حاصلِ مطالعہ
گاہے گاہے باز خواں ایں قصہ ٔپارینہ را
آہ ! کس قدر حسرت ناک اورعبرتناک ہے یہ تلخ حقیقت کہ ایک عاجز انسان کو جب دنیا میں اقتدار اور جاہ وجلال مل جاتا ہے تو وہ خالق کائنات احکم الحاکمین اور خدائے ذوالجلال کے اس فرمان کو فراموش کر دیتا ہے کہ تمہیں یہ عارضی امانت اپنی رعایا کے ساتھ عدل و انصاف اور شفقت و مہربانی سے پیش آنے کے لیے عطا کی گئی ہے لیکن وہ فرمان
لَآ اِکۡرَاہَ فِی الدِّیۡنِ (البقرۃ:257)
اور
لَسۡتَ عَلَیۡھِمۡ بِمُسَیۡطِرٍ(الغاشیۃ:23)
یعنی تُو ان پر داروغہ نہیںکو نظر انداز کرکے مذہب کے معاملے میں دخل اندازی شروع کر دیتا ہے۔ اور نہیں سوچتا کہ مذہب اور ایمان کا تعلق خدا اور بندے کے درمیان ہوتا ہے۔ جس کو اپنے ہاتھ میں لینے کا اختیار کسی حکمران، عدالت، پارلیمان یا حاکم کو حاصل نہیں۔
کون کہہ سکتا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو جیسے ذہین و فطین سربراہِ مملکت کو اس جہان فانی سے رخصت ہونے سے قبل ’’ لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا۔ ‘‘کامصداق بنتے ہوئے عدالتِ عظمیٰ میں غم و اندوہ سے بھرے ہوئے دل سے یہ شکوہ کرنا پڑے گا کہ مجھ پر ہائی کورٹ نے نام کا مسلمان ہونے کا الزام عائد کیا ہے۔
فَاعۡتَبِرُوۡا یٰٓاُ ولِی الۡاَبۡصَارِ۔
اس پس منظر میں سپریم کورٹ آف پاکستان میں سابق سربراہِ مملکت ذوالفقار علی بھٹو کا بیان اور پھر اُس پر محترم ڈاکٹر مرزا سلطان احمد صاحب کا چشم کشا اور دعوتِ فکر دینے والا تبصرہ پیش ہے:
٭…’’ انہوں نے(ذوالفقار علی بھٹو صاحب۔ ناقل) اپنا بیان شروع کرتے ہوئے کہا:
’’ایک اسلامی ملک میں ایک کلمہ گو کے عجز کے لئے یہ ایک غیر معمولی واقعہ ہوگا کہ وہ یہ ثابت کرے کہ وہ مسلمان ہے۔ میرے خیال میں یہ اسلامی تمدن کی تاریخ کا پہلا واقعہ ہے کہ ایک مسلم صدر، ایک مسلم راہنما ایک وزیراعظم جسے مسلمان قوم نے منتخب کیا ہو، ایک دن وہ اپنے آپ کو اس حیثیت میں پائے کہ وہ یہ کہے کہ وہ مسلمان ہے۔
یہ ایک ہراساں کردینے والا ہی مسئلہ نہیں ہے بلکہ ایک کربناک معاملہ بھی ہے۔ یور لارڈ شپس ! یہ مسئلہ کیسے کھڑا ہو؟ آخر کس طرح ؟ یہ مسئلہ اصطلاحاً عوام کے انقلاب یا کسی تحریک کے نتیجے میں کھڑا نہیں کیاگیا جو اس کے خلاف چلائی گئی ہو کہ وہ شخص مسلمان نہیں ہے۔ یہ ایک آئیوری ٹاور سے آیا ہے۔ اسے بطور ایک رائے کے ایک فرد نے دیا ہے۔ اب یہ دوسری بات ہے کہ وہ خود خواہ کتنے ہی اعلیٰ عہدے پر کیوں نہ ہو لیکن دراصل اسے اس معاملے میں دخل دینے کا کوئی استحقاق نہیں ہے۔ جو امور اس کی سماعت کے دائرے میں آتے ہیں ان میں یہ معاملہ قطعی طور پر شامل نہیں۔ نہ ہی یہ ایسا موضوع ہے کہ جس پر وہ اپنا موقف بیان کرسکے۔ کسی فرد، کسی ادارے اور اس عدالتی بنچ کا یہ حق نہیں بنتا کہ وہ ایک ایسے معاملہ پر اپنی رائے دے۔ جس پر رائے دینے کا اسے کوئی جائز حق حاصل نہیں۔
چونکہ انسان اور خدا کے درمیان کوئی بیچ کا واسطہ نہیں ہے۔ اس لئے یہاں معاشرے میں غلطیاں ہوتی ہیں۔ سماج میں سماجی برائیاں جنم لیتی ہیں۔ اور ان کی سزا اسی دنیا میں ہی دی جاتی ہے۔ جیسے چوری غنڈہ گردی زنا وغیرہ۔ لیکن خد اکے خلاف بھی انسان جرم کرتے ہیں۔ جن کا اسلام میں ذکر موجود ہے لیکن ان گناہوں کا تصفیہ اللہ اور انسان کا معاملہ ہے اور اس کا فیصلہ خدا خود روز حشر کرے گا…مائی لارڈ! جیسا کہ میں اس سے پہلے کہہ چکا ہوں کہ ایک مسلمان کے لئے کافی ہے کہ وہ کلمے میں ایمان رکھتا ہو کلمہ پڑھتا ہو۔ اس حد تک بات کی جاسکتی ہے کہ جب ابوسفیان مسلمان ہوئے اور انہوں نے کلمہ پڑھا تو رسول اللہ ﷺ کے بعض صحابہ نے سوچا کہ اس کی اسلام دشمنی اتنی شدید تھی کہ شاید ابوسفیان نے اسلام کو محض اوپری اور زبانی سطح پر قبول کیا ہو۔ لیکن رسول اللہ ﷺ نے اس سے اختلاف کیا اور فرمایا کہ جونہی اس نے ایک بار کلمہ پڑھ لیا تو وہ مسلمان ہوگئے۔ ‘‘
(ذوالفقار علی بھٹو، ولادت سے شہادت تک، مصنفہ سجاد علی بخاری ناشر فکشن ہائوس 1994صفحہ 256تا 262)
لاہور ہائی کورٹ کے ان ریمارکس نے بھٹو صاحب کو اتنا شدید صدمہ پہنچایا تھا کہ سلمان تاثیر صاحب جو بعد میں گورنر پنجاب بھی بنے اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ اس مرحلہ پر ان کی آواز سسکیوں میں ڈوب گئی۔ (ذوالفقار علی بھٹو بچپن سے تختہ دار تک، مصنفہ سلمان تاثیر، ناشر سلمان تاثیر نومبر 1988ء صفحہ 201)
بھٹو صاحب نے اس بات پر کہ انہیں کورٹ نے نام کا مسلمان کہا ہے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ
’’ یہ اصلی صورتِ حال ہے جب آپ مجھ پر الزام لگاتے ہیں تو مجھے ذلیل نہیں کرتے بلکہ آپ پاکستان کے عوام کو ذلیل کرتے ہیں۔ جب مجھے نام کا مسلمان کہا جاتا ہے تو دراصل ان عوام کو یہ الزام دیا جاتا ہے کہ وہ اچھے مسلمان نہیں بلکہ نام کے مسلمان ہیں …
مائی لارڈ ! آپ میری جگہ نہیں کھڑے ہیں آپ نہیں جانتے ان ریمارکس نے مجھے کتنا دکھ پہنچایا ہے۔ اس کے مقابلے میں تو میں پھانسی کو ترجیح دوں گا۔ اس الزام کے بدلے میں پھانسی کے پھندے کو قبول کروں گا۔ ‘‘
(ذوالفقار علی بھٹو، ولادت سے شہادت تک، مصنفہ سجاد علی بخاری ناشر فکشن ہائوس 1994ءصفحہ 260)
بھٹو صاحب کا یہ بیان بہت سی وجوہات کی بنا پر بہت اہم ہے۔ ان کے دلائل واقعی وزنی ہیں۔ یہ دلائل اتنے زوردار تھے اور انہیں اس خوبصورتی سے پیش کیا گیا تھا کہ پاکستان کی عدالتِ عظمٰی کے ایک معزز جج جسٹس صفدر شاہ نے ان دلائل کے درمیان ہی کہہ دیا کہ ہم فی الوقت آپ کو اپنی یہ رائے بتا سکتے ہیں کہ ہمارے نزدیک لاہور ہائی کورٹ کے فیصلہ کے یہ پیراگراف غیر متعلقہ ہیں۔
(The Pakistan Times, Dec.20, 1978, P5)
لیکن یہ ایک قانونی مسئلہ ہے۔ یہ ایک مذہبی مسئلہ ہے۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کے تار ماضی قریب اور ماضی بعید کے بہت سے تاریخی واقعات کے ساتھ الجھے ہوئے ہیں … اس وقت یہ دلائل کسی اور طرف سے پیش کئے جا رہے تھے اور اب جو ملزم بن کے کھڑے تھے اس وقت وہ اپنے زعم میں منصف بنے ہوئے تھے۔ بھٹو صاحب ایک قد آور شخصیت تھے اور ایسی قد آور شخصیات کے اہم بیانات ہوا میں گم نہیں ہوجاتے۔ تاریخ ان کا بار بار تجزیہ کرتی ہے۔ بھٹو صاحب کا یہ بیان واقعی بہت اہم ہے۔ ہم اس کے ایک ایک جملے کا تجزیہ کریں گے۔
بھٹو صاحب نے، اس وقت جب وہ اپنی زندگی کی جنگ لڑ رہے تھے۔ یہ کہا کہ ایک مسلمان کہلانے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ کلمہ پڑھتا ہو اور یہ بھی کہا کہ رسول اللہﷺ نے کسی کو یہ حق نہیں دیا کہ وہ اس کی نیت پر شک کرے۔ تو سوال یہ اُٹھتا ہے کہ پھر 1974ء میں بھٹو صاحب اور ان کی حکومت نے یہ قدم کیوں اُٹھا یا کہ ایک سیاسی اسمبلی کے سپرد یہ کام کیا کہ وہ یہ فیصلہ کرے کہ ایک جماعت، ایک فرقہ مسلمان ہے یا نہیں۔ اور یہ جماعت ایک کلمہ گو جماعت ہے۔ اسمبلی کئی روز کھڑکیاں دروازے بند کرکے غیر متعلقہ کارروائی میں الجھی رہی اور اصل موضوع پر بات کا خاطر خواہ آغاز بھی نہیں کرسکی۔ اور اگر ہر کلمہ گو قانون کی روسے مسلمان ہے اور کسی کو اس کی نیت پر شک کرنے کا حق نہیں تو پھر 1974ء میں آئین میں ترمیم کرکے ایک سیاسی اسمبلی نے یہ فیصلہ کیوں کیا اب پاکستان میں قانون کی رو سے لاکھوں کلمہ گو مسلمان شمار نہیں ہوں گے۔
ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے بڑا زور دے کر یہ بات کہی کہ کسی فرد، کسی ادارے یا عدالتی بنچ کا یہ اختیار نہیں کہ وہ کسی شخص کو کہے کہ وہ مسلمان نہیں ہے اور یہ بھی کہا اور بالکل درست کہا کہ مذہب خدا اور انسان کے درمیان معاملہ ہے۔ کسی انسان کو اس میں دخل دینے کی اجازت نہیں ہے۔ ہم کچھ دیر کے لئے 1974ء کی طرف واپس جاتے ہیں جب جماعت احمدیہ کی طرف سے قومی اسمبلی کے تمام اراکین کو اور حکومت کو ایک محضر نامہ بھجوایا گیا جس میں جماعت احمدیہ کا موقف بیان ہوا تھا کہ قومی اسمبلی کو نہ یہ اختیار ہے اور نہ اسے یہ زیب دیتا ہے کہ وہ کسی جماعت یا کسی شخص کے مذہب کے بارے میں یہ فیصلہ کرے۔ لیکن جماعت احمدیہ کا یہ موقف نظر انداز کر دیا گیا۔ آج آپ یہ کہنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ کسی ادارے کو یہ اختیار نہیں کہ وہ کسی کے مسلمان ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں فیصلہ کرے تو پھر 1974ء میں آپ کی حکومت کا وہ فیصلہ کسی طور پر صحیح نہیں کہلاسکتا۔ لیکن بھٹو صاحب اپنے سابق عمل اور موجودہ بیان میں تضاد دیکھ نہیں پارہے تھے۔ اسی نکتہ پر اپنا دفاع کرتے ہوئے انہوں نے اپنی خدمات گنوائیں اور ان میں اسلام کی یہ خدمت بھی گنوائی کہ ان کے دور میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دے کر نوے سالہ پرانا مسئلہ حل کیا گیا تھا۔
بھٹو صاحب نے عدالت میں اپنا بیان جاری رکھتے ہوئے کہ عدالت اس حدتک بڑھ گئی ہے کہ مجھے نام کا مسلمان قرار دیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ جنابِ والا اگر آپ نام کے مسلمان کے مسئلے پر جاتے ہیں تو پھر میں ایک ایسا شہری ہوں جس کا کوئی ملک نہیں۔ کیونکہ یہ شہریت دستور میں ایک مسلمان یا اقلیتوں کو فراہم کی گئی ہے۔ یہ شہریت اس جانور کو نہیں دی جاسکتی جو نام کا مسلمان ہو۔ میں نہیں جانتا اور کتنے لوگوں کو اس درجہ بندی میں شامل کرکے انہیں بے ملک بنا دیا جائے گا اور اگر ہم بے ملک لوگ بنا دیئے گئے تو ہم کہاں جائیں گے۔ (ذوالفقار علی بھٹو، ولادت سے شہادت تک، مصنفہ سجاد علی بخاری ناشر فکشن ہائوس1994ءصفحہ263)
بہت خوب۔ بہت مؤثر انداز بیان ہے بہت مضبوط دلائل ہیں۔ لیکن یہاں پر ایک سوال اُٹھتا ہے۔ وہ جماعت جو کہ کلمہ گو ہے اور اس کا عقیدہ ہے کہ وہ مسلمان ہے۔ اور وہ کسی اور مذہب کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ ایک روز دو سو کے قریب سیاستدان بیٹھتے ہیں اور یہ مضحکہ خیز فیصلہ کرتے ہیں کہ اب سے قانون کی رو سے یہ جماعت مسلمان نہیں ہے۔ بھٹو صاحب کہتے ہیں کہ اس ملک کے آئین میں شہریت کے حقوق یا مسلمان کے لئے ہیں یا پھر غیر مسلم کے لئے، تو پھر کیا 1974ء کا فیصلہ کرنے سے پہلے انہوں نے سوچا تھا کہ یہ جماعت اپنے آپ کو غیر مسلم نہیں سمجھتی ایسا کہنا یا سمجھنا اس کے ضمیر کے خلاف ہے، اس کے بنیادی عقیدہ کے خلاف ہے تو پھر اس کی شہریت کے حقوق کا کیا بنے گا۔ ایک نامعقول فیصلے نے خود آپ کے بیان کردہ معیار کے مطابق ان کو شہریت کے حقوق سے محروم کردیا۔ 1974ء میں اسمبلی کی کارروائی شروع ہونے سے پہلے جماعت احمدیہ نے ایک محضر نامہ میں اپنا موقف بیان کیا تھا۔ اور اس میں کرتا دھرتا افراد کو ان الفاظ میں متنبہ کیا تھا:
’’ظاہر ہے کہ مندرجہ بالا صورتیں عقلاً قابلِ قبول نہیں ہوسکتیں اور بشمول پاکستان دنیا کے مختلف ممالک میں ان گنت فسادات اور خرابیوں کی راہ کھولنے کا موجب ہوجائیں گی۔ ‘‘
(محضر نامہ، ناشر اسلام انٹرنیشنل پبلیکیشنز لمیٹڈ صفحہ 5)
اوریہ حقائق ثابت کرتے ہیں کہ ایسا ہی ہوا۔ جو آگ 1974ء میں جماعت احمدیہ کے خلاف بھڑکائی گئی تھی، اس وقت کے وزیراعظم کا آشیانہ بھی بالآخر ان کے شعلوں کی نذر ہوگیا۔
(سلسلہ احمدیہ جلد3صفحہ569تا573)
اللہ تعالیٰ نے اُسے اسی رنگ میں زہر پلادیا
٭…’’ حضرت جناب بابو اکبر علی صاحبؓ ریٹائرڈ انسپکٹر آف ورکس اکبر منزل حال مہاجر قادیان حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے متعلق اپنی ایک ملاقات روایت کرتے ہیں کہ حضورؑ نے فرمایا کہ
ہمارا دل تو چاہتا ہے کہ آپ اور چھٹی لے لیں اور یہاں ہمارے پاس کچھ عرصہ ٹھہریں۔ اس کے بعد میری ملازمت کے حالات دریافت فرماتے رہے۔ کیا تنخواہ ملتی ہے کیا کام کرنا پڑتا ہے۔ حتیٰ کہ چھوٹی چھوٹی باتیں بھی دریافت فرمائیں گویا حضور میرے حالات سے پورے طور پر واقفیت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
الغرض میں وہ کتاب (حقیقۃ الوحی) لے کر گیا اور اپنے والد صاحب کو پڑھنے کے لئے دی۔ وہ کہنے لگے کہ میں تو اس گندی کتاب کو (معاذاللہ ) ہاتھ لگانا بھی گناہ سمجھتا ہوں۔ جس پر میں نے حضرت اقدس ؑکے ارشاد کے مطابق وہ سب کچھ عرض کردیا۔ آخر میرے والد صاحب نے کتاب لے کر چند اوراق ادھر اُدھر سے پڑھے۔ پھر وہ کتاب ہمارے گائوں کے ایک نوجوان مولوی کو جسے ایک اور مولوی ملازم رکھ کر پڑھواتا تھا۔ پڑھنے کو دی۔ اس بدقسمت نوجوان مولوی نے کتاب کو پڑھ کر والد صاحب سے کہا کہ یہ کتاب تو ایسی ہے جیسا کہ حلوہ میں زہر۔ خدا کی شان کچھ عرصہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے اُسے اسی رنگ میں زہر پلادیا۔ یعنی ایک زہریلے سانپ نے اُسے … کاٹا اور وہ دوسرے دن راہی ملک عدم ہوگیا۔ ‘‘
(مرسلہ: نذیر احمد خادم)
(مرسلہ :ظہیر احمد طاہر۔ جرمنی )
٭…٭…٭