احمدیت دنیا میں اسلامی تعلیم و تمدن کاصحیح نمونہ پیش کرنے کے لیے قائم کی گئی ہے (قسط ششم۔ آخری)
کھیلوں کے متعلق بھی میں خدام کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ آج کل کی ورزشیں ایسی ہیں جو امیر اور غریب میںفرق کرتی ہیں۔ آپ لوگ جوگائوں والے ہیں کرکٹ نہیں کھیل سکتے کیونکہ آپ کا اگر ایک لڑکا بھی سکول میں پڑھتا ہے تو آپ ہیڈ ماسٹر کی خوشامدیں کرتے پِھرتے ہیں کہ میرے لڑکے کی فیس معاف کر دیں۔ پھر اگر وہ لڑکا پاس ہو جائے تو آپ لوگوں کا بڑا معیار یہ ہوتا ہے کہ وہ کہیں نائب مدرّس ہوجائے یا پٹواری بن جائے یا کانسٹیبلوں میں بھرتی ہو جائے۔ آپ لوگوں کے پاس بھلا کہاں طاقت ہے کہ آٹھ دس روپے کا بَلّاخریدیں اور وہ دو مہینہ کے بعد ٹوٹ جائے۔ پھر آپ لوگوں کویہ کہاں توفیق ہے کہ روپیہ ڈیڑھ روپیہ کا گیند لیں جس پر اگر چند ہِٹیں بھی لگ جائیں تو وہ ڈھیلا پڑجاتا ہے اور ضرورت ہوتی ہے کہ اس کی بجائے دوسرا گیند لایا جائے۔ آپ لوگوں کے لیے تو سب سے بڑی ورزش یہ ہے کہ جتنا دَوڑ سکتے ہوں دوڑیں کُھلے میدان آپ کے سامنے ہوتے ہیںاور جتنا دَوڑنا چاہیں دَوڑسکتے ہیںشہری جو آپ کے بھائی ہیںویسے ہی خدا کے بندے ہیںجیسے آپ ہیں۔ مگر جب وہ سفید فلالین کی پتلونیں پہن کر اور آدھی آدھی باہوں کی ٹول(twill)کی قمیص پہن کر نکلتے ہیں تو زمیندار سمجھتے ہیں کہ شاید وہ کسی ساہو کار کے بیٹے ہیں یا انہیں گورنمنٹ میںکوئی بڑا عُہدہ حاصل ہے۔ جب وہ سفید پتلونیں اور پٹیاںلگا کر اور آدھی آدھی بانہوں کی قمیص پہن کر کرکٹ کھیلنے کے لیے کھڑے ہو جاتے ہیں تو زمیندار دور کھڑے ہو کر انہیں دیکھنے لگ جاتے ہیںاور ہر ایک ہِٹ کے متعلق وہ سمجھتے ہیںکہ شاید بی اے یا ایم اے کو یہ کوئی خاص ہُنر سکھایا گیا ہے اور کالج کا طالب علم بھی جب ہِٹ مار کر اور تکبر سے گردن موڑ کر چلتا ہے تو سمجھتا ہے کہ سارے زمیندار جن میںسے کوئی اُس کا دادا ہوتا ہے اور کوئی اُس کا پڑدادا ہوتا ہے جانور ہیں۔ پھر کرکٹ کے لیے اتنی بڑی فیلڈ ہونی چاہیے جو ہماری اِس مسجد اقصیٰ سے اپنی وسعت میںچار گنے بلکہ سات آٹھ گنے زیادہ ہو۔ اور اتنی بڑی فیلڈ صرف بائیس آدمیوں کے کھیلنے کے لیے کافی ہوتی ہے تم سمجھ سکتے ہو کہ اگر صرف بائیس آدمیوں کے کھیلنے کے لیے اتنی بڑی فیلڈ کی ضرورت ہو سکتی ہے تو شہروں اور گائوں کے لیے کتنی فیلڈوں کی ضرورت ہوسکتی ہے مثلاً پھیروچیچی میں چار پانچ سَو مرد ہیںاگر سب کرکٹ کھیلیں تو اس کے لیے 23،22 فیلڈوں کی ضرورت ہو گی بھلا اتنی زمین وہ کہاں سے لا سکتے ہیں یہ تو صرف پھیروچیچی کا حال ہے جو ایک گائوں ہے۔ لاہور کی پانچ لاکھ آبادی ہے جس میں سے اڑھائی لاکھ مرد ہیںاور گو اَب عورتیں بھی کھیل میں شامل ہوتی ہیں لیکن اگر مردوں کے لئے ہی فیلڈیں ہوں تو ساٹھ ہزار ایکٹر زمین کی ضرورت ہو گی تب کہیں صرف لاہور والے کرکٹ کھیل سکتے ہیں ۔ بھلا یہ بھی کوئی کھیلیں ہیںاور کیا دنیا کاکوئی معقول انسان ان کھیلوں کو ہر جگہ رائج کر سکتا ہے۔ یہ تو یورپ والوں کی کھیلیں ہیں جہاں امیر اور غریب کو الگ الگ رکھا جاتا ہے ان میںایسے ایسے لوگ ہیںجو ڈیڑھ دو لاکھ سے پچاس ساٹھ لاکھ روپیہ سالانہ کی آمد رکھتے ہیں مگر یہاں سارے ضلع گورداسپور کے بڑے بڑے زمینداروں کی آمد کو اکٹھا کیا جائے تو وہ وہاں کے ایک شخص کی آمد کے دسویں حصہ کے برابر بھی نہیں بنیں گی۔ پھر وہاں جوتاجر ہیں بیس بیس، تیس تیس، چالیس چالیس بلکہ پچاس پچاس کروڑ روپیہ سرمایہ رکھتے ہیں اور جو درمیانی طبقہ کہلاتا ہے وہ بھی ایسا ہوتا ہے جس کے ہر فرد کی دو تین ہزار روپیہ آمد ہوتی ہے اور غریب مزدور بھی وہاں سو سے تین سور وپیہ تک کماتا ہے مگر تمہارے گائوں کے مزدور کو تو صرف تین چار روپیہ مہینہ پڑتا ہے پس یہ کھیلیں تمہارے لیے موزوں نہیں یہ تو یورپ کے مالدار لوگوں نے اپنے بچوں کے لیے بنائی تھیں تاکہ وہ دوسرے لوگوں سے ملیں نہیں کہتے ہیں اس سے کیریکٹر بنتا ہے اور امیرانہ اخلاق پیدا ہوتے ہیںلیکن ہمارے لوگوں نے بندر کی طرح اِن کی نقل کرنا شروع کر دی اور اس بات کو سمجھا ہی نہیں کہ یہ کھیلیں امیر اور غریب میںتفرقہ ڈالنے والی ہیں اور طالب علم کا دماغ بالکل خراب کر دیتی اور اسے بالکل پاگل بنا دیتی ہیں۔ وہی طالب علم جو گائوں کا رہنے والا ہوتا ہے کالج میںتعلیم حاصل کر کے اپنے آپ کو کوئی الگ مخلوق سمجھنے لگ جاتا ہے اور جب اپنے گائوں میںواپس جاتا ہے اور دیکھتا ہے کہ لڑکے گلی ڈنڈا کھیل رہے ہیں یا اپنے پڑدادا کے زمانے کا سُوت لے کر اُس کا کِھدُّو(گیند)انہوں نے بنایا ہوا ہے اور درخت کی لکٹری کاٹ کر اُس کے ساتھ کھیل رہے ہیںتو وہ ناک بھوں چڑھا لیتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ مَیں کس وحشی ملک میں آگیا ہوں حالانکہ سچی بات تو یہ ہے کہ جو کھیلیں گائوں کے لوگ کھیلتے ہیں وہی اصلی کھیلیں ہیں اور ان سے بڑھ کر کوئی کھیل نہیں۔ ابھی میں پچھلے دنوں ایک دن سیرکے لیے دریا پر گیا تو ایک گائوں سے گزرتے ہوئے مَیں نے دیکھا کہ دو لڑکوں کے ہاتھ میں درخت کی چھڑیاں ہیں اور وہ ایک کِھدُّو کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ وہ کھیلتے کھیلتے روڑیوں پر بھی چلے جاتے تھے، کھیتوں میں بھی گھس جاتے تھے وٹوں میںبھی دوڑتے پھرتے تھے اور ایک اِدھر سے اس کِھدُّوکو سوٹی مارتا تھا اور ایک اُدھر سے۔ میں نے دیکھا تو کہا یہ وہ کھیل ہے جس میںسارا پھیروچیچی شامل ہو سکتا ہے، جس میں سارا لاہور شامل ہو سکتا ہے اور جس کے لیے کسی خاص فیلڈ کی ضرورت نہیںجہاں زمین نظر آئی کِھدُّوپھینکا اور کھیلنا شروع کر دیا یہ کھیلیں ہیں جو ہمارے ملک کو فائدہ پہنچا سکتی ہیں او ریہی کھیلیں خدام الاحمدیہ کو کھیلنی چاہئیں۔ میں جانتا ہوں کہ ٹوپیوں والے اِس پر اعتراض کرتے ہیں لیکن اِس کی وجہ یہ ہے کہ وہ شہروں میںرہ کر ہندوستانی نہیں رہے۔ ان کی شکلیں بےشک ہندوستانیوں کی ہیں، ان کا رنگ بےشک ہندوستانیوں کا ہے، ان کی زبان بے شک ہندوستانیوں کی ہے، ان کے ماں باپ بے شک ہندوستانی ہیں اور ان کی بیویاں بے شک ہندوستانی ہیں مگر ان کے اندر انگریزی خون کی ایسی پچکاری بھر دی گئی ہے کہ اب وہ ہندوستانیوں کی نہیں بلکہ یوروپین لوگوں کی نقل کرنا باعثِ فخر سمجھتے ہیں۔ وہ آج بےشک اس پر فخر کرلیں مگر کل جب قوم میںبیداری پیدا ہو گی اُس وقت انہیں نظر آئے گا کہ انہوں نے اپنی زندگیاں تباہ کر دی ہیں۔ آخر تم کرکٹ کھیل کر کس طرح زمینداروں کی راہنمائی کر سکتے ہو۔ ہاں کِھدُّوکھیل کر تم اِن میں ضرور رہ سکتے ہو۔ پس کالج کا لڑکا جس کی تعلیم کی غرض ہی یہی ہے کہ وہ زمینداروں کوفائدہ پہنچائے وہ اپنی زندگی کو تباہ کرنے والا ہے جب تک وہ گائوں میںجا کر زمینداروں کی سی زندگی بسر کرنے کی عادت نہیں ڈالتا، جب تک وہ سرسوں کا ساگ اور جوار کی روٹی نہیں کھاتا، جب تک وہ کِھدُّوکھونڈی سے کھیلنے کے لیے تیار نہیں ہوتا اُس وقت تک وہ اپنی تعلیم سے زمینداروں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔وہ یہی سمجھتے ہیں کہ پاگل خانے کا کوئی آدمی اچھے کپڑے پہن کر آ گیا ہے۔ دیکھو حدیثوں میں آتا ہے صحابہؓ کہتے ہیں
اَمَرَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنْ نَتَکَلَّمَ النَّاسَ عَلٰی قَدْرِ عُقُوْلِھِمْ
(کنز العمال جلد 10 صفحہ 242 مطبوعہ حلب 1971ء میں یہ الفاظ آئے ہیں۔
اُمِرْنَا اَنْ نُکَلِّمَ النَّاسَ عَلٰی قدْرِ عُقُوْلِھِمْ)
ہمیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حکم دیا تھا کہ ہم لوگوں کی عقل کے مطابق گفتگو کیا کریں۔ پس لوگوں کی عقلوں کے مطابق اپنے آپ کو بنائو اور یہ اُسی وقت ہو سکتا ہے جب تم سادہ خوراک کھائو، سادہ لباس پہنو، سادہ کھیل کھیلو مثلاً میروڈبہ کھیلو یا کِھدّو کھونڈی کھیلو، ……ہماری زندگی تو ایسی سادہ ہونی چاہئے کہ گائوں والے بغیر شرم کے ہمارے پاس آسکیں اور ہم بغیر شرم کے ان کے پاس جا سکیں۔ میںامید کرتا ہوں کہ آئندہ جو کھیلیں ہونگی وہ اِس قسم کی ہونگی اور ان میں میری ہدایات کو ملحوظ رکھا جائے گا میںچاہتا ہوں کہ تم وہ کھیلیں کھیلو جو تمہاری آئندہ زندگی میںکام آئیں۔مثلاً گھوڑے کی سواری نہایت مفید چیز ہے۔ میں بچپن میں جب گھوڑے کی سواری سیکھنے لگا تو حضرت خلیفہ اول نے (آپ اُس وقت تک خلیفہ نہیںہوئے تھے یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ کی بات ہے) مجھے فرمایا میاں! یوں سواری نہیں آتی گھوڑے کی سواری سیکھنے کا بہترین طریق یہ ہے کہ انسان پہلے گدھے پر بغیر پالان کے چڑھے جب گدھے کی سواری آ جائے تو پھر گھوڑے کی سواری خودبخود آجاتی ہے اس کے بعد فرمانے لگے ہم نے بھی اسی طرح سواری سیکھی تھی ہم گدھے پر سوار ہوتے تھے تو وہ دولتیاں مارتا تھا اور اُچھلتا کودتا تھا ہم بھی خوب اُچھلتے اور اُسے مضبوطی کے ساتھ پکڑنے کی کوشش کرتے اس طرح لاتیں موڑ توڑ کر بیٹھنے کی عادت ہو گئی کہ گدھا لاکھ اُچھلتاکودتا ہم وہیں بیٹھے رہتے۔ توگھوڑے کی سواری سے پہلے گدھے کی سواری بھی آنی چاہیے اور زمینداروں کے لئے اِس میں کوئی دقت نہیں چھوٹے چھوٹے زمیندار لڑکے کھڑے ہوتے ہیں کہ پاس سے گدھا گزرتا ہے اِس پر فوراً ایک اِدھر سے پلاکی مار کر اُس پر بیٹھ جاتا ہے اور دوسرا اُدھر سے پلاکی مار کر اُس پر چڑھ جاتا ہے اور تھوڑی دیر سواری کرنے کے بعد ہنستے ہوئے اُتر جاتے ہیں مگر شہر والوں کو یہ نعمتیں کہاں میسر ہیں وہ تو جب تک کاٹھی نہ ہو اور سدھایا ہؤا گھوڑا نہ ہو اُس پر سوار ہی نہیں ہو سکتے۔
بہرحال گھوڑے اور گدھے کی سواری بھی نہایت مفید چیزیں ہیں اسی طرح اور دیسی کھیلیں ہیں ان سے تمہارا جسم مضبوط ہو گا۔ نوکری تمہیں آسانی سے مل سکے گی گھروں کی حفاظت کر سکو گے، کوئی ڈوب رہا ہو گا تو اُس کو نکال لو گے، آگ لگی ہوئی ہو گی تو اُس کوبجھا سکو گے، غرض یہ کھیل کی کھیل ہے او رکام کا کام، کہتے ہیں ’’ایک پنتھ دو کاج‘‘ اِس سے بھی دونوں فائدے حاصل ہو سکتے ہیں کھیلوں کا فائدہ بھی اور کاموں کا فائدہ بھی۔ میںامید کرتا ہوںکہ باہر سے جودوست آئے ہوئے ہیں وہ اس بات کو اچھی طرح سمجھ گئے ہوں گے کہ یہ صرف کھیلیں نہیں بلکہ ان میںکئی حکمتیں ہیں پس کھیلو اور خوب کھیلو اور مت سمجھو کہ یہ دنیا ہے۔ جو باپ اپنے بچہ کو کھیلنے نہیںدیتا وہ یاد رکھے کہ جس بچے نے کھیل میں اپنے ہاتھ مضبوط نہ کیے وہ کھیتی باڑی بھی نہیں کر سکے گا وہ ہَل بھی نہیں چلا سکے گا اور وہ دنیاکے اور کاموں میںبھی حصہ نہیںلے سکے گا۔ پس تم اپنے بچوں کو کھیلنے دو بلکہ اگر تمہارا کوئی بچہ نہیں کھیلتا تو اُسے مارو کہ تُو کھیلتا کیوں نہیں،کودنا پھاندنا، دَوڑیں لگانا، تیرنا،گھوڑے اور گدھے کی سواری کرنا یہ بڑے مفید کام ہیں تم ان چیزوں کو سیکھو اور سکھائو اور انہیں دنیا نہ سمجھو بلکہ دین کا حصہ سمجھو۔
(الفضل 7،6،4،2 اکتوبر 1960ء)