احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
باغ میں ملّت کے ہے کوئی گلِ رعنا کھلا
صاحبزادہ مرزا غلام قادرصاحب
حضرت مراد بیگم صاحبہؒ کے بعد آپؑ کے بڑے بھائی صاحبزادہ مرزا غلام قادر صاحب مرحوم تھے۔جو کہ 1828ء میں پیداہوئے۔
صاحبزادہ مرزا غلام قادر صاحب اپنے والد ماجد کے زیر سرپرستی جائداد کو سنبھالنے کے کاموں میں مصروف رہے۔اور گورنمنٹ کے مختلف عہدوں پر مختلف وقتوں میں کام کیا۔آپ تحصیلدار کے عہدے پر بھی فائز رہے ،ڈپٹی انسپکٹر بھی رہے۔ضلع کے سپرنٹنڈنٹ بھی رہے۔پولیس میں بھی کام کیا۔محکمہ نہر میں بھی کام کیا۔سرکاری کاموں کی ٹھیکہ داری بھی کی۔
ذیل میں دوروایات پیش کی جاتی ہیں جن میں ان کے محکمہ جات اور ان کی خودداری اور جرأت کاذکربھی موجودہے۔
حضرت صاحبزادہ مرزابشیراحمدصاحبؓ بیان فرماتے ہیں:
’’بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم۔اے کہ ایک دفعہ جب ڈیوس صاحب اس ضلع میں مہتمم بندوبست تھا اور ان کا عملہ بٹالہ میں کام کرتا تھا۔قادیان کا ایک پٹواری جو قوم کا برہمن تھا اور محکمہ بندوبست مذکور میں کام کرتا تھا۔تایا صاحب مرزا غلام قادر صاحب کے ساتھ گستاخانہ رنگ میں پیش آیا۔تایا صاحب نے وہیں اسکی مرمت کر دی۔ڈیوس صاحب کے پاس شکایت گئی۔ اُس نے تایا صاحب پر ایک سو روپیہ جر مانہ کر دیا۔دادا صاحب اُس وقت امرتسر میں تھے ان کو اطلاع ہوئی تو فوراً ایجرٹن صاحب کے پاس چلے گئے اور حالات سے اطلاع دی اس نے دادا صاحب کے بیان پر بلا طلب مسل جرمانہ معاف کر دیا۔‘‘
( سیرت المہدی جلداول روایت نمبر218)
’’بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم۔ اے کہ ایک دفعہ تایا صاحب پولیس میں ملازم تھے۔ نسبٹ صاحب ڈپٹی کمشنر ضلع نے کسی بات پر اُن کو معطل کر دیا۔ اس کے بعد جب نسبٹ صا حب قادیان آیا تو خود دادا صاحب سے ذکر کیا کہ میں نے آپ کے لڑکے کو معطل کر دیا ہے دادا صاحب نے کہا کہ اگر قصور ثابت ہے تو ایسی سخت سزا دینی چاہیے کہ آئندہ شریف زادے ایسا قصور نہ کریں۔صاحب نے کہا جس کا باپ ایسا ادب سکھانے والا ہو اس کو سزا دینے کی ضرورت نہیں۔اور تایا صاحب کو بحال کر دیا۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ تایا صاحب نے بھی بہت سے محکموں میں کام کیا ہے۔پولیس میں بھی کام کیا ہے۔ضلع کے سپرنٹنڈنٹ بھی رہے ہیں۔اور سنا ہے نہر میں بھی کام کیا تھا اور بعض کاغذات سے معلوم ہوتا ہے کہ سرکاری کاموں کی ٹھیکہ داری بھی کی ہے۔چنانچہ میں نے 1860ء کے بعض کاغذات دیکھے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ تایا صاحب نے چھینہ کے پاس کسی پل کا بھی ٹھیکہ لیا تھا۔‘‘
( سیرت المہدی جلداول روایت نمبر219)
انہوں نے مختلف مواقع پر حکومت وقت کی حمایت میں فوجی خدمات ادا کرتے ہوئے جرأت اوربہادری کے کارہائے نمایاں سرانجام دئے اور گورنمنٹ سے تعریفی اسناد اور سرٹیفیکیٹ حاصل کئے۔صاحبزادہ مرزا غلام قادر صاحب شعربھی کہتے تھےاور انکا تخلص مفتون تھا۔( بحوالہ سیرت المہدی جلداول روایت نمبر215)آپ کوورزش اور پہلوانی کاشوق بھی تھا۔چنانچہ حضرت اقدسؑ بیان فرماتے ہیں :
’’ہمارے بھائی صاحب کوورزش کاشوق تھا۔ ان کے پاس ایک پہلوان آیاتھا۔جاتے ہوئے اس نے ہمارے بھائی صاحب کوالگ لے جاکرکہاکہ میں ایک عجیب تحفہ آپ کے سامنے پیش کرتاہوں جوبہت ہی قیمتی ہے۔یہ کہہ کراس نے ایک منترپڑھ کران کوسنایا اورکہاکہ یہ منترایساپرتاثیر ہے کہ اگرایک دفعہ صبح کے وقت اس کوپڑھ لیاجاوے توپھرسارادن نہ نمازکی ضرورت باقی رہتی ہے اورنہ وضوکی ضرورت۔ایسے لو گ خداتعالیٰ کے کلام کی ہتک کرتے ہیں۔‘‘
(ملفوظات جلد9صفحہ322)
آپ کی شادی مرزا غلام محی الدین صاحب کی بیٹی اورمرزا امام الدین صاحب کی بہن محترمہ حرمت بی بی صاحبہ سے ہوئی۔جو سلسلہ احمدیہ میں ’’تائی صاحبہ‘‘کے نام سے معروف ہیں۔صاحبزادہ مرزاغلام قادرصاحب کے دوبچے پیداہوئے۔عبدالقادر اور عصمت ، لیکن یہ دونوں بچپن میں ہی فوت ہوگئے۔اور اس کے بعد ان کے ہاں کوئی اولاد نہیں ہوئی۔حضرت اقدس مسیح موعودؑ کو اپنے بھائی کے ان بچوں سے بہت محبت تھی اور محبت کا یہی جذبہ تھا کہ حضرت اقدس علیہ السلام نے دوسری شادی سے پیداہونے والی اپنی سب سے پہلی بچی کانام ’عصمت ‘ہی رکھا۔حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدصاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ
’’حضرت والدہ صاحبہ نے مجھ سے بیا ن فرمایا کہ تمہارے تایا کے ہاں ایک لڑکی اور ایک لڑکا پیدا ہوئے تھے مگر دونوں بچپن میں فوت ہوگئے۔لڑکی کا نام عصمت اور لڑکے کا نام عبدالقادر تھا۔حضرت صاحب کو اپنے بھائی کی اولاد سے بہت محبت تھی چنانچہ آپ نے اپنی بڑی لڑکی کا نام اسی واسطے عصمت رکھا تھا۔‘‘
(سیرت المہدی جلداول روایت نمبر58)
مرزاغلام قادرصاحب کی وفات 1883ء میں 55 برس کی عمر میں ہوئی۔
ایک امر قابل ذکر ہے جس سے معلوم ہوتاہے کہ عزیزواقارب کی شدیدمخالفت اور سردمہری کے باوجود حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کو صلہ رحمی کا کتنا خیال ہوتا تھا اور دوسری طرف اپنے قادرخداکی قدرتوں پر کتنا یقین تھا۔یہ سب پہلو ہم اس ایک واقعہ میں پائیں گے جو کہ صاحبزادہ مرزا غلام قادر صاحب کی زندگی کا ایک نشان اورحصہ بن چکاہے۔
حضرت اقدس علیہ السلام اپنی تصنیف ’’حقیقۃالوحی‘‘ میں اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’105۔ ایک سو پانچواں نشان۔ ایک دفعہ میرے بھائی مرزا غلام قادر صاحب مرحوم کی نسبت مجھے خواب میں دکھلایا گیا کہ ان کی زندگی کے تھوڑے دن رہ گئے ہیں جو زیادہ سے زیادہ پندرہ دن ہیں بعد میں وہ یک دفعہ سخت بیمار ہو گئے یہاں تک کہ صرف استخوان باقی رہ گئیں اور اس قدر دُبلے ہو گئے کہ چارپائی پر بیٹھے ہوئے نہیں معلوم ہوتے تھے کہ کوئی اس پر بیٹھا ہوا ہے یا خالی چارپائی ہے پاخانہ اور پیشاب اوپر ہی نکل جاتا تھا اوربیہوشی کا عالم رہتا تھا۔ میرے والد صاحب میرزا غلام مرتضیٰ مرحوم بڑے حاذق طبیب تھے انہوں نے کہہ دیا کہ اب یہ حالت یاس اور نو میدی کی ہے صرف چند روز کی بات ہے۔ مجھ میں اس وقت جوانی کی قوت موجود تھی اور مجاہدات کی طاقت تھی اور میری فطرت ایسی واقع ہے کہ میں ہر ایک بات پر خدا کو قادر جانتا ہوں اور درحقیقت اس کی قدرتوں کا کون انتہا پا سکتا ہے اور اُس کے آگے کوئی بات اَنہونی نہیں بجز اُن امور کے جو اس کے وعدہ کے برخلاف یا اُس کی پاک شان کے منافی اور اُس کی توحید کی ضدّ ہیں۔ اس لئے میں نے اس حالت میں بھی اُن کے لئے دعا کرنی شروع کی اور مَیں نے دل میں یہ مقرر کر لیا کہ اس دُعا میں مَیں تین باتوں میں اپنی معرفت زیادہ کرنا چاہتا ہوں۔
ایک1 یہ کہ مَیں دیکھنا چاہتا ہوں کہ کیا میں حضرت عزت میں اس لائق ہوں کہ میری دعا قبول ہو جائے۔ دوسری 2یہ کہ کیا خواب اور الہام جو وعید کے رنگ میں آتے ہیں اُن کی تاخیر بھی ہو سکتی ہے یا نہیں۔ تیسری3 یہ کہ کیا اس درجہ کا بیمار جس کے صرف استخوان باقی ہیں دعا کے ذریعہ سے اچھا ہو سکتا ہے یا نہیں۔ غرض میں نے اِس بناء پر دعا کرنی شروع کی۔ پس قسم ہے مجھے اُس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ دعا کے ساتھ ہی تغیر شروع ہو گیا اور اس اثناء میں ایک دوسرے خواب میں مَیں نے دیکھا کہ وہ گویا اپنے دالان میں اپنے قدموں سے چل رہے ہیں اور حالت یہ تھی کہ دوسرا شخص کروٹ بدلتا تھا۔ جب دعا کرتے کرتے پندرہ دن گزرے تو اُن میں صحت کے ایک ظاہری آثار پیدا ہو گئے اور انہوں نے خواہش ظاہر کی کہ میرا دل چاہتا ہے کہ چندقدم چلوں۔ چنانچہ وہ کسی قدر سہارے سے اُٹھے اور سوٹے کے سہارے سے چلنا شروع کیا اور پھر سوٹا بھی چھوڑ دیا۔ چند روز تک پورے تندرست ہو گئے اور بعد اس کے پندرہ برس تک زندہ رہے اور پھر فوت ہو گئے جس سےمعلوم ہوا کہ خدا نے اُن کی زندگی کے پندرہ (15) دن پندرہ سال سے بدل دئے ہیں یہ ہے ہماراخدا جو اپنی پیشگوئیوں کے بدلانے پر بھی قادر ہے مگر ہمارے مخالف کہتے ہیں کہ قادر نہیں۔ ‘‘
(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد22 ص 265-267)
ان کی وفات کے متعلق بھی اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس کو پیش از وقت بتلادیا تھا چنانچہ آپ ؑ فرماتے ہیں :
’’187۔نشان۔ میرے بڑے بھائی جن کا نام میرزا غلام قادر تھا کچھ مُدّت تک بیماررہے جس بیماری سے آخر اُن کا انتقال ہوا جس دن اُن کی وفات مقدّر تھی صبح مجھے الہام ہوا کہ جنازہ۔ اور اگرچہ کچھ آثار اُن کی وفات کے نہ تھے مگر مجھے سمجھایا گیا کہ آج وہ فوت ہو جائیں گے اور میں نے اپنے خاص ہم نشینوں کو اِس پیشگوئی کی خبر دے دی جو اَب تک زندہ ہیں۔ پھر شام کے قریب میرے بھائی کا انتقال ہو گیا۔‘‘
(حقیقۃ الوحی،روحانی خزائن جلد22 ص 400)
بھائی کادعاکی درخواست کرنا
یہ بھائی بھی جہاں دیدہ تھا۔اپنے اس چھوٹے بھائی کے حالات سے بخوبی واقف تھا اورجب بھی کوئی مشکل ہوتی تو دعاکے لیے اپنے اسی بھائی سے درخواست کرتا۔چنانچہ حضرت اقدسؑ بیان فرماتے ہیں کہ
’’سردار حیات خان ایک دفعہ کسی مقدمہ میں معطل ہوگیا تھا۔ میرےبڑے بھائی مرزا غلام قادر مرحوم نے مجھے کہا کہ ان کے لئے دعا کرو۔ میں نے دعا کی۔ تو مجھے دکھا یا گیا کہ یہ کرسی پر بیٹھا ہوا عدالت کررہا ہے۔ میں نے کہا کہ یہ تو معطل ہوگیا ہے۔ کسی نے کہا کہ اُس جہان میں معطل نہیں ہوا۔ تب مجھے معلوم ہوا کہ یہ بحال ہوجائے گا۔ چنانچہ اس کی اطلاع دی گئی۔ اور تھوڑے ہی عرصہ کے بعد وہ پھر بحال ہوگیا۔‘‘
(الحکم جلد6 نمبر32 مؤرخہ10؍ ستمبر1902 ء صفحہ 6 کالم نمبر 3 و تذکرہ ص 26)
ایک اَور موقعہ پرآپؑ نے اپنے بھائی کے لئے دعا کی۔ چنانچہ فرماتے ہیں :
’’مرزا اعظم بیگ سابق اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر نے ہمارے بعض بے دخل شرکاء کی طرف سے ہماری جائداد کی ملکیت میں حصہ دار بننے کے لئے ہم پر نالش دائر کی۔ اور ہمارے بھائی مرزا غلام قادر صاحب مرحوم اپنی فتح یابی کا یقین رکھ کر جواب دہی میں مصروف ہوئے۔ میں نے جب اس بارہ میں دعا کی۔ تو خدائے علیم کی طرف سے مجھے الہام ہوا کہ
اُجِیْبُ کُلَّ دُعَآئِکَ اِلَّا فِیْ شُرَکَآ ئِکَ
پس میں نے سب عزیزوں کو جمع کرکے کھول کر سنادیا کہ خدائے علیم نے مجھے خبر دی ہے کہ تم اس مقدمہ میں ہرگز فتح یاب نہ ہوگے۔ اس لئے اس سے دست بردار ہوجانا چاہئے۔ لیکن انہوں نے ظاہری وجوہات اور اسباب پر نظر کرکے اور اپنی فتح یابی کو متیقن خیال کرکے میری بات کی قدر نہ کی۔ اور مقدمہ کی پیروی شروع کردی۔ اور عدالت ماتحت میں میرے بھائی کو فتح بھی ہوگئی۔ لیکن خدائے عالم الغیب کی وحی کے بر خلاف کس طرح ہوسکتا تھا۔ بالآخر چیف کورٹ میں میرے بھائی کو شکست ہوئی اور اس طرح اس الہام کی صداقت سب پر ظاہر ہوگئی۔‘‘
(نزول المسیح ،روحانی خزائن جلد18 ص 590، 591)
(باقی آئندہ)