’’احمدیت کے گرد سچائی اور دیانت کی دیوار بنا دیں‘‘
مخالفین احمدیت کی جانب سے جماعت کو بدنام کرنے کے پراپیگنڈا کے سدِ باب کا طریق بیان کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ جماعت احمدیہ کے نام اپنے ایک پیغام میں فرماتے ہیں:
’’……مَیں دوستوں سے دریافت کرتا ہوں کہ کیا انہوں نے غور بھی کیا ہے کہ احمدیت کس قسم کی قربانیوں کا ان سے مطالبہ کرتی ہے۔ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ جب احمدیت ان سے جان کا مطالبہ کرتی ہے تو اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں ہوتا کہ جائو اور جا کر کسی سے جنگ کرو اور نہ یہ مطلب ہوتا ہے کہ کسی کو مار کر پھانسی چڑھ جائو کیونکہ یہ دونوں باتیں احمدیت کی تعلیم کے خلاف ہیں۔ امرِ اوّل اس لئے جائز نہیں کہ یہ امر حکومت سے تعلق رکھتا ہے اور حکومت اس وقت احمدیوں کے ہاتھ میں نہیں اور امرِ دوم اس لئے جائز نہیں کہ اسلام ہمیں قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دیتا۔ پس جب یہ دونوں صورتیں ناجائز ہیں تو یقینا احمدیت کا جانی قربانی کا مطالبہ کسی دوسری صورت ہی میں ہو سکتا ہے اور اسی صورت میں جان کو پیش کرنا سچے طور پر امام کی آواز پر لَبَّیْکَ کہنا کہلا سکتا ہے۔
پس جو دوست میری آواز پر لَبَّیْکَ کہہ رہے ہیں یا لبیک کہنے کا دل میں ارادہ کر رہے ہیں،انہیں خوب سمجھ لینا چاہئے کہ اس وقت کی جانی قربانیاں گزشتہ زمانے کی جانی قربانیوں سے مختلف ہیں اور اگر میں اس وقت کی مشکلات کو سمجھنے میں غلطی نہیں کرتا تو میں کہہ سکتا ہوں کہ موجودہ زمانہ کی نفسی کیفیات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ قربانیاں اگر پہلی قربانیوں سے زیادہ مشکل نہیں تو کم بھی نہیں ہیں۔ ہم ایک ایسے زمانہ میں پیدا ہوئے ہیں جس میں جھوٹ اور فریب کو تمدّنی اور سیاسی تقدس حاصل ہے۔ یعنی تمدن اور سیاست نے اس زمانہ میں جھوٹ کو اپنی حفاظت میں لے لیا ہے۔ پہلے زمانہ میں لوگ جھوٹ تو بولتے تھے مگر کہتے یہی تھے کہ جھوٹ بُری شَے ہے لیکن آج اسے سیاست اور تمدن کا ایک جزو قرار دیا گیا ہے اور اس زمانہ کے لوگوں کا عقیدہ یہ ہے کہ جھوٹ وہی گناہ ہے جو پکڑا جائے اور ناکام رہے۔ جو جھوٹ پکڑا نہیں جاتا اور ناکام نہیں رہتا وہ گناہ نہیں۔ یہ بات لوگوں کے ذہنوں میں اس قدر راسخ ہو چکی ہے کہ شاید بہت سے لوگ دنیا کی ذہنیت میں اس تبدیلی کے وقوع کو محسوس بھی نہیں کرتے بلکہ یہ جھوٹ اب اس قدر پھیل گیا ہے کہ بہت سے لوگ جھوٹ بولتے ہوئے خود بھی محسوس نہیں کرتے کہ وہ جھوٹ بول رہے ہیں۔ تمدنی تعلقات، سیاسی معاملات، مذہبی مباحثات ،معاشرتی اُمور سب کے سب جھوٹ پر مبنی کر دیئے گئے ہیں۔ کیا یہ عجیب متناقض دعوے نہیں ہیں؟ کہ آجکل سچا دوست اسے سمجھا جاتا ہے جو دوست کی خاطر جھوٹ بولے، ملک کا سچا خیر خواہ وہ ہے جو مخالف حکومت کو سب سے زیادہ جُل دے سکے، سچ اور جھوٹ کی یہ آمیزش پہلے کسی زمانہ میں نہیں ملتی۔ اس پُر آشوب زمانہ میں رہتے ہوئے ہم لوگ بحیثیت جماعت کب اس گندگی سے بچ سکتے ہیں؟ میں ذاتی طور پر اپنے قضاء کے تجربہ کی بناء پر کہہ سکتا ہوں کہ کئی عام حالتوں میں سچ بولنے والے احمدی جب ایک دوست کو مصیبت میں دیکھتے ہیں تو اس کے بچانے کے لئے اپنے بیان میں ایسی تبدیلی کر دیتے ہیں جو اِن کے دوست کے فائدہ کیلئے ہو۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ احمدیوں کا سچائی کا معیار دوسروں سے بہت بالا ہے مگر ایک دودھ کے پیالے میں پیشاب کا ایک قطرہ بھی تو اسے گندہ کر دیتا ہے اور جسمِ انسانی کے ایک حصہ میں جو مرض پیدا ہو بقیہ حصہ بھی تو اس کے اثرات سے محفوظ نہیں کہلا سکتا۔ کیا تم خیال کرتے ہو کہ اس مرض کو دُور کرنے کے بغیر ہم کامیاب ہو سکتے ہیں؟ یا اپنے دشمنوں کو زیر کر سکتے ہیں؟ دشمن ہم پر جھوٹ باندھتا ہے اور بعض حکام کو بھی وہ اپنے ساتھ شامل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے لیکن ایسے ظلموں کو تم کُلّی طور پر کس طرح دُور کر سکتے ہو۔ اسلام کے ابتدائی زمانہ میں اس پر ظلم ہوئے اور بہت ہوئے مگر اس کی ترقی کا زمانہ بھی تو ایسی مثالوں سے خالی نہیں۔ ایک جابر بادشاہ پر بھی تو بعض دفعہ لوگ ظلم کر سکتے ہیں ایک فاتح جرنیل بھی تو کبھی کبھار مشکلات کا شکار ہو سکتا ہے پس ہمیں اس امر کے خلاف شکوہ نہیں ہے اور ہو بھی نہیں سکتا۔ ہمیں تو اس ماحول کے خلاف شکوہ ہے جو ہماری تبلیغ کے راستہ میں روک بن گیا ہے۔ اس شُہرت کے خلاف شکوہ ہے جو غلط پراپیگنڈا(PROPAGANDA) کے ذریعہ سے جماعت کے خلاف لوگوں میں پیدا کر دی گئی ہے اور اس میں کیا شک ہے کہ اس شہرت کو دُور کرنے کا صرف ایک ہی ذریعہ ہو سکتا ہے کہ جماعت کے لوگ احمدیت کے اردگرد ایک ایسی مضبوط دیوار بنا دیں کہ دُشمن کا پراپیگنڈا اس کو توڑ کر آگے نہ جا سکے اور یہ دیوار سچائی اور دیانت کی دیوار کے سوا اور کونسی ہو سکتی ہے؟ جو شخص اپنے تجربہ سے احمدیت کے اخلاق کا قائل ہو جائے وہ دوسرے کی بات کو کب تسلیم کرے گا؟ مجھے ایک دوست نے سنایا کہ ان سے ایک بڑے افسر نے کہا کہ میرے ساتھ جس قدر احمدیوں نے کام کیاہے ان کو دیکھتے ہوئے میں کہہ سکتا ہوں کہ احمدی نہایت دیانت دار ہوتے ہیں۔ وہ دوست کہتے ہیں کہ اس افسر پر آپ کے متعلق بُرا اثر ڈالا گیا تھا اس لئے میں نے جواب دیا کہ کیا آپ سمجھ سکتے ہیں کہ جس شخص نے ہمیں دیانت اور سچائی سکھائی ہے وہ خود بددیانت ہوگا؟ اور اس کا اس افسر پر گہرا اثر پڑا۔‘‘
(جماعت احمدیہ سے قربانی کا مطالبہ، انوارالعلوم جلد 15 صفحہ 134 تا 136)