احمدی خواتین کی شجاعت اور دلیری (قسط اوّل)
اَشْہَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَاَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدً عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ
میں اقرار کرتی ہوں کہ اپنے مذہب اور قوم کی خاطر اپنی جان ومال، وقت اور اولاد کو قربان کرنے کے لیے ہردم تیار رہوں گی اور سچائی پر ہمیشہ قائم رہوں گی اور خلافت احمدیہ کے قائم رکھنے کے لیے ہر قربانی کے لیے تیار رہوں گی۔ (انشاء اللہ)
لجنہ اماء اللہ کے عہد میں تین مرتبہ کلمۂ شہادت پڑھ کر جو اقرار کیا جاتا ہے۔ اللہ جلّ شانہٗ کے کرم سے خواتین اس پر کاربند رہنے کی دعا اور کوشش کرتی ہیں جس کے نتیجے میں احمدی خواتین کو عظمتِ کردار کی ایک خاص شان نصیب ہوتی ہے۔ خلفائے کرام اپنے خطبات اور خطابات میں احمدی عورتوں کے ذوق و شوقِ عبادت، دینی غیرت، مصائب وشدائد پر صبر و استقامت، جرأت و بہادری، مالی قربانی، دعوت الی اللہ، اور راہِ مولا میں قربانیوں کے ایمان افروز واقعات کا تذکرہ کرتے ہیں جن سے انسان زندہ جاوید ہو جاتا ہے۔ ان سے استفادہ کرکے اور تاریخ احمدیت کے گلستان سے خواتین کی شجاعت اور دلیری کی خوشبو لیے کچھ پھول چُن کر پیش کروں گی۔
اللہ تعالیٰ کا خواتین پر احسان ہے کہ اُن کے لیے قرب الٰہی کے حصول کے سب دروازے اور مواقع کھلے رکھے ہیں۔ ایمان لانے، عبادات کرنے، تسلیم و رضا اور فرمانبرداری میں، راست گوئی میں، صبر کرنے میں، عجز و انکسار اختیار کرنے میں، صدقہ دینے میں، روزہ رکھنے میں، عفیف رہنے میں، اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے میں مردوں اور عورتوں میں کوئی تخصیص نہیں۔ اسی طرح بارگاہ الٰہی سے یکساں اجر، انعام، مغفرت اور جنت کی نعمتوں کا وعدہ دیا گیا ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں شامل ہونے والوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا کرم اورآنحضرتﷺ کی دعائیں بطور خاص شامل ہوجا تی ہیں۔ پھر مسلسل تعلیم و تربیت ایسی ہوتی ہے کہ مخصوص حالات میں ان کا عمل اور ردّعمل دوسروں سے مختلف ہوتا ہے۔ ان کی اعلیٰ لذّات اور ترجیحات بدل جاتی ہیں۔ دینی غیرت، جرأت، دلیری اور شجاعت میں نمایاں فرق ہوتا ہے۔ قربانیوں کا حوصلہ بڑھ جاتا ہے مخالفت کی آگ کی بھٹیوں میں ڈالی گئی خواتین سونے سے کندن بن کر نکلتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے نام پر ہر جہاد کا جذبہ جسم و جان میں روحِ تازہ بھر دیتاہے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فر ماتے ہیں :
’’یہ جو رات دن مسلمانوں کو کلمہ طیبہ کہنے کے واسطے تحریص اور تاکید ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ بغیر اس کے کوئی شجاعت پیدا نہیں ہو سکتی۔ جب آدمی
لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ
کہتا ہے توتمام انسانوں اور چیزوں اور حا کموں اور افسروں اور دشمنوں اور دوستوں کی قوت اور طاقت ہیچ ہو کر انسان صرف اللہ تعالیٰ کو دیکھتا ہے اور اُس کے سوائے سب اُس کی نظروں میں ہیچ ہو جاتے ہیں۔ پس وہ شجاعت اور بہادری سے کام کرتا ہے اور کوئی ڈرانے والا اس کو ڈرا نہیں سکتا۔ ‘‘
( ملفوظات جلد اول صفحہ 259، ایڈیشن1988ء)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اپنے پیشوا حضرت محمد مصطفٰیﷺؐ کی شجاعت کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں:
یَا بَدْرَنَا یَا اٰیَۃَ الرَّحْمٰنٖ
اَھْدَی الْھُدَاۃِ وَ اَشْجَعَ الشُّجْعَانٖ
لِلّٰہ دَرُّکَ یَا اِمَامَ العَالَمٖ
اَنْتَ السَّبُوْقُ وَ سَیِّدُ الشُّجْعَانٖ
ہمارے سامنے آپؐ کی تربیت یافتہ اُ مہات المومنینؓ اور صحابیاتِ رسول اللہﷺ کے نمونہ اورمثالوں کو بار بار دہرایا جاتا ہے۔ اسلام کی سر بلندی کا ابتدائی دَور ولولہ تازہ پیدا کرتا ہے ۔حضرت اقدسؑ کی روح پر ور کتب کا مطالعہ مزاج اورذوق میں روحانی خزائن کا رنگ بھر دیتا ہے، خطبات، تقاریر اور لجنہ کے اجلاسوں کی عملی تر بیت رگ و پے میں سرایت کرتی رہتی ہے۔ ام المو منین حضرت سیّدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہؓ جیسی جی دار اوربہادر عظیم خاتون کا مثالی نمونہ سامنے رہتا ہے۔ اس طرح احمدی معاشرے کے ماحول اور اقدار سے خواتین غیر محسوس طریق پر دلیرانہ، بے خوف اورحوصلہ مند ادائیں سیکھتی ہیں۔ ننھی ننھی کم عمر بچیاں اشعار کے مفہوم سے آشنا ہونے کی عمر سے بھی پہلے جب عزم و حوصلہ سے بھرپور اشعار سنتیں اور ترنم سے پڑھتی ہیں تو جواں ہمتی کے بیج ان کے اندر نشو و نما پانا شروع کر دیتے ہیں۔
دشمن کو ظلم کی برچھی سے تم سینہ و دل بر مانے دو
یہ درد رہے گا بن کے دوا تم صبر کرو وقت آنے دو
یہ عشق و وفا کے کھیت کبھی خوں سینچے بغیر نہ پنپیں گے
اس راہ میں جان کی کیا پروا جاتی ہے اگر تو جانے دو
(کلام محمود)
یقین کا مل ہو کہ سرراہ پر قادر وتوانا مولا کریم کھڑا ہے تو راہوں میں حائل ہونے والی رکاوٹوں سے بھڑ جانے کا دھڑلّا پیدا ہو جاتا ہے۔ یہی حوصلہ مندی ہر میدان میں فتح و نصرت کی کلیدبن جاتی ہے ۔
ایک بہادر دل کی عورت
حضرت مصلح موعودؓ ایک مثالی احمدی خاتون حضرت سیّدہ اُم طاہر صاحبہؓ کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے ان کے کس وصف کو سراہتے ہیں ؟ الفاظ سے بنی ہوئی یہ خوبصورت تصویر دیکھیے:
’’مریم ایک بہادر دل کی عورت تھیں۔ جب کوئی نازک موقع آتا میں یقین کے ساتھ اُن پر اعتبار کر سکتا تھا۔ اِن کی نسوانی کمزوری اُس وقت دب جاتی، چہرہ پر استقلال اور عزم کے آ ثار پائے جاتے اور دیکھنے والا کہہ سکتا تھا کہ اب موت یا کامیابی کے سوا اس عورت کے سامنے کوئی تیسری چیز نہیں ہے۔ یہ مر جائے گی مگر کام سے پیچھے نہ ہٹے گی۔ ضرورت کے وقت راتوں کو اس میری محبوبہ نے میرے ساتھ کام کیا ہے اور تھکان کی شکایت نہیں کی۔ اِنہیں صرف اتنا کہنا کافی ہوتا کہ یہ سلسلہ کا کام ہے یا سلسلہ کے لئے کوئی خطرہ یا بدنامی ہے اور وہ شیرنی کی طرح لپک کر کھڑی ہو جاتی تھیں اور بھول جاتیں اپنے آپ کو، بھول جاتیں کھانے پینے کو، بھول جاتیں اپنے بچوں کو، بھول جاتیں بلکہ مجھ کو بھی اور انہیں صرف وہ کام ہی یاد رہ جاتا…‘‘
( میری مریم، انوار العلوم جلد17صفحہ353تا354)
اس تحسین میں ایک خاتون کی جن صفات کا ذکر ہے اگر یہ کہا جائے کہ یہ حسن کسی نہ کسی حد تک سب احمدی خواتین کا طرۂ امتیاز ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ جہاں بھی احمدی خاتون ہوتی ہے، کسی ملک کے کسی کونے میں کسی پہاڑ یا صحرا میں کسی محل یا کٹیا میں، اپنی روحانی استطاعت کے مطابق اللہ پاک کی عطا کردہ کشش، روشنی اور قوتِ جاذبہ رکھتی ہے ۔حسنِ کردار سے چھاجانے اور فتح کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے بالعموم ہر احمدی خاتون کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئےخصوصی طور پر کچھ محترم خواتین کی مثالیں پیش کرتے ہیں ان میں اہل بیت اور صحابیات مسیح موعودؑ کے جرأت آمیز دلیرانہ اقدام ہیں۔ پھر وہ خواتین جن کو مربیانِ کرام کی قر بانیوں میں ساتھ دینے کا موقع نصیب ہوا۔ ان ماؤں کی مثالیں جو اپنے بڑہاپے کے سہاروں کو دین پر وار دیتی ہیں۔ اُن بیویوں کی جو اپنے شوہروں کو مسکرا کر خدمتِ دین کےلیے رخصت کر کے اپنی جوان یادوں کو بہلاتے ہوئے اپنے بچوں کو اپنے پروں کے نیچے لے کر بیٹھ جاتی ہیں۔ پھر وہ خواتین جن کے عزیزوں کو راہ خدا میں جان، مال، وقت اور اولاد کے نذرانے پیش کرنے کی سعادت حاصل ہوئی، بے جوازمقدمات بھگتانے پڑے اپنے عزیزوں کے ساتھ قربانی میں برابر کی شریک ہوئیں۔ درویشانِ کرام کے اہل خانہ جنہوں نے حوصلہ مندی کے بےنظیر ثبوت دیے۔ غرضیکہ ایک زندہ جماعت کی دلیر خواتین کی بہادری و شجاعت کی ان گنت داستانیں ہیں جو نسلاً بعد نسلٍ جسور اور غیور احمدی سپاہ تیار کر رہی ہیں۔
’’اے عورتو ! تمہارے لئے آزادی کا وقت آگیا ہے‘‘
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے نقوشِ قدم پر چلتے ہو ئے طبقۂ اناث کی عزت نفس کو بیدار کرنے اور مردوں کے شانہ بہ شانہ ترقی کی راہوں پر گامزن کرنے کا ایسا عظیم کارنامہ سر انجام دیا جس نے نہ صرف اس عمارت کی بنیادیں مضبوط کیں بلکہ مستقبل میں سر بلندی کی راہیں بھی استوار کردیں۔ خواتین کو بیدار کرنے کے لیے آپ کے الفاظ میں ایسی قوت ہوتی جو برقی رَو کی طرح رگ و پے میں اُتر کر تازہ ولولہ پیدا کر تی۔ فرماتے ہیں :
’’ اے عورتو ! تمہارے لئے آزادی کا وقت آ گیا ہے خد اتعالیٰ نے احمدیت کے ذریعے تمہارے لئے ترقی کے بے انتہا راستے کھول دئے ہیں اگر اس وقت بھی تم نہیں اُ ٹھو گی تو کب اُ ٹھو گی؟ اگر اس وقت بھی تم اپنے مقام اور درجہ کے حصول کے لئے جد جہد نہیں کرو گی تو کب کرو گی ؟ … اگر تمہارے مرد تمہاری بات نہیں مانتے اور وہ دین کی خدمت کے لئے تیار نہیں ہوتے تو تم ان کو چھوڑ دو اور انہیں بتادو کہ تمہارا تعلق ان سے اُس وقت تک ہے جب تک کہ وہ دین کی خدمت کرتے ہیں۔ ‘‘
( الازہار لذوات الخمار حصہ دوم صفحہ 83)
خواتین کی تر جیحات اور توجہات کو لہو و لعب اور فضول رسم ورواج کی طرف سے اعلیٰ و ارفع مقاصد کی طرف منتقل کر کے تعمیری کاموں میں مصروف کر دیا۔ ترقی پذیر الٰہی جماعت کی مثالوں کو کسی عنوان سے مکمل جمع نہیں کیا جاسکتا۔ مشتے از خروارے جستہ جستہ حاضر ہیں۔
1923ء کے شروع میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے شدھی تحریک کے خلاف ایک خصوصی جہاد کا اعلان فرمایا۔ ہندوستان کے علاقہ یو پی میں ارتداد کی تحریک اُٹھی تھی۔ آریہ لوگ ملکانہ راجپوت کہلانے والی مسلمان قوموں کو دوبارہ شُدھ کرنے لگے تھے، یہ جہادان کے خلاف تھا ۔احمدی عورت دینی اغراض کے لیے بڑھ کے قربانی کے لیے ایسی تیار ہو چکی تھی کہ فورا ًا پنے پیارے امام کی خدمت میں خطوط لکھے۔ جس پر 13؍مارچ 1923ءکے درسِ قرآن میں آپؓ نے خوشنودی کا اظہار فرمایا:
’’ راجپوتوں میں تبلیغ کے متعلق تحریک کی گئی ہے اس کو سُن کر عورتوں کی طرف سے بھی کہا گیا ہے کہ اس موقع پر ہمیں بھی خدمتِ دین کا موقع دیا جائے ان کو اس خدمت دین میں شامل کرنے کا سوال تو الگ ہے اور اس کے متعلق پھر فیصلہ کیا جائے گا مگر اس سے یہ تو ظاہر ہےکہ مستورات میں بھی قربانی اور ایثار کے جذبات پائے جاتے ہیں اور وہ بھی ہر خدمتِ دین میں حصہ لینے کے لئے تیار ہیں۔ ‘‘
( الفضل 25؍مارچ1923ء)
ایک خاتون محترمہ سعیدہ صاحبہ نے لاہور سے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں لکھا :
’’عاجزہ نے پرچہ اخبار زمیندار میں پڑھا ہے کہ بیس مسلمان عورتیں ہندو ہوچکی ہیں۔ عاجزہ کی عرض ہے کہ یہ واقعہ پڑھ کر میرے دل کو سخت چوٹ لگی ہے میرا دل چاہتا ہے کہ اسی وقت اُڑ کر چلی جاؤں اور اُن کو جاکر تبلیغ کروں اگر حضور پسند فرمائیں اور حکم دیں تو عاجزہ تبلیغ کے واسطے تیار ہے۔ ‘‘
ایک خاتون محترمہ سردار بیگم صاحبہ دختر شیخ محمد حسین صاحب سب جج زیرہ ضلع فیروز پور نے لکھا :
’’مرد اکثر اوقات کسی نیک کام کرنے سے اس لئے بھی رُک جاتے ہیں کہ اُن کی عورتیں راہ میں حائل ہوجاتی ہیں۔ پیاری بہنو اور بزرگو! خبردار ! اس کام کے کرنے میں ہرگز حائل نہ ہونا ورنہ جہنم کا منہ دیکھنا پڑے گا تم خود مردوں سے کہو کہ نکلو اسلام کی عزت رکھنے کا وقت ہے …جو بہنیں اپنے مردوں کو بھیجنے کے ذریعے سے مدد نہیں کرسکتیں وہ اپنے مال سے مدد کریں ‘‘
(تاریخ لجنہ اماء اللہ جلد اول صفحہ 111)
محترمہ محمود ہ خاتون صاحبہ نے مردوں کی خدمات کے مواقع پر رشک کے جذبات کا اظہار کیا اور میدانِ عمل میں ایک مربی کو بھجوانے کا خرچ اُ ٹھانے کا وعدہ کیا۔ محترمہ امۃ الرحمٰن صاحبہ( ہمشیرہ قاضی عبد الرحیم صاحب) اور محترمہ عمر بی بی صاحبہ والدہ محمد عبد الحق صاحب آ گرہ نے اپنے آپ کو خدمت کے لیے وقف کرنے کے خطوط لکھے۔ لجنہ اماء اللہ کی طرف سے حضرت سیّدہ امۃا لحئی حرم حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے عید کے موقع پر ان راجپوت عورتوں کے لیے دوپٹوں کے تحفے بھیجے جنہوں نے فتنہ ارتداد کا جواں مردی سے مقابلہ کیا۔ چھ سالہ صاحبزادی امۃ القیوم صاحبہ نے بھی ایک چھوٹا دوپٹہ تحفے میں بھیجا۔ محترمہ زینب صاحبہ زوجہ فقیر محمد صاحب رائے پور نے اپنے سارے گھر کا اسباب چندہ میں دے دیا اور دونوں میاں بیوی نے میدان ِ ارتداد میں خدمات کے لئے خود کو پیش کیا۔ سکندرآباد اور حیدر آباد دکن کی 75خواتین نے ایک جلسہ کیا۔ اہلیہ صاحبہ حضرت سیٹھ عبداللہ الہٰ دین صاحب نے ارتداد سے بچانے کے لیے مربیان بھجوانے اور اُن کے اخراجات برداشت کرنے کے لیے اپیل کی۔
( تاریخ لجنہ اماء اللہ جلد اول صفحہ 113)
لجنہ کے کاموں کے اعتراف میں اخبار ’’ تنظیم‘‘ سے مولوی عبد المجید صاحب قریشی کی ایک تحریر درج ہے۔ جس کا عنوان ہے ’’ لجنہ اماء اللہ ‘‘۔یاد رکھیے کہ اُس وقت لجنہ کو قائم ہوئے صرف چار سال ہو ئے تھے۔
لجنہ اماء اللہ
’’لجنہ اما ء اللہ قادیان احمدیہ خواتین کی انجمن کا نام ہے۔ اس انجمن کے ما تحت ہر جگہ عورتوں کی اصلاحی مجالس قائم کی گئی ہیں۔ اور اس طرح ہر وہ تحریک جو مردوں کی طرف سے اُ ٹھتی ہے۔ خواتین کی تائید سے کامیاب بنائی جاتی ہے۔ اس انجمن نے تمام احمدیہ خواتین کو سلسلے کے مقاصد کے ساتھ عملی طور پر وابستہ کر دیا ہے۔ عورتوں کا ایمان مردوں کی نسبت زیادہ مخلص اور مربوط ہوتا ہے عورتیں مذہبی جوش کو مردوں کی نسبت زیادہ محفوظ رکھ سکتی ہیں۔ لجنہ اماء اللہ کی جس قدر کار گزاریاں اخبارات میں چھپ رہی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ احمدیوں کی آئندہ نسلیں موجودہ کی نسبت زیادہ مضبوط اور پُرجوش ہوں گی اور احمدی عورتیں اس چمن کو ہمیشہ تا زہ دم رکھیں گی جس کا مرورِ زمانہ کے باعث اپنی قدرتی شادابی اور سر سبزی سے محروم ہونا لازمی ہے۔ کیا غیر احمدی مسلمانوں نے بھی اپنی خواتین کی تنظیم کے لئے کوئی ایسا قدم اُٹھایا؟‘‘
(الفضل4؍جنوری 1927ء)
تحریک تحفظ ناموسِ رسولؐ
1927ء ہی میں لجنہ اماء اللہ کو منضبط اور مضبوط انداز میں تحریک ِ تحفظ ناموسِ رسولؐ میں حصہ لینے کا موقعہ ملا۔ آریہ سماجی راجپال نے رنگیلا رسول جیسی اشتعال انگیز کتاب لکھ کر اہل غیرت کو للکارا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے پُر زور تحریک چلائی اور خواتین سے اپیل کی کہ وہ چندہ جمع کریں۔ خواتین نے بہت جلد مطلوبہ رقم جمع کی اس کے علاوہ 22؍جولائی 1927ء کو حضرت سیّدہ سارہ بیگم حرم حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی زیر صدارت ایک جلسہ کر کے نَو ریزولیوشن (RESOLUTION)پاس جس کی نقل ہزایکسی لینسی گورنر صاحب پنجاب کو بھی بھیجی گئی۔ یہ ریزولیوشنز خواتین کی بیدارمغز ی، بہادری،جرأت اور دلیری کی آئینہ دار ہیں۔
برطانوی حکومت نے جن عرب ملکوں کو پہلی جنگِ عظیم کے بعد ترکوں کے اقتدار سے آزاد کرانے کا تحریری معاہدہ کیا تھا ان میں فلسطین بھی شامل تھا۔ لیکن جنگ کے بعد کئے وعدے تو پسِ پُشت ڈال دئے گئے اور یہودیوں کو آباد کرنے کی مہم بڑے زور شور سے شروع کردی۔ ان مظالم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کے لیے قادیان میں 16؍ستمبر1992ء کو ایک جلسہ منعقد کر کے احمدی خواتین نے قرار دادیں پاس کیں جن میں حکومتِ برطانیہ کی فلسطین میں بے جا مداخلت اور مسلمانوں کے خلاف یہودیوں کی طرف داری پر اظہار افسوس کیا گیا۔
( تاریخ احمدیت جلد 4صفحہ 172)
اسی طرح مسجد شہید گنج کے واقعہ پر لجنہ سیالکوٹ نے 20؍ستمبر 1935 ء کو جلسہ منعقد کیا اور حکومت سے درخواست کی گئی کہ مساجد و اوقاف کی حفاظت کے لیے بہتر رویہ اپنایا جائے۔
ایک معزز مثالی احمدی خاتون
جرأت و دلیری کے ساتھ فراست بھی ہونا اللہ پاک کا اپنے بندوں پر خاص احسان ہوتا ہے۔ ایک معزز مثالی احمدی خاتون والدہ محترمہ حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحبؓ ان صفات سے بکمال متصف تھیں۔
1935ء کی بات ہے حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمدصاحبؓ پر ایک ظالم نے حملہ کیا، تشویش اور صدمہ کا اثر محبت کرنے والی ساری جماعت پر تھا۔ مگر حضرت چودھری صاحبؓ کی والدہ محترمہ نے اپنے رنج کا اظہار اور ایسے واقعات کا اعادہ نہ ہونے کے لیے خوب تدبیر سوچی کہ اُس وقت کے وائسرائے ہند اور لیڈی ولنگٹن کے نوٹس میں یہ بات لانی چاہیے۔ لیڈی ولنگٹن آپ سے بہت عزت ومحبت سے پیش آتی تھیں۔ آپ نے ملاقات کا وقت لیا اور وقتِ مقررہ پر حضرت چو دھر ی صاحبؓ کے ساتھ جا کر بڑے اعتماد سے اپنا مدعا بیان کیا۔ وائسرائے کو بتایا کہ ہم حکومت کے خیر خواہ اور دعا گو ہیں لیکن ہمارے پیارے امام کے بیٹے اورحضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے چھوٹے بھائی پر حملہ ہوا اور ضربات پہنچیں۔ یہ ہستیاں ہمیں اپنی جانوں سے بھی پیاری ہیں۔ ان کے دُکھ سے نہ کھا سکتی ہوں نہ پی سکتی ہوں نہ مجھے نیند آتی ہے.
آپ کے دل کی صداقت نے انداز میں اتنا اثر پیدا کیا کہ وہ دونوں بے حد مرعوب ہوئے اور ہمدردی سے اصلاحِ احوال کا وعدہ کیا۔ ایک اور موقع پر لارڈ و لنگٹن نے والدہ صاحبہ سے دریافت کیا کہ ایک ملک کی حکومت کا انتظام زیادہ آ سان ہے یا ایک گھر کا انتظام ؟ والدہ صاحبہ نے جواب دیا۔ دونوں میں سے جس کو اللہ تعالیٰ زیادہ آسان کر دے۔ وائسرائے کو اس پُر حکمت جواب سے بہت استعجاب ہوا۔
حضرت چودھر ی صاحبؓ تحریر فرماتے ہیں :
’اللہ تعالیٰ نے والدہ صاحبہ کو جرأت اور حوصلہ بھی بہت عطا فر مایا تھا۔ اگر کوئی موقع ایسا پیش آ جائے جہاں اُ نہیں اپنی ہی ہمت پر انحصار کرنا پڑ جائے تو ایسے وقت میں وہ اپنی تمام کمزوریوں کو فراموش کر دیتی تھیں۔ اس تمہید کے بعد ! ایک چور کو رنگے ہاتھوں پکڑنے کا واقعہ لکھا ہے جو بجائے خود بے حد بہادری اور جرأت کا واقعہ ہے مگر اس سے بڑے دل گردے کا واقعہ یہ ہے کہ پھر ان پکڑے گئے چوروں کے لئے پریشان ہو کر اُن کی سزا کی تکلیف کے لئے فکر مند ہو گئیں اور اُن کے لئے دعاؤں میں لگ گئیں کہ اللہ تعالیٰ اُن پر رحم کرے۔ ‘
( ملخص از میری والدہ از حضرت چودھر ی محمد ظفرا للہ خان صاحبؓ )
ایک مبارک واقعہ
1936ء میں گھریلو ڈکیتی کو ناکام بنانےکا ایک واقعہ پیش آیا جوخاتونِ خانہ کی بہادری سے خلیفۂ وقت سے خراج تحسین کا باعث بنا اور تاریخ احمدیت میں جگہ پاگیا۔
واقعہ یہ تھا کہ ایک احمدی بھائی بشیر محمد صاحب لدھیانوی (ضلع مظفر گڑھ) کی عدم موجودگی میں مسلح ڈاکوؤں نے رات کے وقت مکان میں گھس کر مال و اسباب لوٹنا چاہا اور تلوار دکھا کر ان کی اہلیہ غلام فاطمہ صاحبہ اور اُن کے بچوں کو قتل کی دھمکی دی مگر غلام فاطمہ صاحبہ نے بہادری سے ڈاکوؤں کا مقابلہ کیا اور اُن کو بھگا دیا۔
( تاریخ احمدیت جلد ہشتم صفحہ 322)
حضرت خلیفۃ ا لمسیح ا لثانیؓ نے اس کے متعلق اپنے قلم سے تحریر فر مایا:
’’گو یہ خطرہ تھا، مگر آپ کی اہلیہ نے جس بہادری سے اور عقلمندی سے کام کیا ہے وہ اس واقعہ کو ایک مبارک واقعہ بنا دیتا ہے میری طرف سے بھی اُ نہیں مبارک باد دے دیں۔ ‘‘
( الفضل 3؍مارچ 1936ء)
جملہ ممبرات لجنہ قادیان نے بھی ایک خصوصی خط میں اس جرأت کو سراہا۔
جولائی 1942ء کے خطبہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے تحریک فر مائی کہ عورتیں اپنے بیٹوں کو ملک کی خدمت کی خاطر جنگ میں بھرتی ہونے کی تحریک کریں۔ اس پر خواتین نے ایمان افروز مخلصانہ ردّ عمل دکھایا ۔حضورؓ نے اگلے جمعہ میں مثالیں دے کر پسندیدگی کا اظہار فر مایا۔
جلسہ مصلح موعود منعقد ہ دہلی
1944ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اطلاع پا کر اعلان فر مایا کہ حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی پیش خبری در بارہ مصلح موعود کے مصداق آپ ہیں۔ جلسہ ہائے مصلح موعود منعقد کیے گئے جن میں سے دہلی والے جلسہ میں، جماعت کی تاریخ میں ایک ہی دفعہ، خواتین کی جلسہ گاہ پر منظم حملہ کیا گیا ۔عورتوں کی جلسہ گاہ اس طرح بنی ہوئی تھی کہ ایک قنات کے اندر صحن تھا پھر آگے جا کر دوسری قنات تھی۔ حملہ آوروں نے پہلی قنات پھاڑ دی اور الٰہی تصرف کے تحت یہ سمجھے کہ خواتین یہاں سے جا چکی ہیں اتنے میں پولیس نے بھی اُن کو آ لیا اور بڑا زبردست خطرہ ٹل گیا۔
اس حملہ کے خطرہ کے وقت حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی مدافعانہ حکمت عملی قابلِ داد ہے آپ نے حکم دیا کہ ایک سو مضبوط نو جوان جا کر عورتوں کی جلسہ گاہ کے باہر کھڑے ہو کر پہرہ دیں۔ وہی کھڑا ہو جو مرنا جانتا ہو۔ اگر تم میں سے کوئی مرنا نہیں جانتا وہ ہر گز نہ جائے۔ اس کی جگہ میں خود جانے کو تیار ہوں۔
اس جلسہ میں غیر احمدی عورتیں بھی شریک تھیں۔ وہ خواتین بے حد خوفزدہ ہو گئیں۔ اس موقع پر احمدی خواتین کی بہادری کے متعلق حضورؓ نے فر مایا:
’’ گزشتہ دنوں جب دہلی میں جلسہ کے موقع پر مخالفین نے شور مچایا اور پتھر پھینکے تو اس وقت سب عورتوں نے یہ شہادت دی جس قدر غیر عورتیں جلسہ میں شامل تھیں وہ گھبرا کر بولنے لگ گئیں مگر قادیان کی عورتوں نے کسی قسم کی گھبراہٹ کا اظہار نہیں کیا۔ اور وہ خاموش بیٹھی رہیں۔ بلکہ جب غیر احمدی عورتوں میں گھبراہٹ پیدا ہوئی تو قادیان کی احمدی عورتوں نے ان کے ارد گرد حفاظت کے لئے بند باندھ لیا اور اپنی بہادری کا ثبوت پیش کیا یہ روح جس کا مظاہرہ احمدی عورتوں نے وہاں کیا باہر کی عورتوں میں نہیں تھی جس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں کی عورتیں دین کی باتیں سنتی رہتی ہیں۔ لجنہ کے ذریعہ ا نہیں مختلف مواقع پر دینی کام کرنے کا موقع ملتا رہتا ہے اور سمجھتی ہیں کہ شور یا گھبراہٹ سے کام نہیں بنتا بلکہ تنظیم سے کامیابی حاصل ہوا کرتی ہے۔ چنانچہ انہوں نے تنظیم سے کام لیا اور کسی قسم کی گھبراہٹ کا اظہار نہیں کیا لیکن دوسری طرف عورتوں کو چونکہ تنظیم کی عادت نہ تھی اس لئے جس طرح جاہل عورتیں مصیبت کے موقع پر گھبراہٹ سے کام لیتی ہیں اور دانائی سے اس مصیبت کو دور کرنے کی کوشش نہیں کرتیں اس طرح انہوں نے گھبراہٹ کا اظہار شروع کیا۔ ‘‘
( مصباح فروری 1945ء)
(باقی آئندہ)
٭…٭…٭