خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 18؍ دسمبر 2020ء
آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد حضرت علی بن ابوطالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ
حضرت علیؓ نےخلفائے ثلاثہ کے دور میں بھی بہت اہم خدمات انجام دیں
الجزائر اور پاکستان میں احمدیوں کے لیے نا مساعد حالات کے پیش نظر خصوصی دعاؤں کی مکرر تحریک
چار مرحومین ڈاکٹر طاہر احمد صاحب آف ربوہ ابن چودھری عبدالرزاق صاحب شہید سابق امیر ضلع نواب شاہ،مکرم حبیب اللہ مظہرصاحب ابن مکرم چودھری اللہ دتہ صاحب، مکرم خلیفہ بشیرالدین احمد صاحب ابن ڈاکٹر خلیفہ تقی الدین صاحب اورمحترمہ امینہ احمد صاحبہ اہلیہ مکرم خلیفہ رفیع الدین احمد صاحب کا ذکر ِخیر اور نماز ِجنازہ غائب
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 18؍ دسمبر 2020ء بمطابق 18؍ فتح 1399 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مورخہ 18؍ دسمبر 2020ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا۔ جمعہ کی اذان دینےکی سعادت مکرم رانا عطاء الرحیم صاحب کے حصے میں آئی۔تشہد،تعوذ اور سورةالفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےگذشتہ خطبات کے تسلسل میں حضرت علیؓ کا ذکر جاری رکھتے ہوئے فرمایا:
آنحضرتﷺاپنی آخری بیماری میں جب حضرت عائشہؓ کے گھر مقیم ہوئے تو مسجد آنے جانے کےلیے حضرت عباسؓ اور حضرت علیؓ کا سہارا لیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ جب حضرت علیؓ رسولِ خداﷺ کے پاس سے باہر تشریف لائے تولوگوں نے حضورﷺ کی طبیعت کے متعلق دریافت کیا۔ حضرت علیؓ نے اطمینان کا اظہار فرمایا لیکن حضرت عباس بن عبدالمطلبؓ نے تشویش ظاہر کی اور خلافت کے معاملے کے متعلق رسول اللہﷺ سے دریافت کرنے کا مشورہ دیا جسے حضرت علیؓ نے قبول نہ فرمایا۔ نبی کریمﷺ کی وفات کے بعد آپؐ کو حضرت علیؓ، حضرت فضلؓ اور حضرت اسامہ بن زیدؓ نے غسل دیا اور ان ہی افراد نے آپؐ کو قبر میں اتارا۔
حضرت علیؓ کی حضرت ابوبکرؓ کی بیعت کے متعلق مختلف روایات ملتی ہیں۔ ایک روایت کے مطابق حضرت ابوبکرؓ نے علیؓ کو بلوایا اور فرمایا کہ کیا آپ مسلمانوں کی طاقت کو توڑنا چاہتے ہیں تو حضرت علیؓ نے عرض کیا کہ اے رسول اللہﷺ کے خلیفہ! گرفت نہ کیجیے اور اُسی وقت بیعت کرلی۔ ایک اور روایت کے مطابق آپؓ کو جب بیعتِ خلافت کےلیے بلایا گیا تو آپؓ جس حالت میں تھے اسی میں چل پڑے اور لمحے بھر کوبھی دیر نہ کی۔ حضرت علیؓ نے حضرت ابوبکرؓ کی پہلے یا دوسرے دن بیعت کرلی تھی۔
حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ حضرت علیؓ نے اوّل اوّل حضرت ابوبکرؓ کی بیعت سے تخلف کیا تھا مگر گھر جاکر خدا جانے کیا خیال آیا کہ پگڑی بھی نہ باندھی اور فوراً ٹوپی سے ہی بیعت کرنے آگئے۔
دوسری قسم کی روایات میں یہ بھی بیان ہوا ہے کہ حضرت علیؓ نےحضرت فاطمہؓ کی وفات کے بعد حضرت ابوبکرؓ کی بیعت کی تھی تاہم علماء نے اس قسم کی روایات پر جرح کی ہے۔ اسی طرح بعض علماء نے اس دوسری بیعت کو بیعتِ تجدید کا نام دیا ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعودؑ اپنی عربی تصنیف ’سِرّ الخلافہ‘ میں فرماتے ہیں کہ اگر ہم یہ فرض بھی کرلیں کہ صدیقِ اکبر اُن لوگوں میں سے تھے جنہوں نے دنیا اور اس کی رعنائیوں کو مقدّم کیا اور انہیں چاہا اور وہ غاصب تھے تو ایسی صورت میں ہم اس بات پر مجبور ہوں گے کہ یہ بھی اقرار کریں کہ شیرِ خدا علی بھی نعوذباللہ منافقوں میں سے تھے، جنہوں نے کافروں اور مرتدوں کا ساتھ نہ چھوڑا۔ انہوں نےمداہنت اختیار کرتے ہوئے تیس سال کی مدت تک تقیہ اختیار کیے رکھا۔ جب صدیقِ اکبر علیؓ کی نگاہ میں غاصب تھے تو پھر وہ کیوں ان کی بیعت پر راضی ہوئے۔کیوں انہوں نے ظلم،فتنےاور ارتداد کی سرزمین سے دوسرے ممالک کی جانب ہجرت نہ کی۔
حضرت علیؓ نےخلفائے ثلاثہ کے دور میں بھی بہت اہم خدمات انجام دیں۔رسول اللہﷺ کی وفات کےبعد جب حضرت ابوبکرؓ نے حضرت اسامہؓ کے لشکر کو روانہ کیا تو آپؓ کے پاس بہت کم لوگ رہ گئے تھے۔ ایسے میں بدوؤں کے حملے کے پیشِ نظر مدینے کے داخلی راستوں پر پہرےدار مقرر کیے گئے۔ ان پہرے داروں کی نگرانی کرنے والے افراد میں حضرت علیؓ بھی شامل تھے۔ حضرت عمرؓ نے اپنے زمانۂ خلافت میں بعض سفروں کے پیش آنے پر حضرت علیؓ کو اپنی جگہ مدینے کا امیر مقرر فرمایا تھا۔واقعہ جسر میں مسلمانوں کو ایرانیوں کے ہاتھوں ایک قسم کی زبردست زک اٹھانی پڑی تھی۔ حضرت عمرؓ نے یہ سوچ کر کہ اب مدینہ اور ایران کے درمیان کوئی روک باقی نہیں رہی خود بطور کمانڈر خروج کا ارادہ فرمایا۔ باقی لوگوں نے تو اس تجویز کو پسند فرمایا لیکن حضرت علیؓ نے کہا کہ اگر خدانخواستہ آپ شہید ہوگئے تو مسلمان تتربتر ہوجائیں گےاور ان کا شیرازہ بالکل بکھر جائے گا اس لیے کسی اَور کو بھیجنا چاہیے۔ حضرت عثمانؓ کے دور میں فتنہ و فساد ہوا تو حضرت علیؓ نے انہیں مخلصانہ مشورے دیے۔آپؓ نے حضرت عثمانؓ کو عمال کی بےاعتدالیوں سے آگاہ فرمایا۔ جب مصریوں نے حضرت عثمانؓ کے گھرکا محاصرہ کیا تو حضرت علیؓ نے کھانے پینے کی اشیاء پہنچانے کی سعی کی۔پانی کی مشکیں حضرت عثمانؓ کے گھر تک پہنچانے کی کوشش میں بنو ہاشم اور بنو امیہ کے کئی غلام زخمی بھی ہوئے۔حضرت علیؓ کو جب حضرت عثمان ؓکے قتل کےمنصوبے کا علْم ہوا تو آپؓ نے اپنے صاحبزادوں امام حسنؓ اور امام حسینؓ کو حضرت عثمانؓ کے گھر کے پہرےکے لیے بھجوایا۔جب پہرے کے باوجود بلوائیوں نے حضرت عثمانؓ کو انتہائی بےدردی سےشہید کردیاتھا؛ اس روز حضرت علیؓ رسول اللہﷺ کا عمامہ باندھ کر اور اپنی تلوار لٹکا کر حضرت عثمانؓ کی خدمت میں حاضر ہوئےاور ان سے باغیوں کا مقابلہ کرنے کی اجازت چاہی۔ اسی طرح جب حضرت علیؓ کوحضرت عثمانؓ کی شہادت کی دردناک خبر ملی تو آپؓ حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ سے شدید ناراض ہوئے کہ ان کے پہرے کے باوجود بلوائی حضرت عثمانؓ کو شہید کرنے میں کیسے کامیاب ہوئے۔
حضرت علیؓ کی بیعتِ خلافت کے متعلق یہ ذکر ملتا ہے کہ جب حضرت عثمانؓ شہید ہوئے تو تمام لوگ حضرت علیؓ کی طرف دوڑے اور بیعت کی درخواست کی۔آپؓ نے فرمایا کہ یہ تمہارا کام نہیں بلکہ اصحابِ بدر کا کام ہے۔چنانچہ سب لوگ حاضر ہوئے اور اتفاق سے کہا کہ ہم کسی کوآپؓ سے زیادہ اس بات کا حق دار نہیں سمجھتے۔ اس پر آپؓ نے حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ کے متعلق دریافت فرمایا کہ وہ کہاں ہیں۔ سب سے پہلے حضرت طلحہؓ نے آپؓ کی زبانی بیعت کی پھر حضرت زبیر اورباقی صحابہ نے بیعت کی۔
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد مفسدوں نے بیت المال کو لوٹا،مدینے کاکرفیو کی طرح سخت محاصرہ کیا۔ یہاں تک کہ حضرت عثمانؓ کی لاش کو تین چار دن تک دفن نہ کرنے دیا۔ آخرکار چند صحابہ نے رات کو پوشیدہ طور پر آپؓ کو دفن کیا۔ جب حضرت علیؓ نے خلیفہ بننا منظور کرلیا تو وہی ہوا جس کا خطرہ تھا یعنی تمام عالَمِ اسلامی نے کہنا شروع کردیا کہ علیؓ نے عثمانؓ کو قتل کرایا ہے۔حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ اگر حضرت علیؓ کی تمام خوبیوں کو نظرانداز کردیا جائے تو بھی ایسی خطرناک حالت میں ان کا خلافت کو منظور کرلینا انتہائی جرأت اور دلیری کی بات تھی۔انہوں نے اپنی عزت اور اپنی ذات کی اسلام کےمقابلے میں کوئی پروا نہیں کی۔ اسی طرح حضرت مصلح موعودؓفرماتے ہیں کہ حضرت علیؓ کا یہ فعل بڑی حکمت پر مشتمل تھا۔ اگر آپؓ اس وقت بیعت نہ لیتے تو اسلام کو اس سے بھی زیادہ نقصان پہنچتا جو آپؓ کی اور حضرت امیر معاویہؓ کی جنگ سے پہنچا۔
حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ کے متعلق جو یہ کہا جاتا ہے کہ ان دونوں کبار صحابہ نے حضرت علیؓ کی بیعت کو توڑا تھا حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ یہ غلط مثال ہے۔ تاریخ سے ثابت ہے کہ ان دونوں نے حضرت علیؓ کی طوعاً بیعت نہ کی تھی۔ یہاں تک ذکر ملتا ہے کہ باغی ان دونوں کو تلوار کے زور پر اور زبردستی کھینچ کر بیعت کےلیے لائے تھے۔ اسی لیے باہمی اختلاف کی وجہ سے یہ دونوں اصحابِ رسولﷺ حضرت علیؓ کے مقابلے کے لیے کھڑے بھی ہوگئے۔ پھر جب اپنی غلطی کا احساس ہوا تو حضرت طلحہؓ میدانِ جنگ سے چلے آئے۔راستے میں کسی وحشی انسان نے آپؓ کو شہید کردیا اور انعام کی خواہش لیے حضرت علیؓ کے پاس آیا۔ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ مَیں نے رسول کریمﷺ سے سنا تھا کہ طلحہؓ کو ایک جہنمی قتل کرے گا پس مَیں تمہیں جہنم کی بشارت دیتا ہوں۔
حضورِانور نے حضرت علیؓ کا ذکر آئندہ جاری رہنے کا ارشاد فرمانے کے بعد الجزائر اور پاکستان کے احمدیوں کے لیے ایک بار پھر دعاکی تحریک کرتے ہوئے فرمایا کہ الجزائر میں حالات سخت کیے جارہے ہیں۔ وہاں بھی ایک سرکاری وکیل ہے جو ہمارے احمدیوں پر باربار مقدمے بنا رہا ہے۔پاکستان کے احمدیوں کو مخاطب کرتے ہوئے حضورِانور نے فرمایا کہ دعاؤں کی طرف جس طرح توجہ کی ضرورت ہے اس طرح توجہ کا ابھی بھی احساس نہیں ہے۔ پس پہلے سے بہت بڑھ کر دعاؤں کی طرف توجہ دیں۔
خطبے کے آخر میں حضورِانور نے درج ذیل مرحومین کا ذکرِ خیر اور نمازِجنازہ غائب پڑھانے کا اعلان فرمایا۔
1۔ ڈاکٹر طاہر احمد صاحب آف ربوہ ابن مکرم چودھری عبدالرزاق صاحب شہید سابق امیر ضلع نواب شاہ۔مرحوم 4؍دسمبر کو 60 سال کی عمر میں وفات پاگئے تھے۔
اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّآاِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
2۔ مکرم حبیب اللہ مظہرصاحب ابن مکرم چودھری اللہ دتہ صاحب۔ آپ 24؍ اکتوبر کو 75 برس کی عمر میں وفات پاگئے۔
اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
3۔ مکرم خلیفہ بشیرالدین احمد صاحب ابن ڈاکٹر خلیفہ تقی الدین صاحب۔ مرحوم نے 30؍ نومبر کو 86 سال کی عمر میں وفات پائی۔
اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
4۔ محترمہ امینہ احمد صاحبہ اہلیہ مکرم خلیفہ رفیع الدین احمد صاحب۔ مرحومہ 19؍ اکتوبر کو وفات پاگئی تھیں۔
اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
حضورِانور نے تمام مرحومین کی مغفرت اور درجات کی بلندی کے لیے دعا کی۔