متفرق مضامین

حضرت مریم صدیقہ صاحبہ چھوٹی آپا اُم متین

(امۃ الباری ناصر)

حضرت چھوٹی آپاؒ کا ذکر کرنا اوران کے بارے میں کچھ لکھنا آسان کام نہیں۔ آپ بظاہر ایک وجود تھیں۔ ہر انسان کی طرح آپ کو بھی ایک زندگی ملی تھی مگر آپ کئی زندگیاں جی گئیں۔ آپ کے کارہائے نمایاں ہزاروں سیرت و سوانح اور تاریخ کی کتب میں نہیں سما سکتے، ایسے میں اپنے مشاہدے پر مبنی چند واقعات پر ہی اکتفا کروں گی۔

پہلا تعارف تو بڑی بہن آپا امۃ اللطیف خورشید صاحبہ کے ذریعے ہوا جنہوں نے تیرہ سال کی عمرمیں 1940ءسے حلقہ دارالفتوح قادیان سے لجنہ کے کام کرنے شروع کیے۔ اس وقت اہم اجلاس دار المسیح میں ہوتے تھے اور خواتین مبارکہ کی پاکیزہ صحبت اورتربیت میسر آتی۔ آپا لطیف کو چھوٹی عمر سے ان کے ماتحت خدمت کی سعادت حاصل ہوئی جس کی وجہ سے گھر میں ان بابرکت ہستیوں کا تذکرہ رہتا۔ تقسیم بر صغیر کے بعد لاہور اور پھر ربوہ میں بھی آپا لجنہ کی سرگرم کارکن تھیں۔ میری بہت چھٹپن کی یاد ہے آپ گھر سے جانے لگتیں تو امی جان کہتیں کسی بہن کو ساتھ لے جاؤ۔ اگر قرعہ فال میرے نام نکلتا تو میں بہت خوش ہوتی کیونکہ آپا کام کرتیں اور میں لائبریری سےکتابیں لے کر پڑھتی اور ان کےچھوٹے چھوٹے کام کرتی۔ اس بچپنے کی عمر سے حضرت چھوٹی آپا سے محبت ہوئی ایک بہت شفیق اور بارعب ہستی جیسے کوئی ملکہ ہو۔

میں اکثر سوچا کرتی تھی حضرت چھوٹی آپا اتنا شاندار، منفرد، پُر اثر، پرکشش، محبوب وجود کیسے بن گئیں۔ اس سوال کا جواب مجھے لجنہ کراچی کے اشاعت کتب کے پروگرام کے تحت حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل ؓکی کتب نثر ونظم پر تحقیق، ترتیب اور اشاعت کے دوران ملا۔ اس گوہر تابدار کے عقب میں سلسلہ وار خدائے رحمان کی کرم نوازی کی بارش تھی۔ آپ ایسے خانوادہ میں پیدا ہوئیں جس کی نسل در نسل دینداری اور نجابت کی سند اللہ تبارک تعالیٰ نے اس طرح دی کہ ان میں سے دور حاضر کی ‘خدیجہ’ منتخب فرمائی۔ اور اسے مسیحائے دوراں کے خاندان سے جوڑ دیا۔ حضرت اماں جان نصرت جہاں بیگم ؓکے بھائی حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل ؓکی دوسری بیوی مکرمہ امۃ اللطیف صاحبہ سے پہلی اولاد توام بیٹیاں سات اکتوبر 1918ء کو پیدا ہوئیں۔ ایک کا نام مریم دوسری کا صدیقہ رکھا گیا۔ جو پیدائش کے وقت ہی وقفِ اولاد کی نیت کا مظہر ہے۔ صدیقہ اللہ کو پیاری ہو گئی تو وہ نام بھی مریم کو دے دیا گیا۔ اس طرح آپ مریم صدیقہ ہو گئیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ میں مریمی اور صدیقی صفات جمع کردیں یہ وجود پُردَرد دعاؤں کے جِلَو میں دنیا میں آیا۔ آپ کے والد حضرت میر صاحب نےحضرت اقدسؑ کو قریب سے دیکھا اور آپؑ کا خدا تعالیٰ سے عاشقانہ تعلق مشاہدہ کیا تھا۔ خود بھی فنا فی اللہ اور فنا فی الرسول ﷺ صوفی منش انسان تھے اپنے مضمون، صنم خانۂ عشق میں ایک رات، میں تحریر فرمایا:

’’آدھی رات تو ہو چکی تھی میں چوکھٹ پر سر رکھے پڑا تھا اور اُٹھنے کا خواہشمند تھا کہ اٹھنے کی اجازت ملی … اور یوں محسوس ہوا کوئی پوچھتا ہے کیا چاہتا ہے۔ میں نے عرض کیا۔

اے خداوند من گناہم بخش

سوئے درگاہ خویش راہم بخش

در دو عالم مرا عزیز توئی

وآنچہ می خواہم از تو نیز توئی

’’مفت ‘‘۔ میں نے کہا میں کیا پیش کرسکتا ہوں جو کچھ ہے وہ آپ کا ہی دیا ہوا ہے۔ ’’جان اور ایک چیز سب سے عزیز‘‘…

میں نے ویسی فجر کی نماز عمر بھر نہیں پڑھی … اُف وہ خوشی وہ عجیب اور نئی قسم کی خوشی …زہے نصیب… وہ اور مجھے اپنا چہرہ دکھائیں وہ اور مجھ سے میری جان کا مطالبہ کریں وہ اور مجھ سے ایک اور عزیز چیز کی نذر طلب کریں …

دن کے آٹھ نہیں بجے تھے کہ ایک سیاہ بکرا اور ایک سفید مینڈھا کوچہ بندی میں کٹے پڑے تھے اور عالمِ روحانی میں ان کے ساتھ دو اور نفس بھی ذبح ہوچکے تھے۔ اور بارہ نہیں بجے تھے کہ میری سب سے عزیز چیز یعنی مسجد مبارک والا مکان میرے قبضے سے نکل کر صدرانجمن کی تحویل میں منتقل ہوچکا تھا ان باتوں سے فارغ ہوکر گھر گیا تو ایک اور عزیز چیز نظر آئی جس کا نام مریم صدیقہ تھا میں نے اسے اٹھا کر کہا کہ اس کا نام شاہد ہے میرا پہلے بھی ارادہ تھا اب اسے بھی قبول فرمائیے ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم ‘‘۔ (الفضل 3؍نومبر1936ء)

آپ اس وقت تین سال کی تھیں جب حضرت میر صاحب نے آپ کی ڈائری میں لکھا:

’’مریم صدیقہ جب تم پیدا ہوئیں تو میں نے تمہارا نام مریم اس نیت سے رکھا تھا کہ تم کو خدا تعالیٰ اور اس سلسلے کے لئے وقف کردوں اسی وجہ سے تمہارا دوسرا نام ‘نذرِ الٰہی ’ بھی تھا ‘‘۔ ( الفضل 25؍مارچ 1966ء)

پرورش قادیان میں جس مکان میں ہوئی وہ دار العلوم میں حضرت مولوی شیر علی صاحب ؓ کے مکان سے متصل تھا۔ مکان کا نام ‘الصفہ’ بھی مکینوں کی عاجزی اور درویشانہ بو دو باش کا مظہرتھا۔

آپ صرف چھ سال کی تھیں تو یہ دعائیہ نظم لکھی۔ یہ دعائیں حرف حرف پوری ہوئیں :

الٰہی مجھے سیدھا رستہ دکھادے

مری زندگی پاک و طیب بنادے

مرا نام ابا نے رکھا ہے مریم

الٰہی مجھے تو صدیقہ بنا دے

بچپن میں تربیت کے بارے میں حضرت چھوٹی آپا ؒ لکھتی ہیں :

’’ملازمت کے دوران اباجانؓ بہت معمورالاوقات تھے۔ ہم نے تو آپ کے بڑھاپے ہی کو دیکھا ہے آپ بچوں کو نماز با جماعت کی بہت تاکید فرماتے تھے۔گھر میں نماز ادا فرماتے تو ہمیں سامنے کھڑا کر لیتے دعائیں یاد کراتے بچوں سے پیار بھی تھا۔ لیکن کڑی نظر رکھتے تھے۔ میں نے پانچویں تک گھر میں پڑھا۔ آج تک آپ کے پڑھانے کا دلنشین انداز یاد ہے۔ مجھے پڑھانے کے بعد آپ فرماتے اب چھوٹے بہن بھائیوں کو پڑھاؤ۔ میں سب سے بڑی تھی‘‘۔

حضرت اماں جان ؓکی بڑی خواہش تھی کہ بھائی کے گھر بیٹی ہو تو محمود سے بیاہ کر اپنی بیٹی بنالوں چنانچہ جب آپ بڑی ہوئیں تو اپنے بیٹے کا رشتہ مانگنے اپنے سے سولہ سال چھوٹے بھائی کے گھر بنفس نفیس تشریف لے گئیں اور اپنے بھائی سے کہا میں تمہاری لڑکی مانگنے آئی ہوں۔

اپنی بہن کی اطاعت اور محبت میں اس پر جان چھڑکنے والے بھائی نے عرض کیا :

’’میں آپ کی بات واپس نہیں کرسکتا۔ لے جائیں ‘‘

اللہ تعالیٰ نے حضرت میر صاحب کی وقف کی نیت کو پھل لگایا اور خوش نصیب مریم صدیقہ 30؍ستمبر 1935ءکو حضرت اقدسؑ کی بہو اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کی شریک حیات بن گئیں۔

حضرت میر صاحب ؓکے والد صاحب حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ کواپنی عاجزانہ دعاؤں کا صلہ، بزرگ، صالح متقی خدا کا مسیح و مہدی، نبی اللہ و رسول، داماد مل گیا۔ آپ کو اپنی بیٹی کے لیے فرزندِ مسیح مصلح موعود مل گیا۔

حضرت میر محمداسماعیل صاحب ؓاللہ تعالیٰ کی اس رحمت پر بہت خوش ہوئے اور اپنی بیٹی کو رخصت کرتے ہوئے نصیحت کی:

’’مریم صدیقہ تم اندازہ نہیں کر سکتیں کہ حضرت خلیفۃ المسیح پر خدمت دین کا کتنا بوجھ ہے اور اس کے ساتھ کس قدر ذمہ داریاں اور تفکرات اور ہموم وغم وابستہ ہیں اور کس طرح وہ اکیلے تمام دنیا سے بر سرِ پیکار ہیں اور اسلام کی ترقی اور سلسلہ احمدیہ کی بہبودی کا خیال ان کی زندگی کا مرکزی نکتہ ہے پس مبارک وجود کو اگر تم کبھی خوشی دے سکو اور کچھ بھی ان کی تکان اور تفکرات کو اپنی بات چیت، خدمت گزاری اور اطاعت سے ہلکا کرسکو تو سمجھ لو کہ تمہاری شادی اور تمہاری زندگی بڑی کامیاب ہے اور تمہارے نامۂ اعمال میں وہ ثواب لکھا جائے گا جو بڑے سے بڑے مجاہدین کو ملتا ہے…مریم صدیقہ تمہاری زندگی اب خلیفہ کی رضا جوئی اور خدا تعالیٰ کی محبت کے لئے ہے ‘‘

(الفضل 25؍مارچ 1966ء)

سترہ سال کی عمر میں نصیحتوں سے لدی پھندی اس دلہن کا استقبال شادی کی رات شوہر نے اس طرح کیا۔ حضرت چھوٹی آپا تحریر فرماتی ہیں :

’’عموما ًشادیاں ہوتی ہیں دلہا دلہن ملتے ہیں تو سوائے عشق و محبت کی باتوں کے کچھ نہیں ہوتا لیکن مجھے یاد ہے کہ میری شادی کی پہلی رات بے شک عشق و محبت کی باتیں بھی ہوئیں مگر زیادہ تر عشق الٰہی کی باتیں تھیں آپ کی باتوں کا لب لباب یہ تھا اور مجھ سے ایک طرح عہد لیا جارہا تھا کہ میں دعاؤں اور ذکر الٰہی کی عادت ڈالوں ، دین کی خدمت کروں اور حضرت خلیفۃ المسیح کی ذمہ داریوں میں ان کا ہاتھ بٹاؤں بار بار آپ نے اظہار فرمایا کہ میں نے تم سے شادی اسی غرض سے طے کی ہے‘‘۔

(الفضل 25؍مارچ 1966ء)

حضرت مصلح موعود ؓکی خواہش تھی کہ وہ اپنی بیگمات کو تعلیم دے کر احمدی خواتین کے تعلیمی معیار کو بلند کرنے کی خدمت پر لگادیں۔ حضرت سیدہ امۃ الحئی، حضرت سیدہ سارہ بیگم اور حضرت سیدہ ام طاہر کے عرصہ ٔحیات مختصر ہونے کی وجہ سے یہ شوق آپ کے بلند عزائم کے مطابق پورا نہ ہوسکا۔ یہ سعادت حضرت چھوٹی آپا کے حصے میں آئی اور خوب ہی آئی۔ ایم اے تک تعلیم حاصل کی اور دینی تعلیم و تربیت اس پر مستزاد، سب کچھ جو پایا جماعت کی نذر کردیا:

’’احمدی خواتین کی تعلیم و تربیت میں آپ کی خدمات تاریخ لجنہ کا ایک سنہری باب ہے۔ نصف صدی سے زائد عرصہ تک لجنہ اماءاللہ کی خدمات، لجنہ کی صدر کی حیثیت سے ملک کے طول و عرض میں اوردوسرے ملکوں میں دورے کیے۔ کئی کتب لکھیں جن میں تاریخ لجنہ کی پانچ جلدوں کی تدوین۔ الازھار لذوات الخمار۔ مشکوٰۃ المصابیح۔ یادگار کتب ہیں۔ سینکڑوں خواتین کو قرآ ن مجید پڑھایا۔ حضرت اماں جانؓ کی بے مثال خدمت کی سعادت حاصل کی۔ اپنی غیر معمولی صلاحیتوں اور خدمات میں خلوص سے آپ حضرت مصلح موعودؓکی با اعتماد ساتھی تھیں۔ آپؓ کی آخری بیماری میں تو بے مثال خدمت کا حق ادا کردیا۔ اسی علالت کے زمانہ میں حضرت سیدہ کو یہ اعزاز بھی نصیب ہوا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓنے اپنی الیس اللّٰہ بکاف عبدہ والی انگوٹھی آپ کے سپرد فرمائی کہ جو نیا خلیفہ بنے اس کو پہنا دی جائے‘‘۔ (تاریخ انصار اللہ جلد سوم صفحہ 674)

حضورؓ حضرت چھوٹی آپا کو صدیقہ کہہ کر بلاتے تھے۔ آپ تیس سال حضرت مصلح موعودؓ کے ساتھ حقیقی صدیقہ بن کر رہیں۔

حضرت چھوٹی آپا ایک ماں کی طرح یاد آتی ہیں خاص طور پر رمضان المبارک میں بہت یاد آتی ہیں۔ خاکسار کا معمول تھا کہ بابرکت ساعتوں میں ایک بزرگ خاتون کی زبان سے اپنا نام اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کرنے کی حرص میں آپ سے دعاؤں کی عاجزانہ درخواست کرتی۔ اب یہ بابرکت مہینہ آتا ہے تو اس شفیق سائے کے سر سے اٹھ جانے کا احسا س تڑپادیتا ہے۔ پھر میں دعاکرتی ہوں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ آپ پر اپنی رحمتوں کی بارش برسائے اپنی محبت بھری آ غوش میں رکھے۔ آ مین ثم آ مین۔

آپ ایک روشن چراغ تھیں جس سے اَن گنت چراغ جلے تھے اب اُن کی لَو کو اُبھارتے رہنا ہمارا فرض ہے۔ محبت میں آپ سے وابستہ ہر یاد سپرد قلم کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔ تاکہ اس روشن چراغ کی روشنی پھیلتی رہے کسی کا من روشن ہوجائے۔

حضرت چھوٹی آپا کا بہت بڑا مقام تھا۔ ایک بے حد بارعب پُر وقار شخصیت۔ آپ کی شفقتوں کے قصے اپنے بڑوں سے سُن سُن کر آپ جیسی سائبان شخصیت سے از خود کشش محسوس ہوتی۔ ناصرات اورلجنہ کے جلسوں میں تقسیم انعامات کے وقت آپ سے انعام وصول کر کے مصافحہ میں آپ سے مَس کیا ہوا ہاتھ بہت قیمتی لگتا۔ جامعہ نصرت میں داخلے کے بعد ایک معمولی سی غیر اہم لڑکی کی نصابی اور غیر نصابی سر گرمیاں اس کا تعارف بن گئیں۔ جامعہ نصرت میں سالانہ تقریبات بڑی شان سے ہوتیں۔ بزم مباحثہ اور بزم ادب کے فنکشن تو خاص طور پر دلچسپیوں کا محور ہوتے۔ مشاعروں میں سنجیدہ اور مزاحیہ نظمیں گھڑ کر توجہ کھینچ لیتی۔ اسی طرح مباحثوں میں جان لڑا کر حصہ لیتی۔ حضرت چھوٹی آپا ہر موقع پر فراخ دلی سے ستائش فر ماتیں۔ ایک نرم خوش گوار مسکراہٹ کا سر مایہ جھولی میں ڈال کر زمین سے کچھ اُوپر اُوپر چلا کرتی۔

بی اے کے بعد ایم اے میں داخلہ حضرت چھوٹی آپا کی مہر بانی سے ممکن ہوا۔ اُن دنوں لاہور جا کر یونیورسٹی میں پڑھنا ولایت جانے کے متراوف تھا۔ اعلیٰ تعلیم کا جنون کئی قسم کی رکاوٹوں کی زد میں آ کر دم توڑ گیا ساتھی طالبات داخلہ لینے لاہور چلی گئیں تو مایوسی کے شدید احساس کے ساتھ جامعہ نصرت سے کسی طور کچھ نہ کچھ نسبت بر قرار رکھنے کے لیے آفس میں لیڈی کلرک کی آفر کو قبول کر لیا۔ پہلا ہی دن تھا حضرت چھوٹی آپا نے فون پر میری آواز پہچان کر فر مایا تم یہاں کیا کر رہی ہو لاہور نہیں گئی…؟یاں آگے درد تھا۔ پتہ نہیں کس طرح اتنا کہہ پائی ’’نہیں جا سکی چھوٹی آپا ‘‘…فر مایا ’’صبح میرے پاس آنا…‘‘حاضر ہوئی تو آپ کی‘باری’ تھی اُوپر مصروف تھیں۔ میرے آنے کا سُن کر اپنی خادمہ کے ہاتھ چند لال نوٹ بھجوا دیے۔ یونیورسٹی اورینٹل کالج میں داخلہ کا سامان ہوگیا۔ آپ کی دریا دلی، تعلیم سے محبت اور بنت درویش کی دلداری کے علاوہ بھی آپ کے اخلاق فاضلہ کے بہت سے پہلو اسی ایک عنایت سے نظر آتے ہیں۔ میرا رؤاں رؤاں ہمیشہ آپ کے لیے دعا گو رہے گا۔ طالب علمی کے زمانے میں ہوسٹل سے آپ کو خط لکھ کر رہ نمائی حاصل کرتی رہی۔ آپ کے دستِ مبارک کی یہ تحریر ہر قلم پکڑنے والے کے لیے ایک روشن مشعل راہ ہے۔

یکم اگست 1962ء کا مکتوب ہے:

’’عورتوں کے متعلق ادبی، اصلاحی، معاشرتی، مذہبی ہر قسم کے مضامین لکھے جا سکتے ہیں۔ پھر انگریزی رسالوں Readers Digest وغیرہ میں سے اچھے مضامین کا ترجمہ دیا جا سکتا ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ کی کتب کا مطالعہ کر کے اقتباسات وغیرہ بھی اور ان کا خلاصہ بھی لکھنا شروع کر دو۔ عنوان خود ملتے جائیں گے۔ مصباح کا معیار اس وقت بہت نیچا ہے اکثر مردوں کے مضامین شائع ہوتے ہیں اور یہ چیز عورتوں کے ایک رسالہ کے شایان شان نہیں ہے۔ سوال جواب کے رنگ میں دینی معلومات کا سلسلہ بھی شروع کیا جا سکتا ہے۔ اسلامی تاریخ اور احمدیت کی تاریخ کے باب کے عنوان سے بھی چیدہ چیدہ واقعات اور خاص طور پر عورتوں میں جوش پیدا کرنے والے ہوں دیے جا سکتے ہیں۔ تمہاری عبارت میں روانی اور سلاست ہے اگر لکھنا شروع کردو تو زبان میں پختگی آ جائے گی۔ دوسرے رسائل جو کالج یا امتہ الحی لائبریری میں آتے ہیں اُن کا مطالعہ کیا کرو۔ ‘‘

فائنل امتحان دے کر واپس ربوہ آئی۔ آپ نخلہ میں مقیم تھیں رزلٹ کے لیے دعا کا خط لکھا جواب میں دعا کے ساتھ جاب بھی دے دی تحریر فرما یا ’’جامعہ نصرت کھلے تو پڑھانا شروع کردینا‘‘ کالج کے سٹاف میں شامل ہونے سے آپ کے قرب کے کئی مواقع حاصل ہوتے۔ پھر لجنہ مرکزیہ میں خدمت کی سعادت حاصل ہوئی اجتماعات جلسوں اور جلسہ ہائے سالانہ پر آپ کے ارشادات کی تعمیل کرکے دعائیں حاصل کیں۔ آپ کی ذات میں ایک خاص رعب اور وجاہت تھی جس کی شان اس وقت نمایاں ہو کر سامنے آتی جب آپ خواتین میں درس قرآن، اجتماع یا جلسے میں حضرت مصلح موعود ؓ کے خطاب کے وقت ساتھ تشریف لاتیں۔ ایک مستعد چاق و چو بند سپاہی کی طرح ساتھ ساتھ رہتیں۔ حضورؓ کسی وقت کچھ بھی دریافت فرماتے آپ حاضر دماغی سے مکمل جواب دیتیں۔

خاکسار نے جامعہ نصرت کے پہلے رسالہ ‘ النصرت ’ کے لیے آپ سے پیغام کی استدعا کی ۔چند سطور پر مشتمل یہ پیغام اپنے اندر فہم و فراست تحریر پر گرفت اور قائدانہ شان کا مظہر ہے:

پیغام برائے النصرت مجلہ جامعہ نصرت

’’ہر زمانہ کا ادب اس کی اخلاقی اقدار کا آئینہ دار ہوتا ہے تمہارا فرض ہے کہ تمہارا رسالہ اُسی تہذیب کا علمبردار ہو جو آج سے چودہ سو سال قبل سیدنا محمد مصطفیٰﷺ لے کر آئے تھے اور جس کا ڈنکا مسلمانوں نے نصف دنیا میں بجا دیا۔ یورپ اپنی تہذیب اور ترقی کے لئے مسلمانوں کا مرہونِ منت ہے مگر خود مسلمان اپنی اخلاقی اقدار کو بھول گئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی غرض بھی جیسا کہ آپؑ کو الہاماً بتایا گیا

یُحْیِ الدِّیْنَ وَ یُقِیْمُ الشَّرِیْعَۃَ۔

پس تمہیں چاہئے کہ اپنے رسالہ کے ذریعہ سے دنیا کو اسلامی تہذیب سکھاؤ۔ رعبِ دجّال سے بچنے کی تلقین کرو اور خود بھی مغرب پرستی کی لعنت سے بچو۔ اسلام اور مغربیت دو تلواریں ہیں جو ایک میان میں نہیں رہ سکتیں۔ اللہ تعالیٰ تمہیں توفیق دے کہ اسلامی تہذیب اور تمدن تمہارے ذریعے سے دنیا میں پھیلے تمہارا کردار اور تمہارا ادب انہی اخلاقی اقدار کے حامل ہوں جو ایک سچے مسلمان کی شان کے شایاں ہیں۔ آمین اللّٰھم آمین

خاکسار مریم صدیقہ

29؍جنوری1963ء‘‘

شادی ہوئی تو ازراہ شفقت تشریف لا کر دعاؤں سے رخصت کیا۔ میکے سے سسرال تک کا فاصلہ آپ ہی کی گاڑی میں طے ہوا۔ کراچی آ کر خیریت کی اطلاع دی تو آپ نے جو مکتوب تحریر فر مایا اُس میں مادرانہ شفقت کی خوشبو بسی ہوئی ہے۔

’’64، 25.3… یہ معلوم کر کے بہت خوشی ہوئی کہ تم اپنی سسرال میں خوش ہو اور تمہارے میاں بہت اچھے ہیں۔ اللہ تعالیٰ تمہیں ہمیشہ ہی خوش رکھے اور شادی کے بہترین نتائج نکلیں۔ تمہاری سسرال سے ہمارے گھر کا گہرا تعلق ہے۔ میرے دل میں ان سب کی بہت قدر ہے اور میں اُن سب کے لئے ہی دعا کرتی ہوں۔ تمہارے خُسر مرحوم میرے ابا جان کے پاس رہتے تھے۔ بڑے مخلص تھے۔ ابا جان کو ان پر بہت اعتبار تھا۔ ہم اس وقت لڑکیاں تھیں اور اباجان لڑکیوں کی تربیت کے معاملے میں بڑے سخت تھے لیکن کہیں جانا ہوتا تھا تو ہم بہنوں کو شمس الدین صاحب کے ساتھ بھجوادیتے اور وہ بھی بڑا خیال رکھتے تھے۔ ذرا کہیں راستے میں بے احتیاطی ہوئی نقاب وغیرہ اُ ٹھائی تو فوراً ٹوک دینا، ٹھیک سے پردہ کرو‘‘۔

1964ء میں پہلی بچی پیدا ہوئی تو حضرت مصلح موعود ؓکی علا لت کی وجہ سے نام رکھوانے کی درخواست پر جھجک رہی تھی۔ آپ نے حضورؓسےنام رکھواکے تحریر فرمایا ’’حضور سے پوچھا تھا آپ نے امۃ المصور نام تجویز فرمایا ہے۔ اللہ مبارک کرے‘‘ جس سے بہت خوشی ہوئی۔

چھوٹے بیٹے کا نام آپ نے دعاؤں کے ساتھ عنایت فرمایا۔

’’اللہ تعالیٰ بہت بہت مبارک کرے بچہ نیک ہو۔ اللہ تعالیٰ زندگی دے اور ماں باپ کے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک ہو بڑی خوشی سے ‘محمود احمد’نام رکھو۔ مجھے تو یہ نام بہت پیارا ہے اور جس کا بھی یہ نام ہوگا وہ بھی پیارا ہی ہوگا۔ ‘‘

دعاؤں محبتوں اور شفقتوں کے یہ سلسلے اس لیے زیادہ قابل قدر ہیں کہ آپ بہت معمور الاوقات تھیں۔ آپ کے خطوط سے چند اقتباس پیش کرتی ہو ں۔ ہر خط پڑھ کر اس بات کا لطف آئے گا کہ آپ ایک ماں کی طرح جانتی تھیں کہ خاکسار کی دلچسپی کن باتوں کے بارے میں پڑھنے میں ہوگی۔ نیز یہ بھی اندازہ ہوگا کہ آپ کس قدر خدمتِ دین کے لیےجوش و تپش رکھتی تھیں۔

مٹ جاؤں میں تو اس کی پروا نہیں ہے کچھ بھی

میری فنا سے حاصل گر دین کو بقا ہو

نیلے رنگ کے رائٹنگ پیڈ پر خوب صورت ہینڈ رائٹنگ میں لکھے ہوئے یہ خطوط میرے پاس محفوظ ہیں۔ تحریر فرماتی ہیں :

’’نومبر 1970ء…لجنہ کی تاریخ کی کتابت ہو رہی ہے روزانہ پروف پڑھنے کے لئے آ رہے ہیں۔ پھر رمضان کی مصروفیت۔ جلسے کی ڈیو ٹیاں لگ رہی ہیں پروگرام وغیرہ۔ بس پتہ نہیں لگتا کہ صبح کب ہوتی ہے اور شام کب۔

تم ماشاء اللہ پڑھی لکھی ہو تحریر بہت اچھی ہے۔ کچھ لکھا کرو الفضل کے لئے خصوصاً مصباح کے لئے۔ لوگ شکایت تو کرتے ہیں کہ مصباح کا معیار بلند نہیں ، جب چھٹی ساتویں پاس کے مضمون شائع ہونگے تو معیار کیسے بلند ہوگا۔ ‘‘

’’جنوری 1971ء…ایک جلد تاریخ لجنہ کی آج تمہارے پتہ پر وی پی کرنے کے لئے دفتر کو کہہ دوں گی۔ پڑھ کر اپنی رائے بھی لکھنا۔ اور نقائص بھی تاکہ دوسری جلد میں وہ نقائص دور کئے جا ئیں۔ اگلی جلد کا کام بھی عنقریب شروع کر رہے ہیں وہ انشاءاللہ جلد لکھی جائے گی کیونکہ اُس کے حوالہ جات نکالنے کا کام تو پہلی جلد کے ساتھ ہو چکا ہے۔ اب لکھنے کا مرحلہ باقی ہے۔ پہلی جلد لکھ کر خاصا تجربہ ہو چکا ہے۔ کو شش ہوگی اللہ تعالیٰ توفیق دے کہ سالانہ اجتماع تک دوسری جلد چھپ جائے۔ پہلی جلد جلسہ پر چھپنے کی وجہ سے کافی سر دردی کرنی پڑی۔ کاتب نہیں ملتے تھے۔ بے حد محنت کر کے بھی 26کی شام کو چند جلدیں تیار ہو کر آئیں۔ اس سے فروخت پر بھی ا ثر پڑا۔ ابھی تک چار سو جلد صرف نکلی ہیں۔ ہزار چھپوائی تھیں۔ اُمید ہے کہ دو تین ماہ تک نکل جائیں گی۔ میری تقریر وں کے متعلق جو تم نے لکھا ہے…میرے بعد تم مجموعہ مرتب کر لینا۔ اس سے زیادہ کام تاریخ کا ہے پُرانی کارکنان کے حالاتِ زندگی لکھنے کا وہ بھی کرتی رہنا۔ ‘‘

’’نومبر 1971ء…بہت مصروف ہیں ہم آجکل، لجنہ کی تاریخ جلد دوم کی کتابت شروع ہو گئی ہے۔ اُمید ہے انشاء اللہ جلسہ سالانہ سے قبل چھپ جائے گی۔ خدا کرے عورتوں بچوں کے لئے فائدہ مند ہو۔ وہ خریدیں بھی اور پڑھیں بھی۔ جلسہ سالانہ کا پروگرام بن گیا ہے۔ نقشہ عید کے بعد بنائیں گے۔ فی الحال تو تاریخ لجنہ کا ہی کام ہے۔ روزانہ کوئی نہ کوئی کام نکل آتا ہے۔ بار بار دیکھ کر غلطیاں ٹھیک کر رہے ہیں۔ کچھ حصہ نقل ہو رہا ہے۔ بعض تصاویر کا انتظام کر رہے ہیں۔ اچھا خدا حافظ‘‘

’’مارچ 1972ء…فروری کا سارا مہینہ تو پاک فوج کے جوانوں کے لئے روئی کی صدریاں سینے سلوانے میں گزرا۔ آٹھ ہزار صدریاں تیار کی ہیں۔ پھر جامعہ نصرت کی تقریبات شروع ہو گئیں۔ تاریخ لجنہ سوم کی تیاری شروع ہو گئی ہے۔ ‘‘

’’جولائی 1972ء…گذشتہ ہفتہ تیز بخار سے پڑی رہی ہوں اس لئے جواب نہ دے سکی۔ ڈھیروں ڈاک اکٹھی ہو گئی ہے۔ آج لکھنے بیٹھی ہوں۔ تاریخ کا کام بھی ابھی تک سست رفتاری سے ہو رہا ہے۔ گر میوں میں کام کرنے والی بھی کھسکنے لگ جاتی ہیں۔ ابھی تو 1959ء سے 1964ء تک لکھا گیا ہے اور کچھ آ ئٹم بعد کے رسالوں کے۔ اس دفعہ کام بہت زیادہ ہے۔ پھر اجتماع کا کام بھی ابھی سے شروع کر دیا گیا ہے دعا کرتی رہو اللہ تعالیٰ کا فضل ہو جائے تو سب ہو جاتا ہے۔ 15جولائی سے فضل عمر تعلیم القرآن کلاس شروع ہو رہی ہے۔ اس کا کام بھی بڑی توجہ چاہتا ہے۔ ‘‘

’’پندرہ مئی 1986ء…تمہارا 19؍رمضان المبارک کا خط مل گیا تھا جزاک اللہ سب کے لئے حسبِ توفیق دعا کرتی رہی ہوں شام کو ایک گھنٹہ روزانہ پانچ سے چھ بجے درس دیتی تھی اور صبح چار سے پانچ گھنٹے اس کی تیاری میں لگتے تھے روزہ کھول کر خط لکھنے کی ہمت نہیں رہتی تھی۔ ڈھیر ڈاک جمع ہو گئی ہے اب دوتین دن سے نکالنے میں لگی ہوں۔ خط پر بس چھوٹی آپا ہی لکھا کرو مجھے یہی القاب پسند ہیں اس سے زیادہ جو لکھے اس میں تکلف کی بُو آتی ہے۔ ماشاء اللہ سارے بچے تعلیم میں اچھے جارہے ہیں خدا کرے صبور کو قوتِ سماعت و گویائی حاصل ہوجائے۔

جشنِ صد سالہ کا جو پروگرام بنا ہے اس کی کاپی لجنہ کراچی کو بھی بھجوائی ہے اس کے مجلے اور مصباح کے لئے نثر اور نظم میں مدد کرنا۔ دل کرتا ہے کہ بہت شاندار چھپیں پابندیاں دور ہوں اور خوشیاں کھل کر منائی جائیں۔ ‘‘

جب بھی آں محترمہ کا کراچی کا دورہ ہوتا ایک جشن کا سا سماں ہوتا۔ قیادتوں کے دورے، جلسے اور ملاقاتیں جاری رہتیں ایک ایک پل سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جاتی۔ خاکسار بطور خاص خوش ہوتی مجھے لگتا میرا میکا آگیا ہے۔ آپ کراچی میں شعبہ اشاعت کی عاجزانہ خدمات کی حوصلہ افزائی فرماتیں۔ ایک مکتوب دیکھیے:

’’کتب کی رپورٹ دیکھ کر خوشی ہوئی۔ جو کام اشاعت کا مرکزی شعبہ اشاعت کو کرنا چاہیے وہ آپ لوگ کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس کام میں برکت ڈالے۔ بچوں کے لیے تو لٹریچر کی بہت ضرورت ہے ناصرات معیار اوّل کی قابلیت کے لیے کتب لکھیں۔ زیادہ لٹریچر آپ کا چھوٹے بچوں کے لیے ہے۔ المحراب شائع کرنے کی مبارک باد وصول کریں۔ بہت اچھا اور متنوع رسالہ شائع کیا ہے۔ سب سے بڑی بات یہ کہ حضور کا پیغام اور نظم اس میں شامل ہے۔ المحراب میں لجنہ کے حالات بھی آگئے ہیں ‘‘۔

1993ءمیں کراچی میں آپ کا گھٹنے کا آپریشن ہوا۔ صحت مند ہو کر گھر آئیں تو لجنہ کراچی نے خوشی میں ایک ہلکی پھلکی تقریب رکھی اس میں خاکسار کو کچھ اشعار پیش کرنے کا موقع ملا

یہاں سب چاہنے والے مبارکباد دیتے ہیں

بھلا لگتا ہے سب کو آپ کا آرام سے اُٹھنا

خدا کا شکر ہے اُس نے ہماری ہر دعا سن لی

مبارک صد مبارک آپ کو دو لاکھ کا گھٹنا

ایک بے ساختہ دل نشین مسکراہٹ اور ایک پرفیوم سے داد ملی۔ الحمدللہ

میری امی جان نے میرے جسم کو جنم دیا تاہم اس کی اور میری روح کی پرورش حضرت چھوٹی آپا نے کی۔ دونوں کے درجات کی بلندی کے لیے دعا گو ہوں اللہ تعالیٰ غریق رحمت فرمائے۔ امی جان تو جلدی ساتھ چھوڑ گئیں ان کے بعد سارے دکھ سکھ چھوٹی آپا سے ہوتے۔ دل میں یہ شوق رہتا کہ ان سے جتنی دعائیں مل جائیں غنیمت ہے۔ ایک بہت اچھا موقع ہاتھ لگا۔یہ ان دنوں کی بات ہے جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کے خطبات گیسٹ ہاؤس میں ٹیلیفون لائن پر سنا کرتے تھے۔ آپ جہاں تشریف فرما ہوتیں خاکسار قدموں میں جگہ بنا لیتی اور آپ سے اجازت لے کر آپ کے پاؤں دبانے کی سعادت حاصل کرتی۔ وہ لمس بہت لذ یذ تھا۔ واقعی ماؤں کے قدموں میں جنت ہوتی ہے۔

ہماری خوش قسمتی کہ آپ کی علم و عرفان سے بھرپور تقاریر کے مجموعے چھپ چکے ہیں جن سے فائدہ اُٹھا کر ہم ان کا فیض جاری رکھ سکتے ہیں۔ میں یہاں صرف ایک دو نصائح کا ذکر کروں گی۔

کراچی لجنہ کی مجلسِ عاملہ کا آپ کی صدارت میں اجلاس ہو رہا تھا۔ خاندانی جھگڑے زیرِ بحث تھے آپ انتہائی سنجیدہ تھیں ، دکھ کا احساس نمایاں تھا۔ آپ نے فرمایا میرا زندگی بھر کا تجربہ یہی ہے کہ ننانوے فیصد عورتوں کوہی جھکنا پڑتا ہے پھر ہی گھر بچتے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی باتوں کو انا کا مسئلہ نہ بنایا جائے۔ جھکاؤ، لچک، برداشت اور درگزر سے گھروں کا سکون حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔ میں نے اس نصیحت کو پلّے باندھا عمل بھی کیا۔

جشن صد سالہ کی تقاریب میں حضرت چھوٹی آپا کراچی تشریف لائیں ایک بڑے جلسے سے خطاب کے بعد ملاقات بھی تھی۔ خاکسار کی ڈیوٹی ملاقات پر تھی میں نے دیکھا کہ خواتین عقیدت میں اپنے بچوں کو پہلے آگے کرتی تھیں چھوٹی آپا عورتوں اور بچیوں سے ہاتھ ملاتی تھیں مگر لڑکوں سے ہاتھ نہیں ملاتی تھیں اگرچہ وہ چھوٹی عمر کے تھے اس سے میں نے یہ سبق سیکھا کہ تربیت بہت چھوٹی عمر سے شروع کرنی چاہیے۔

آپ کی آخری علالت کے دنوں میں ایک دن ٹیلیفون پر دعا کی درخواست کی تو آپ نے فر مایا ’’تم بھی میرے لئے دعا کیا کرو ‘‘مَیں نے بے ساختہ پوچھ لیا چھوٹی آپا میں آپ کے لیے کیا دعا کیا کروں ؟ فر مایا ’’دعا کیا کرو میرا خاتمہ بالخیر ہو‘‘ یہ چھوٹا سا جملہ میری دعاؤں میں شامل ہو گیا۔ ایسا منہ پر چڑھا کہ اب بھی بے ساختہ یہ جملہ ادا ہوتا ہے تو چھوٹی آپا بہت یاد آتی ہیں۔

حرف آخر کے طور پر حضرت چھوٹی آپا جان کا ہی پیغام درج کرتی ہوں جو آپ نے خاکسار کی درخواست پر کراچی کے مجلہ المحراب صد سالہ جشن تشکر نمبر کے لیے بھیجا تھا :

’’لجنہ اماء اللہ کراچی صد سالہ جشن تشکر کے موقع پر ایک مجلہ شائع کر رہی ہے جس کا نام‘المحراب ’رکھا گیا ہے عربی میں محراب گھر کے بہترین حصے کو کہتے ہیں۔ المحراب کے نام سے مجلہ شائع کرنے کا مطلب ہے کہ آپ بہترین دور میں داخل ہو رہی ہیں اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان اور فضل ہے کہ اس نے ہمیں یہ مبارک دن دکھایا کہ ہماری جماعت پہلی صدی ختم کرکے دوسری صدی جو انشاء اللہ غلبہ ٔاسلام کی صدی ہوگی میں داخل ہو چکی ہے۔

اسلام ان عظیم ہستیوں پر جنہوں نے پہلی صدی میں مہدی کو پہچان لینے کی وجہ سے ہر قسم کی سختی سہی۔ دکھ اور آزاراٹھائے۔ انواع و اقسام کے مصائب کا سامنا کرنا پڑا آزمائشیں آئیں مگر وہ اللہ تعالیٰ کے وفادار بندے ثابت ہوئے اور خدا تعالیٰ کی نگاہ میں صادق اور راست باز ٹھہرے۔ آنے والی نسلیں ان پر رشک کریں گی۔ اب آپ دوسری صدی میں داخل ہو چکی ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدا تعالیٰ سے بشارت پاکر جماعت کو بشارت دی تھی:

’’سچائی کی فتح ہوگی اور اسلام کے لئے پھر اسی تازگی اور روشنی کا دن آئے گاجو پہلے وقتوں میں آچکا اور وہ آفتاب اپنے پورے کمال کے ساتھ چڑھے گا جیسا کہ پہلےچڑھ چکا ہے لیکن ابھی ایسا نہیں ضرور ہے کہ آسمان اسے چڑھنے سے روکے رہے جب تک کہ محنت اور جانفشانی سے ہمارے جگر خون نہ ہو جائیں اور ہم سارے آراموں کو اس کے ظہور کے لئے نہ کھودیں اور اعزازِ اسلام کے لئے ساری ذلتیں قبول نہ کرلیں۔ اسلام کا زندہ ہونا ہم سے ایک فدیہ مانگتا ہے وہ کیا ہے ہمارا اسی راہ میں مرنا۔ یہی موت ہے جس پر اسلام کی زندگی۔ مسلمانوں کی زندگی اور زندہ خدا کی تجلّی موقوف ہے‘‘(فتح اسلام)

پس میری بہنو! نئی صدی ہمارے لئے بھاری ذمہ داریاں لا رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا بھی ارشاد ہے کہ انسان کو چاہیے دیکھتا رہے کہ اس نے کل کے لیے کیا تیاری کی ہے پس ہمیں جائزہ لینا چاہیے کہ کیا ہم نے اپنے آپ کو، اپنی اولاد کو یہ ذمہ داریاں اٹھانے کے لئے تیار کیا ہے یا نہیں۔ اگر نہیں تو آپ کے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے۔ وہی قوم زندہ رہتی ہے جس کی اگلی نسل پہلی نسل کے کام کے تسلسل کو جاری رکھے۔ پس ہمارے قدم رُکیں نہیں چلتے جائیں بڑھتے جائیں اور اپنے ساتھ اگلی نسل کو بھی لے کر چلیں۔ ان کے دلوں میں دین کے لیے غیرت، اللہ تعالیٰ سے پیاراور آنحضرت ﷺ سے عشق پیدا کریں۔ دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کا جذبہ پیدا کریں۔

اللہ تعالیٰ کا بے حد شکر کریں کہ اس نے یہ مبارک دن دکھائے۔ خوشی ہم پر نیند طاری نہ کرے بلکہ زیادہ چست کردے یہاں تک کہ محنت اور جانفشانی سے ہمارے جگر خون ہوجائیں۔ دعائیں کریں کثرت سے کہ قربانیوں کی توفیق بھی اس کے فضل کے بغیر نہیں ملتی۔ دعائیں کریں کہ خزاں کا دور بہار سے بدل جائے اور نسیم عنایات یار سے پھر چلنے لگ جائے۔ آمین اللّٰھم آمین

خاکسار

مریم صدیقہ‘‘

مصلح موعود نے از خود تراشا تھا جسے

ایسا ہیرا بے گماں تھیں سیّدہ اُم متین

عمر بھر قرآن سیکھا اور سکھایا آپ نے

معرفت کا آسماں تھیں سیّدہ اُم متین

سخت محنت زندگی بھر آپ کا معمول تھا

پختہ عمری میں جواں تھیں سیّدہ اُم متین

سیّدہ کو اہل جنت میں بھی سرداری ملے

یاں بھی میر کارواں تھیں سیّدہ اُم متین

آمین اللّٰھم آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button