مستشرقین کی طرف سے اٹھائے جانےوالے اعتراض کا جواب
کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود کا ثبوت تاریخی شواہد اور آثار قدیمہ سے ملتا ہے؟
سن 2008ء میں جرمنی میں ایک خبر لوگوں کی خاص توجہ کا مرکز بنی اور کافی وسیع پیمانے پر مختلف اخبارات اور میڈیا پر گردش کر تی رہی اور وہ یہ کہ میونسٹر یونیورسٹی کے مسلمان پروفیسر کالش صاحب نے یہ کہہ کر کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود کا تاریخ اورآثار قدیمہ سے کوئی بیّن ثبوت نہیں ملتا، اسلام کو ہی چھوڑ دیا ہے جس میں وہ نوجوانی کی عمر میں داخل ہوئے تھے۔ اس پر ایک عرصہ تک بڑی بحث چلتی رہی جس میں مختلف مسلمان تنظیموں نے بھی بڑے پُرجوش انداز سے کالش صاحب کو اسلامیات کی پروفیسر شپ سے ہٹانے کا مطالبہ کیا۔ آخر کار کالش صاحب کو اسلامیات (Islamic Theology)کی پروفیسرشپ سے ہٹا کر موازنہ مذاہب کی پروفیسر شپ دے دی گئی۔ یاد رہے کہ کالش صاحب نوجوانی میں خود مسلمان ہوئے تھے اور زیدی شیعہ مسلک سے تعلق رکھتے تھے اور اس واقعے کے چند سال پہلے ہی میونسٹر کی یونیورسٹی میں اسلامیات کے پروفیسر مقرر کیے گئے تھے۔
(https://en.qantara.de/content/criticism-of-islamic-theologian-muhammad-kalisch-doubt-about-muhammads-existence-poses)
اس تمام عرصہ میں ایک طبقہ اس بات پر کالش صاحب کی بھر پور حمایت بھی کرتا رہا کیونکہ ان کے خیال میں کالش صاحب نے ایک معقول اور علمی بات کی تھی، جس کی مسلمان بے جا طور پر مخالفت کر رہے تھے۔ بہر کیف یہ کوئی نیا اعتراض نہیں تھا۔ اس سے پہلے بھی کئی لوگ جرمنی اور دیگر ممالک میں اس قسم کی بات کرتے رہےہیں اور مستشرقین کا یک طبقہ اسلامی تاریخی مصادر اور مآ خذ پر تنقید اور ان کے مستند ہونے پر سوال تقریباًًسو سال سے اٹھا رہا ہے۔ اس میں خاص طور پر معروف مستشرق Goldziherکا نام قابل ذکر ہے۔ ایسے لوگوں کے مطابق تمام سیرت، حدیث اور دوسری اسلامی تاریخی مصادر اور کتب جو کہ دوسری صدی ہجری میں تحریر ہوئیں محض دوسری صدی کے مسلمانوں میں اٹھنے والی بحثوں اور اختلافات کی عکاسی کرتی ہیں، یعنی اصل میں دوسری صدی سے متعلق ہیں جس میں ان کو تحریر میں لایا گیا تھا۔ ایسے لوگوں کے خیال میں بنو عباس کے زمانہ میں مختلف خیالات کے علماء نے اپنے اپنے موقف کو ثابت کرنے کے لیےکئی باتیں گھڑلیں اور اسی لیے ایسے مستشرقین کے خیا ل میں ابتدائے اسلام اور اس کی پہلی صدی سے متعلق اسلامی مصادر غیر ثقہ ہیں اور قابل اعتبار نہیں اور اسلام کی پہلی صدی کا دور تاریخی لحاظ سے بالکل تاریک ہے اور اس سے متعلق کسی کو کو ئی خبر ہی نہیں کہ اس زمانہ میں کیا واقعات رونما ہوئے اور اصل تاریخ کیا ہے۔
(http://inarah.de/sammelbaende-und-artikel/inarah-band-6/grodzki-iii-zur-heutigen-situation-der-islamwissenschaften/#_edn1)
انہیں خیالات کی پیروی آج کل کے علم استشراق (Islamic Studies)میں revesionistمکتب فکر کے محققین جن میں Crone Patricia، Wansbrough اور Michael Cook جیسے مشہور نام بھی ہیں، بڑی تحدی سے کرتے ہیں۔ (تفصیل کے لیے دیکھیں Puin, Ohlig: The Hidden Origins of Islam, Michigan 2010)اسی لیےایک عرصہ تک ابتدائے اسلام سے متعلق بعض کتب مثلاً ) تاریخی محمد کی تلاش( The Quest for the Historical Muhammad) یا Die dunkeln Anfänge(اسلام کا تاریک ابتداء) وغیرہ کافی مشہور رہیں۔ پس سوال یہ ہے کہ کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود سے متعلق ہمیں تاریخ اور آثار قدیمہ سے شواہد ملتے ہیں؟
اس سے پہلے کہ میں اس موضوع کی تفصیل میں جائوں یہاں یہ کہنا ضروری ہے کہ اسلام کے ابتدائی دور کے متعلق ابھی بھی مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔ پچھلے چند سالوں سے اس پر کچھ کام ہوا ہے مگر ایک عرصہ تک مسلمانوں نے اس امر کی طرف خاص توجہ نہیں دی۔ بیسویں صدی کے شروع میں حجاز پر وہابی افواج کے قبضے کے بعد وسیع پیمانے پر ایسے تاریخی مقامات کو تباہ کر دیا گیا جن کا تعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ابتدائی مسلمانوں سے تھا۔ اسی طرح مکہ و مدینہ میں وسیع تعمیراتی کاموں کے دوران بھی کافی آثارقدیمہ کو بغیر کسی قسم کی تحقیق اور محفوظ کیےمٹا دیا گیا۔ اسلام کی ابتدائی تاریخ کو محفوظ کرنے کا کام مسلمانوں کا اوّلین فرض ہونا چاہیے تھا مگر اس پر بڑے عرصے تک توجہ نہیں دی گئی اور اب بھی شعور کا بہت فقدان ہے۔ اس غفلت کا نتیجہ ہی ہے کہ بعض حلقے اسلام کے آغاز اور ابتدا سے متعلق کئی سوال اٹھاتے اور مختلف قسم کی رائےظنی پیش کرتے رہتے ہیں۔
اب ہم اصل مضمون کی طرف واپس آتے ہیں کہ کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود کا ثبوت آثار قدیمہ میں ملتا ہے؟
سو جاننا چاہیے کہ زمانہ کے لحاظ سے اسلام کا سب سے پرانا مصدر قرآن کریم ہے۔ قرآن کریم کے پرانے نسخوں میں سے کچھ عرصہ قبل برمنگھم اور ٹیوبنگن کے نسخوں کی کاربن ڈیٹنگ سے یہ پتہ لگا ہے کہ یہ نسخے اسلام کے بہت ہی ابتدا یا پھر خلفائے راشدین کے زمانے کے ہیں۔
(https://www.birmingham.ac.uk/news/latest/2015/07/quran-manuscript-22-07-15.aspx;
تاریخی لحاظ سے قرآن کریم میں ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کے علاوہ آپ کی زندگی سے متعلق کئی معلومات ملتی ہیں، مثلاً یہ کہ آپ رسول تھے(آل عمران:145)، بہت رحم کرنے والے تھے(الانبیاء:108)، توحید کی تعلیم دیتے تھے(المزمل:16)، معاشرے کی اصلاح میں کوشاں رہے (سورۃ الاخلاص)، آپ کا ایک خاندان تھا(الضحیٰ:9)، آپ یتیم تھے(الضحیٰ:7)، آپ کی اپنے مخالفوں سے بحث ہوتی تھی(البقرۃ:112)،آپ پر ظلم کیا جاتا تھا (حج:40تا41)، آپ کے حواری تھے(الفتح:30) ، آپ نے اپنے ایک ساتھی کے ساتھ ایک غار میں پناہ لی(التوبہ:40)، بعد میں یثرب میں سکونت اختیار کی(الاحزاب:14)،مختلف جنگوں میں دفاع کرنا پڑا(الاحزاب:10تا46)، بدر اور حنین کے مقام پر فتح پائی(آل عمران:124والتوبہ:25)، ایک موقع پر آپؐ نے ایک درخت کے نیچے بیعت لی (الفتح:19)وغیرہ یہ محض چند مثالیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سے متعلق قرآن کریم میں موجود معلومات کی ہیں۔ اس لحاظ سے قرآن کریم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود اورزندگی پر سب سے پرانا ثبوت ہے۔
اب تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر آثار قدیمہ میں دریافت کیا گیا دوسرا پرانا ثبوت حیرت انگیز طور پر ایک عیسائی کی طرف سے لکھی گئی چھوٹی سی تحریر پر مشتمل ہے جوکسی نے مرقس اور متی کے پرانے نسخوں میں لکھا تھا۔ یہ نسخہ آج برٹش لائبریری میں زیر Shelf mark BL ADD MSS 14461موجود ہے۔ اس میں لکھنے والا لکھتا ہے:
’’جنوری میں ابناء ایمیصا (حمص) نے اپنی زندگی پر عہد لیا اور کئی گاؤں محمد کے عربوں کی لڑائی سے تباہ ہوئے اور کئی لوگ مارے گئے اور قیدی بنائے گئے جلیل اور بیت سے(…)ان عربوں نے (دمشق) کے پاس پڑاؤ ڈالا(…)اور ہم نے ہر جگہ دیکھا(…)زیتون کے تیل جو وہ ساتھ لائے۔ 26 مئی ساکلاریوس گیا(…) حمص کے گردو نواح سے اور رومیوں نے ان کا تعاقب کیا(…) اور 10 اگست کو رومی دمشق کے گرد سے فرار ہوگئے(…)بہت لوگ تقریباً 10000۔ اور سال کے شروع میں رومی واپس آئے اور سال نو سو سنتالیس میں غابتہ میں جمع ہوئے(…)رومی اور بہت لوگ رومیوں کے مارے گئے، تقریباً پچاس ہزار‘‘۔
(ROBERT G. Hoyland, Seeing Islam as others saw it, p.117)
یہ نوٹ فلسطین میں ہونے والے واقعات پر لکھا گیا ہے۔ سال 947 (اسکندری سال) جس میں غابتہ کے مقام پر جنگ ہوئی تقریباًً 636عیسوی بنتا ہے۔ غابتہ کی جنگ اسلامی تاریخ میں جنگ یرموک کے نام سے مشہور ہے جس میں حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے اسلامی لشکر کی قیادت کی تھی۔
(Palmer, Andrew: The Seventh Century in the West-Syrian Chronicles, Liverpool 1993, p.4.)
اسی فیصلہ کن جنگ کے بعد شام اور مصر کی طرف پیش قدمی کے لیے مزید راستے کھلے۔ اس نوٹ کو تحریر کرنے والا ان اہم تاریخی واقعات کا غالباً عینی شاہد تھا اور اسے ان رونما ہونے والے واقعات کی تاریخی اہمیت کا بھی بخوبی علم تھا، اسی لیے اس نے اس کو اپنی بائبل میں لکھ لیا۔ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود کے قدیم ترین شواہد میں سے ایک ہے۔ اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام اور فلسطین میں ہونے والے واقعات کو جسے بعد کے اسلامی مؤرخین نے بھی تحریر کیا ہے کا ذکر موجود ہے۔ یہ تحریر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے تقریباًً 4سال بعد لکھی گئی۔
پھر سریانی میں تھوماس نامی پادری کی ایک کتاب سے، جسے تقریباً 640 عیسوی میں لکھا گیا، ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق یہ بیان ملتا ہے:
’’سال 945…جمعہ 4فروری 9بجے رومیوں اور محمد کے عربوں کے درمیان فلسطین میں غزہ سے بارہ میل کے فاصلے پر جنگ ہوئی۔ ‘‘
(ROBERT G. Hoyland, Seeing Islam as others saw it, p.120)
یہاں پر بھی فلسطین میں ہونے والے واقعات کا ہی ذکر ہو رہا ہے۔ یہاں پر بھی عربوں کو معین طور پر محمد کے عربوں کہہ کر ان کی شناخت کو مختص کیا گیا ہے کہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والے ہیں۔ سال 945عیسوی کیلنڈر کے مطابق سال 634 جبکہ ہجری کیلنڈر کےمطابق12 بنتا ہے جس وقت فلسطین کے علاقہ میں مسلمانوں اور رومیوں (Byzantine) کے مابین محاذ آرائی ہو رہی تھی۔ اس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے تقریباًً 8سال بعد اس غیر مسلم مصنف کو آپ کے بارے میں علم تھا۔
660 عیسوی کے آرمینی بشپ اور مؤرخ سیبیوس کی تحریر کردہ تاریخ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق مزید شواہد ملتے ہیں۔ سیبیوس کی تحریر غالباً 656تا 661کے درمیان لکھی گئی تھی کیونکہ اس میں مسلمانوں کی پہلی خانہ جنگی، جسے پہلا فتنہ کہا جاتا، کا ذکر بھی موجود ہے۔ اس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے 30سال بعد یہ تحریر لکھی گئی جبکہ کئی صحابہ حیات تھے۔ سیبیوس لکھتا ہے:
’’اس زمانہ میں ان میں اسماعیل کے بیٹوں میں سے ایک شخص جس کا نام محمد تھا مشہور ہوا۔ اس پر اس کے بقول خدا کی طرف سے سچائی کے راستہ پر ایک وحی ہوئی۔ اور محمد نے انہیں ابراہیم کے خدا کو ماننے کی طرف بلایا۔ کیونکہ اسے موسوی تاریخ کا اچھاعلم تھا اور بوجہ اس کے کہ یہ حکم آسمان سے نازل ہوا تھا اس نے انہیں (یعنی عربوں کو) حکم دیا کہ وہ اکٹھے ہوں اور ایک مذہب پر اتحاد کریں۔ پرانی چیزوں کی عبادت کو چھوڑ کر عرب زندہ خدا کی طرف متوجہ ہوئے، جو کہ ان کے باپ ابراہیم پر ظاہر ہوا تھا۔ محمد نے انہیں حکم دیا کہ وہ مردار نہ کھائیں، شراب نہ پئیں، جھوٹ نہ بولیں اور زنا نہ کریں۔ اس نے کہا۔ خدا نے وہ زمین ابراہیم اور اس کے بعد اس کے بیٹے کو ہمیشہ کےلیے دینے کا وعدہ کیا تھا۔ اور یہ وہ وعدہ تھا جو اس وقت پورا ہوا، جبکہ خدا اسرائیل سے محبت کرتا تھا۔ مگر اب تم ابراہیم کے بیٹے ہو اور جو وعدہ خدا نے ابراہیم اور اس کے بیٹے کو دیا تھا اب تم سے پورا ہو گا۔ ابراہیم کے خدا سے محبت کرو اور جائو اور اس زمین پر قابض ہو جائو جسے خدا نے تمہارے باپ ابراہیم کو دیا تھا۔ کوئی جنگ میں تمہارا مقابلہ نہ کر سکے گا، کیونکہ خدا تمہارے ساتھ ہے۔ ‘‘
(ROBERT G. Hoyland, Seeing Islam as others saw it, p.120)
سیبیوس کی لکھی ہوئی معلومات کچھ حد تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کی بنیادی تعلیم بیان کرتی ہیں مگر ابھی بھی بہت سطحی ہیں۔ بہر حال ہمیں اس سے یہ ضرور پتہ چلتا ہے کہ عرب سے باہر بھی لوگوں کو عرب میں نمودار ہونے والے نئے مذہب اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق علم تھا۔
سن 60ہجری میں مصر میں لکھےگئے ایک مسلمان افسر کے خط میں ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر بالواسطہ ملتا ہے۔ خط پرانا ہو جانے کی وجہ سے کئی جگہوں سے پھٹ گیا ہے مگر درج ذیل حصص اب بھی واضح پڑھے جا سکتے ہیں۔
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
من بیان بن قیس الی یزید بن الاسود عبید اللّٰہ بن…
سلام علیکم فانی احمد الیک اللّٰہ الذی لا الہ الا ہو
ان اللہ لا یحب الظلم و لا الفساد انکم لا دعوتکم الی امر تاثمون فیہ و تظلمواذلک التی تندموا و توجعوا فیھا (…)
ان لاھل نصان ذمۃ اللّٰہ و ذمۃ رسولہ فلا تحسبوا ان تقر لکم فیھا الفساد ولا ظلم…
ترجمہ:
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
بیان ابن قیس کی طرف سے یزید ابن الاسود اور عبید اللہ ابن…
السلام علیکم۔ میں تمہارے سامنے اللہ کی حمد بیان کرتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔
اللہ کو ظلم اور فساد پسند نہیں۔ جہاں تک ہمارا تعلق ہے، میں نے تمہیں اس لیے مقرر نہیں کیا کہ تم گناہ کرو اور ظلم سے کام لو…
اور وہ جس پر تم کو پچھتاوا ہو گا اور بھگتو گے(…)
اور اہل نصان اللہ اور اس کے رسول کی حفاظت میں ہیں
(ذِمَّةُ اللّٰهِ وَذِمَّةُ رَسُوْلِه )۔
پس یہ نہ سمجھو کہ ہم اس میں تمہارا فساد اور ظلم برداشت کریں گے۔ ‘‘
(R. Hoyland, “The Earliest Attestation Of The Dhimma Of God And His Messenger And The Rediscovery Of P. Nessana 77 (60s AH / 680 CE)”in: B. Sadeghi, A. Q. Ahmed, A. Silverstein, R. Hoyland (Eds.), Islamic Cultures, Islamic Contexts – Essays In Honor Of Professor Patricia Crone, Brill 2015.)
یہاں اس خط کے صرف بعض حصوں کو پیش کیا گیا ہے۔ اس خط میں اہل نصان (نصان ایک گائوں کا نام تھا) کےلیے استعمال کیے گے الفاظ
ذِمَّةُ اللّٰهِ وَذِمَّةُ رَسُوْلِهٖ
(اللہ اور اس کے رسول کی حفاظت) بہت معروف الفاظ ہیں جو بعض دوسری جگہوں پر بھی ملتے ہیں۔ مثلاً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مختلف ملوک کو لکھے گئے خطوط میں بھی انہیں الفاظ کے استعمال ہونے کا ذکر ملتا ہے۔
(بیھقی سنن کتاب الکبیر للبیھیقی، باب حکم الجزیہ ابن شیبہ تاریخ مدینۃ، باب بعثت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم الرسل بکتبہ الی الملوک)
اسی طرح بخاری کی ایک مشہور حدیث میں اس طرح ملتے ہیں:
مَنْ صَلَّى صَلاَتَنَا وَاسْتَقْبَلَ قِبْلَتَنَا، وَأَكَلَ ذَبِيْحَتَنَا فَذَالِكَ المُسْلِمُ الَّذِيْ لَهُ ذِمَّةُ اللّٰهِ وَذِمَّةُ رَسُولِهٖ، فَلاَ تُخْفِرُوا اللّٰهَ فِي ذِمَّتِهٖ۔
(بخاری کتاب الصلوٰۃ، باب فضل استقبال القبلۃ)
یعنی جو کوئی ہمارے طریق سے نماز پڑھتا ہے، ہمارے قبلہ کی طرف رخ کرتا ہے اور ہمارا ذبیحہ کھاتا ہے پس وہ مسلم ہے جس کے لیے اللہ اور اس کے رسول کی پناہ ہے۔ پس تم اللہ کی اس پناہ میں خیانت نہ کرو۔
غرض اللہ اور اس کے رسول یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت میں لوگوں سے حسن سلوک کا واضح ذکر اس خط میں کیا گیا ہے۔
اس خط سے ہمیں مزید یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کے ابتدائی زمانہ میں رعایا کے ساتھ حسن سلوک پر کافی زور دیا جاتا تھا۔ اگر کوئی شخص اس ذمہ داری کی ادائیگی میں لاپرواہی کرتا تو اسے سخت تنبیہ کی جاتی۔ یہ خط 60ہجری کا لکھا ہوا ہے، یعنی یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے تقریباً پچاس سال بعد لکھا گیا تھا اور اس لحاظ سے اب تک دریافت کیے گئے قدیم ترین اسلامی دستاویزات میں سے ایک ہے۔
سن 66ہجری میں ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام ایک سکہ پر لکھا ہوا ملتا ہے۔ یہ سکہ عبد الملک ابن عبداللہ فارس کے گورنر نے جاری کیا تھا۔ اس میں یہ تحریر لکھی ہوئی ہے۔
’’بسم اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ ‘‘
(A. S. Eshragh:’’An Interesting Arab-Sasanian Dirhem‘‘ in: ONS Newsletter, 2004, Volume 178, pp. 45to46)
اسی طرح 71 ہجری میں مصر کے شہر اسوان سے ملے ایک کتبہ پر یہ تحریر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود کی گواہی دیتی ہے۔
’’بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
ان عظم مصایب اھل الاسلام
مصیبتھم با النبی محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم
ھذا قبر عباسۃ ابنت جریج بن سد رحمت اللّٰہ
و مغفرتہ و رضوانہ علیھا
توفیت یوم الاثنین لاربع
عشر خلون من ذع القددۃ
سنۃ احدی و سبعین
و ھی تشھد الا الہ الا اللّٰہ
و حدہ لاشریک لہ وان
محمدا عبدہ و رسولہ
صلی اللّٰہ علیہ وسلم ‘‘
(JL Bacharach, S Anwar, Early Versions Of the Shahada, A Tombstone From Aswan Of 71 AH, The Dome Of The Rock, And Contemporary Coinage, in: Islam [2012] Vol. 89, pp. 60 to 69)
ترجمہ:
’’بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
مسلمانوں پر سب سے بڑی مصیبت اس وقت آئی جب محمد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی
یہ قبر عباسہ بنت جریج بن سد اللہ کا رحم، بخشش اور رضا اس پر ہو، کی ہے
اس کی وفات سوموار 14ذی القعدہ سن 71ہجری میں ہوئی
اس گواہی پر کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا اور اس کا کوئی شریک نہیں
اور محمد اللہ کے بندہ اور رسول ہیں، ان پر اللہ کی سلامتی ہو۔ ‘‘
اسی زمانہ میں فارس سے جاری کردہ ایک عرب۔ ساسانی سکہ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام پارسی زبان میں لکھا ہوا ملتا ہے۔ 70ہجری کے اس سکہ پر لکھا ہے:
’’محمت پیغتمی دات‘‘
(AS Eshragh: An Interesting Arab-Sasanian Dirhem in: ONS Newsletter [2004] Vol. 178, pp. 45 to 46)
ترجمہ:
’’محمد خدا کے رسول ہیں‘‘
اس کے بعد قبۃ الصخراء (بیت المقدس) میں موجود نقوش میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر ملتا ہے۔ قبۃ الصخراء 72ہجری میں اموی خلیفہ عبد الملک نے بنوایا تھا اور اس زمانہ کی اسلامی عمارات اور طرز تعمیر کا نایاب نمونہ ہے۔ اس میں موجود مختلف نقوش میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر ملتا ہے مثلاً:
’’بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم، لا الہ الا اللّٰہ وحدہ لا شریک لہ۔ لہ الملک و لہ الحمد۔ یحی و یمیت و ھو علی کل شیءٍ قدیر۔ محمد رسول اللّٰہ و عبدہ۔ ان اللّٰہ وملئکتہ یصلون علی النبی یاایھاالذین امنوا صلوا علیہ و سلمو تسلیما۔ ‘‘
(For more details see: Andreas Kaplony: The Ḥaram of Jerusalem, 324-1099: Temple, Friday Mosque, Area of Spiritual Power)
یعنی اللہ کے نام کے ساتھ جو رحمٰن اور رحیم ہے۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ ایک ہے اور اس کاکوئی شریک نہیں۔ اسی کی بادشاہت اور تمام حمد ہے۔ وہی زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے اور ہر چیز پر قادر ہے۔ محمد اللہ کے رسول اور بندہ ہیں۔ یقیناً اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر سلامتی بھیجتے ہیں۔ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو تم بھی اس پر درود اور سلام بھیجو۔
90 یا 91ہجری کی دریافت کردہ ایک عرب۔ یونانی تحریر پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام اس طرح ملتا ہے:
MAAMET AΠOΣΘOΛOΣ ΘEOY (maamet apostolos theou) (Grohmann, Arabic Papyri, in: The Egyptian Library, Vol. I, Egyptian Library Press: Cairo [1934] No. 13, pp. 23 to 25)
یعنی محمد خدا کے پیغمبر ہیں
یہ فقرہ محمد رسول اللہ کا سب سے پرانا یونانی ترجمہ ہے۔
اب میں کچھ ایسے نقوش یعنی مختلف چٹانوں اور پتھروں پر کندہ تحریروں کا ذکر کرنا چاہتا ہوں، جو کہ دوسری صدی کے اسلامی مؤرخین کی طرف سے بیان کیے گئے بعض واقعات کی تصدیق کرتے ہیں۔ اس میں سے ایک بہت ہی اہم 1999ء میں دریافت ہونے والی تحریر نقش زبیر کے نام سے مشہور ہے۔ اس میں لکھا ہے:
[ © Ali ibn Ibrahim Ghabbanp]
’’بسم اللّٰہ انا زبیر كتبت زمن توفى عمر سنۃ اربع وعشرین‘‘
(Ali Ghabban, R Hoyland, The inscription of Zuhayr, the oldest Islamic inscription (24 AH/AD 644–645), the rise of the Arabic script and the nature of the early Islamic state in: Arab. arch. epig. 2008: 19: 209–236 [2008])
یعنی اللہ کے نام کے ساتھ مَیں زبیر نے یہ تحریر اس وقت لکھی جب عمر فوت ہوئے سن چوبیس میں
اس تحریرکو1999ء میں علی ابراہیم غدبان اور ان کی اہلیہ نے شمالی سعودیہ کے علاقہ علاء میں دریافت کیا تھا۔ اس نقش کی کئی لحاظ سے اہمیت ہے۔ سب سے پہلے اس نقش میں لکھے جانے کا وقت تاریخ سے معین کیا گیا ہےیعنی زمانہ خلفائے راشدین یا معین طور پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا دور خلافت۔
دوسری بات یہ کہ اس سے ثابت ہوتا ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی وفات واقعۃً24ہجری میں ہی ہوئی جیسا کہ دوسری صدی کے اسلامی مؤرخین نے اپنی کتب میں لکھا ہے اور ساتھ اس طرح یہ بھی بتا دیا کہ ان تاریخی کتب میں تحریر کردہ تاریخ بہت حد تک مستند ہے اور اس لحاظ سے نظر انداز نہیں کی جاسکتی۔ اس کے علاوہ اس نقش میں بعض حروف پر نقطے بھی لکھے گئے ہیں، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نقطوں کا استعمال اُس شروع کے زمانہ میں بھی کسی حد تک رائج تھا۔ جبکہ آج کل عموماً یہی خیال کیا جاتا ہے کہ ایسا بہت بعد میں ہوا۔
تیسری بات یہ کہ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اس وقت ہجری کیلنڈر بھی زیر استعمال ہو چکا تھا جیسا کہ دوسر ی صدی کے مؤرخین نے بھی اس کیلنڈر کا اجراء حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے منسوب کیا ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت کی ہمیں دو اَور دستاویزات بھی ملتی ہیں جن میں سے ایک مصر میں لکھی گئی عربی اور یونانی میں اسلامی فوج کو دیے گئے رسد کی رسیدگی اطلاع ہے۔
(A Grohmann, I Arabische Chronologie, II Arabische Papyruskunde, Handbuch Der Orientalistik, EJ Brill)
جبکہ دوسری دستاویز سٹینڈفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر Donnerکا نیا دریافت کردہ ایک خط ہے، جس میں متعدد لوگوں کو مخاطب کیا گیا ہے جن میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا نام بھی ہے۔
(https://news.stanford.edu/2015/03/03/early-days-islam-030315/)
یہ خط ابھی زیر تحقیق ہے اور کہیں شائع نہیں ہوا تاہم یہ ایک نہایت دلچسپ نئی دریافت ہے۔
اسی طرح کچھ عرصہ پہلے سعودیہ کے علاقے تیماء سے دریافت کیا گیا نقش حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کا ذکر کرتا ہے۔ اس میں لکھا ہے:
’’انا قیس الکاتب ابو کتیر لعن اللّٰہ من قتل عثمان ابن عفٰن و من احت قتلہ تقتیلا‘‘
(F Imbert, Califes, Princes et Poètes Dans Les Graffiti du Début de l’Islam in: Romano-Arabica [2015] Vol. 15, pp. 65-66 and p. 75)
یعنی میں قیس ابو کتیر کا کاتب ہوں۔ اللہ کی لعنت ہو اُن پر جنہوں نے عثمان ابن عفان کو قتل کیا اور جو ان کے بھیانک قتل کے ذمہ دار ہیں۔
گو کہ اس تحریر میں تاریخ موجود نہیں مگر غالباً حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زمانے تقریباًً 655ءمیں لکھی گئی معلوم ہوتی ہے۔ یہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی دردناک شہادت کا پہلا آثار قدیمہ میں ملنے والا ثبوت ہے۔ اس تحریر کو لکھنے والا قیس اس دردناک واقعہ کی وجہ سے بہت متاثر لگتاتھا اسی لیے بڑے سخت الفاظ میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلوں پر لعنت بھیجتا ہے۔
آخر میں سعودیہ کے مشہور شہر طائف سے ملنے والے ایک نقش کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے۔ نقش کو لکھنے والا لکھتا ہے:
’’شھد الریان بن عبداللّٰہ انہ لا الہ الا اللّٰہ و شھد ان محمدا رسول اللّٰہ
[…]رحم اللّٰہ الریان و غفر لہ و استھد بہ الی صراط الجنۃ و اسالہ الشھادۃ فی سبیلہ۔ امین کتب ھذا الکتاب عام بنی المسجد الحرام لسنۃ ثمان و سبعین‘‘
(Nasir b Ali Al-Harithi, Naqsh Kitabi Nadar Yu‘arrikhu Imarah Al-Khalifah Al-Umawi Abd Al-Malik B. Marwan lil-Masjid Al-Haram ‘Am 78 AH, Alam Al-Makhtutat Wa Al-Nawadir [2007] Vol. 12, pp. 533 to 543)
ترجمہ: الریان بن عبد اللہ شہادت دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور شہادت دیتا ہے کہ محمد اللہ کے رسول ہیں (…)اللہ اس پر رحم کرے اور اسے جنت کے سیدھے راستہ پر چلائے۔ اور میں اس کی راہ میں شہادت کا طلبگار ہوں۔ آمین۔ یہ اس وقت لکھا گیا جب مسجد الحرام کو تعمیر کیا گیا سن 78میں۔
مسجد الحرام کو واقعۃً78ہجری میں حجاج بن یوسف کی حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے خلاف چڑھائی کے بعد مرمت کیا گیا تھا کیونکہ حجاج نے دورانِ محاصرہ منجنیقوں کا بڑے پیمانہ پر استعمال کیا تھا جس سے مسجدکی عمارت کو کافی نقصان پہنچا۔
(See Tabari: Tarikh ar-rusul wa l-mulÙk.)
اسی لیے اس کی مرمت اور بعض حصوں کی تعمیر کی ضرورت پڑی۔ اس طرح یہ نقش ان واقعات کی تصدیق کرتا ہے جن کا ذکر دوسری صدی ہجری کے مسلمان مؤرخین نے کیا ہے۔
مکہ کے پاس سے ملنے والے اسلام کے ابتدائی دور کے دو نقوش جنہیں اس مقالے کے مصنف نے 2016ء میں دریافت کیا۔ اس میں لکھا ہے:
’’صلوات اللّٰہ و الملئکۃ و الناس اجمعین علی عبد الرحمن بن کعب ابدا۔
تاب اللّٰہ علی عبد الرحمٰن ابن کعب توبۃ نصوحا ‘‘
عبد الرحمٰن ابن کعب کا نام تھذیب التھذیب میں عبد الرحمن ابن کعب ابن مالک الانصاری السلمی ابوالخطاب المدنی آیا ہے جو کہ حضرت کعب بن مالک کے بیٹے تھے۔ کعب بن مالک الانصاری وہی مشہور صحابی ہیں جن کا جنگ تبوک میں شامل نہ ہونے اور بعد میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے معافی کا واقعہ احادیث میں آتا ہے۔ ممکن ہے کہ یہ ان کے بیٹے کی تحریر ہو۔ واللّٰہ اعلم۔ یہ تحریر جبل النور پر غار حرا کے نزدیک موجود ہے۔
یہ صرف چند آثار قدیمہ سے ملنے والے شواہد کا ذکر ہے جن سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود اور دوسری صدی کے اسلامی مؤرخین کی بیان کردہ تاریخ کا مستند ہونا ثابت ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے انبیاء کی تاریخ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود پر سب سے زیادہ تاریخی اور آثار قدیمہ کے شواہد ملتے ہیں۔ مگر اسلام کی پہلی صدی سے متعلق آثار قدیمہ میں تحقیق کا کافی کام باقی ہے۔
٭…٭…٭