خلاصہ خطبہ عید

یاد رکھنا چاہیے کہ عید خوشی کا نام ہے اور خوشی اس وقت ہوتی ہے جب انسان کسی کام میں کامیابی حاصل کرے

ایک مسلمان کےلیے سب سے بڑی دولت اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہے اور یہی حقیقی عید ہے

وہ لوگ جو خداتعالیٰ کے قرب اور محبت کا مقام حاصل کرتے ہیں وہ اِسی دنیا میں ہمیں نظر آتے ہیں

خلاصہ خطبہ عید الفطر سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 24؍مئی 2020ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ  بنصرہ العزیز نے مورخہ 24؍ مئی 2020ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے میں خطبہ عید الفطر ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا۔ تشہد، تعوذ اور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

حضرت مصلح موعودؓ نے ایک عید کے موقعے پر عید منانے والوں کی اقسام کے متعلق یہ مضمون بیان فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک حقیقی عید کس طرح ہوتی ہے۔ اس مضمون سے عید کے فلسفے اور حکمت کی سمجھ آتی ہے نیز اپنی اصلاح اور حقیقی عید منانے کی طرف بھی توجہ ہوتی ہے لہٰذا آج اس مضمون سے استفادہ کرتے ہوئے مَیں کچھ بیان کروں گا۔

انسان کی زندگی عادات و جذبات کا مجموعہ ہے چنانچہ مذہبی اور معاشرتی زندگی میں انسان بہت سے کام محض رسم و رواج کے زیرِاثر کرتا ہے۔ عید کے متعلق بھی بہت سے لوگ اس تہوار کی حقیقت اور صحیح روح کو جانے بِنا صرف عادت کے مطابق اسے مناتے ہیں۔ والدین کو عید مناتے دیکھا، یا اپنے ماحول میں یہی دیکھا کہ ہم مسلمان ہیں اور اللہ اور اُس کے رسول کا یہ حکم ہے کہ عید مناؤ۔ گویااس بات سے قطع نظر کہ اِس تہوار کی حکمت کو سمجھیں وہ عید کے دن اتنا ہی کافی سمجھتے ہیں کہ نہا دھوکر عید گاہ پہنچ جائیں۔ یہ لوگ عید کے حقیقی مقصد، فوائد اور ہئیت پر غور نہیں کرتے۔ یہ سوچتے ہی نہیں کہ آج جب ہم عید منارہے ہیں تو کیاہماری عید ہوئی بھی ہے یا نہیں؟

یاد رکھنا چاہیے کہ عید خوشی کا نام ہے اور خوشی اس وقت ہوتی ہے جب انسان کسی کام میں کامیابی حاصل کرے۔ سو جب کوئی شخص عید مناتا ہے تو درحقیقت وہ اپنی کامیابی کا دعویٰ کر رہا ہوتا ہے۔ اب ہم میں سے ہر ایک کو یہ غور کرنا چاہیے کہ کیا اسے حقیقت میں ایسی کامیابی حاصل ہوئی ہے اور کیا اسے یہ حق حاصل ہوگیا ہے کہ وہ عید منائے۔

سوچنے والی بات ہے کہ عید پر نئے کپڑوں، اچھا کھانے پینے، رونق اور شور شرابے پر ہم روپیہ خرچ کر تے ہیں۔ پس اتنا کچھ خرچ کرنے کے باوجود اگر عید ہمیں وقتی خوشی کے علاوہ کچھ دے کر نہیں جاتی تو پھر وہ عید تو نہیں ہوسکتی۔ عید تو وہ ہے جو اندرونی اور دِلی طور پر ہمیں کچھ دے کر جائے۔ جو باطنی طور پر ہماری رُوح کو سیراب کر کے جائے۔ ایک مسلمان کےلیے سب سے بڑی دولت اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہے اور یہی حقیقی عید ہے۔ یہ عیداللہ تعالیٰ نےروزوں کے بعد اس لیے رکھی ہےتاکہ یہ خوش خبری دے کہ روزے قبول ہوگئے۔ پس یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیا واقعی ہمارے روزے اور ہماری رمضان کی عبادات قبول ہوگئیں کہ نہیں۔ بہت سی عبادات ایسی ہیں جو قبول نہیں ہوتیں۔ ایک شخص نےرسول خداﷺ کے سامنے تیز تیز نماز پڑھی تو آپؐ نے فرمایا کہ تمہاری نماز قبول نہیں ہوئی۔ اُس نے تین مرتبہ جلدی جلدی نماز پڑھی اور ہر بار آپؐ یہی فرماتے رہے تاوقتیکہ اُس کے استفسار پر آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ آہستگی اور سکون سے نماز پڑھو۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو لوگ حقوق العباد ادا نہیں کرتے اُن کی نمازیں بھی قبول نہیں ہوتیں۔ روزوں کے معاملے میں بھی حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد ادا کرنے کا خاص طور پر حکم ہےوگرنہ روزے بھی مقبول نہیں ہوتے۔ بعض لوگ بیماری یا معذوری کی وجہ سے روزے تو نہیں رکھ سکتے لیکن خوفِ خدا کے ساتھ نوافل اور عبادات کے ذریعے خدا تعالیٰ کی خوش نودی حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اُنہیں روزے نہ رکھنے کے باوجود ثواب سے محروم نہیں رکھتا اور اُن کے حصّے میں عید کی خوشیاں لکھ دیتا ہے۔ جبکہ دوسری جانب کچھ لوگ طاقت کے باوجود روزے نہیں رکھتے لیکن افطاری اور عید کے موقعے پر یوں محسوس ہوتا ہے کہ گویا عید منانے کا سب سے زیادہ حق انہی کا ہے۔

پس ہمیں اپنے دلوں پر غور کرنا چاہیےکہ ہماری عید کیسی ہے؟عیدیں عموماً تین قسم کی ہوتی ہیں۔

ایک تو اُس شخص کی عید ہے جس نے محبتِ الٰہی کے حصول کی خاطر دِلی صفائی کے ساتھ اخلاص سے عبادت اور بندوں کی خدمت کی۔ جس نے صرف خدا کےلیے نمازیں پڑھیں، روزے رکھے، ذکرِ الٰہی کیا اور صدقات دیے تو اُس نے خدا کو پالیا۔ خدا نے بھی اپنے گُم شدہ بندے کو ڈھونڈ لیا گویا دو بچھڑے ہوئے عاشق مل گئے۔ ایسے بندوں کی آج بھی عید ہے اور کل بھی عید ہےبلکہ ہمیشہ عید ہوتی ہے۔ ایسے لوگ آرام و آسائش کے ظاہری سامانوں کی عدم دست یابی کے باوجوداللہ تعالیٰ کی لقاء حاصل کرکے دائمی عید کے وارث بنتے ہیں۔

ضروری نہیں کہ یہ عید صرف غریبوں اور مسکینوں ہی کی ہو۔ یہ عیدیں خداتعالیٰ کی رضا پانے والےاُن مقرّب بندوں کی بھی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے دنیاوی نعمتوں سے نوازا ہے۔ جنہیں عمدہ لباس اور اچھے کھانے میسر ہیں اور وہ اِن نعمتوں سے نہ صرف خود فیض پاتے ہیں بلکہ خداتعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیےبندوں کے بھی حق ادا کرتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی مصلحت ہے کہ وہ کس کو کس طرح نوازتا ہے ، کس طریق سے اپنا قرب عطا کرتا ہے۔ بےوقوف ہے وہ شخص جو سمجھتا ہے کہ کانٹوں پر چل کر آنے والا ہی خدا رسیدہ اور مقبول ہوسکتا ہے۔ ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ جس طرح خدا کی مختلف صفات ہیں اسی طرح اس کے پاس پہنچنے کے راستے بھی مختلف ہیں۔ بعض لوگ اس بات کو نہ سمجھنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے بندوں پر اعتراض کر دیتے ہیں۔ بزرگی کے اِ سی خود ساختہ معیار کے باعث حضرت خلیفة المسیح الاوّلؓ سے قادیان میں ایک ہندو نے حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی نسبت سوال کیا کہ کیا وہ بادام اور روغن کھالیتے ہیں؟ آپؓ کے اثبات میں جواب دینے پر اس نے حیرت کا اظہار کیا جیسے اُسے یہ بات بھائی نہیں۔ خدارسیدہ لوگوں کے لیے یہ شرط نہیں کہ وہ دنیا سے کٹ کر رہیں اصل یہ ہے کہ نہ اچھا کھانا خدا کی محبت کا ثبوت ہے اور نہ فاقہ کرنا اُس کے قرب کی دلیل ہے۔ آنحضرتﷺ کی زندگی میں ہمیں دونوں ہی پہلو نظر آتے ہیں اور آپؐ سے بڑھ کر تو کسی کو قربِ الٰہی کا مقام مل ہی نہیں سکتا۔ یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ نہ امارت سے محبتِ الٰہی ملتی ہے اور نہ صرف غربت سے مل سکتی ہے۔ خدا کی محبت کی اصل راہ وہ ہے جو اُس کی مرضی کے مطابق ہو۔ وہ لوگ جو خداتعالیٰ کے قرب اور محبت کا مقام حاصل کرتے ہیں وہ اِسی دنیا میں ہمیں نظر آتے ہیں، ہمارے اندر ہی ہوتے ہیں۔ لیکن اُن کے دِل اللہ تعالیٰ کے حضور جھکے ہوئے ہوتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جن کی عید، حقیقی عید ہوتی ہے۔

دوسری قسم کے لوگ وہ ہوتے ہیں جو عمدہ کھانےکھاتے اور اچھے کپڑے پہنتے ہیں۔ وہ گمان کرتے ہیں کہ انہیں حقیقی عید میسر ہے لیکن اصل عید اُن سے اُتنی ہی دُور ہوتی ہے جتنا مشرق مغرب سے دُور ہے۔ اُن کی مثال اُس نادان بچّے کی سی ہے جو سانپ کو کھلونا سمجھ کر پکڑ لیتا ہے اور خوشی سے پھولا نہیں سماتا۔ پس ایسی عید دراصل غفلت اور نادانی خوشی ہے۔ یہ عید ماتم کی پیش خبری ہے۔ وہ لوگ جو خدا اور اُس کی مخلوق کے حقوق کو بھول کر صرف ظاہری عید مناتے ہیں وہ درحقیقت خدا کی ناراضگی اور ناپسندیدگی مول لے کر اپنی عاقبت خراب کر رہے ہوتے ہیں۔

اِن کے علاوہ تیسری قسم کے لوگ وہ ہیں جنہیں یہ احساس ہے کہ وہ گناہ گار ہیں۔ جنہوں نے روزے تو رکھےاور نمازیں تو پڑھیں لیکن جانتے ہیں خدا کی عبادت کا حق ادا نہیں کرسکے۔ یہ لوگ عید کی خوشیاں تو مناتے ہیں لیکن دل میں ڈرتے رہتے ہیں اور ضمیرملامت کرتا رہتا ہے۔ یہ لوگ سوچتے ہیں کہ اگر ظاہر میں عید منالیں گے تو کیا تعجّب ہے کہ خدائے ستّار اِن کے باطن کی بھی ستّاری کردے۔ جب پشیمانی ان کو بےچین کردیتی ہے تو خداتعالیٰ بھاگ کر اِن کے پاس آجاتا ہے۔

پس ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ اگر پہلی قسم میں سے نہیں تو ہم اس تیسری قسم سے ہی بن جائیں کہ یہ بھی تحقیر کا مقام نہیں ہے۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ جب کامل حسرت، کامل عجز، کامل انابت، کامل غم اور کامل دکھ انسان پر طاری ہوجائے تو وہ خداتعالیٰ کا محبوب بنادیتا ہے۔ ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ وہ لوگ جو دوسری قسم کی عید کو ہی عید سمجھ رہے ہیں انہیں بھی حقیقی عید کا اِدراک دلوانے کی کوشش کریں۔

خطبے کے اختتام پر حضورِانور نےمذہب کے نام پر تکلیفیں جھیلنے والے تمام احمدیوں کے لیے دعا کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا اُن تمام اسیران کے لیے دعا کریں جنہیں قیدوبند کی صعوبتوں میں رکھا گیا ہے کہ وہ بھی جلد آزادی کے ساتھ عید کر سکیں۔ امّتِ مسلمہ اوردنیا کے امن کےلیے بھی بہت دعا کریں۔ دنیا کو اللہ تعالیٰ کی طرف بُلانے کی کوشش اور اس کے ساتھ دعاؤں کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ ہر احمدی کو اپنے اِس فرض کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے اور اسے ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button