متفرق مضامین

حضرت مسیح موعودؑ کے الہام ’’انت الشیخ المسیح الذی لا یضاع وقتہ‘‘ کے حوالے سے وقت کی اہمیت

(چودھری عطاء الرحمن محمود۔ سویڈن)

(اسلامی سال کے آغاز پر ایک خصوصی تحریر)

ہماری زندگی میں وقت نہایت خاموشی سے سیکنڈوں، منٹوں، گھنٹوں، دنوں، ہفتوں، مہینوں اور سالوں میں تبدیل ہوتا رہتا ہے اور بظاہر یہ کوئی اچنبھے کی بات بھی نہیں ہے۔ جب وقت کا پہیہ رواں دواں ہے تو اس نے تو چلتے ہی چلے جانا ہے۔ ہاں مگر سوچنے اور غور کرنے والوں کے لیے اس میں بڑے بڑے نشانات ہیں۔ قرآن کریم اسی طرف رہ نمائی کرتے ہوئے فرماتا ہے:

اِنَّ فِیۡ خَلۡقِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ اخۡتِلَافِ الَّیۡلِ وَ النَّہَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الۡاَلۡبَابِ (آل عمران:191)

یقیناً آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور رات اور دن کے ادلنے بدلنے میں صاحبِ عقل لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں۔

شب و روز کی اسی گردش کا نام وقت ہے جسے تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلا حصہ ماضی ہے یعنی وہ وقت جو گزر گیا اور جو اَب کبھی لوٹ کر واپس نہیں آئے گا۔ دوسرا حصہ حال ہے یعنی وہ وقت جو اس وقت گزر رہا ہے۔ یہی وہ حصہ ہے جو انسانی زندگی میں فیصلہ کن حیثیت رکھتا ہے اور تیسرا حصہ مستقبل ہے یعنی وہ وقت جو ابھی آیا نہیں بلکہ آنےوالا ہے۔

اہلِ علم و دانش کے نزدیک وقت کا دوسرا حصہ جس میں سے ہم اس وقت گزر رہے ہیں جو حال کہلاتا ہےہمیں یہی سکھاتا ہے کہ آج اس وقت مَیں تمہارے پاس ہوں۔ تم اپنے ماضی کو سامنے رکھ کر اس سے سبق حاصل کرو اور پھر اللہ پر توکل کرتے ہوئے اپنی تمام تر صلاحیتیں استعمال کرو۔ اس طرح تم اپنے مستقبل کو سنوار سکو گے۔ لیکن اگر تم نے میری قدر نہ کی تو حال کی خرابی کے ساتھ ساتھ مستقبل کو بھی داؤ پر لگا دو گے اور کبھی کامیابی کا منہ نہ دیکھ سکو گے کیونکہ میں تو جا کر واپس نہیں لوٹتا۔

ہمارے آقا و مولا آنحضرتﷺ کی ایک حدیث بھی اسی مضمون کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔ آپؐ فرماتے ہیں:

’’ہر روز جب صبح کو سورج طلوع ہوتا ہے تو اس وقت دن یہ اعلان کرتا ہے کہ اے انسان! اگر تو کوئی بھلائی کر سکتا ہے تو آج کےد ن میں کر لے کیونکہ آج کے بعد میں پھر دوبارہ کبھی لوٹ کر واپس نہیں آؤں گا۔ اور ہر رات جب ستارے طلوع ہوتے ہیں تو اس وقت رات یہ اعلان کرتی ہے کہ اے انسان! اگر تو کوئی بھلائی کر سکتا ہے تو آج کی رات میں کر لے کیونکہ آج کے بعد میں پھر دوبارہ کبھی لوٹ کر واپس نہیں آؤں گی۔‘‘

(امالی ابن سمعون الواعظ صفحہ200)

حضرت عمرؓ فرمایا کرتے تھے:

’’میری طبیعت پر یہ بات بڑی گراں گزرتی ہے جب میں کسی کو بالکل فارغ دیکھوں کہ نہ وہ دین کے کام میں مشغول ہو اور نہ دنیا کے۔‘‘

حضرت علیؓ کا فرمان ہے کہ

’’یہ ایام تمہاری عمروں کے صحیفے ہیں۔ اچھے اعمال سے ان کو دوام بخشو۔‘‘

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے تھے:

’’میں اس دن سے زیادہ کسی چیز پر نادم نہیں ہوتا جو میری عمر سے کم ہو جائے اور اس میں میرے عمل کا اضافہ نہ ہو سکے۔‘‘

تاریخِ عالم گواہ ہے کہ دنیا میں کوئی غیرمعمولی کارنامہ سرانجام دینے والے افراد کی زندگی میں وقت ایک خاص اہمیت کا حامل تھا۔ وہ وقت کی افادیت اور اس کے صحیح استعمال سے آگاہ تھے۔ ان کے لیے وقت عمل کا ایک سانچہ بن گیا اور غلام کی حیثیت سے ان کے آگے اپنے گھٹنے ٹیک دیے اور کامیابیوں اور کامرانیوں سے ان کی جھولیاں بھر دیں۔ کوئی ان میں چودھری سر محمد ظفراللہ خانؓ بن کر عالمی سیاست اور عدل کے افق پر روشن ستارہ بن کر چمکا اور کوئی ڈاکٹر عبدالسلام کے روپ میں مسلم دنیا کا پہلا نوبیل پرائز حاصل کرنے والا سائنسدان بن گیا۔

وقت کے بہترین مثبت اور صحیح استعمال کے حوالے سے روحانی دنیا میں ہمیں انبیاء اور خلفاء کی مثالیں ملتی ہیں۔

ان میں سے سب سے بڑھ کر آنحضورﷺ کی ذات تھی جن کی مصروفیت کا عالم یہ تھا کہ خدا تعالیٰ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بھی اس کی گواہی دی کہ

اِنَّ لَکَ فِی النَّہَارِ سَبۡحًا طَوِیۡلًا(المزمل:8)

یقیناً تیرے لئے دن کو بہت لمبا کام ہوتا ہے۔

بانی جماعت احمدیہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی مصروفیات ومعمولات کا بھی ایک عجیب عالم تھا۔ صبح سے رات گئے تک متفرق امور میں مصروف و مشغول رہتے۔ گھر بار، بیوی بچوں، دوست احباب، ملاقات کے لیے روزانہ آنے والے مہمان، آنے والے خطوط کے جوابات اور مقدمات کے ساتھ ساتھ زندگی کے آخری لمحات تک دینِ اسلام کے لیے تحریر و تقریر کا سلسلہ بیماری اور ضعف کے باوجود جاری رہا۔ آپ نے اسلام کے دفاع میں 80سے زائد کتب تحریر فرمائیں۔ دس جلدوں میں آپ کے ملفوظات محفوظ کیے گئے۔ ذرا سوچئے کہ ان مصروفیات کے بعد آپ کے پاس اپنی ذات کے لیے کتنا وقت بچتا ہو گا؟ آپ کی تو یہ حالت تھی کہ اپنی حوائجِ ضروریہ پر خرچ ہونے والے وقت پر بھی آپ کو افسوس ہوتا تھا۔ آپ فرمایا کرتے تھے:

’’میرا تو یہ حال ہے کہ پاخانہ اور پیشاب پر بھی مجھے افسوس آتا ہے کہ اتنا وقت ضائع ہو جاتا ہے۔ یہ بھی کسی دینی کام میں لگ جائے اور فرمایا جب کوئی دینی ضروری کام آپڑے تو میں اپنے اوپر کھانا پینا اور سونا حرام کر لیتا ہوں۔جب تک وہ کام نہ ہو جائے۔ فرمایا ہم دین کے لئے ہیں اور دین کی خاطر زندگی بسر کرتے ہیں بس دین کی راہ میں ہمیں کوئی روک نہ ہونی چاہئے۔‘‘

(ملفوظات جلد اول صفحہ 310)

دینِ اسلام کے لیے آپ کی یہ تڑپ اور بے قراری خداتعالیٰ کو پسند آئی اور خدا تعالیٰ آپ کے وقت کے بہترین استعمال کا ضامن ہوا۔ الہام ہوا

اَنْتَ الشَّیْخُ الْمَسِیْحُ الَّذِیْ لَا یُضَاعُ وَقْتُہٗ ۔

کہ تو وہ بزرگ مسیح ہے کہ جس کا وقت ضائع نہیں کیا جاتا۔ گویا اللہ تعالیٰ نے اس الہام کے ذریعہ آپ کے ساتھ اپنے پیار کا اظہار فرمایا اور آپ کو یہ حوصلہ اور تسلی عطا فرمائی کہ اے میرے پیارے بندے! میں جانتا ہوں کہ تُو اپنے وقت کا لمحہ لمحہ میرے دین کی نصرت کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ پس تو پریشان و دلگیر مت ہو میںتیرے ساتھ وعدہ کرتا ہوں اور تجھے خوشخبری دیتا ہوں کہ میں تیرے وقت میں برکت ڈال دوں گا اور تیرا وقت ضائع نہیں ہونے دوں گا۔

اس الہامِ الٰہی کے ہم سب بھی مخاطب ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ ہم مسیح پاکؑ کی غلامی میں کس طرح اپنے وقت کو ضائع ہونے سے بچا سکتے اور اسے اپنے لیے مفید اور کارآمد بنا سکتے ہیں۔ نیز کس طرح حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی خواہش کے مطابق اپنے اس وقت کو دینِ اسلام کی نصرت و حمایت میں صرف کر سکتے ہیں۔

وقت کو ضائع ہونے سے بچانے کے لیے سب سے اہم بات وقت کی حقیقی قدر و قیمت کا احساس ہے۔ یہ فطرت کی طرف سے ملنے والا سب سے قیمتی تحفہ ہے اور جو وقت گزر جائے وہ کسی بھی صورت واپس نہیں آسکتا۔ اس لیے وقت گزر جانے کے بعد پچھتانے اور آہیں بھرنے سے بہتر یہ ہے کہ وقت کے ایک ایک لمحے کی حفاظت کریں اور ان عوامل سے بچنے کی بھرپور کوشش کرتے رہیں جو وقت ضائع کرنے کا سبب بنتے ہیں۔

وقت کو ضائع کرنے میں موبائل فون بازی لے گیا ہے۔ موبائل فون میں موبائل بنانے والی کمپنیوں نے اتنی دلچسپیاں جمع کر دی ہیں کہ آپ نہ چاہتے ہوئے بھی ان میں کھو جاتے ہیں اور پھر آپ کو وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ اگر آپ اپنے وقت کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو اپنے موبائل فون کے استعمال کو ایک خاص حد تک محدود کرنا ہو گا۔ طے کر لیجئے کہ آپ نے اپنے موبائل فون کو اس حد تک استعمال کرنا ہے اور پھر کوشش کیجئے کہ وہ حد عبور نہ کریں۔

ٹیلی ویژن کا استعمال بھی ہمارے وقت کو ضائع کرنے کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے اور اب تو انٹرنیٹ ٹیکنالوجی کے باعث چینلز کی بہت زیادہ بھرمار ہو گئی ہے۔ گھروں میں تقریباً سارا وقت ٹیلی ویژن چلتا ہی رہتا ہے۔ایک محتاط انداز ے کے مطابق ہر گھر میں کم و بیش 5 سے 7گھنٹے ٹیلی ویژن کی نشریات دیکھی جاتی ہیں۔ یہ وقت کا بہت بڑا ضیاع ہے اور ٹیلی ویژن پر ضائع ہونے والے وقت کو بچانے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ ہم جو پروگرام دیکھنا چاہتے ہیں ان پروگراموں کے اوقات نوٹ کر لیے جائیں۔ اس طرح نہ صرف آپ کا بہت سا وقت ضائع ہونے سے بچ جائے گا بلکہ آپ اپنے پسندیدہ پروگراموں سے زیادہ لطف اندوز بھی ہو سکیں گے۔

کسی کا انتظار بھی آپ کے وقت کو ضائع کرنے میں بہت زیادہ کردار ادا کرتا ہے۔ انتظار کی گھڑیاں کوشش کے باوجود کٹنے کا نام نہیں لیتیں اور آپ ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے ہوئے انتظار کروانے والے کو کوستے رہتے ہیں اور آپ کی منتظر نگاہیں کبھی گھڑی کو اور کبھی دروازے کو دیکھتی رہتی ہیں۔ ذہنی تناؤ الگ ہوتا ہے۔ کیا یہ بہتر نہیں ہو گا کہ آپ انتظار کا یہ وقت کسی مثبت کام میں صرف کر لیں؟ آپ یہ وقت کسی مطالعے سے بھی گزار سکتے ہیں یا اپنے کسی نامکمل اور ادھورے کام کی تکمیل بھی اس انتظار کے عرصہ میں کر سکتے ہیں۔ ایسا کرنے سے آپ ایک تو انتظار کی زحمت اور کوفت سے بچ جائیں گے۔ آپ ذہنی تناؤ کا شکار بھی نہیں ہوں گے اور ہو سکتا ہے کہ اس دوران آپ کا کوئی ادھورا کام بھی مکمل ہو جائے۔ یوں انتظار کی یہ گھڑیاں آپ کے لئے زحمت کی بجائے رحمت بن جائیں گی۔

اپنے گھر، دفتر اور کام کی جگہ پر اپنی اشیاء کو ترتیب اور سلیقہ شعاری سے رکھ کر آپ اپنا بہت سا وقت ضائع ہونے سے بچا سکتے ہیں۔ آپ نے کئی دفعہ محسوس کیا ہو گا کہ دفتر جاتے وقت آپ اپنے دفتر یا گاڑی کی چابی تلاش کرنا شروع کر دیتے ہیں کیونکہ آپ نے اسے اس کی مخصوص جگہ پر نہیں رکھا ہوتا۔ فون پر آپ کو آپ کا کوئی دوست کوئی اہم معلومات یا کوئی فون نمبر لکھوانا چاہتا ہے آپ کے پاس کاغذ پنسل نہیں ہے۔ آپ خود بھی تلاش شروع کر دیتے ہیں اور اپنے بیوی بچوں کو بھی بآوازِ بلند کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ جلدی سے کوئی کاغذ پنسل دو۔ کیا یہ طریقہ آپ کو اچھا لگتا ہے؟ کیا یہ بہتر نہیں کہ آپ کے گھر میں کسی مناسب جگہ پر کاغذ اور پنسل پڑے ہوں؟ اسی طرح گھر اور دفتر کی تمام چیزیں اپنی اصل جگہ پر رکھنے کی عادت اپنا کر آپ پریشانی سے بچنے کے ساتھ ساتھ اپنا بہت سا قیمتی وقت بھی ضائع ہونے سے بچا سکتے ہیں۔ اگر آپ متفق ہیں تو پھر آج سے اپنی اشیاء سلیقے اور ترتیب سے رکھنا شروع کر دیجیے۔

وقت کے صحیح استعمال اوراسے ضائع ہونے سے بچانے میں نظام الاوقات (Time Table) بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔اپنی زندگی کے تمام کاموں کو بہتر رنگ میں پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے وقت کی منصوبہ بندی نظام الاوقات کہلاتی ہے۔ اگر ہم نظام الاوقات ترتیب دے کر اس پر عمل کی نیت کر لیں تو ہمارے کاموں میں بہتری اور حسن کے ساتھ ساتھ ہمارا بہت سا وقت ضائع ہونے سے بھی بچ سکتا ہے۔

دینِ اسلام نے دن رات میں پانچ نمازیں مقررہ اوقات میں ادا کرنے کا حکم دے کر اپنے پیروکاروں کو نظام الاوقات کی اہمیت سمجھا دی ہے۔ یہ حکم نظام الاوقات کی تیاری میں ہمارا ممدو معاون بن سکتا ہے۔ ہمیں اپنے لیے نظام الاوقات مرتب کرتے ہوئے نمازوں کے اوقات کو مدنظر رکھنا چاہیے۔

نظام الاوقات کی تیاری میں د وسری اہم بات یہ ہونی چاہیے کہ کون سا کام ہمارے لیے کتنا اہم ہے؟ اور پھر کام کی اہمیت کے پیش نظر ترجیح بھی اسی کام کو ملنی چاہیے۔ مسائل اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب ہم کسی غیرضروری کام کی وجہ سے اپنے اہم کام نظرانداز کر دیتے ہیں۔ ایسے مواقع پر اپنے آپ سے صرف ایک سوال کریں کیا اس کام کے لیے اپنا اہم کام پس پشت ڈالنا مناسب ہے؟ اور کیا اپنا اہم کام بروقت مکمل نہ کرنے کے نیتجےمیں مجھے کسی نقصان کا اندیشہ تو نہیں ہے؟ مجھے یقین ہے کہ اگر آپ اس انداز میں سوچیں گے تو پھر آپ اپنے اہم کام کو کبھی متاثر نہیں ہونے دیں گے۔

عام طور پر یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ ہم اپنا ہر کام آخری وقت پر کرتے ہیں۔اس عادت کی وجہ سے ہم پر کام کا بوجھ بڑھنا شروع ہو جاتا ہے اور اکثر اوقات ہم آخری وقت میں اپنے کام کو درست طور پر مکمل بھی نہیں کر پاتے بلکہ جلد بازی میں غلطیوں کے بھی مرتکب ہو جاتے ہیں۔ آپ نے کبھی اپنے گھر میں اپنے سکول جانے والے اس بچے کو صبح کے وقت اپنی کتابیں گھر میں مختلف جگہوں پر ڈھونڈتے دیکھا ہو گا جس نے رات کو اپنا سکول بیگ تیار کر کے نہیں رکھا تھا اور ہو سکتا ہے جلدی اور گھبراہٹ میں وہ اپنی کوئی کتاب یا کاپی گھر میں چھوڑ کر چلا گیا ہو۔

کسی منچلے نے ایسے ہی کسی شخص کی کیفیت بہت خوبصورتی سے بیان کی ہے:

’’وہ ہمیشہ جلدی میں ہوتا ہے کیونکہ اسے ہمیشہ دیر ہو چکی ہوتی ہے۔‘‘

یقین کیجئے کہ وقت پر کام نہ کرنے کے بے شمار نقصانات ہیں جن میں ذہنی دباؤ، تھکاوٹ، پریشانی اور کارکردگی میں کمی نمایاں ہیں۔یاد رکھیے! جب آپ ہر کام وقت پر اور اہم کام پہلے کی ترجیح پر عمل کرنا شروع کر دیتے ہیں تو پھر زندگی آپ کے قابو میں آنا شروع ہو جاتی ہے اور اس میں توازن بھی پیدا ہونے لگتا ہے۔ جس سے آپ کی زندگی میں اطمینان آجاتا ہے اور آپ کی کارکردگی بھی بہتر ہو جاتی ہے۔

وقت کا صحیح استعمال تقاضا کرتا ہے کہ ہم اپنے کام وقت پر کریں۔ اپنے آج کے کام کو کسی صورت میں کل پر نہ ڈالیں۔ کامیاب لوگوں کے ہاں کل کا لفظ نہیں ملتا۔ کیونکہ کامیابی آج میں ہے کل میں نہیں۔ کل کا لفظ کم ہمت،سست اور نالائق لوگوں کی جائے پناہ ہے۔ دنیا میں اربوں بدنصیب آپ کو ایسے ملیں گے جن کی خواہشات اور تمنائیں کل کے لفظ نے پوری نہ ہونے دیں۔ کل ایک سراب ہے۔ کل کی زلف کا اسیر ہونا خود کو بہت بڑے دھوکے میں ڈالنا ہے۔ حضرت ابن عمرؓ فرمایا کرتے تھے کہ جب تمہاری زندگی میں صبح آجائے تو شام کا انتظار مت کرو۔ ابھی اپنے اللہ تعالیٰ کو راضی کر لو۔ کیا معلوم کہ تمہاری زندگی میں شام ہو ہی نا! اور جب تمہاری زندگی میں شام آجائے تو صبح کا انتظار مت کیا کرو۔ ابھی اپنے اللہ تعالیٰ کو راضی کر لو کیا معلوم کہ تمہاری زندگی میں صبح ہو ہی نا!

حضرت عمر بن عبدالعزیزسے ایک مرتبہ کسی نے کہا کہ ’’یہ کام کل تک موخر کر دیجئے۔ آپ نے فرمایا: ’’میں ایک دن کا کام بمشکل کرتا ہوں، آج کا کام اگر کل پر چھوڑوں تو دو دن کا کام ایک دن میں کیسے کروں گا؟‘‘

ربوہ کی ایک مشہور میڈیسن کمپنی کی کامیابی کا ایک راز یہ بھی تھا کہ وہ اپنے آج کے کاموں کو آج ہی کرنے کے عادی تھے بلکہ وہ اس معاملہ میں ایک قدم آگے ہی تھے۔ گولبازار ربوہ میں ان کے دفتر میں دو لفظوں پر مشتمل ان کا اپنا ایک مقولہ ’’ابھی کرو‘‘ آویزاں تھا۔ یہ مقولہ ان کی کامیابی کے رازوں میں سے ایک راز تھا۔

اگر آپ زندگی میں کچھ کرنے کے خواہاں ہیں تو اپنے وقت کی قدر کیجئے، اس کے بہتر اور مثبت استعمال کی منصوبہ بندی کیجئے اور کبھی بھی اپنا آج کا کام کل پر مت ڈالیے۔ اگر آپ ایسا کرنا شروع کر دیں گے تو یقین کیجئے آپ اپنےلیے، اپنے خاندان کے لیے، اپنے معاشرے کے لیے، اپنی قوم کے لیے، اس دنیا کے لیے اور اپنے مذہب کے لیے مفید کام کر سکیں گے۔

اپنے کام وقت پر کرنے کی اہمیت جاننے کے لیے اس نظم کو پوری توجہ سے پڑھیں اور اس میں بیان کردہ حقیقتوں سے سبق حاصل کرنے کی کوشش کریں۔

’’ایک سال کی قدر و قیمت کا اندازہ لگانے کے لئے اس طالب علم سے پوچھیں جو امتحان میں فیل ہو چکا ہو۔

ایک ماہ کی قدر اس ماں سے دریافت کریں جس نے قبل از وقت بچہ جنم دیا ہو۔

ایک ہفتے کی اہمیت کا اندازہ کرنے کے لئے کسی ہفتہ وار میگزین کے ایڈیٹر سے پوچھیں۔

ایک دن کی قدر و قیمت سے آگاہ ہونے کے لئے اس مزدور سے ملیں جس کے 6بچے ہیں۔

ایک گھنٹے کی قدر جاننی ہے تو ان عشاق سے رابطہ کریں جو ایک دوسرے کے انتظار میں ہیں۔

ایک منٹ کی اہمیت کا اندازہ کرنے کے لئے اس شخص سے پوچھیں جس کی ٹرین نکل گئی ہو۔

ایک سیکنڈ کی قیمت معلوم کرنے کے لئے اس شخص سے ملیں جو ایکسیڈنٹ میں بچ گیا ہو۔

سیکنڈ کے دسویں حصے کی قدر سے آشنا ہونے کے لئے اس کھلاڑی کے پاس جائیں جس نے اولمپک گیمز میں سلور میڈل جیتا ہو۔‘‘

نظام الاوقات کی تیاری کے لیے آپ بازار سے ایک کیلنڈر یا Year Planner خرید لائیں۔ اور اپنے اہم کام تاریخوں کے مطابق اس میں درج کرلیں۔ اس نظام الاوقات میں آپ اہم فون نمبرز اور دیگر اہم معلومات بھی درج کر سکتے ہیں۔ یہ نظام الاوقات آپ کو زندگی اچھے اور بہتر انداز میں گزارنے میں مدد دے گا۔ اس نظام الاوقات کو ہر ہفتے صرف دس پندرہ منٹ صرف کر کے ہر اگلے سات دن کا منصوبہ بنا لیا کریں۔ آپ کی زندگی میں ایک نمایاں تبدیلی پیدا ہونی شروع ہو گئی ہے۔ اگر آپ چاہیں تو خود گھر میں بھی نظام الاوقات کے لیے کیلنڈر یا Year Planner تیار کر سکتے ہیں۔

وقت کے بہتر استعمال اور اسے ضائع ہونے سے بچانے کے لیے اپنے کاموں کی فہرست روزانہ کی بنیاد پر تیار کیا کریں۔ اس فہرست کو آپ Things to doکا نام دے سکتے ہیں۔چارلس شواب ایک ارب پتی امریکی تھا۔ اس نے 1936ء میں اپنے وقت کے بہترین استعمال کے حوالے سے مشورہ کے لیے 25ہزار ڈالر ادا کیے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ اسے کیا مشورہ دیا گیا؟ مشورہ یہ تھا کہ ’’جب صبح بیدار ہوتے ہو تو تمہارے پاس ان کاموں کی ایک فہرست ہونی چاہئے جو تمہیں دن میں کرنے ہیں اور ان میں سب سے اہم کام سرِفہرست ہونے چاہئیں۔‘‘

اللہ تعالیٰ کے خاص فضل و احسان سے جماعت احمدیہ کا ہر فرد خواہ وہ طفل ہو یا خادم، لجنہ ہو یا ناصر، دینِ اسلام کی سربلندی، اشاعت اور عالمگیر غلبہ کے لئے اپنی جان، مال، عزت اور اولاد کے ساتھ ساتھ وقت کی قربانی کا بھی عہد کرتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام

اَنْتَ الشَّیْخُ الْمَسِیْحُ الَّذِیْ لَا یُضَاعُ وَقْتُہٗ

میں ہمیں اسی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ ہم اپنے وقت کی حفاظت کریں اس کو ضائع نہ ہونے دیں اور اسے بہترین مصرف میں لائیں۔ہم میں سے ہر ایک کا اولین فرض ہے کہ ہم اپنا جائزہ لیں کہ دن رات کے چوبیس گھنٹوں کو ہم کس طرح صرف کر رہے ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ بےکار گپ شپ، کھیل تماشے، لمبی لمبی غیرضروری فون کالز، ٹیلی ویژن، موبائل اور منصوبہ بندی کے فقدان کے باعث ہمارا بہت سا قیمتی وقت ضائع ہو رہا ہے؟ دیانت داری کے ساتھ مکمل غوروفکر کر کے ایسا نظام الاوقات مرتب کریں جس میں روزانہ کم از کم ایک گھنٹہ پوری توجہ کے ساتھ جماعتی کام کیا جائے۔ کہنے کو تویہ 60منٹوں کا ایک گھنٹہ ہی ہو گا لیکن اگر مستقل مزاجی اور منصوبہ بندی کے ساتھ روزانہ کسی بھی کام کے لیے ایک گھنٹہ صرف کیا جائے تو تھوڑے ہی عرصہ میں حیرت انگیز اور ناقابلِ یقین نتائج و ثمرات حاصل ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔

متاعِ وقت کو ضائع ہونے سےبچانے اور اس سے مفید نتائج حاصل کرنے کے لیے مستقل خوداحتسابی کا عمل اپنا چاہیے۔ خود احتسابی کا یہ عمل دلوں میں کچھ کر گزرنے کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:

’’اگر ایک منٹ بھی تمہارا ضائع ہو جائے تو سمجھو کہ موت آگئی۔ ہر روز رات کو سونے سے پیشتر سوچو کہ دن میں تم نے کتنا کام کیا؟ اگر تم روزانہ اپنے اعمال کا محاسبہ کرو گے تو تمہارے اندر احساس پیدا ہو گا اور اس وقت تمہارا وجود سلسلہ کے لئے مفید ہو گا۔‘‘

(فرمودہ 17؍ دسمبر 1946ء مطبوعہ الفضل 16؍مئی 1961ء)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button