سب کے ساتھ حسن سلوک کی تعلیم
نویں شرط بیعت(حصہ سوم)
سب کے ساتھ حسن سلوک کی تعلیم(حصہ دوم)
حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
اللہ عزوجل قیامت کے روز فرمائے گا اے ابن آدم! میں بیمار تھا تو نے میری عیادت نہیں کی۔ بندہ کہے گا۔ اے میرے رب ! میں تیری عیادت کیسے کرتا جبکہ تو ساری دنیا کا پروردگار ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ کیا تجھے پتہ نہیں چلا کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا تو تُونے اس کی عیادت نہیں کی تھی۔ کیا تجھے معلوم نہ تھا کہ اگر تم اس کی عیادت کرتے تو مجھے اس کے پاس پاتے۔اے ابن آدم ! میں نے تجھ سے کھانا طلب کیا تو تُو نے مجھے کھانا نہیں دیا۔ اس پر ابن آدم کہے گا۔ اے میرے رب ! میں تجھے کیسے کھانا کھلاتا جب کہ تُو تو ربّ العالمین ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ تجھے یاد نہیں کہ تجھ سے میرے فلاں بندہ نے کھانا مانگا تھا تو تُو نے اسے کھانا نہیں کھلایا تھا۔ کیا تجھے معلوم نہیں تھا کہ اگر تم اسے کھانا کھلاتے تو تم میرے حضور اس کا اجر پاتے۔
اے ابن آدم ! میں نے تجھ سے پانی مانگا تھا مگرتو نے مجھے پانی نہیں پلایا تھا۔ ابن آدم کہے گا۔ اے میرے رب ! میں تجھے کیسے پانی پلاتا جب کہ تو ہی سارے جہانوں کا رب ہے۔اس پر اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ تجھ سے میرے فلاں بندے نے پانی مانگا تھا۔ مگر تم نے اسے پانی نہ پلایا۔ اگر تم اس کو پانی پلاتے تو اس کا اجر میرے حضور پاتے۔
(صحیح مسلم۔ کتاب البر والصلۃ۔ باب فضل عیادۃ المریض)
پھر روایت ہے۔حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول ا للہﷺنے فرمایا تمام مخلوقات اللہ کی عیال ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کو اپنے مخلوقات میں سے وہ شخص بہت پسند ہے جو اس کے عیال (مخلوق)کے ساتھ اچھا سلوک کر تاہے اور ان کی ضروریات کاخیال رکھتاہے۔
(مشکوٰۃ المصابیح۔ کتاب الآداب۔ باب الشفقۃوالرحمۃ علی الخلق)
پھر ایک روایت آتی ہے حضرت علیؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’ ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حق ہیں۔نمبر 1: جب وہ اسے ملے تو اسے السلام علیکم کہے۔ نمبر2: جب وہ چھینک مارے تو یَرْحَمُکَ اللّٰہ کہے۔ نمبر 3۔ جب وہ بیمار ہو تو اس کی عیادت کرے‘‘۔
بعض لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ بڑی اچھی عادت ہوتی ہے کہ خود جاکرخیال رکھتے ہوئے ہسپتالوں میں جاتے ہیں اور مریضوں کی عیادت کرتے ہیں خواہ واقف ہوں یا نہ واقف ہوں۔ ان کے لئے پھل لے جاتے ہیں، پھول لے جاتے ہیں۔ تو یہ خدمت خلق کا طریقہ بڑا اچھا ہے۔
نمبر4:جب وہ اس کو بلائے تو اس کی بات کا جواب دے۔نمبر5:۔ جب وہ وفات پا جائے تو اس کے جنازہ پر آئے۔ اور نمبر 6: اور اس کے لئے وہ پسند کرے جو وہ اپنے لئے پسند کرتا ہے۔ اور اس کی غیر حاضری میں بھی وہ اس کی خیر خواہی کرے‘‘۔
(سنن الدّارمی۔ کتاب الاستیذان۔ باب فی حق المسلم علی المسلم)
پھرروایت ہے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ
رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’ایک دوسرے سے حسد نہ کرو۔ ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کے لیے بڑھ چڑھ کر بھاؤ نہ بڑھاؤ، ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو، ایک دوسرے سے پیٹھ نہ موڑو یعنی بے تعلقی کا رویہ اختیار نہ کرو۔ ایک دوسرے کے سودے پر سودا نہ کرو بلکہ اللہ تعالیٰ کے بندے (اور) آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو۔ مسلمان اپنے بھائی پر ظلم نہیں کرتا۔ اس کی تحقیر نہیں کرتا۔ اس کو شرمندہ یا رسوا نہیں کرتا۔ آپؐ نے اپنے سینے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:تقویٰ یہاں ہے۔ یہ الفاظ آپؐ نے تین دفعہ دہرائے، پھر فرمایا: انسان کی بدبختی کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقارت کی نظر سے دیکھے۔ ہر مسلمان کا خون، مال اور عزت و آبرو دوسرے مسلمان پر حرام اور اس کے لئے واجب الاحترام ہے۔
(صحیح مسلم۔ کتاب البِرّ و الصلۃ۔ باب تحریم ظلم المسلم و خذلہ)
پھر روایت آتی ہے۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا: جس شخص نے کسی مسلمان کی دنیاوی بے چینی اور تکلیف کو دور کیا۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی بے چینیوں اور تکلیفوں کو اس سے دور کرے گا۔ اور جس شخص نے کسی تنگدست کو آرام پہنچایا اور اس کے لئے آسانی مہیا کی اللہ تعالیٰ آخرت میں اس کے لئے آسانیاں مہیا کرے گا۔ جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی اللہ تعالیٰ آخرت میں اس کی پردہ پوشی کرے گا۔ اللہ تعالیٰ اس بندے کی مدد پر تیار رہتا ہے جو اپنے بھائی کی مدد کے لئے تیار ہو۔ جو شخص علم کی تلاش میں نکلتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت کا راستہ آسان کر دیتا ہے۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے گھروں میں سے کسی گھر میں بیٹھ کر اللہ تعالیٰ کی کتاب کو پڑھتے ہیں اور اس کے درس وتدریس میں لگے رہتے ہیں اللہ تعالیٰ ان پر سکینت اور اطمینان نازل کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت ان کو ڈھانپے رکھتی ہے، فرشتے ان کو گھیرے رکھتے ہیں۔ اپنے مقربین میں اللہ تعالیٰ ان کا ذکر کرتا رہتا ہے۔ جو شخص عمل میں سست رہے اس کا نسب اور خاندان اس کو تیز نہیں بناسکتا۔یعنی وہ خاندانی بل بوتے پر جنت میں نہیں جاسکے گا۔
(صحیح مسلم۔ کتاب الذکر۔ باب فضل الاجتماع علی تلاوۃالقرآن وعلی الذکر)
اس میں شروع میں جو بیا ن کیا گیاہے وہ یہی ہے کہ لوگوں کے حقوق کا خیال اور یہ کہ تم اپنے بھائیوں کی بے چینیوں اور تکلیفوں کو دور کرو اور اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسی شفقت کاسلوک تم سے کرے گا اورتمہاری بے چینیوں اور تکلیفوں کو دورکرے گا۔ آنحضرتﷺ کا ہم پر یہ احسان ہے۔ فرمایا کہ اگر تم چاہتے ہو کہ اللہ تعالیٰ اپنی مغفرت کی چادر میں تمہیں ڈھانپ لے تو بے چین، تکلیف زدہ اور تنگدستوں کو جس حد تک تم آرام پہنچا سکتے ہو، آرام پہنچائو تو اللہ تعالیٰ تم سے شفقت کا سلوک کرے گا۔ اپنے بھائیوں کی پردہ پوشی کرو، ان کی غلطی کو پکڑ کرا س کا اعلان نہ کرتے پھرو۔ پتہ نہیں تم میں کتنی کمزوریاں ہیں اور عیب ہیں جن کاحساب روز آخر دیناہوگا۔تو اگر اس دنیا میں تم نے اپنے بھائیوں کی عیب پوشی کی ہوگی، ان کی غلطیوں کو دیکھ کر اس کا چرچاکرنے کی بجائے اس کاہمدرد بن کراس کو سمجھانے کی کوشش کی ہوگی تو اللہ تعالیٰ تم سے بھی پردہ پوشی کا سلوک کرے گا۔ تویہ حقوق العباد ہیں جن کو تم ادا کرو گے تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث ٹھہروگے۔
پھر حدیث میں آتاہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا: صدقہ سے مال میں کمی نہیں ہوتی۔ اور جو شخص دوسرے کے قصور معاف کردیتاہے اللہ تعالیٰ اسے اور عزت دیتاہے اور کسی کے قصور معاف کردینے سے کوئی بے عزّتی نہیں ہوتی۔
(مسند احمد بن حنبل۔ جلد 2۔ صفحہ 235)
پھرروایت ہے حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺنے فرمایا :رحم کرنے والوں پررحمان خدا رحم کرے گا۔ تم اہل زمین پررحم کرو۔ آسمان والا تم پررحم کرے گا۔
(سنن ابوداؤد۔ کتاب ا لادب۔ باب فی الرحمۃ )
(باقی آئندہ)