نعت نبی کریم ﷺ
مرے مصطفیٰ مرے مجتبیٰ مرے چارہ گر مرے مقتدا
تو امامِ اعظم و راہبر تُو ہے سب رسولوں کا پیشوا
تری ذات رحمتِ عالمیں نہیں تجھ سا کوئی بھی بالیقیں
ترا ہاتھ سر پہ یتیم کے ترا ساتھ حامیٔ بےنوا
جو ترے رفیق تھے ہم سخن وہ بنے ستاروں کی انجمن
ملی روشنی انہیں بےبہا وہ جنہوں نے کی تری اقتدا
یہ ترے وجود کا فیض تھا کہ نہ ہو سکے وہ کبھی فنا
یہ ترے کرم کا تھا معجزہ کیا وحشیوں کو خدا نما
تھا فلک نشیں ترے رُوبُرو غمِ خلق تھا ترے چارسُو
وہاں اک عروج کا سلسلہ یہاں عاجزی کی تھی انتہا
تجھے خاص کوثر عطا ہوئی کسی اور کو جو نہیں ملی
یہ انعام ایسا انعام ہے جو کسی نبی کو نہیں ملا
وہ عطا جسے ترا ربط ہو تری مہر جس پہ بھی ثبت ہو
اُسے رب کی نعمتیں سب ملیں تری ذات خاتم الانبیاء
ترے پیار سے ترے واسطے ملیں وصل کے سبھی راستے
نہیں اس روش سے الگ کہیں درِیار کا کوئی راستہ
نہیں ڈوبنے کا کوئی خطر مجھے اب نہیں ہے کوئی بھی ڈر
وہ خدا کے حفظ و اماں میں ہے تُو ہے جس سفینے کا ناخدا
ترے نور کی تھی وہ روشنی وہ جو ضوفشاں سرِ طُور تھی
اسی نور حق کا ظہور تھا وہ حرا میں جو تھا دیا جلا
انہیں چُھو سکے گا نہ کوئی غم وہی ہوں گے حشر کو محترم
ترے پیار سے جو بسے رہے تری آل سے رہے باوفا
ترے ساتھ رب نے کلام میں تری مرتبت میں مقام میں
ترے ذکر میں ترے نام میں ہے سلام تجھ پہ لکھا ہوا
یہ اسی درود کا ہے اثر جو یہ بھیجتا ہے تجھے ظفؔر
کہ مرا چمن ہے ہرا بھرا جو پھلوں سے بھی ہے ہوا لدا
(مبارک احمد ظفرؔ)