کو وہی حیثیت حاصل ہے جو کہ ایک انسان کی زندگی میں حافظہ کو ہو تی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ کس طرح خلافتِ احمدیہ نے باغ احمد کی آبیاری کی ہے یقیناً تاریخ احمدیت اس امر کی امین ہے۔
حضرت مسیح موعودؑ کی وفات کا سانحہ جماعت پر ایک صدمہ عظمیٰ کی گھڑی تھی لیکن حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓ کا وجود جماعت مومنین کے لیے خداداد تسکین اور فرحت ثابت ہوا اور جیسا کے حضرت مسیح موعود ؑنے فرمایا تھا:
’’تب خدا تعالیٰ دوسری مرتبہ اپنی قدرت ظاہر کرتا ہے۔ اور گرتی ہوئی جماعت کو سنبھال لیتا ہے ‘‘۔
(الوصیت، روحانی خزائن جلد 20صفحہ 304)
حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓنے جہاں جماعت کے مورال کو بلند کیا وہاں استحکام خلافت کے حوالے سے اس کی ایسی عظیم الشان بنیادیں رکھیں جن پر آج خلافتِ احمدیہ کا مضبوط قلعہ قائم ہے۔
خلافت ثانیہ کے وقت انکار خلافت کا پر زور فتنہ تمام تر مادی اسباب اپنے ساتھ لیے ہوئے ظاہر ہوا لیکن چشم فلک نے یہ نظارہ دیکھا کہ یہ فتنہ خلافت سے ٹکرا کر پاش پاش ہو گیا اور پھر اس کے بعد کی تاریخ گواہ ہے کہ نظام خلافت اپنے استحکام کی بلندیوں تک پہنچ گیا نیز حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے نصوص قرآنی، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعودؑ کے ارشادات کی روشنی میں مسئلہ خلافت کو جماعت کے سامنے اس طرح پر واضح فرما دیا کہ اب قیامت تک اس کے بارے میں کسی لیت ولعل کی گنجائش باقی نہ رہی ہے۔
خلافت ثانیہ میں جماعت کو اندرونی و بیرونی کئی فتنوں کا سامنا رہا۔ چنانچہ یہ 1914ء کی بے چینی اور گھبراہٹ ہو یا 1930ء میں احرار کی ریشہ دوانیاں، یا 1953ءمیں جماعت پر آنےوالی پر خطر راتیں ہوں غرضیکہ ہر فتنہ اور مصیبت کی آگ میں ہمیں جماعت کندن بن کر نکلتی نظر آتی ہے۔
خلافت ثانیہ جماعت کی تنظیم اور تبلیغ کے حوالے سے ایک سنہری دور ہے۔ چنانچہ اس دور میں جماعت کی تنظیم اور تبلیغ کے جو بیج بوئے گئے وہ آج تناور درخت کی شکل اختیار کر چکے ہیں اور ہم ان کے ثمرات حسنہ سے مستفیض ہو ر ہے ہیں۔
خلافت ثالثہ میں جماعت پر مشکلات اور آزمائشوں کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ گو یہ وقت بظاہر بہت مشکل تھا لیکن اس دور کی ایک یہ خاص بات تھی کہ اس میں فرقہ ناجیہ اور امت کے دوسرے فرقوں کے درمیان فرقان عظیم رونما ہوا۔ جماعت نے اپنے پیارے امام کے زیر سایہ 1974ء کے ہولناک حالات کو مسکراتے چہروں اور نہایت صبر سے گزارا کہ جس سے قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی یاد تازہوگئی اور بالآخر فتنہ کے حالات ختم ہوئے اور جماعتی ترقی کی رفتار اور زیادہ تیز ہو گئی۔ خلافت ثالثہ میں تبلیغ ِیورپ کے نئےمیدان سامنے آئے اورحضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے یورپ کے پے در پے دوروں سے احمدیت کی ایسی بنیادوں میں مزید مضبوطی آئی جن پر آج احمدیت کی عظیم الشان عمارتیں قائم ہیں۔ نیز خلافت ثالثہ کا بابرکت دور آئندہ یورپ میں آنےوالے انقلاب احمدیت کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔
خلافت رابعہ میں مخالفین احمدیت نے اپنی گذشتہ کارستانیوں کے تجربہ کی روشنی میں مکمل طور پر یہ جان لیا کہ جماعتِ احمدیہ جب تک خلافت کے حصار میں ہے اس وقت تک اسے کچھ بھی نقصان نہیں پہنچایا جا سکتا۔ چنانچہ فرعونی حکومت نے اس حصار کو توڑنے کے لیے تدبیر کی اس کے مقابل پر خدا تعالیٰ نے بھی تدبیر کی اور تاریخ گواہ ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی معجزانہ ہجرت سے کس طرح فرعونی تدبیر ناکام ونامراد ہوئی اور کاروانِ احمدیت پر ایک نیا سورج طلوع ہوا نیز آفتابِ اسلام ایک نئی شان کے ساتھ مغرب کی سرزمین سے پوری آب و تاب کے ساتھ اپنی چمکاردکھلانے لگا۔ لاریب بعد میں دنیا میں ہونےوالی تبدیلیوں سے یہ امر عیاں ہو گیا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒکی ہجرت ایک بروقت اَمْرِ رَبِّیتھاکیونکہ آئندہ اسلام کو جن حالات کا سامناہونا تھا ان سے نبرد آزما ہونے کے لیے خلافتِ احمدیہ کا انگلستان جیسے ملک میں ہوناجو دنیا میں ایک خاص حیثیت رکھتا ہےزیادہ موزوں تھا۔ اسی طرح خلافت رابعہ کا دوراشاعت احمدیت کے حوالے سے ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔
خلافت خامسہ کا دَور اکیسویں صدی کے تقریباً سَر پر شروع ہوا کہ جب دنیا اور مادیت پرستی اپنا عروج دیکھ رہی تھی اور ساتھ ہی مشرق وسطیٰ کے مخصوص حالات کی وجہ سے جہاں صحیح اسلامی تشخص کو نقصان پہنچا وہاں داعش جیسی شدت پسند تنظیموں کی وجہ سے مسئلہ خلافت کے بارے میں دنیا میں ایک اضطراب اورہیجان پیدا ہو گیا۔ چنانچہ ان حالات میں دنیا کے کینوس پر حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا وجود دنیا میں ‘‘امن کے شہزادہ ’’ کے طور پر سامنے آیا چنانچہ آپ نے اپنے خطبات، خطابات، اورمقتدر دنیاوی حکومتوں کے سربراہان کو خطوط کے ذریعہ دنیا کے سامنے جہاں صحیح اسلامی تشخص پیش کیا وہاں دنیا میں امن قائم کرنے کے حوالے سے ہر ممکن کوشش کی۔ بلاشبہ ہر دیکھنے والی آنکھ دیکھ سکتی ہے کہ آپ کی ان مساعی حسنہ کی بدولت دنیا جماعتِ احمدیہ کو پر امن اسلام کی نمائندہ خیال کرتی ہے اور آپ کے ارشادات کی روشنی میں افراد جماعت اکناف عالم میں پر امن اسلام کا پر چار کر کے صحیح اسلامی تشخص دنیا کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔
خلافت خامسہ کا دور حضرت مسیح موعودؑ کےالہام ’’وہ بادشاہ آیا‘‘ کے جلالی ظہور کا ایک زندہ نشان ہے۔ چنانچہ ایک وقت تھا کہ جب قادیان میں ایک روسی سیاح کے آنے پر خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی اور حضرت مسیح موعود ؑنے اسے اپنی صداقت کانشان قرار دیا تھا چشم فلک نے یہ نظارہ دیکھا کہ حضرت مسیح موعودؑ کے جانشین امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بنفس نفیس دنیا کے طاقت ور اقتدار کے ایوانوں میں جلوہ افروز ہوئے۔ کیا امریکہ اور کیا یورپ اور کیا دیگر دنیا کی طاقت کے ایوان، غرضیکہ دنیاوی طاقت کے سرچشمے حضرت مسیح موعودؑ اور اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے پیغام کی گونج سےلرز اٹھے اور عالمی طور پر اسلام کی امن کی تعلیم کا بول بالا ہوا۔
تاریخ احمدیت پر ایک طائرانہ نظر ہی سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑکے ہر آنےوالے جانشین نے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کےمشن کے حوالے سے اپنے پیش رو کے کام کو آگے بڑھا یا اور بقول شاعر
إِذَا سَيِّدٌ مِنَّا خَلَا قَامَ سَيِّدٌ
قَؤُولٌ لِما قالَ الْكِرامُ فَعُولُ
یعنی جب ہمارا کوئی سردار فوت ہوتا ہے تو اس کی جگہ ایسا سردار لیتا ہے جو وہی کچھ کہتا اورکرتا ہے جو گذشتہ سرداروں نے کہا ہوتا ہے۔
یقیناً ایک صدی سے زائد عرصہ سے ایسا وقوع پذیر ہونا ثابت کرتا ہے کہ خدائے واحد کا غیبی ہاتھ خلافتِ احمدیہ کے ساتھ ساتھ ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اس حبل اللہ کو مضبوط ہاتھوں سے تھام لیں۔ یقیناً آستانہ خلافت ہمیں پکار پکار کر آواز دے رہا ہے کہ
صدق سے میری طرف آؤ اسی میں خیر ہے
ہیں درندے ہر طرف میں عافیت کا ہوں حصار
آستانہ خلافت کے عافیت ہونے کی ایک تازہ مثال دنیا کی موجودہ صورتِ حال میں ہم مشاہدہ کر رہے ہیں۔ چنانچہ کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے دنیا معاشی طور پر ایک بہت بڑے بحران کا شکار ہوچکی ہے اور روزمرہ کی کھانے کی اشیاء ناپید ہو رہی ہیں یا ان کی قیمتیں عام آدمی کی دسترس سے باہر ہو رہی ہیں۔ غور کریں کہ دنیا کے بگڑتے حالات کے خطرہ کے پیش نظر ہمارے امام کب سے ہمیں راشن اور دیگر ضروریات زندگی کی اشیاء جمع رکھنے کا ارشاد فرما رہے ہیں۔ چنانچہ ایسا کرنے میں ہم میں سے جس نے بھی امام وقت کی آواز پر لبیک کہا وہ عافیت میں ہے۔ یقیناً خلیفۃ المسیح کی ہر بات باعث برکت اور عافیت ہوتی ہے اور یہ کوئی پہلی دفعہ ایسے نہیں ہوا بلکہ تاریخ احمدیت میں خلفاء کی ایسی کئی تحریکات کا ذکر ملتا ہے۔ مثلاً تقسیم ہند سے قبل حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے جماعت کو گندم جمع کرنے کی تحریک کی تھی جبکہ اس وقت خطہ میں ابتری کی کوئی صورتِ حال نہ تھی لیکن جب آئندہ خطہ میں قتل وغارت کا بازار گرم ہوا تو یہی جمع کی گئی گندم قادیان میں پناہ گزینوں کے لیے توشہ جان اور بقائے حیات ثابت ہوئی۔ بلاشبہ خلیفۃ المسیح کی نظر جہاں نوشتہ دیوار پر ہو تی ہےوہاں وہ ایسا عمیق نظر ہ وجود ہوتا ہے کہ جو اپنی خدا داد عقل سلیم کے ذریعہ مستقبل میں پیدا ہونے والی مخدوش صورتِ حال کو بھانپ لیتا ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے سارے دل اور ساری جان کے ساتھ خلیفۃ المسیح کی ہر آواز پر والہانہ لبیک کہیں نیز حدیث مبارکہ
تَلْزِمْ جَمَاعَۃَ الْمُسْلِمِیْنَ وَ اِمَامُھُمْ
کی روشنی میں اپنے امام کےساتھ چمٹ جائیںخواہ ایسا کرنے میں ہمارا جسم نوچ لیا جائے اور مال لوٹ لیا جائے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیشہ ہمارا شمار خلافتِ احمدیہ کےوفا داروںمیں ہو۔ آمین۔