احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
باغ میں ملّت کے ہے کوئی گلِ رعنا کھلا
حضرت مسیح موعودؑ کے آبا واجداد
حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰة والسلام کے دیگرجدّی رشتہ دار
٭ مرزا غلام حیدرصاحب (حصہ دوم)
ان کی بیوی محترمہ ’’صاحب جان‘‘ صاحبہ حضرت اقدسؑ کی چچی آپؑ کی رضاعی والدہ بھی تھیں۔ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدصاحبؓ بیان فرماتے ہیں :
’’حضرت والدہ صاحبہ نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو مائی صاحب جان صاحبہ زوجہ مرزا غلام حیدر صاحب نے دودھ پلایا تھا۔ مرزا غلام حیدر صاحب حضرت صاحب کے حقیقی چچا تھے۔ مگر جب مرزا نظام الدین صاحب اور ان کے بھائی حضرت صاحب کے مخالف ہو گئے تو مائی صاحب جان بھی مخالف ہو گئی تھیں۔ اور والدہ صاحبہ فرماتی ہیں کہ اس زمانہ میں وہ اس قدر مخالف تھیں کہ مجھے دیکھ کر وہ چھپ جایا کرتی تھیں اور سامنے نہیں آتی تھیں۔ نیز مجھ سے والدہ صاحبہ عزیزم مرزا رشید احمد نے بیان کیا کہ حضرت صاحب کو ماں کے سوا دوسرے کا دودھ پلانے کی اس لئے ضرورت پیش آئی تھی کہ آپ جوڑا پیدا ہوئے تھے اور چونکہ آپ کی والدہ صاحبہ کا دودھ دونوں بچوں کے لئے مکتفی نہیں ہوتا تھا۔ اس لئے مائی صاحب جان نے دودھ پلانا شروع کر دیا تھا۔ ‘‘
(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر760)
ان لوگوں کی مخالفت جیساکہ ذکر آئے گا اس قدر بڑھی کہ یہ لوگ خدااور اس کے رسولﷺ کی بے ادبی اور گستاخی کرنے لگے۔ حضرت اقدس علیہ الصلوٰة والسلام اپنی ان رضاعی والدہ کا بہت احترام کرتے تھے اور عموماً ان کے ہاں کھانا بھی کھاتے۔ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ نے ان کے متعلق ایک واقعہ بیان فرمایا ہے جو کہ ان کے بیان کے مطابق براہین احمدیہ کے لکھے جانے سے بھی قبل کاہے۔ وہ بیان فرماتے ہیں کہ
’’حضرت مسیح موعودؑ کے ایک چچا مرزا غلام حیدرمرحوم تھے۔ یہ وہی مرزاغلام حیدر مرحوم تھے جن کے مکان میں آج حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدصاحب رہتے ہیں۔ ان کی اہلیہ بی بی صاحب جان تھیں۔ ایک مرتبہ ان کے منہ سے حضرت نبی کریم ﷺ کی شان میں کوئی بے ادبی کا کلمہ نکل گیا۔ باوجود اس احترام کے جو آپ بزرگوں کا کرتے تھے اس بات کا اثر آپ کی طبیعت پر اس قدرہوااور اس قدر بے تابی آپ کے قلب میں پیداہوئی کہ اس کا اثر آپ کے چہرۂ مبارک سے نمایاں تھا۔ وہ غصہ سے تمتما رہاتھا۔ اس حالت میں آپ کا کھانا بھی چھوٹ گیا۔ محض اس لئے کہ حضرت نبی کریم ﷺ کی شان میں کیوں بے ادبی ہوئی اس قدر رنج آپ کو ہوا کہ الفاظ میں بیان نہیں ہوسکتا۔ مخدومی خان بہادر مرزا سلطان احمدصاحب پنشنرجو اس روایت کے راوی ہیں بیان کرتے ہیں کہ حضرت صاحب کو بہت ہی غصہ تھا اور انہوں نے اس واقعہ سے متاثر ہوکر ان کے ہاں کا کھانا پینا ترک کردیا۔ ‘‘
(سیرت حضرت مسیح موعودؑ: جلددوم ص 269-270)
مرزاغلام حیدرصاحب کی حویلی
محترم غلام حیدرصاحب کے ساتھ تعلق رکھنے والی ایک اور بات بھی یہاں ذکرکردینا مناسب ہے۔ وہ یہ کہ وہ مکان جس میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدصاحبؓ کی بعد میں رہائش ہوئی یہ گھر یا حویلی انہی غلام حیدرصاحب کی ملکیت تھی۔ جو ان کی وفات کے بعد مرزا امام الدین صاحب کے قبضہ میں چلی گئی۔ جب حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰة والسلام نے ’’الدار‘‘کی توسیع فرمانے کا ارادہ فرمایا تو حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ کی کوششوں سے مرزاامام الدین صاحب اس بات پر راضی ہوگئے کہ اس حویلی میں سے حضرت اقدس علیہ السلام کا حصہ بھی دے دیں اور یہ کہ باقی حصہ حضرت اقدسؑ کے ہاتھوں فروخت کردیں۔
حضرت اقدس علیہ السلام کشتیٔ نوح کے آخری صفحہ پر ایک اعلان بعنوان ’’درخواست چندہ برائے توسیع مکان‘‘ میں فرماتے ہیں :’’چونکہ آئندہ اس بات کا سخت اندیشہ ہے کہ طاعون ملک میں پھیل جائے اور ہمارے گھر میں جس میں بعض حصوں میں مرد بھی مہمان رہتے ہیں اور بعض حصوں میں عورتیں،سخت تنگی واقعہ ہے اور آپ لوگ سن چکے ہیں کہ اللہ جلّ شانہٗ نے ان لوگوں کے لئے جو اس گھر کی چاردیوار کے اندر ہوں گے حفاظت خاص کا وعدہ فرمایا ہے اور اب وہ گھر جو غلام حیدر متوفّی کا تھا جس میں ہمارا حصہ ہے اس کی نسبت ہمارے شریک راضی ہوگئے ہیں کہ ہمارا حصہ دیں اور قیمت پر باقی حصہ بھی دے دیں۔ المشتہر مرزا غلام احمدقادیانی‘‘
(کشتی ٔ نوح ،روحانی خزائن 19صفحہ 86)
ایک زمانہ میں جب مسجد مبارک کی توسیع ہو رہی تھی تو اسی حویلی کے صحن میں حضرت اقدس علیہ السلام اپنے صحابہ کے ساتھ نماز جمعہ اور دیگر نمازیں بھی ادا کرتے رہے اور اسی صحن میں اترنے والی وہ سیڑھیاں بھی ہیں جہاں سے کہ حضرت اقدس علیہ السلام اتر کر آخری سفر لاہور کے لئے روانہ ہوئے۔
(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 618)
٭مرزا غلام محی الدین صاحب
حضرت اقدسؑ کے یہ چچا تحصیلدارتھے[Life Of Ahmad P:46]اور ان کے تین بیٹے اور چار بیٹیاں تھیں۔
بیٹوں کے نام یہ ہیں :1۔ مرزاامام الدین صاحب 2۔ مرزا نظام الدین صاحب 3۔ مرزاکمال الدین صاحب۔
مرزا امام الدین اور مرزا کمال الدین صاحبان کی بھی نسل آگے نہیں چلی۔ [بحوالہ سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر128]
بیٹیوں کے نام یہ ہیں :
1۔ حرمت بی بی صاحبہ 2۔ عمربی بی [بعض جگہ عمرالنساء صاحبہ بھی نام آتاہے ] 3۔ صفتاں صاحبہ 4۔ فضل النساء صاحبہ
٭حرمت بی بی صاحبہ
حرمت بی بی صاحبہ جو ان کی سب سے بڑی اولاد تھیں حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰة والسلام کے بڑے بھائی صاحبزادہ مرزا غلام قادرصاحب کے ساتھ بیاہی ہوئی تھیں اور’’تائی‘‘ صاحبہ کے نام سے معروف ہیں۔ حضرت تائی صاحبہ نے سن 1916ء میں احمدیت قبول کرلی تھی۔ یہ آغاز میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی اشدترین مخالف تھیں اور حضرت اقدس علیہ السلام کی زندگی میں مخالف ہی رہیں۔ دوسری طرف حضرت اقدس علیہ السلام کو1900ء میں الہام ہوا۔ ’’تائی آئی‘‘ حضرت اقدس علیہ السلام نے اس الہام کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
’’آج تھوڑی دیر ہوئی عجیب الہام ہوا کہ جو سمجھ میں نہیں آیا۔ پہلے الہام ہوا ’’تائی آئی‘‘۔ ہمارے تو کوئی تائی ہے نہیں۔ نہ نزدیک نہ دور،ہاں ہمارے لڑکوں کی تائی ہے جو وہ ہماری دشمن ہے۔ ‘‘(تذکرہ ایڈیشن چہارم ص 665)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ اس الہام کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں :’’اس الہام میں دراصل تین پیشگوئیاں ہیں۔ اول یہ کہ حضرت مسیح موعودؑکی اولاد میں سے خلیفہ ہوگا۔ دوم یہ کہ اس وقت (حضورؑ کی اولاد کی) تائی صاحبہ جماعت میں شامل ہوں گی۔ تیسرے تائی صاحبہ کی عمر کے متعلق پیشگوئی تھی۔ کہ وہ زندہ رہے گی اور آپؑ کی اولاد سے ایک خلیفہ ہوگا جس کی بیعت میں( وہ) شامل ہوگی۔ ‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ2دسمبر1927ء مطبوعہ الفضل جلد 15 نمبر 47 مؤرخہ9دسمبر1927ء صفحہ8،تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ665 حاشیہ)
سوایساہی ظہورمیں آیا اورمحترمہ تائی صاحبہ،حضرت حرمت بی بی صاحبہ ؒنے 1916ء میں بیعت کرلی اور پھر نظام وصیت میں شمولیت اختیار کی۔ اور طویل عمرپاکر یکم دسمبر 1927ء کو 97سال کی عمر میں وفات پا کربہشتی مقبرہ کے قطعہ خاص میں مدفون ہوئیں۔
تیرے اے میرے مربی کیا عجائب کام ہیں
گرچہ بھاگیں جبرسے دیتاہے قسمت کے ثمار
قبضۂ تقدیر میں دل ہیں اگر چاہے خدا
پھیر دے میری طرف آجائیں پھر بےاختیار
بہشتی مقبرہ قادیان میں جو کتبہ نصب ہے اس کے مطابق آپ کی وفات 30؍نومبر1927ء اوروصیت نمبر1109ہے۔
٭عمرالنساء /عمربی بی صاحبہ
آپؑ کے چچا محترم غلام محی الدین صاحب کی دوسری بیٹیوں میں سے عمرالنساء اور صفتاں یہ توام (Twins) پیداہوئی تھیں۔ عمرالنساء صاحبہ /عمر بی بی صاحبہ کی شادی مرزااحمدبیگ صاحب ہوشیارپوری کے ساتھ ہوئی تھی۔ جو محمدی بیگم صاحبہ کے والد تھے۔ یعنی یہ محمدی بیگم صاحبہ کی والدہ تھیں۔ اور اسی رشتہ سے حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰة والسلام محمدی بیگم کے رشتہ میں ماموں بنتے تھے۔ عمربی بی صاحبہ جو کہ اپنے شوہر احمدبیگ صاحب کی وفات پر 1892ء میں بیوہ ہوگئیں اور اپنے شوہر کی زندگی میں اور ایک لمباعرصہ بعد تک سلسلہ احمدیہ کی مخالف رہیں۔ انہوں نے اپنی آخری عمر قادیان میں گزاری۔ 1921ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے دست مبارک پر بیعت کرکے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئیں۔ اور اپنی حقیقی ہمشیرہ حرمت بی بی صاحبہ (تائی صاحبہ) کی وفات کے بعد بڑے اصرار اور خواہش پر وصیت کی۔
یہ وصیت حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدصاحبؓ نے خود لکھی تھی۔ آپ 31؍جنوری 1938ء کو چورانوے سال عمرپاکر فوت ہوئیں اور بہشتی مقبرہ قادیان میں مدفون ہوئیں۔ مرحومہ3/1کی موصیہ تھیں۔ ان کی وفات پر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدصاحب رضی اللہ عنہ نے ایک مضمون بعنوان ’’ہماری پھوپھی صاحبہ مرحومہ اور نکاح والی پیشگوئی‘‘ رقم فرمایاجو کہ روزنامہ الفضل 11مارچ 1938ء کے شمارے میں شائع ہوااور بعد میں آپؓ کے کتابی صورت میں شائع ہونے والے ’’مضامین بشیر‘‘جلد اول صفحہ299-302پرموجودہے۔ اس میں آپؓ نے پیشگوئی احمدبیگ/محمدی بیگم پر بھی عارفانہ رنگ میں روشنی ڈالی۔
آپؓ ان کی شخصیت کے متعلق اس مضمون میں رقم فرماتے ہیں :
’’مرحومہ کو میرے ساتھ خاص تعلق تھا۔ اگر مجھے ان کے پاس جانے میں کبھی زیادہ دیرہوجاتی تو وہ خود کسی کو کہہ کر مجھے بلوا لیا کرتی تھیں اور میرے ساتھ ہمیشہ بزرگانہ بے تکلفی سے گفتگو فرمایاکرتی تھیں۔ میں بھی انہیں علاوہ رشتہ میں بزرگ ہونے کے اس وجہ سے بھی خاص عزت اورمحبت کی نظر سے دیکھتا تھا کہ وہ نہ صرف حضرت مسیح موعودعلیہ السلام والی نسل کی آخری یادگار تھیں بلکہ آپ کی ایک مشہور پیشگوئی کے رحمت والے حصہ کی نشانی بھی تھیں۔ دراصل محمدی بیگم صاحبہ والی پیشگوئی کے دو حصے تھے۔ ایک تو غضب الٰہی کا حصہ تھا اور دوسرا خداکی رحمت کا حصہ تھا اور مجھے ہمیشہ اس خیال سے خوشی ہوتی تھی اور ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ (نے) اپنے خاص فضل سے آخری وقت میں آکر ہماری پھوپھی صاحبہ کو رحمت والے حصہ کے لئے الگ کرلیا تھا ورنہ پیشگوئی کے وقت ان کا قدم دوسرے رستہ پر تھا۔ فالحمد للہ علیٰ ذالک۔ ‘‘
(مضامین بشیرؓ جلد اوّل ص299)
بہشتی مقبرہ میں ان کی قبرکے کتبہ پر ان کاوصیت نمبر 3456 اور نام ’’عمر بی بی‘‘ درج ہے۔
٭تیسری بیٹی صفتاں صاحبہ کی شادی ضلع ہوشیارپور میں کسی جگہ ہوئی لیکن وہ بے اولاد ہی فوت ہوگئیں۔
٭چوتھی بیٹی فضل النساءصاحبہ تھیں جو مرزا اعظم بیگ صاحب لاہوری کے لڑکے مرزا اکبر بیگ صاحب کے عقد میں آئیں۔ مرزا احسن بیگ صاحب جنہیں احمدیت قبول کرنے کی توفیق ملی انہی کے بطن سے ہیں۔
(باقی آئندہ)