صحتمتفرق مضامین

کووِڈ19 سے نجات کیسے ممکن ہے؟ (قسط اوّل)

کووڈ 19:ڈھونگ یا حقیقت؟… افواہیں ،ویکسین اور بچاؤ کے آسان طریق

ماہر متعدی امراض ڈاکٹرفہیم یونس صاحب کے ساتھ ایک نئی سیرحاصل گفتگو

ریویو آف ریلیجنزنے ڈاکٹر فہیم یونس صاحب سے کووڈ 19 کےتناظر میں پیدا ہونے والے بحران کے حوالے سے چھ ماہ گزرجانے کے بعد دوبارہ ایک گفتگوکا اہتمام کیا۔ ڈاکٹر صاحب موصوف یونیورسٹی آف میری لینڈ یو سی ایچ میں شعبہ امراض متعدی کے سربراہ اور چیف کوالٹی کنٹرول آفیسر ہیں۔

انٹرویو میں بیان کردہ جملہ نکات وتصریحات ڈاکٹرفہیم یونس صاحب کی ذاتی آرا پر مبنی ہیں۔ ہم آپ کو ہمہ وقت تغیرپذیر صورت حال سے خود کو باخبر رکھنے کے لیے عالمی ادارہ صحت (World Health Organisation) کی ویب سائٹ سے استفادہ کرتے رہنے کامشورہ دیتے ہیں۔

محترم ڈاکٹر صاحب کا یہ انٹرویو ریویو آف ریلیجنز کی نمائندہ محترمہ سارہ وسیم صاحبہ نے لیا جو نیشنل ہیلتھ سروسز یوکے میں بطور کلینکل سائیکالوجسٹ پیشہ ورانہ خدمات سرانجام دیتی ہیں اور ریویو آف ریلیجنز کے ادارتی بورڈ کی ممبر بھی ہیں۔

افادۂ عام کے لیے ریویو آف ریلیجنز کے شکریہ کے ساتھ اس انٹرویو کی اردو تلخیص قارئین الفضل انٹرنیشنل کی خدمت میں پیش کی جارہی ہے۔ انگریزی میں اصل انٹرویو پڑھنے اور سننے کے لیے درج ذیل لِنک سے استفادہ کیا جاسکتاہے۔ (ادارہ)

Myths, Hoaxes, Vaccines & the Simple Solutions – How Will We Get Rid of Covid-19? An Interview with Top Expert Dr Faheem Younus

نمائندہ: السلام علیکم ڈاکٹر یونس۔

ڈاکٹر فہیم یونس : وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ، جزاکم اللہ مجھے گفتگو کا موقع دینے کا۔

نمائندہ:نہیں، آپ کا بہت شکریہ کہ آپ نے ایک بار پھر ہمیں وقت دیا۔

چھ ماہ قبل ہم نے کووڈ 19 وبا کے آغاز میں آپ سے گفتگو کی تھی اور اس پراب چھ ماہ بھی ہونے کو آگئے۔ یہاں یوکے میں دیگر یوروپین ممالک کی طرح لگتا ہے اب توکووڈ کی دوسری لہر بھی آچکی ہے۔ پوری دنیا میں شرح اموات بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ کیا چھ ماہ قبل آپ کوتوقع تھی کہ ایسا ہوگا؟

ڈاکٹرفہیم یونس :جی ہاں۔ میرے خیال میں اس کا اچھا پہلو بھی ہے اور برا بھی۔ براپہلو یہ ہے کہ ترقی یافتہ دنیا کے زیادہ تر حصہ نےاس وائرس کو حقیقتاً اچھی طرح سے کنٹرول نہیں کیا۔ میں خاص کر یورپ اور امریکہ کے حوالے سے بات کررہا ہوں۔

خصوصاً امریکہ میں تو ہم سیاست کی وجہ سے انتہائی گروہ بندی میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ ہمارے پاس دنیا کے بہترین سائنسدان تھے، بہترین انفرا سٹرکچر، بہترین معلومات تھیں۔ اور اس کے باوجود سب سے زیادہ کیس ہمارے ہاں امریکہ میں ہیں۔ یوروپ میں یہ دوبارہ زور پکڑ رہا ہے، جیسا کہ آپ نے نشاندہی کی، تو یہ وہ امر ہے جوکچھ مایوس کن ہے۔

اچھا پہلو کیا ہے؟ میرے خیال میں اچھا یہ ہے کہ اس نے اب تک ہم سب میں مشترکہ انسانی اقدار کو بہت اجاگرکیا ہے۔

آج ہماری ٹیسٹ کرنے کی شرح چھ ماہ پہلے کی نسبت بہت زیادہ ہے۔ ہمارے معالجاتی قواعد وضوابط بہت مستحکم ہو چکے ہیں۔ اور چند برطانوی تجزیوں کے مطابق انتہائی نگہداشت والے مریضوں کی شرح اموات میں 30 فیصد کمی واقع ہو ئی ہے۔

میں آپ کو بتا سکتا ہوں کہ بعض ایسی بیماریاں بھی ہیں جن کا علاج ہم پچیس تیس سال سے کررہے ہیں اور ان کی شرح اموات میں30 فیصد کمی نہیں لائی جاسکی۔

مثلاً عفونت ہے، (Sepsis : جس میں سارے خون میں انفیکشن پھیل جاتا ہے۔ ناقل)۔ میری پریکٹس کے 25 برسوں میں اس کی شرح اموات میں 30 فیصد کمی واقع نہیں ہوئی جبکہ کووڈ کی شرح اموت میں چھ ماہ کے اندر 30 فیصد سے زائد کمی واقع ہوچکی ہے۔ تو یہ بہت ہی بڑی بات ہے۔

پھر یہ بھی بہت بڑی بات ہے کہ ہم ممکنہ طورپر ریکارڈ ٹائم کے اندر ایک ویکسین بھی حاصل کرلیں گے۔

تو یہ ہے اس وبا سے متعلق اب تک کا اچھا اور برا۔

نمائندہ: تو آپ کے خیال میں اب ہم ایک بہتر دنیا میں موجود ہیں؟َ

ڈاکٹر فہیم یونس :دلچسپ سوال ہے۔ میرے خیال میں خدانخواستہ اگر کسی کو سال 2020ءمیں کووڈ میں مبتلا ہونے کے لیے (وقت منتخب کرنے کا) اختیار دیا جاتا تو وہ آج کووڈ پازیٹو ہونے کو ترجیح دیتا بنسبت مارچ یا اپریل کے۔ اس میں کوئی شک نہیں۔

ہم ٹیسٹ کرنے، ہسپتالوں کی گنجائش، حفاظتی لباس، علاج کے اعتبار سے کہیں بہتر ہو چکے ہیں لیکن کیا بحیثیت قوم ہمارا ملک بہتر ہے؟ کیا سیاسی جغرافیائی اعتبار سے ہم بہتر مقام پر ہیں؟میرے خیال میں ایسا نہیں۔

اس کا بڑا حصہ محض ایک باریک خول ہے جس کے نیچے بہت زیادہ معاشی ہیجان برپا ہے۔

2004ءکی بات ہے، ان دنوں میں ہیومینیٹی فرسٹ کے لیے کام کررہا تھا، یقین کریں مجھے یہ بھی معلوم نہ تھا کہ لفظ’’سونامی‘‘کا مطلب کیا ہوتا ہے۔ جب سونامی آئی تب ہمیں ادراک ہوا کہ اچھا، دراصل سمندر کی تہ میں زلزلہ آتا ہے جو کچھ منٹوں یا گھنٹوں کے بعد سطح زمین پر اپنا اثر ڈالتا ہے۔

تو مجھے تشویش ہے کہ کہیں اس عالمی وبا کے بعد اس سے جُڑی کوئی خاموش سونامی آج سے تین سال، چار سال یا سات سال بعد تو نہیں آنے والی؟

نمائندہ: اس کے بارے میں آپ مزید کچھ بتانا چاہیں گے؟ جب آپ نے کہا کہ’’خاموش سونامی ‘‘آرہی ہے تو آپ کی مراد اس کے معاشی اثرات ہیں یا معاشی اور طبی دونوں ؟

ڈاکٹر فہیم یونس :میرے نزدیک مسلمان ہونے کی حیثیت سےآپ کے پاس اس کے سوا اور کوئی توجیہ باقی نہیں رہتی کہ ان امور کاناطہ قرآن مجید کے جملہ فرمودات، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان ارشادات سے جوڑیں جوکہ آخری زمانہ سے متعلق ہیں، جن کے بارے میں ہمارے خلفاء ہمیں یاددہانی کرواتے رہتے ہیں۔

اب ذرا یادکریں کہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جو کچھ فرماتے رہے ہیں۔ اوریہ بات میں ایک سائنٹسٹ کی حیثیت سے کر رہاہوں، میں اس چیز کو ضرورت سے زیادہ مذہبی رنگ دینے کی کوشش نہیں کررہا لیکن حقائق حقائق ہیں، کیا ہم اپنی آنکھوں سے نئے بلاک بنتے نہیں دیکھ رہے؟ یقیناً دیکھ رہے ہیں۔

ہم دیکھ رہے ہیں کہ روس ایک سمت کو جارہا ہے، چین دوسری سمت۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایک ماہ کے اندرامریکہ میں انتہائی اہمیت کے حامل الیکشن ہونے جارہے ہیں۔ (جو وقتِ اشاعت ہو چکے ہیں۔ناقل)ہم دیکھ رہے ہیں کہ بڑے بڑے ممالک کی جی ڈی پی (مجموعی ملکی پیداوار) میں بہت زیادہ کمی واقع ہو چکی ہے اور اس کےساتھ ہی آپ ان ممالک کوبھی دیکھ رہے ہیں جہاں کھیلیں جاری ہیں، جہاں حقیقتاً وبا کا نام ونشاں تک نہیں۔ چین، تائیوان، ہانگ کانگ، جنوبی کوریا، ویت نام، نیوزی لینڈ، جرمنی اچھی حالت میں ہیں۔

پس جب آپ یہ سب کچھ دیکھتے ہیں اورپھراذیت میں مبتلا انسانیت کو دیکھتے ہیں، غیریقینی کی صورت حال کوبھی، اور پھر کس طرح ہم نے وائرس پرسیاست جاری وساری رکھی ہوئی ہے، توبالآخریہ باتیں آپ کو کچھ سوچنے پر مجبور کردیتی ہیں۔

یہ بہت نازک مراحل ہیں۔ آپ کو علم ہے کہ دنیا نے گذشتہ بیس برسوں میں جو ایک انتہائی پر امن اور عظیم الشان کام کرنے کی کوشش کی ہے وہ خود کوجوہری ہتھیاروں سے پاک کرنا ہے۔

آپ جانتے ہیں ہم سب جوہری ہتھیاروں کے بارے میں سوچا کرتے تھے۔ ہمارا خیال تھا کہ یہ ہمیں حفاظت کا احساس دلاتے ہیں۔ لیکن اب کوئی نہیں جو جاکراس وائرس کوجوہری ہتھیار سے مارسکے۔

یہ ہمارے لیے لمحہ فکریہ ثابت ہونا چاہیے۔

نمائندہ:کیا آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ نتیجۃً ہم تیسری جنگ عظیم کی جانب بڑھ رہے ہیں؟جیسا کہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بھی متعدد مواقع پر فرمایا ہے؟َ

ڈاکٹرفہیم یونس: جی ہاں۔ بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں جو ایک باپ ہی کہہ سکتا ہے، بیٹا انہیں دہرانے کی جرأت نہیں کرسکتا۔ یہ بات بھی اسی قسم کی ہے۔

میں تو لوگوں کو بس یہی کہوں گا کہ حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ نے جو فرمایا ہے اسے غور سے سنیں۔ لیکن ان کے الفاظ کو دہرانے کی اپنے اندر جرأت یا استعداد نہیں رکھتا۔ آپ نے سوال بالکل مناسب کیا ہے لیکن میں صرف استغفار ہی کرسکتا ہوں۔ یہ بات میری رگ وپے میں سنسنی سی دوڑا دیتی ہے۔

نمائندہ:اس موضوع کی طرف ہم شاید بعد میں دوبارہ آئیں۔ سردست میں گذشتہ چھ ماہ سے جاری آپ کی خدمات کے حوالے سے کہنا چاہوں گی کہ آپ اس وبا سے نبٹنے کے لیےسادہ سے اصولوں کو اپنانے پر کافی زور دیتے چلے آہے ہیں جن میں ہاتھوں کو دھونا، سماجی فاصلہ برقراررکھنا اور فیس ماسک پہننا شامل ہیں۔ آپ کے خیال میں یہ اقدامات کامیاب ثابت ہورہے ہیں؟

ڈاکٹرفہیم یونس: یقیناً۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ میں جو کچھ بھی کہتا ہوں خود کو اکثریت کے ساتھ ہم آہنگ کرکے کہتا ہوں۔ افریقی ضرب المثل ہے کہ اگر تم تیز چلنا چاہتے ہو تو اکیلے چلو، اگر تم دُورتک چلنا چاہتے ہو تو پھر دوسروں کے ساتھ مل کر چلو۔ تو سائنسی اعتبار سے میں نے ہمیشہ سائنسی برادری کے ساتھ مل کر چلنے کی کوشش کی ہے۔ میں نے جو کچھ بھی کہا ہے وہ بعینہٖ وہی ہے جو عالمی ادارہ صحت کہہ رہا ہے، سی ڈی سی ( امریکی ادارہ برائے تدارک وتحفظ از امراض۔ ناقل ) کہہ رہا ہے اور یہ بعینہٖ وہی ہے جو دیگر ممالک نے کیا ہے۔

آپ کو علم ہے، نیوزی لینڈ نے اندرخانے کوئی خفیہ ویکسین تو بنا کر نہیں رکھی ہوئی جسے وہ دنیا کوبتانا نہیں چاہتے اور خفیہ طورپر صرف اپنے لوگوں کو لگا رہے ہیںیا اسی طرح چین یا جنوبی کوریا یا تائیوان یا ویت نام۔

مَیں ہمیشہ ویت نام کا ذکرکرتا ہوں کیونکہ اس نسبتاً غریب ملک کے تقریباً ایک سو ملین لوگوں کو وہ اعلیٰ قسم کی معالجاتی سہولتیں بھی دستیاب نہیں جو ہمیں دستیاب ہیں۔ انہوں نے اس وبا کا قلع قمع کیسے کرلیا؟ انہی سادہ طریق کو اپنا کر۔

قومی سطح پر’’test, trace, and isolate‘‘کی پالیسی اپنائی جاتی ہے۔ انفرادی سطح پر فیس ماسک، سماجی فاصلہ اور ہجوم سے دوری کام آتے ہے۔

میں لوگوں کو یہی کہتا ہوں کہ سادہ نوعیت کے مسائل کے لیے قیمتی قسم کے حل مت تلاش کریں۔ یہ آزمودہ بات ہے اور ہمارے لیے کافی ہے۔

نمائندہ: بہت خوب، تاہم کوئی یہ سوال اٹھا سکتا ہے کہ یہ ان ممالک میں قابل عمل کیسے ہو سکتے ہیں جہاں غربت کی انتہا ہے، جو گنجان آباد ہیں، جہاں ایک چھت تلے بڑے بڑے خاندان مل کر رہنے پر مجبور ہیں تو وہاں سماجی فاصلہ قائم کرنا تو تقریباً ناممکن ہے۔ اس بارے میں آپ کیا کہیں گے؟

ڈاکٹرفہیم یونس: آپ نے بالکل درست فرمایا ہے۔ مجھے اس سے مکمل اتفاق ہے۔ میرا نظریہ تو یہ ہے کہ قابلِ حصول چیز اس سے کہیں بہتر ہے جو محض ایک تمنا کی حیثیت رکھتی ہو۔ زندگی میں ہم اس اصول کا اطلاق محض وبائی ایام میں نہیں بلکہ تنگدستی میںاورہر چیز میں ترجیحات مقررکرتے ہیں۔

جب ہم صحت مند ہوتے ہیں تو روزہ رکھتے ہیں۔ اگر کوئی دائمی مرض لاحق ہو تو پھر فدیہ دیاجاتا ہے۔ سفر میں ہوں تو روزے نہیں رکھتے، بعد میں پو رے کرلیے جاتے ہیں۔ تو یہ شرائط اورگنجائشیں موجود ہیں۔ اور اسی لیے اسلام ہمیں جس مذہب کی تعلیم دیتاہے وہ اتنا قابل عمل ہے۔ اس لیے پہلی بات یہ ہے کہ آپ کے لیے جومناسب ترین متبادل دستیاب ہو اس کو اپنا لیں۔

دوسری بات جو ان ممالک کے حوالے سے ہے جہاں غربت ہے اور اس سے پہلے کہ میں بھول جاؤں یہ بتاتاچلوں کہ میں ذاتی طورپر کبھی بھی لاک ڈاؤن اور شٹ ڈاؤن کا کوئی بڑاحامی نہیں رہا۔ جب میں سماجی فاصلہ اور اس سلسلہ میں کیے جانے والے اقدامات کی بات کرتا ہوں تومیں ہرگز یہ نہیں کہہ رہا ہوتا کہ ان ملکوں میں سب کچھ بند (شٹ ڈاؤن) کردینا چاہیے کیونکہ ایساکرنا تو غربت کے مارے بہت سے ممالک کے لیے معاشی خودکشی ثابت ہوگا۔

مجھے معلوم ہے انڈیا، پاکستان، بنگلہ دیش، سری لنکا(جیسے ممالک ) میں لوگوں کا واحد مسئلہ سماجی دوری رکھنا ہے۔ انہیں روزگارِحیات کے لیے ٹرین یا بس میں سفرکرنا پڑتا ہے تاکہ زندگی بسرکر سکیں۔ مجھے اس کا مکمل احساس ہے، لیکن ایسی صورت حال میں میرا پہلا مشورہ یہ ہے کہ اپنے لیے ایک N95 ماسک یا جوبھی بہترین ماسک دستیاب ہو اسے خرید لیں۔ اور میری رائے میں میڈیکل معیار کے N95 ماسک لوگوں کو مہیا کرنا حکومت کی ذمہ داری ہونی چاہیے۔

دوسرے ہاتھ بدستور دھوتے رہیں، لوگوں سے مصافحہ نہ کریں۔ اور تیسرے اپنے تئیں بھرپورکاوش کریں۔

ٹرین میں دو افراد ساتھ ساتھ کھڑے ہیں تو اتناتو کرسکتے ہیں کہ ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑے نہ ہوں۔ ان میں سے کوئی بات ایسی نہیں جولوگوں کے لیے مسئلہ ہو۔ اس کا مقصد عوام میں صحت کے بارے میں مستقلاً ایک ہی پیغام پہنچاتےرہنا ہے۔

میں نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں لگ بھگ 25,000 مریض دیکھے ہیں اور میں روزانہ یہی کام کرتا ہوں۔ جب لوگ مجھ سے یہ عملی نوعیت کے سوالات پوچھتے ہیں تو میں انہیں اپنے پاس کرسی پہ بٹھا کرتفصیل کے ساتھ بتاتاہوں۔

تو میری رائے میں آپ کو مستقلاً یہی سادہ سا پیغام پہنچانے کی ضرورت ہے۔

اگر آپ ہجوم سے بچ نہیں سکتے، جیسا کہ میں ایک مخصوص مثال دیا کرتا ہوں کہ اگر مَیں لندن ٹیوب (زیرزمین چلنے والی ریل۔ ناقل)کے اندر کھڑا ہوں اوراس صورت حال سے بچنے کا اور کوئی متبادل انتظام نہیں تو پھر میں وہاں ایسی جگہ ڈھونڈوں گا جہاں کم از کم میں کسی کے روبرو کھڑا نہ ہوں، کوشش کروں گا کہ N95 ماسک پہناہو، جیب میں hand sanitizer کی بوتل بھی ہو اور درودشریف کا ورد کرتے ہوئے اس کے ساتھ اپنی راہ لوں گا !

نمائندہ:آپ کا بہت شکریہ۔ بہت ہی قابل عمل جواب آپ نے دیاہے۔

اب تھوڑا مزید آگے بڑھتے ہیں۔ کووڈ کو پھیلے قریباً چھ ماہ بلکہ اس سے بھی زیادہ عرصہ ہو گیا ہے۔ آپ کے نزدیک کیا ہم کووڈ کے طویل المدت جسمانی اور دماغی صحت پر پڑنے والے بداثرات کو کچھ سمجھنے میں کامیاب ہو پائے ہیں؟

مثال کے طور پرکچھ مریض ایسے بھی ہیں جنہیں ہسپتال میں داخلہ کی ضرورت تو پیش نہیں آئی لیکن انہیں بظاہر( کووڈ سے )صحتیاب ہوجانے کے بعد اب بھی بہت سارے طبی مسائل کا سامنا ہے جسے اب مزمن کووڈ( long Covid) کہا جانے لگ گیاہے۔ اس کے بارہ میں کچھ بتایئے۔

ڈاکٹر فہیم یونس: یہ بہت مشکل سوال ہے۔ مختصر جواب یہ ہے کہ ہمیں ہر چیز کا علم نہیں۔ اور یہ بات اہم ہے… بہت سی باتیں ہیں جن کے بارے ابھی کچھ پتہ نہیں۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ Subjective (جومریض خودبتائے۔ ناقل) اور objective علامات (جنہیں معالج بھی جانچ سکے۔ ناقل) کا تعین کرنا پڑے گا۔ مثلاً سردرد ہے، اگر میں کہوں کہ میرے سرمیں درد ہے تو آپ کے پاس اس کی پیمائش کا کوئی پیمانہ موجود نہیں۔ لیکن اگر میں یہ کہوں کہ میرا جوڑ سوج گیا ہے یا مجھے بخار ہے تو یہobjective علامت ہے۔ آپ میرا ٹمپریچر چیک کر کے کہہ سکتے ہیں کہ ہاں 103بخار ہے۔ تو پہلی بات یہ ہےکہ ہم بطور معالج، بطور محقق اس طرح سے سوچتے ہیں۔

اس کا مقصد کسی کی نیت پر شک کرنا ہر گز نہیں ہوتا۔ ہم یہ نہیں کہہ رہے ہوتے کہ یہ تمہارا وہم ہے یا تم جھوٹ بول رہے ہو، نہ ہی ہم مریض کے معتبر ہونے پر کوئی سوال اٹھا رہے ہوتے ہیں بلکہ لوگوں پر اسی طریق سے تحقیق کی جاتی ہے۔

پس پہلی بات یہ ہے کہ جب آپ کووڈ کی مزمن علامات (Long Covid Symptoms) کے بارے میں پڑھیں تو ہمیشہ یہی سوال کریں۔ اول یہ کہ ان میں سے کتنی علامات ایسی ہیں جن کی پیمائش کی جاسکتی ہے۔ دوم، اس کا کسی اور چیز سے بھی تعلق (correlation) ہے ؟کیا یہ مالدارترقی یافتہ مغربی ممالک میں عام ہے یا ترقی پذیر دنیا میں بھی ؟

سوم یہ کہ آبادی میں اس کی شرح (incidence) کیا ہے۔ کیا یہ سو میں سے ایک کو ہے؟ہزار میں ایک کو ہے ؟ دس لاکھ میں ایک کو ہے؟ ایک کروڑ میں ایک کوہے؟ کیونکہ یہ جاننا اہم ہوگا۔

کسی مرض کی شرح ہی ہے جو اس بات کا تعین کرسکتی ہے کہ ہمیں اس کے بارے میں کتنا فکرمند ہونا چاہیے۔ کیونکہ اگر یہ دس لاکھ افراد میں سے ایک کو ہے تو ہم یہ دلیل دے سکتے ہیں کہ اور بھی بہت ساری چیزیں ہیں جو دس لاکھ افراد میں سے ایک کو ہوتی ہیں۔ یعنی اس کے ہونے کا امکان دس لاکھ میں ایک ہے، کیا ہم اس کے بارے میں ضرورت سے کم یا ضرورت سے زیادہ ردعمل تو نہیں دکھا رہے۔

اور آخری بات جوآپ کے قارئین کے لیے اہم ہے وہ یہ کہ یہ باتیں محض کورونا سے مختص نہیں۔ میں آپ کو enterovirus (آنتوں کا ایک وائرس جو جسم کے دیگر حصوں کو بھی متاثرکرسکتاہے۔ ناقل) کی مثال دیتا ہوں جو کہ ایک اورقسم کاموسمی وائرس ہے۔ اس کا کوئی علاج موجود نہیں۔ لوگوں کو اس سے بھی کھانسی اور نزلہ ہو جاتا ہے اور یہ ہر سال ہوتا ہے۔ میں تو کہوں گاکہ اگر ٹیسٹ کیا جائے تو لکھوکھہا افراد میں یہ نکلے گا، لیکن ہم اس کا ٹیسٹ نہیں کرتے کیونکہ اس کا علاج موجود نہیں اور ننانوے فیصد لوگ خود ہی ٹھیک ہوجاتے ہیں۔ لیکن ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جن کا دل اس وائرس کی وجہ سے کام کرنا چھوڑدیتا ہے حتیٰ کہ تبدیلی قلب (ہارٹ ٹرانسپلانٹ) کی نوبت آجاتی ہے یا وہ فوت ہی ہو جاتےہیں جو ایک افسوسناک بات ہے۔

نمائندہ: اچھا !

ڈاکٹر فہیم یونس: میں نے ہر سال Enteroviral Meningitis (انٹیرووائرس سے ہونے والاگردن توڑ بخار۔ ناقل) کے مریض دیکھے ہیں…انہیں شدید قسم کا سردرد ہوتا ہے اور تشخیص کی خاطر بالآخر ان کی ریڑھ کی ہڈی سے سیال (Spinal Fluid) نکالنا پڑتا ہے جس سے وائرس کا پتہ چل جاتا ہے۔ اس میں موجود وائرس کی تعداد گننے کا پیمانہ دستیاب ہے۔

پس مزید کئی اقسام کے وائرس ہیں جن کی علامات مزمن یعنی لمباعرصہ چلتی ہیں۔

لیکن میں جس بات کی طرف واپس آنا چاہوں گا وہ یہ ہے کہ میرے نزدیک لوگوں کو پہلےیہ فکر کرنی چاہیے کہ کس طرح سے اس وائرس کے پہلے حملہ سے بچا جائے۔ انہیں مزمن کووڈ (long Covid) کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اس پر ان کا کنٹرول ہی نہیں۔

ہاں بطور محققین، بطور حکومت ہمیں یہ نہیں چاہیے کہ اس پہلو کو تخفیف کی نگاہ سے دیکھیں، اس کو بھی کماحقہ توجہ دی جانی چاہیے لیکن پھریہی کہوں گا کہ ہمیں ہربات کا علم نہیں۔ ہنوز یہ ارتقائی مراحل میں ہے۔

نمائندہ : ذہنی صحت کے حوالہ سے کچھ لوگ یہ بتا رہے ہیں کہ اس مرض میں شفایابی کا عمل دیگر وائرس کی بیماریوں کی نسبت مختلف معلوم ہوتا ہے۔ اور پھر جیسا کہ آپ کو علم ہے، کچھ لوگ ہیں، اگر انہیں نزلہ زکام کھانسی یا گلا خراب ہونے کی شکایت ہے تو وہ یہ سب کچھ سن کر پریشان ہو جاتے ہیں کہ آیا انہیں فلو ہے یا کووڈ ؟ لوگ اس مرض کی ہلاکت خیزی کی وجہ سے ’ہائی الرٹ‘کی کیفیت میں مبتلا ہیں۔ یہاں تو آپ جانتے ہیں یوکے میں فلو کا سیزن بھی شروع ہے۔ آپ ان لوگوں کو کیا کہیں گے؟

ڈاکٹر فہیم یونس:طبی لحاظ سے ان دنوں کی علامات ایک جیسی ہوسکتی ہیں۔ اور اگر لوگ جاننا چاہتے ہیں(کہ انہیں کیا ہے) توسب سے بہتر یہی ہے کہ وہ فلو اور کورونا، دونوں کا ٹیسٹ کروالیں۔

یہی وہ واحد طریق ہے جس سے ان دونوں میں حتمی امتیاز کرنا ممکن ہے۔ اور یہ بھی عین ممکن ہے کہ ان علامات کے حامل لوگوں کو ان دونوں بیماریوں میں سے ایک بھی نہ ہو۔ دونوں کے ٹیسٹ منفی آئیں۔ انہیں کوئی تیسری قسم کا وائرس لاحق ہو اور ہر موسم سرما میں ایسا ہی ہوتا ہے۔

طبی نکتہ نظر سے ہمیں یہ بھی معلوم نہیں کہ کتنے لوگوں میں انفلوئنزا وائرس بغیر علامات کے موجود ہوتا ہے۔ کیونکہ اس کے لیےہم اس طرح وسیع پیمانہ پر ہر سال لوگوں کے ٹیسٹ نہیں کرتے جس طرح سے ہم کورونا کے لیے کر رہےہیں۔

میں دومختلف ہسپتالوں میں کام کر چکا ہوں اس لیے آپ کو بتا سکتا ہوں کہ ہرسال سینکڑوں مریض ہسپتال میں داخل ہوتے ہیں۔ آج کل یہ ہورہاہےکہ امریکہ کے ہسپتالوں میں داخل ہونے والےہر مریض کا یہ ٹیسٹ کیاجاتا ہے۔ انفلوئنزا کے لیے ہم ایسا کبھی نہیں کرتے۔

اب تواگر کوئی شخص چھت سے یا سیڑھی سے گر کراپنی ٹانگ تڑوالیتا ہے اور ٹانگ کے فریکچر کی وجہ سےہسپتال میں آتا ہے تو ہم اس کا کووڈ ٹیسٹ بھی لازماً کریں گے۔

نمائندہ:جی

ڈاکٹرفہیم یونس: پھرخواتین ہیں جو بچے کی پیدائش کے لیے آتی ہیں ان کا بھی کووڈ ٹیسٹ ہوتا ہے۔ کسی کو فالج کا حملہ ہوا ہے اور ہسپتال میں آیا ہے یا جو بھی۔ اور پتا ہے کیا؟ روزانہ تین، چار، پانچ ایسے مریض ہوتے ہیں جن کا ٹیسٹ مثبت آجاتا ہے جبکہ ان میں کوئی علامات موجود نہیں ہوتیں۔

تو اس لحاظ سے میرے نزدیک فلو اور کووڈ میں کوئی واضح امتیاز نہیں کیا جاسکتا۔ لوگوں کے لیے سب سے اچھا یہی ہے کہ وہ دونوں کا ٹیسٹ کروالیا کریں۔ کیونکہ ان دونوں کا علاج مختلف ہے۔ سوائے اس کے کہ آپ ازخود فیصلہ کرکے دس یا چودہ دن کے لیے آئسولیشن میں چلے جاتے ہیں۔ تب تو ٹھیک ہے، آپ کو ٹیسٹ کروانے کی ضرورت نہیں۔

لیکن اگر آپ کا پروگرام گھر سے باہر نکلتے رہنے کا ہے، یاآپ 65 برس یا اس سے زائدعمر کے ہیں، آپ کا وزن بہت زیادہ ہے، ہائی بلڈ پریشر، ذیابیطس (شوگر)ہے یا کوئی ایسی بیماری ہے جس میں قوتِ مدافعت کمزور پڑ جاتی ہے تو پھر اس کا علاج بالکل مختلف ہوگا۔ اس سےشفایابی پانےکےبارے میں اندازہ (Prognosis) قائم کرنا بھی مختلف ہوگا۔ اس لیے میری رائے میں پھر دونوں (کووِڈ اور انفلوئنزا۔ ناقل) کے ٹیسٹ کروالینے چاہئیں۔

اور جبکہ ہم اس موضوع پربات کرہی رہے ہیں، یہ بھی اچھا ہوگا کہ آپ فلوویکسین لگوا لیں۔ کم از کم آپ ان میں سے ایک وائرس کا خطرہ توختم کر رہے ہوں گے جس کی ویکسین دستیاب ہے۔

(جاری ہے)

(ترجمہ و ترتیب: ڈاکٹر طارق مرزا۔ آسٹریلیا)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button