یَاْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ (نمبر1)
تعارف
’’اس کثرت سے لوگ تیری طرف آئیں گے کہ جن راہوں پر وہ چلیں گے وہ عمیق ہو جائیں گے‘‘
بانی جماعت احمدیہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
’’ایک عرصہ ہوا کہ مجھے الہام ہوا:
وَسِّعْ مَکَانَکَ، یَاْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ
یعنی اپنے مکان کو وسیع کر۔ کہ لوگ دور دور کی زمین سے تیرے پاس آئیں گے۔ سو پشاور سے مدراس تک تو میں نے اس پیش گوئی کو پوری ہوتے دیکھ لیا مگر اس کے بعد دوبارہ پھر یہی الہام ہوا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اب وہ پیش گوئی پھر زیادہ قوت اور کثرت کے ساتھ پوری ہوگی۔
وَاللّٰہُ یَفْعَلُ مَا یَشَاءُ لَا مَانِعَ لِمَا اَرَادَ‘‘
(اشتہار مورخہ 17؍فروری 1897ء۔ مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ 327)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے دعویٰ مسیحیت کے بعد اپنی تصنیف ’’فتح اسلام ‘‘میں دین اسلام کے احیائےنو اور اصلاح خلق کے واسطے ایک عظیم الشان کارخانے کے اجرا کا تذکرہ فرمایا۔ اس کی تیسری شاخ کے ذکر میں فرمایا:
’’تیسری شاخ اس کارخانہ کی واردین اور صادرین اور حق کی تلاش کے لئے سفر کرنے والے اور دیگر اغراض متفرّقہ سے آنیوالے ہیں جو اس آسمانی کار خانہ کی خبر پا کر اپنی اپنی نیّتوں کی تحریک سے ملاقات کے لئے آتے رہتے ہیں۔ یہ شاخ بھی برابر نشوونما میں ہے۔ اگرچہ بعض دنوں میں کچھ کم مگر بعض دنوں میں نہایت سرگرمی سے اس کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ چنانچہ ان سات برسوں میں ساٹھ ۶۰ہزار سے کچھ زیادہ مہمان آئے ہوں گے اور جس قدر اُن میں سے مستعد لوگوں کو تقریری ذریعوں سے روحانی فائدہ پہنچایا گیا اور اُن کے مشکلات حل کر دئے گئے۔‘‘
(فتح اسلام، روحانی خزائن جلد 3صفحہ 14)
حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے ان زائرین کی آمد کو اپنی صداقت کے نشان کے طور پر بیان فرمایا ہے۔ جیسا کہ ایک واقعہ ملتاہے کہ ایک دفعہ ایک میاں بیوی سیاح امریکہ سے قادیان آئے اور دوران ملاقات حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے آپ کی صداقت کا نشان پوچھا تو آپؑ نے فرمایا کہ میری صداقت کانشان تو آپ دونوں بھی ہیں جو اتنا لمبا سفر کرکے پہنچے ہیں۔
(ماخوذ از ملفوظات جلد پنجم صفحہ 517)
مجموعہ الہامات ’’تذکرہ ‘‘ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ مذکورہ بالا الہام
( یَاْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو باربارہوا، مثلاً:
مارچ 1882ء میں اللہ تعالیٰ نے دیگر تفصیلی پیش خبریوں کے ساتھ ساتھ یہ بھی خبر دی کہ
یَاْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ(تذکرہ صفحہ 39)
پھر 1900ء میں الہام ہوا کہ
یَاْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ(تذکرہ صفحہ 195)
پھر تذکرہ صفحہ 301کے مطابق یہ الہام سال 1900ء میں پھر ہوا تھا۔
14؍جولائی 1903ء کوالہام ہوا:
یَاْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ، وَسِّعْ مَکَانَکَ(تذکرہ صفحہ 395)
29؍مئی 1905ء کو الہام ہوا:
یَاْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ(تذکرہ صفحہ465)
پھر7؍جون 1906ء کو الہام ہوا
یَاْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ(تذکرہ صفحہ535)
سال 1906ءمیں ہی یہ الہام پھر ہوتا ہے۔ (صفحہ541)
اور اگست 1906ء میں یہی الہام پھر ہوتا ہے۔(تذکرہ صفحہ565)
اسی سال 1906ءمیں 30؍اکتوبر کو یہی الہام ہوتا ہے۔(تذکرہ صفحہ 574)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے اشتہار5؍نومبر 1907ءمیں لکھا کہ
’’وَیَنْصُرُکَ رِجَالٌ نُّوْحِیْٓ اِلَیْھِمْ مِّنَ السَّمَآءِ، یَاْتُوْنَ مِنْ کُلٍّ فَجٍّ عَمِیْقٍ،
یعنی تیری مدد وہ لوگ کریں گے جن کے دلوں میں ہم الہام کریں گے وہ دُوردراز جگہوں سے تیرے پاس آویں گے۔
اس جگہ استعارہ کے رنگ میں خدا تعالیٰ نےمجھے بیت اللہ سے مشابہت دی۔ کیونکہ آیت
یَاْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ
خانہ کعبہ کے حق میں ہے۔‘‘(تذکرہ صفحہ 623)
تاریخ بتاتی ہے کہ اسی طرح تحقیق حق، مشاہدہ، زیارت اور متفرق اغراض سے آنے والے ان مہمانوں کی آمد کاسلسلہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے زمانۂ حیات کےبعد دورخلافت میں بھی جاری وساری رہا۔ ان واردین کی اکثریت تو حلقہ بگوش احمدیت ہوجاتی رہی۔ الفضل انٹرنیشنل کے قارئین کے لیے مضامین کے اس نئے سلسلےمیں ایسے ہی چند لوگوں کا تذکرہ کیا جائے گا۔
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام دراصل ان مہمانوں کی آمد پر اپنے آقاو مطاع حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے اس ارشادکی تعمیل میں مصروف ہوجاتے تھے :
’’جو شخص اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان لا تا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ مہمان کی عزت کرے۔‘‘
(سنن ابو دا ؤ د کتاب الا طعمہ)
حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام مہمانوں سے بہت شفقت اور مہربانی فرماتے۔آپؑ نے ایک دفعہ نصیحت کے رنگ میں بہت دلچسپ اور سبق آموز قصہ سناتے ہوئے فرمایا:
’’ایک دفعہ ایک شخص کو جنگل سے گزرتے گزرتے رات پڑ گئی اور وہ ایک درخت کے نیچے بیٹھ گیا سردی کا موسم تھا، نہ کھانے کو کچھ، نہ جسم گرم کرنے کو آگ تھی درخت کے اوپر دو نر اور مادہ پرندوں نے گھو نسلہ بنا یا ہواتھا۔ انہوں نے ایک دوسرے سے کہا کہ یہ شخص آج ہمار امہمان ہے۔ اسے آرام پہنچا نا چاہئے انہوں نے اپنا گھونسلہ نیچے گرا دیا تا کہ وہ آگ جلا سکے۔ اس کے بعد انہوں نے سوچا کہ اسے بھوک لگی ہوئی ہوگی تو انہوں نے اپنے آپ کو نیچے گرادیا تاکہ وہ ان دونوں کو بھون کر کھا سکے۔‘‘
آپؑ فرماتے ہیں کہ
’’دیکھو ان پرندوں نے اپنا سامان بھی دے دیا اور اپنی جانیں بھی قربان کردیں تا کہ اپنے مہمان کو آرام پہنچا دیں اسی طرح ہم کو بھی اپنے مہمان کی خاطر کرنی چاہئے۔‘‘
(الحکم14؍نومبر1936ء)
یہ محض ایک تمثیل نہ تھی بلکہ حضور علیہ السلام کا اپنا طرز عمل اور مطمح نظر تھا کہ ہر طرح کی تکلیف اٹھا کر بھی مہمان کو راحت پہنچائی جائے اور خدائی حکم میں ذرا بھی کوتاہی نہ ہو۔ چنانچہ حضرت منشی ظفراحمد صاحب کپورتھلویؓ روایت کرتے ہیں :
ایک دفعہ منی پور آسام کے دور دراز علاقہ سے دو (غیر احمدی)مہمان حضرت مسیح موعودؑ کانام سن کر آپ سے ملنے کے لئے قادیان آئے اور مہمان خانہ کے پاس پہنچ کر لنگر خانہ کے خادموں کو اپنا سامان اتارنے اورچارپائی بچھانے کوکہا۔ لیکن ان خدام کو اس طرف فوری توجہ نہ ہوئی اور وہ ان مہمانوں کو یہ کہہ کر دوسری طرف چلے گئے کہ آپ یکہ سے سامان اتاریں چارپائی بھی آ جائے گی۔ اُن تھکے ماندے مہمانوں کو یہ جواب ناگوار گزرا اور وہ رنجیدہ ہو کر اسی وقت بٹالہ کی طرف واپس روانہ ہوگئے۔ مگرجب حضرت صاحبؑ کو اس واقعہ کی اطلاع ہوئی آپؑ نہایت جلدی ایسی حالت میں کہ جوتا پہننا بھی مشکل ہو گیا ان کے پیچھے بٹالہ کے رستہ پرتیزتیز قدم اٹھاتے ہوئے چل پڑے۔ چند خدام بھی ساتھ ہو لیے۔ حضرت منشی ظفر احمد صاحبؓ روایت کرتے ہیں کہ میں بھی ساتھ ہو لیا۔ حضرت صاحبؑ اس وقت اتنی تیزی کے ساتھ ان کے پیچھے گئے کہ قادیان سے اڑھائی میل پرنہر کے پل کے پاس انہیں جا لیا اور بڑی محبت اور معذرت کے ساتھ اصرار کیا کہ واپس چلیں اور فرمایا آپ کے واپس چلے جانے سے مجھے بہت تکلیف ہوئی ہے۔ آپ یکہ پر سوارہو جائیں میں آپ کے ساتھ پیدل چلوں گا۔ مگر وہ احترام اور شرمندگی کی وجہ سے سوارنہ ہوئے اور آپ انہیں اپنے ساتھ لے کر قادیان واپس آگئے اور مہمان خانہ میں پہنچ کران کا سامان اتارنے کے لیے آپ نے اپنا ہاتھ یکہ کی طرف بڑھایا مگرخدا م نے آگے بڑھ کر سامان اتار لیا۔ اس کے بعد حضرت صاحبؑ ان کے پاس بیٹھ کر محبت اور دلداری کی گفتگو فرماتے رہے اورکھاناوغیرہ کے متعلق بھی پوچھا کہ آپ کیا کھاناپسندکرتے ہیں اور کسی خاص کھاناکھانے کی عادت تو نہیں ؟ اور بڑی شفقت کے ساتھ باتیں کرتے رہے۔
دوسرے دن جب یہ مہمان واپس روانہ ہونے لگے تو حضرت صاحبؑ نے دودھ کے دوگلاس منگوا کر ان کے سامنے بڑی محبت سے پیش کیے اورپھر دو اڑھائی میل پیدل چل کر بٹالہ کے رستے والی نہر تک چھوڑنے کے لئے ان کے ساتھ گئے اوراپنے سامنے یکہ پرسوارکراکے واپس تشریف لائے۔
یاد رہے کہ خدائے منان کی طرف سے جس قادیان میں کثرت سے مہمانوں کی آمد کی پیش خبریاں دی جارہی تھیں تب اس کی بے رونقی کا یہ عالم تھا کہ مقامی لوگوں کو چھوٹی چھوٹی ضروریات کے لیے سات کوس دور بٹالہ جانا پڑتاتھا۔ تب قادیان کسی مشہور و معروف گزرگاہ اور شاہراہ پر بھی واقع نہ تھا۔ قادیان کے اندر بھی حضور علیہ السلام کے ساتھ نماز میں شریک ہونے والے چند ایک لوگ ہوتے تھے، تب حضورؑ کبھی اکیلے اور کبھی ایک یا دو لوگوں کے ساتھ سیر اور ہواخوری کے لیے جایا کرتے تھے۔
1902ءمیں حضرت پیر سراج الحق نعمانی صاحب رضی اللہ عنہ نے قادیان کی پہلی بے رونقی اور پھرخدائی وعدوں کے مطابق اس کی شاندار اور حیرت انگیز ترقیات کا نقشہ ایک مضمون میں بیان کیا تھا جسے الحکم نے اپنے 30؍اپریل 1902ء کے شمارے میں شائع کیا۔ اس میں انہوں نے 1882ء میں اپنی قادیان آمد پر وہاں مشاہدہ کردہ بے رونقی اور کم مائیگی کا حال وضاحت سے تحریر کیا تھا، اور پھر 1902ء تک ہونے والی ترقیات کا نقشہ کھینچا تھا، اسی میں یکہ بانوں کی حالت جدیدہ کے ذکر میں لکھا:
’’یکہ والوں کی ایسی گرم بازاری ہے کہ رات دن چلتے ہی رہتے ہیں۔ بٹالہ کےیکے بھی اور قادیان کے یکے بھی چلتے ہی نظر آتے ہیں۔ ایک آتا ہے دو جاتے ہیں۔ پانچ آتے ہیں تو چار جاتے ہیں۔ اور مکہ سے مدینہ سے ملک عرب سے بصرہ سے بغداد سے نجف سے طرابلس سے شام سے روم سے فارس سے مراکش سے کابل سے غزنی خست سے بخارا و قندھار سے حبش سے آسام سے چین سے لندن سے اوران ملکوں سے اور دور دراز امصار و بلاد سے جن کا نام بھی کبھی نہیں سنا تھا، دیکھنے کے کیا معنے۔ اور خصوص ہندو سندھ پنجاب و ممالک متوسطہ، مدراس دکن، مچھلی بندر، کلکتہ، ڈھاکہ، بنگالہ، روہیل کھنڈ، راجپوتانہ، ہریانہ، غرض اٹک سے لیکر کٹک تک لوگ فوج در فوج اور جماعتیں کی جماعتیں آتی ہیں اور یہ آنے والے کوئی جاہل نہیں۔ بے سمجھ نہیں۔ دیوانے نہیں۔ ہاں ہوشیار، بالغ، دنیا کےگرم و سرد سے واقف، عالم فاضل، پیرزادے، سجادہ نشین، تاجر، بڑے عہدے دار، بی اے، ایم اے، سنجیدہ اور ذی عقل ہوتے ہیں…‘‘
(الحکم30؍اپریل1902ء)
اسی طرح حضرت بھائی عبدالرحمٰن قادیانی نے اپنے پہلے سفر قادیان کی روئیداد لکھی ہے جسے پڑھ کر قادیان کی بے رونقی اور پھر مرجع خلائق بننے کی پیش گوئی کی عظمت پر انسان ورطۂ حیرت میں ڈوب جاتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے مخالفین اور آپ کے خلاف زبان دراز کرنے والوں کو متعدد بار سمجھایا ہے کہ یہ سلسلہ احمدیہ کوئی انسانی کاروبار یا دنیاوی منصوبہ ہرگز نہیں ہوسکتا کیونکہ علاوہ دیگر دلائل کے، قادیان کی بستی نہ تو کسی معروف گزرگاہ پر واقع ہے اور نہ ہی یہ سیاحی، کاروباری یا معاشی مرکز کی حیثیت رکھتا ہے جو میر ے دعویٰ کی اشاعت میں ممد و معاون ثابت ہو۔
امید ہے کہ قارئین کو یہ نیا سلسلہ پسند آئے گاجو نہ صرف جماعت احمدیہ کی تاریخ کا ایک ورق ہو گا بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اعلیٰ اخلاق کی جھلکیاں دکھانے والااور ہماری تربیت کے سامان کرنے والا ہو گا۔ نیز یہ ہماری علمی، ایمانی اورروحانی سیرابی کا باعث ہوگا۔
(جاری ہے)