عاجزی و انکساری کو اپناؤ۔ تکالیف گناہوں کا کفارہ ہو جاتی ہیں
پانچویں شرط بیعت(حصہ دوم)
حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
اصل صبر تو صدمہ کے آغاز کے وقت ہی ہوتا ہے
(گذشتہ سے پیوستہ)پھر حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتؐ ایک عورت کے پاس سے گزرے جو ایک قبر کے پاس بیٹھی رو رہی تھی۔ آپؐ نے فرمایا اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور صبر کرو۔ اس عورت نے کہا: چلو دور ہو اور اپنی راہ لو۔ جو مصیبت مجھ پر آئی ہے وہ تم پر نہیں آئی۔ دراصل اس عورت نے آپؐ کو پہچانا نہیں تھا (تبھی اس کے منہ سے ایسے گستاخانہ کلمات نکلے) جب اسے بتایا گیا کہ یہ تو رسول اللہ ؐتھے تو وہ گھبرا کر آپ کے دروازہ پرآئی۔ وہاں کوئی دربان روکنے والا تو تھا نہیں اس لئے سیدھی اندرچلی گئی اور عرض کیا حضوؐر میں نے آپ کو پہچانا نہیں تھا۔ آپؐ نے فرمایا :اصل صبر تو صدمہ کے آغاز کے وقت ہی ہوتا ہے (ورنہ انجام کار تو سب لوگ ہی رو دھو کر صبر کرلیتے ہیں۔ )
(صحیح بخاری۔ کتاب الجنائز۔ باب زیارۃ القبور)
ایک بہت ہی اہم نکتہ پانچویں شرط میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ چاہے جو بھی حالات ہوں، تنگی اور تنگ دستی کے دن لمبے ہوتے جارہے ہوں، دنیاوی لالچیں سامنے نظر آرہی ہیں اور یہ بھی خیال آتا ہے اگر میں فلاں کام کروں اور اس طرف جھکوں تو بڑے فوائد حاصل کرسکتا ہوں۔ دنیاوی قوتیں بھی لالچ دے رہی ہوتی ہیں کہ کوئی بات نہیں۔ احمدی ہوتے ہوئے جماعت سے تعلق رکھتے ہوئے بھی تم یہ کام کرلو۔ یہ کاروبار کرلو اس سے تم اپنے حالات بھی بہتر کرلوگے پھرجماعت کی خدمت بھی چندے دے کر کرلوگے۔ تو یہ سب دجالی فتنے ہیں جماعت سے دور کرنے کے، خد اسے دور کرنے کے۔ اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر تم نے بیعت کی ہے تو پھران چکروں میں نہ پڑو۔ اس دھوکے سے دور رہو۔ خدا سے وفاداری کا نمونہ دکھائو۔ اس کی طرف جھکو تو تم میرے ہو اور تمہیں سب کچھ مل جائے گا۔ اس بارہ میں آنحضرت ؐ کی بڑی پیاری نصیحت ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ جبکہ میں آنحضرتؐ کے پیچھے سواری پر بیٹھا تھا۔ آپؐ نے فرمایا اے برخوردار میں تجھے چند باتیں بتاتا ہوں اول یہ کہ تو اللہ تعالیٰ کا خیال رکھ، اللہ تعالیٰ تیرا خیال رکھے گا۔ تو اللہ تعالیٰ پر نگاہ رکھ تو اسے اپنے پاس پائے گا۔ جب کوئی چیز مانگنی ہو تو اللہ تعالیٰ سے مانگ اور جب تو مدد طلب کرے تو اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کر اور سمجھ لے کہ اگر سارے لوگ اکٹھے ہوکر تجھے فائدہ پہنچانا چاہیں تووہ تجھے کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچاسکتے سوائے اس کے کہ اللہ چاہے اور تیری قسمت میں فائدہ لکھ دے۔ اور اگر وہ تجھے نقصان پہنچانے پر اتفاق کرلیں توتجھے نقصان نہیں پہنچا سکیں گے سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ تیری قسمت میں نقصان لکھ دے۔ قلمیں اٹھا کر رکھ دی گئی ہیں اورصحیفۂ تقدیر خشک ہوچکا ہے۔
(سنن ترمذی۔ کتاب صفۃ القیامۃ۔ باب نمبر59)
ایک اَور روایت میںہے کہ آنحضرت ؐ نے فرمایا اللہ تعالیٰ پر نگاہ رکھ تو اسے اپنے سامنے پائے گا۔ تو اللہ تعالیٰ کو خوش حالی میں پہچان اللہ تعالیٰ تجھے تنگدستی میں پہچانے گا اور سمجھ لے کہ جو تجھ سے چوک گیا اور تجھ تک نہیں پہنچ سکا وہ تیرے نصیب میں نہیں تھا اور جوتجھے مل گیا ہے وہ تجھے ملے بغیر نہیں رہ سکتا تھا کیونکہ تقدیر کا لکھا یوں ہی تھا۔ جان لو کہ اللہ تعالیٰ کی مدد صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے او ر خوشی بے چینی کے ساتھ مل ہوئی ہے اور ہر تنگی کے بعد یسر اور آسانی ہے۔ (یہ روایت باعتبار مضمون مسند احمد بن حنبل جلد1 صفحہ 307مطبوعہ بیروت میں ہے۔ نیز یہ اور اس سے پہلی روایت ’’حدیقۃالصالحین‘‘ مرتّبہ حضرت ملک سیف الرحمٰن صاحب میں زیرحدیث نمبر101آئی ہیں۔)
(ریاض الصّالحین للامام النوّوی۔ باب المراقَبۃ۔ حدیث نمبر62)
آنحضرتﷺ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کیلئے حالانکہ، آپ کا کوئی فعل اللہ تعالیٰ کی رضاکے بغیر تھا ہی نہیں، پھر کس درد سے دعا مانگتے تھے۔
روایت ہے کہ محمد بن ابراہیم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا کہ میں رسول اللہ ؐ کے پہلو میں سوئی ہوئی تھی۔ پھر رات کے حصہ میں مَیں نے حضور کو وہاں نہ پایا۔ پھر ٹٹولنے پر اچانک میرا ہاتھ حضور کو چھو گیا اور ہاتھ حضور کے قدم مبارک پر لگا جبکہ آپؐ سجدہ کر رہے تھے اور اس دوران دعا کر رہے تھے کہ اے اللہ میں تیری ناراضگی سے تیری رضا کی پناہ مانگتا ہوں اور تیری سزا سے تیری معافی کی پناہ میں آتا ہوں۔ میں تیری ثنا کا شمار نہیں کرسکتا۔ تو ویسا ہی ہے جیسا خود تو نے اپنی ذات کی ثنابیان فرمائی ہے۔
(سنن ترمذی۔ کتاب الدعوات۔ باب ماجاء فی عقدالتّسبیح بالید)
پھر ایک روایت میں ہے کہ مدینہ کے ایک شخص سے حضرت عبد الوہاب بن ورد روایت کرتے ہیں کہ حضرت معاویہ نے حضرت عائشہ کی خدمت میں لکھا کہ مجھے تحریراً کوئی نصیحت فرمائیں۔ اس پر حضرت عائشہ نے انہیں لکھ کر بھیجا۔ السلام علیکم۔ میں نے رسول اللہ ؐ کو یہ فرماتے سنا ہے کہ جو شخص لوگوں کو ناراض کرکے بھی اللہ کی رضا کا طالب ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ لوگوں کے بالمقابل خود اس کے لئے کافی ہو جاتا ہے اور جو شخص لوگوں کی رضا جوئی کی خاطر اللہ تعالیٰ کو ناراض کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اُسے لوگوں کے سپرد کر دیتا ہے۔
(سنن ترمذی۔ کتاب الزھد۔ باب ماجاء فی حفظ اللّسان۔حدیث نمبر 2414)
تم خدا کی آخری جماعت ہو
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اللہ تعالیٰ سے وفا کا تعلق قائم رکھنے کیلئے اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ضرور ہے کہ انواع رنج و مصیبت سے تمہارا امتحان بھی ہوجیسا کہ پہلے مومنوں کے امتحان ہوئے۔ سو خبر دار رہو ایسا نہ ہو کہ ٹھوکر کھائو۔ زمین تمہارا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتی اگر تمہارا آسمان سے پختہ تعلق ہے۔ جب کبھی تم اپنا نقصان کروگے تو اپنے ہاتھوں سے نہ دشمن کے ہاتھوں سے۔ اگر تمہاری زمینی عزت ساری جاتی رہے تو خدا تمہیں ایک لازوال عزت آسمان پر دے گا۔ سو تم اس کو مت چھوڑو۔ اور ضرور ہے کہ تم دُکھ دئے جائو اور اپنی کئی امیدوں سے بے نصیب کیے جائو۔ سو ان صورتوں سے تم دلگیر مت ہو کیونکہ تمہارا خدا تمہیں آزماتا ہے کہ تم اس کی راہ میں ثابت قدم ہو یا نہیں۔ اگر تم چاہتے ہو کہ آسمان پر فرشتے بھی تمہاری تعریف کریں تو تم ماریں کھائو اور خوش رہو اور گالیاں سنو اور شکرکرو اور ناکامیاں دیکھو اور پیوند مت توڑ و۔ تم خداکی آخری جماعت ہو سو وہ عمل نیک دکھائو جو اپنے کمال میں انتہائی درجہ پر ہو۔ ہرایک جو تم میں سست ہو جائے گا وہ ایک گندی چیز کی طرح جماعت سے باہر پھینک دیا جائے گا او رحسرت سے مرے گا اور خدا کا کچھ نہ بگاڑ سکے گا۔ دیکھو میں بہت خوشی سے خبر دیتا ہوں کہ تمہارا خدا درحقیقت موجود ہے۔ اگرچہ سب اسی کی مخلوق ہے لیکن وہ اس شخص کو چن لیتا ہے جو اس کو چنتا ہے۔ وہ اس کے پاس آجاتا ہے جو اس کے پاس جاتا ہے۔ جو اس کو عزت دیتا ہے وہ بھی اس کو عزت دیتا ہے‘‘۔
(کشتی نوح۔ روحانی خزائن جلد19۔ صفحہ15)
پھرآپ فرماتے ہیں ’’ ہم کو تو چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کو راضی کریں اور اس کے لئے ضرورت ہے اخلاص کی، صدق و وفا کی، نہ یہ کہ قیل وقال تک ہی ہماری ہمت و کوشش محدود ہو۔ جب ہم اللہ تعالیٰ کو راضی کرتے ہیں پھر اللہ تعالیٰ بھی برکت دیتا ہے اور اپنے فیوض و برکات کے دروازے کھول دیتا ہے۔ … اس تنگ دروازے سے جو صدق و وفا کا دروازہ ہے گزرنا آسان نہیں۔ ہم کبھی ان باتوں سے فخرنہیں کرسکتے کہ رؤیا یا الہام ہونے لگے اور ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ رہیں اور مجاہدات سے دستکش ہورہیں اللہ تعالیٰ اس کو پسند نہیں کرتا‘‘۔
(البدر۔ جلد3۔ نمبر18-19۔ بتاریخ 8تا16؍مئی1904ء۔ صفحہ10)
پھر آپؑ نے فرمایا ’’ ہر مومن کا یہی حال ہوتا ہے اگر وہ اخلاص اور وفاداری سے اس کا ہو جاتا ہے تو خدا تعالیٰ اس کاولی بنتا ہے لیکن اگر ایمان کی عمارت بوسیدہ ہے تو پھر بے شک خطرہ ہوتا ہے۔ ہم کسی کے دل کا حال تو جانتے ہی نہیں۔ … لیکن جب خالص خدا ہی کا ہو جاوے تو خدا تعالیٰ اس کی خاص حفاظت کرتا ہے۔ اگرچہ وہ سب کا خدا ہے مگر جو اپنے آپ کو خاص کرتے ہیں ان پر خاص تجلی کرتا ہے اور خدا کے لئے خاص ہونا یہی ہے کہ نفس بالکل چکنا چور ہوکر اس کا کوئی ریزہ باقی نہ رہ جائے۔ اس لئے میں بار باراپنی جماعت کو کہتا ہوں کہ بیعت پر ہرگز ناز نہ کرو۔ اگر دل پاک نہیں ہے ہاتھ پر ہاتھ رکھنا کیا فائدہ دے گا… مگرجو سچا اقرار کرتا ہے اس کے بڑے بڑے گناہ بخشے جاتے ہیں اور اس کو ایک نئی زندگی ملتی ہے‘‘۔
(ملفوظات۔ جدید ایڈیشن۔ جلد سوم۔ صفحہ65)
(باقی آئندہ)