نیکیوں پر استقلال اوردوام کی عادت ڈالیں
از: حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ عنہ نے یہ بصیرت افروز تقریر مؤرخہ 10؍ اکتوبر 1945ء کو بعد نماز مغرب قادیان میں ارشاد فرمائی جس میں نیکیوں پر دوام اور استقلال اختیار کرنے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ حضورؓ نے فرمایا کہ وہی نیکی بابرکت اور نتیجہ خیز ہوتی ہے جس میں استقلال اور دوام کا رنگ پایا جاتا ہے۔ کچھ دن نیکی کر کے پھر اُسے چھوڑ دینا ایک ایسی کمزوری ہے جس سے انسان کی روحانی زندگی ہر وقت خطرہ میں رہتی ہے۔ نیز فرمایا کہ جو قوم اِس بات کی عادی ہو کہ اُسے بار بار بیدار کیا جائے اُسے اپنے مستقبل کی فکر کرنی چاہیے۔
مَیں نے اپنے خطبات میں جماعت کو کئی دفعہ توجہ دلائی ہے کہ کام وہی بابرکت اور نتیجہ خیز ہوتا ہے جس میں استقلال اور دوام کا رنگ پایا جائے۔ یوں تو ادنیٰ سے ادنیٰ اور ذلیل سے ذلیل انسان بھی کبھی نہ کبھی کوئی نیکی کر لیتا ہے لیکن اُس کا دو دن کے لئے نیکی پر کاربند ہونا اِس بات کی علامت نہیں سمجھی جا سکتی کہ وہ فی الحقیقت نیک انسان ہے۔ اِسی طرح اگر کوئی شخص کچھ عرصہ باقاعدہ نمازیں ادا کرتا ہے، باقاعدہ چندہ دیتا ہے، دین کے لئے قربانی بھی کرتا ہے لیکن کچھ عرصہ کے بعد اِن سب باتوں کو چھوڑ دیتا ہے تو کوئی عقلمند انسان ایسا نہیں جو ایسے شخص کو کامل طور پر ایماندار یا متقی سمجھ سکے۔ ہمارے ملک کی مساجد میں سے کچھ مساجد ایسی بھی ہیں جو کنچنیوںکی بنوائی ہوئی ہیں یا بعض ایسے لوگوں کی بنوائی ہوئی ہیں جن کی ساری عمر ظلم و تعدی اور دوسری بدعات میں گزری لیکن جب وہ مرنے کے قریب پہنچے تو کوئی مسجد یا کنواں یا مدرسہ یا لائبریری بنوا دی اور اِس کے بنوانے کے بعد اُنہوں نے یہ سمجھ لیا کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا کام کر دیا ہے اور مسجد یا کنواں یا مدرسہ یا لائبریری بنوا کر اللہ تعالیٰ پر اتنا بڑا احسان کر دیا ہے کہ اب اللہ تعالیٰ کا کوئی حق نہیں کہ آخرت میں اُن سے اُن کے اعمال کے متعلق باز پُرس کرے۔ گویا اصل مالک وہ ہیں اور اللہ تعالیٰ اُن کا محتاج ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں یہود کی اسی حالت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ یہ ایسے جاہل اور بے وقوف ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے متعلق کہتے ہیں کہ اصل مالدار تو ہم ہیں اور اللہ تعالیٰ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ فقیر اور محتاج ہے جو اپنے دین کی اشاعت کیلئے ہم سے پیسے مانگتا ہے
لَقَدۡ سَمِعَ اللّٰہُ قَوۡلَ الَّذِیۡنَ قَالُوۡۤا اِنَّ اللّٰہَ فَقِیۡرٌ وَّ نَحۡنُ اَغۡنِیَآءُ (اٰل عمران :182)
یہ سب باتیں وہ تمسخر سے کہتے تھے حالانکہ جتنا لمبا سلسلہ انبیاء کا بنی اسرائیل میں گزرا ہے اَور کسی قوم میں نہیں گزرا لیکن پھر بھی اُن کی ذہنیت میں تبدیلی پیدا نہ ہوئی۔ وہ کبھی حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہہ دیتے تھے کہ
فَاذۡہَبۡ اَنۡتَ وَ رَبُّکَ فَقَاتِلَاۤ اِنَّا ہٰہُنَا قٰعِدُوۡنَ(المائدہ:25)
کہ اے موسیٰ!تو اور تیرا رب دونوں جاؤ اور لڑتے پھرو ہم تو یہیں بیٹھے ہیں۔ اگر یہ کام ہم نے ہی کرنا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کا نام درمیان میں کیوں لاتے ہو۔ قربانیاں ہم کریں، آدمی ہمارے مارے جائیں اور فتح اللہ تعالیٰ کے نام لگے۔ یہ ذہنیت شیطان ہر زمانہ میں لوگوں کے اندر پیدا کرتا رہتا ہے اور اُن کے دلوں میں وساوس اور شبہات پیدا کر کے اُنہیں اللہ تعالیٰ کی راہ سے برگشتہ کرنا چاہتا ہے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ کے کاموں میں ایک پردہ اور اِخفاء کا رنگ ہوتا ہے اِس لئے ظاہر بین نگاہوں کو انسانوں کے ہاتھ تو کام کرتے دکھائی دیتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی نصرت اور مدد کے سامان اُن کی نگاہوں سے پوشیدہ رہتے ہیں۔ یہ کبھی نہیں ہوا کہ آسمان پھٹے اور اُس میں سے دنیا والوں کو جبرائیل کا منہ نظر آنے لگے اور جبرائیل بآوازِ بلند یہ کہہ رہا ہو کہ اے لوگو! آدم اللہ تعالیٰ کا نبی ہے اور تمہاری طرف اُس کا پیغام لے کر آیا ہے اس کی تکذیب اور انکار نہ کرنا۔ اور ایسا بھی آج تک کبھی نہیں ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے مثلاً خانہ کعبہ بنانے کا ارادہ کیا ہو اور شام کے وقت میکائل آسمان سے سر نکال کر دنیا والوں کو آواز دے کہ اپنے اپنے سر بچالو اور کمروں کے اندر بیٹھ جاؤ کیونکہ اللہ تعالیٰ آسمان سے خانہ کعبہ کے بنانے کے لئے روپوں کی تھیلیوں کی بارش کرنے لگا ہے۔ نہ حضرت آدمؑ کے زمانے میں ایسا ہوا، نہ حضرت نوحؑ کے زمانہ میں ایسا ہوا، نہ حضرت کرشنؑ اور رام چندرؑ کے زمانہ میں ایسا ہوا، نہ حضرت موسیٰ ؑکے زمانہ میں ایسا ہوا، نہ حضرت عیسیٰ ؑکے زمانہ میں ایسا ہوا اور نہ ہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایسا ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے دین کی اشاعت اور دین کے کاموں کو سرانجام دینے کے لئے آسمان سے روپوں کی بارش کی ہو یا آسمان سے مومنوں کے لئے بیجوں کی بارش کی ہو اور وہ خود بخود رات کو اُگ کر صبح تک بڑے بڑے درخت بن گئے ہوں۔ یا اللہ تعالیٰ کے کسی نبی کو اشتہار چھپوانے کی ضرورت پیش آئی ہو تو اللہ تعالیٰ نے آسمان سے چھپے ہوئے اشتہار اُس کی ضرورت کے مطابق پھینک دیئے ہوں۔ یا لڑائی کا موقع ہو اور گھوڑوں اور نیزوں کی ضرورت ہو تو اللہ تعالیٰ نے آسمان سے گھوڑوں اور نیزوں کی بارش کی ہو، نہ کبھی آج تک ایسا ہوا اور نہ آئندہ ایسا ہوگا بلکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے ذریعہ ہی یہ سارے سامان مہیا کیا کرتا ہے لیکن بنی اسرائیل کی ذہنیت یہ تھی کہ ہم خدا تعالیٰ کا کام کیوں کریں اللہ تعالیٰ خود کرے۔ چنانچہ باوجود حضرت موسیٰ علیہ السلام کو مان لینے کے شروع سے لے کر آخر تک مختلف رنگوں میں وہ حُجّت بازی کرتے رہے۔ گو الفاظ تبدیل کر لیتے تھے کبھی کہہ دیتے تھے کہ جا تُو اور تیرا ربّ جا کر لڑو فتح ہو جائے تو ہمیں آ کر بتا دینا ہم آ جائیں گے، کبھی کہہ دیتے کہ خدا تعالیٰ تمہیں روپے نہیں دیتا کہ ہم سے مانگتے ہو، کیا خدا تعالیٰ فقیر ہے کہ ہم اُس کے کاموں کو سرانجام دینے کے لئے اپنا مال خرچ کریں؟ اور یہ بات صرف بنی اسرائیل تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ آج مسلمان کہلوانے والوں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت میں اپنے آپ کوشامل کرنے والوں کا بھی یہی حال ہے۔ اگر اسلام کی اشاعت کا سوال ہو تو کہتے ہیں کہ جس نے اسلام بھیجا ہے وہی اِس کو برتر اور غالب کرنے کے سامان پیدا کرے گا ہمارے ہاتھوں کچھ نہیں بنے گا۔ اگر اسلام کے لئے مال کی ضرورت ہو تو کہتے ہیں کہ ہمیں تو خود پیٹ بھر کر روٹی نصیب نہیں ہوتی ہم چندہ کہاں سے دیں، اگر غریبوں کی غربت دور کرنے کا سوال ہو تو کہتے ہیںکہ جس نے ان کو پیدا کیا ہے وہ خود غربت دُور کرنے کے سامان کرے ہم کیوں کریں۔ لیکن جب مرنے لگتے ہیں تو کوئی مسجد یا کنواں یا مہمان خانہ یا امام باڑہ بنوا دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم نے اللہ تعالیٰ پر اتنا بڑا احسان کیا ہے کہ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ اللہ تعالیٰ کی آنکھیں اب ہمیشہ کے لئے ہمارے سامنے نیچی رہیں گی اور وہ قیامت کے دن ہم سے محاسبہ نہیں کر سکے گا۔
حضرت خلیفہ اوّل کی ایک بہن غیر احمدی تھیں وہ آپ سے ملنے کے لئے ایک دفعہ قادیان آئیں، آپ نے اُن کو تبلیغ کی اور بعض باتیں سکھائیں کہ جا کر اپنے پیر صاحب سے پوچھنا۔ کچھ عرصہ کے بعد وہ دوبارہ قادیان آئیں تو حضرت خلیفہ اوّل سے کہنے لگیں کہ ہمارے پیر صاحب کہتے ہیں کہ ہم جانیں اور ہمارا کام ہم قیامت کے دن تمہارے ذمہ دار ہوں گے اور تمہارا ہاتھ پکڑ کر تمہیں جنت میں چھوڑ آئیں گے۔ ہم قیامت کے دن تمہارے وکیل ہوں گے اور وکیل خود بحث کیا کرتا ہے۔ آپ نے فرمایا بے شک وکیل ہی بحث کیا کرتا ہے لیکن اگر بحث میں وکیل سے کوئی بات پوچھی جائے اور وکیل کے پاس وجہ معقول ہو تو وہ جواب دے سکتا ہے لیکن اگر اُس کے پاس وجہ معقول نہ ہو تو وہ کیا جواب دے گا؟ یا اگر جواب دیتا ہے اور وہ غلط نکلتا ہے تو وکیل کا کیا نقصان ہوگا نقصان تو مؤکّل کا ہی ہوگا۔ یہ باتیں آپ کی بہن نے جا کر پیر صاحب کے سامنے بیان کیں۔ وہ کہنے لگے کہ یہ تیرے ذہن کی باتیں نہیں بلکہ تجھے یہ باتیں نورالدین نے سکھائی ہیں۔ پھر کہنے لگے کہ تم فکر نہ کرو جب قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تم سے پوچھے گا تو ہم کہیں گے کہ اس کے ذمہ دار ہم ہیں اِس کا حساب ہم سے لیا جائے ’’پھر تسیں دگڑ دگڑ کردے ہوئے جنت وچ چلے جاناں‘‘ یعنی پھر تم دَگڑ دَگڑ کرتے ہوئے جنت میں چلے جانا۔ انہوں نے کہا پیر صاحب! سوال تو آپ کا ہے کہ آپ جنت میں کیسے داخل ہونگے؟پیر صاحب نے جواب دیا ہمارا کیا ہے جب آپ لوگ جنت میں چلے جائیںگے تو اللہ تعالیٰ ہم سے کہے گا کہ ان کو تم نے جنت میں بھیج دیا ہے اب تم بولو۔ تو ہم کہیں گے کہ ہمارے ساتھ یہ کیا مذاق ہو رہا ہے کیا ہمارے نانا امام حسین کی قربانی کافی نہ تھی کہ آج ہمیں اعمال بجالانے کے لئے دِق کیا جاتا ہے؟ اِس پر ہمیں اللہ تعالیٰ بغیر حساب لئے جنت میںداخل کر دیگا۔
(جاری ہے)