زمانۂ مسیح موعود میں ظاہر ہونے والی علامات اور ان کا مصداق (قسط سوم۔ آخری)
سورۃ الانفطار میں آخری زمانہ اور قیامت صغریٰ کی علامات کامضمون بیان کرتے ہوئےاللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
اِذَا السَّمَآءُ انۡفَطَرَتۡ
(الِانْفطار:2)
کہ جب آسمان پھٹ جائے گا۔ یعنی جس زمانہ میں مسیح موعود کا ظہور ہو گا اس زمانہ میں شرک اور عیسیٰ پرستی دنیا میں پھیل چکی ہو گی جس کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ زمین پر عذاب نازل کرنے کا فیصلہ کرے گا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ عیسیٰ پرستی کی وجہ سے قریب ہے کہ آسمان پھٹ جائے۔ (سورہ مریم:91) یعنی دنیا میں طرح طرح کے عذابوں کا سلسلہ جاری ہو گا۔ چنانچہ تیرہویں صدی کے آخر میں ہندوستان میں عیسائیت کے عروج کے بعد یہ نشان ظاہر ہوئے۔ 1896ء تا 1906ء تک طاعون، 1914ء سے جنگ عظیم کا آغاز اور1891ء میں مشرقی دنیا کے ایک ملک جاپان میں زلزلہ، 1897ء میں آسام ہندوستان میں سخت ہولناک زلزلہ، 1902ء میں ویسٹ انڈیز میں ہیبت ناک زلزلہ، 1905ء میں کانگڑہ کے زلزلے، 1906ء میں مغربی دنیا کے ملک سان فرانسسکو امریکہ میں زلزلہ کے ذریعہ یہ پیشگوئی پوری ہوئی۔
فرمایا:
وَإِذَا الْكَوَاكِبُ انْتَثَرَتْ (الِانْفطار:3)
جب ستارے جھڑ جائیں گےیعنی حقیقی علمائے دین دنیا سے نابود ہو جائیں گے اور ہدایت دینے والے لوگ کم ہوجائیں گے۔
جیساکہ سورة تکویر کی آیت
وَإِذَا النُّجُومُ انْكَدَرَتْ (التكوير :3)
میں تفصیل بیان ہوچکی ہے۔
پھر فرمایا:
وَإِذَا الْبِحَارُ فُجِّرَتْ(الِانْفطار:4)
یعنی سمندر یا دریا پھاڑ دیے جائیں گے جیساکہ سورۃ التکویر کی آیت
وَاِذَاالْبِحَارُ سُجِّرَتْ
میں بیان ہوا ہے۔ یعنی سمندروں کو باہم ملایاجائےگا جیسے نہرسویز اور پانامہ اور دریاؤں کو پھاڑ کر نہریں بنائی گئیں۔
پھر فرمایا
وَإِذَا الْقُبُوْرُ بُعْثِرَتْ(الِانْفطار:5)
یعنی جب قبریں اکھیڑی جائیں گی۔ اس آیت میں تحقیقات آثار قدیمہ کی طرف اشارہ ہے کہ اس زمانہ میں مدفون بستیاں اور پرانے مقبرے اکھیڑ کرنعشیں مختلف عجائب گھروں میں رکھی جائیں گی۔ جیساکہ اس زمانہ میں یہ پیشگوئی بھی پوری ہورہی ہے۔
سورۃ الانشقاق میں آخری زمانہ کی پیشگوئیاں اور متواتر نشانات
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
اِذَا السَّمَآءُ انۡشَقَّتۡ (الِانْشقاق :2)
جب آسمان پھٹ جائے گا یعنی آسمان سے متواترنشانات کے ظہور کا سلسلہ شروع ہوگاجیساکہ حدیث میں بھی مذکور تھا کہ موتیوں کی مالا ٹوٹنے سے موتی گرنے کی طرح متواتر نشان ظاہر ہوں گے۔ چنانچہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دعویٰ مسیح و مہدی کے زمانہ میں 1882ء میں ذوالسنین یعنی دمدار ستارہ کے طلوع ہونے، 1885ءمیں شہاب ثاقبہ کے گرنےاور1894ء میں مشرقی دنیا میں اور1895ء میں مغربی دنیا میں چاند اور سورج کے گرہن جیسے واقعات مسلسل ہوئے۔
فرمایا:
وَأَذِنَتْ لِرَبِّهَا وَحُقَّتْ (الِانْشقاق:3)
یعنی جیساکہ نشانات کی کثرت کا تقاضا تھا ان کی وجہ سے بڑے بڑے لوگ اور عالم بھی خدا تعالیٰ کی باتوں پر غورکے لیے تیار ہوجائیں گے۔
جدید تحقیقات اور زمین کی توسیع
پھر فرمایا:
وَإِذَا الْأَرْضُ مُدَّتْ (الِانْشقاق:4)
اور جب زمین پھیلادی جائےگی یعنی مسیح موعود کے زمانہ میں تحقیقات سے ثابت ہوجائےگا کہ کئی اور کرّے بھی زمین کا حصہ ہیں جیسے چاند اور مریخ وغیرہ۔ چنانچہ اس زمانہ میں اسی خیال کے تحت راکٹ وغیرہ کے ذریعہ ان کرّوں تک رسائی کی کوشش کی گئی۔ چاند پر تو انسان پہنچنے میں کامیاب بھی ہوگیا اور دیگر ستاروں تک رابطہ کرکے زمین کو وسعت دینے کی یہ کوشش جاری ہے۔
خلائی سفر میں اہم ترین پیش رفت ’’خلائی شٹل‘‘ کی ایجاد ہے۔ خلائی سفرکے سلسلے میں وائجر اول اور وائجر دوم انسان کی ترقی کا بے مثال کارنامہ کہے جاسکتے ہیں۔ جوکہ نظام شمسی کے سیاروں کے مطالعہ خاص کے لیے روانہ کیے گئے۔ ان بے مثال خلائی جہازوں نے سیاروں کے متعلق بے انتہا قیمتی معلومات فراہم کیں۔ وائجر اول اور دوم اب کبھی لوٹ کر زمین پر واپس نہیں آئیں گے لیکن ان کی سائنسی دریافتیں، ان کی غیر معمولی معلومات اور روداد سفر ضرور ہم تک پہنچتی رہیں گی، اسی طرح اب تک جتنے بھی روانہ کردہ خلائی مشن اس وقت محو پرواز ہیں اور زمین سے رابطے میں ہیں، انسانیت ان کی معلومات سے فیضیاب ہوتی رہے گی۔ الغرض مسیح و مہدی کے اس زمانہ میں آسمانی علوم علم فلکیات میں غیرمعمولی ترقیات ہوئیں اور اس قرآنی پیشگوئی کے پورا ہونے کا ثبوت بنیں۔
پھر فرمایا:
وَأَلْقَتْ مَا فِيْهَا وَتَخَلَّتْ (الِانْشقاق:5)
اور جو کچھ اس مىں ہے نکال پھىنکے گى اور خالى ہو جائے گى یعنی علم ارضیات کی تحقیق کے نتیجہ میں زمین کے اتنے راز ظاہر ہوں گے کہ ایسے معلوم ہوگا کہ کوئی راز باقی نہیں رہا۔
اس کے بعد فرمایا:
يَا أَيُّهَا الْإِنْسَانُ إِنَّكَ كَادِحٌ إِلَى رَبِّكَ كَدْحًا فَمُلَاقِيْهِ (الِانْشقاق:7)
یعنی اے انسان! یہ الٰہی نشانات دیکھ کر ہی کم ازکم تجھے اللہ تعالیٰ کو پانے اور اس کے لیے محنت و مجاہدہ کی طرف توجہ ہونی چاہیے۔ اور خدا کی ذات اور آخرت پر پختہ ایمان کے نتیجہ میں ہی یہ سب حاصل ہوسکتا ہے۔ اسی مناسبت سے یہاں یوم جزا کا ذکرکرنے کے بعد پھر فرمایا:
فَلَا أُقْسِمُ بِالشَّفَقِ (الِانْشقاق:17)
کہ ہم شہادت کے طور پر شفق کو پیش کرتے ہیں جو سورج ڈوبنے کے بعد تھوڑی دیر رہتی ہے کہ ایسے ہی اسلام کے سورج ڈوبنے کا زمانہ بھی شفق کی طرح مختصر اور چھوٹا ہوگا اور اسلام ایک تاریک رات کی لپیٹ میں آنے کے بعد اسی قانون طبعی اور سنت الٰہی کے مطابق پھر سورج کے طلوع ہونے کا زمانہ بھی دیکھے گا۔
پھر فرمایا:
وَالْقَمَرِ إِذَا اتَّسَقَ (الِانْشقاق:19)
ہم چاند کو بھی جب وہ تیرہویں کا ہوجائے شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں یعنی اسلام کے سورج کا یہ آغاز تیرہویں صدی ہجری سے ہوجائے گا اور جس طرح چودہویں پندرہویں سولہویں راتوں کا چاند تقریباً مکمل ہوتا ہے اس طرح ان صدیوں میں اسلام کی ترقی مکمل ہوگی۔
اس کے بعد فرمایا کہ لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ ایسے اور اتنے نشان دیکھ کر بھی ایمان نہیں لاتے اور یہ قرآنی آیات و نشان پاکر بھی اطاعت نہیں کرتے بلکہ تکذیب پر کمربستہ رہتے ہیں جیساکہ فی زمانہ ہورہا ہے۔
سورہ تکویر، انفطار اور انشقاق کی پیشگوئیاں اور ان میں بیان کردہ نشانات فی زمانہ جس شان سے روشن اور واضح طور پر پورے ہورہے ہیں دراصل ان کو ان سورتوں کے آخر میں قیامت کبریٰ کی دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ اسی لیے رسول اللہﷺ نے فرمایا تھا کہ جس نے قیامت کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا ہے ان سورتوں کو پڑھ لے۔
بلکہ ایک اور روایت میں ذکر ہے کہ
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ أَبُو بَكْرٍ: يَا رَسُولَ اللّٰهِ قَدْ شِبْتَ، قَالَ: شَيَّبَتْنِي هُودٌ، وَالوَاقِعَةُ، وَالمُرْسَلاَتُ، وَعَمَّ يَتَسَاءَلُونَ، وَ’’إِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ‘‘.
(ترمذی ابواب تفسیر القرآن بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ الوَاقِعَةِ)
یعنی آنحضرتﷺ نے سورة التکویر کے ساتھ بعض اور سورتوں ہود، الواقعہ، مرسلات اور النبأ کا ذکرکرکے فرمایا کہ ان سورتوں نے مجھے بوڑھا کردیا۔
اس کی بھی یہی وجہ ہے کہ ان سورتوں میں آخری زمانۂ مسیح موعود کی علامات اور نشانات کے ساتھ ایک موعودمصلح کی تکذیب کے بعد گذشتہ قوموں کی طرح ہلاکت کااشارہ ہے۔ جو کوئی خوش ہونے کی بات نہیں اس لیے رسول کریمﷺ کو بھی غم اور فکر دامن گیر ہوا۔
سورة ہود میں ایک موعود کا ذکر
چنانچہ سورہ ٔہود میں قوم نوح، قوم ہود، قوم صالح، قوم ابراہیم و لوط اور قوم شعیب مدین اور قوم موسیٰ کے اپنے نبیوں کے انکار کے بعد ہلاکت کا ذکر ہے۔ اور موعودآخرالزمان کی صداقت کے دلائل میں ایک دلیل کے طور پر سورۂ ہودآیت 18 میں ایک طرف استثناء18/18کے مطابق آپؐ کے حق میں حضرت موسیٰؑ کی پیشگوئی اور دوسرے وَيَتْلُوْهُ شَاهِدٌ مِنْهُ میں رسول اللہﷺ کی پیروی میں آپ کے بعد آنےوالے تائید ی گواہ مسیح و مہدی کی آمد کی پیشگوئی کرکے فرمایا کہ جو احزاب(یعنی مسلمان فرقے) اس موعود کا انکار کریں گے ان کا ٹھکانہ آگ ہوگا جیساکہ اس کی تشریح میں خود رسول اللہﷺ نے 73فرقوں کی نشاندہی کرکے كُلُّهُمْ فِي النَّارِ إِلَّا مِلَّةً وَاحِدَةً (ترمذی) کی وضاحت فرمائی۔ چنانچہ مکمل حدیث مع حوالہ ذیل میں درج ہے:
عَنْ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ عَمْرو، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَيَأْتِيَنَّ عَلَى أُمَّتِي مَا أَتَى عَلَى بَنِيْ إِسْرَائِيْل حَذْوَ النَّعْلِ بِالنَّعْلِ، حَتَّى إِنْ كَانَ مِنْهُمْ مَنْ أَتَى أُمَّهُ عَلاَنِيَةً لَكَانَ فِي أُمَّتِيْ مَنْ يَصْنَعُ ذٰلِكَ، وَإِنَّ بَنِيْ إِسْرَائِيْل تَفَرَّقَتْ عَلَى ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِيْنَ مِلَّةً، وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِيْ عَلَى ثَلَاثٍ وَسَبْعِيْنَ مِلَّةً، كُلُّهُمْ فِي النَّارِ إِلَّا مِلَّةً وَاحِدَةً، قَالُوْا: وَمَنْ هِيَ يَا رَسُولَ اللّٰهِ؟ قَالَ: مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي۔
(ترمذی ابواب الایمان بَابُ مَا جَاءَ فِيْمَنْ يَمُوتُ وَهُوَ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللّٰهُ)
اورسورت کی آخری آیات میں فرمایا کہ یہ باتیں مومنوں کےلیے تو نصیحت ہوںگی مگرمنکروں کو انذار و انتباہ کرتے ہوئے فرمایا کہ
وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُوْنَ (هود :123)
اور انتظار کرو ہم بھى ىقىناً انتظار کرنے والے ہىں کہ کہیں تمہارا بھی وہ انجام نہ ہو جو پہلی قوموں کا ہوا۔
سورۂ واقعہ میں آخری زمانہ کی جماعت کی پیشگوئی
اسی طرح سورة الواقعہ کی مکی سورت میں رسول اللہﷺ کے ذریعہ اسلام کے غالب آنے کے عظیم واقعہ کا ذکرکرکے بتایا کہ آپؐ کے صحابہ کی طرح قربانی کرنےوالی ایک دوسری جماعت
وَثُلَّةٌ مِنَ الْآخِرِينَ (الواقعة :41)
ہوگی۔ اور ان جماعتوں کی اس دنیا میں کامیابیاں آخرت کے ثبوت کے لیے گواہ ہوںگی اور وہاں بھی انکار کرنے والے اصحاب الشمال کے بارہ میں جہنم کا فیصلہ ہوگا۔
اب ظاہر ہے یہ بات بھی رحمۃ للعالمین کے لیے دکھ کا موجب تھی کہ آپ کی امت کا ایک گروہ بوجہ انکار عذاب کا شکار ہوگااور یہ غم آپ کے بڑھاپے کا موجب ہوا۔
سورة المرسلات میں آخری زمانہ میں سب نبیوں کے مثیل کی آمد کی خبر
پھر سورة المرسلات میں بھی بعض تووہی نشان دہرائے ہیں جو سورة تکویر میں زمانہ ٔ مسیح موعود میں بطور پیشگوئی بیان ہوئے تھے۔ مثلاً
فَإِذَا النُّجُومُ طُمِسَتْ (المرسلات: 9)
جب ستارے ماند پڑجائیں گے یعنی علماء میں بگاڑ پیدا ہوجائےگا۔
وَإِذَا السَّمَآءُ فُرِجَتْ (المرسلات:10)
اور آسمان میں شگاف ہوجائیں گے۔ یعنی الہام کا سلسلہ پھر شروع ہوگا کہ خدا کے مسیح اور مہدی کا ظہور ہوگا۔
وَإِذَا الْجِبَالُ نُسِفَتْ (المرسلات :11)
یعنی دنیاکے بادشاہ گرائے جائیں گے اور قوموں میں عروج و زوال ہوگا۔
وَإِذَا الرُّسُلُ أُقِّتَتْ(المرسلات:12)
یہ وہ زمانہ ہوگا جب سب رسول اس وقت ِمقرر پر لائے جائیں گے یعنی مسیح و مہدی جو آنحضرتؐ کی غلامی میں آئےگا، اس کا آنا سب نبیوں کا آنا ہوگا۔
آیت15 میں مکہ کے ابتدائی دور میں نازل ہونے والی اس سورت میں ’’یَوۡمُ الۡفَصۡلِ‘‘ یعنی فیصلہ کے دن کے حوالے سے فتح مکہ کی طرف اشارہ کرکے فرمایا :
وَیۡلٌ یَّوۡمَئِذٍ لِّلۡمُکَذِّبِیۡنَ (المرسلات:16)
اور واضح فرمایا کہ وہ دن خدا کے نبیوں کے جھٹلانے والوں کی تباہی کا دن ہوگا۔
یہ دن قیامت نہیں ہوسکتا کیونکہ اس دن کوئی نبی مبعوث نہیں کیا جائےگا بلکہ دنیا سے متعلق ہی یہ سب آیات ہیں۔
چنانچہ آیت31میں آخری زمانہ کے مامور کو جھٹلانے والوں کے لیے تین شعبوں والے عذاب کا ذکر ہے یعنی ایسی عالمی جنگ عظیم جو برّی، بحری اور فضائی حملوں پر مشتمل ہوگی اور آسمان سے آگ کے شعلے پھینکے گی۔ یہ واقعہ بھی قیامت کا نہیں بلکہ اسی دنیا کا ہے جن کے ظہور کے بعد قیامت کے ثبوت میں کوئی شبہ باقی نہیں رہے گا۔ اس لیے اس کے بعد آخر میں کچھ قیامت کا ذکر ہے۔
سورة النبأ میں یَوْمُ الْفَصْلِ یعنی فتح مکہ کی پیشگوئی
چوتھی مکی سورت النبأہے جو رسول اللہﷺ کے بال سفید کرنے کا موجب ہوئی۔ اس سورت میں بھی گذشتہ سورةالمرسلات کے مضمون کو جاری رکھتے ہوئے یَوۡمُ الۡفَصۡلیعنی فیصلہ کے دن کی حقیقت نبأ عظیم یعنی عظیم الشان خبر کے طور پر فتح مکہ کی پیشگوئی بیان کی گئی ہے۔ جس کے ظہور کو آخرت کی دلیل اور ثبوت کے طور پر پیش کیا اور بتایا کہ انکار کرنے والے اس دنیا میں عذاب کے مورد ہوں گے۔
حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ ان تمام علامات کو اپنے زمانہ میں پورا ہونے کے متعلق فرماتے ہیں کہ
’’اس آخری زمانہ کی نسبت خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں یہ خبریں بھی دی تھیں کہ کتابیں اور رسالے بہت سے دنیا میں شائع ہو جائیں گے اور قوموں کی باہمی ملاقات کے لئے راہیں کھل جائیں گی۔ اور دریاؤں میں سے بکثرت نہریں نکلیں گی۔ اور بہت سی نئی کانیں پیدا ہو جائیں گی۔ اور لوگوں میں مذہبی امور میں بہت سے تنازعات پیدا ہوں گے۔ اور ایک قوم دوسری قوم پر حملہ کرے گی۔ اور اسی اثناء میں آسمان سے ایک صُور پھونکی جائے گی۔ یعنی خدا تعالیٰ مسیح موعود کو بھیج کر اشاعت دین کے لئے ایک تجلّی فرمائے گا۔ تب دین اسلام کی طرف ہر ایک ملک میں سعید الفطرت لوگوں کو ایک رغبت پیدا ہو جائے گی۔ اور جس حد تک خدا تعالیٰ کا ارادہ ہے تمام زمین کے سعید لوگوں کو اسلام پر جمع کرے گا۔ تب آخر ہو گا۔ سو یہ تمام باتیں ظہور میں آگئیں۔ ایسا ہی احادیثِ صحیحہ میں آیا تھا کہ وہ مسیح موعود صدی کے سر پر آئے گا۔ اور وہ چودھویں صدی کا مجدّد ہو گا۔ سو یہ تمام علامات بھی اس زمانہ میں پوری ہو گئیں۔ ‘‘
(براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد21 صفحہ359)
نوٹ:خاکسار اس مضمون کے حوالہ جات کی تخریج کے لیے عزیزم مکرم باسل احمد بشارت صاحب مربی سلسلہ کا ممنون اور ان کے لیے دعا گو ہے۔ فجزاہ اللّٰہ تعالیٰ۔
٭…٭…٭