مستورات سے خطاب (1941ء) (قسط اوّل)
حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جلسہ سالانہ 1941ء کے موقعے پر 27؍ دسمبر کو مستورات سے خطاب فرمایا۔ اس خطاب میں حضورؓ نے سورۂ ابراہیم کی آیت 24تا26 کی تفسیر بیان فرماتے ہوئے دنیوی نہروں، باغات اور زمینوں کا اُخروی نہروں،باغوں اور زمینوں کے ساتھ فرق بیان فرمایا۔ اس کے بعد کلمہ طیبہ پر روشنی ڈالتے ہوئے وضاحت کے ساتھ طیّب کے بعض معانی بیان فرمائے۔ حضورؓ کے اس خطاب پر مشتمل مضمون بعد ازاں الفضل میں شائع ہوا جو قارئین کے استفادے کے لیے پیش خدمت ہے۔ (ادارہ)
تشہد ، تعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور ؓنے حسب ذیل آیاتِ قرآنیہ کی تلاوت کی :
وَ اُدۡخِلَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا بِاِذۡنِ رَبِّہِمۡ ؕ تَحِیَّتُہُمۡ فِیۡہَا سَلٰمٌ۔اَلَمۡ تَرَ کَیۡفَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا کَلِمَۃً طَیِّبَۃً کَشَجَرَۃٍ طَیِّبَۃٍ اَصۡلُہَا ثَابِتٌ وَّ فَرۡعُہَا فِی السَّمَآءِ۔تُؤۡتِیۡۤ اُکُلَہَا کُلَّ حِیۡنٍۭ بِاِذۡنِ رَبِّہَا ؕ وَ یَضۡرِبُ اللّٰہُ الۡاَمۡثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمۡ یَتَذَکَّرُوۡنَ(ابراہیم :24-26)
اس کے بعد فرمایا:
پہلے تو میں اس امر کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں کہ میرے خیال میں عورتوں کے جلسہ میں میری تقریر اب کچھ زائد سی چیز ہو گئی ہے اس لئے کہ پہلے عورتوں کا جلسہ الگ ہوتا تھا اور مردوں کا الگ مگر اب جو تقریریں میری مردوں میں ہوتی ہیں وہ لائوڈسپیکر کے ذریعہ عورتیں بھی سن لیتی ہیں اس لئے عورتوں میں علیحدہ تقریر کی بظاہر کوئی خاص ضرورت نظر نہیں آتی۔ بے شک بعض مسائل ایسے ہوتے ہیں جن کی طرف عورتوں کو متوجہ کرنا ضروری ہوتا ہے مگر اس کے لئے ہر سال علیحدہ تقریر کرنے کی ضرورت نہیں۔ اگر کبھی لجنہ اماءاللہ کو ایسی ضرورت محسوس ہو تو وہ مضمون پیش کر سکتی ہے اور کہہ سکتی ہے کہ فلاں مضمون کے متعلق عورتوں کے سامنے تقریر کر دی جائے اس صورت میں مَیں اس موضوع کے متعلق عورتوں میں تقریر کر سکتا ہوں۔ لیکن موجودہ صورت میں چونکہ مردوں میں میری تقریریں ہوتی ہیں وہ لائوڈسپیکر کے ذریعہ چار سال سے یہاں پہنچ جاتی ہیں اس لئے میرے نزدیک عورتوں کے لئے وہی کافی ہیں سوائے اس کے کہ تم یہ مطالبہ کرو کہ ان چار سالوں سے پہلے مرد دو تقریریں سنتے آرہے ہیں اور ہم ایک۔ اب 21 سال تک ہم میں بھی ایک زائد تقریر ہو تا برابر ہو جائیں۔ مگر میں نے ابھی اس کے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کیا اور نہ اس پر غور کیا ہے۔ اگر خداتعالیٰ نے موقع دیا تو میں مزید غور کروں گا اور پھر جو فیصلہ ہوگا اس کے مطابق عمل کیا جائے گا۔
اس کے بعد مَیں ان آیات کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں جن کی میں نے ابھی تلاوت کی ہے۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے مومن مردوں اور مومن عورتوں کے متعلق بیان فرمایا ہے کہ ان سب کو جنت میں داخل کیا جائے گا ایسی جنت میں جس کے نیچے نہریں چلتی ہوں گی۔ یہاں سرگودھا، گجرات اور لائلپور کی مستورات آئی ہوئی ہوں گی۔ وہ نئی آبادیوں میں رہنے کی وجہ سے جانتی ہیں کہ نہر کیا ہوتی ہے اور نہر کے کیا کام ہوتے ہیں لیکن وہ نہریں جو جنت میں چلیں گی سرگودھا اور گجرات کی نہروں سے مختلف ہوں گی۔ اِن نہروں کی تو باریاں مقرر ہوتی ہیں اور خواہ کسی کا کھیت سوکھے یا جلے پانی باری پر ہی ملتا ہے۔ پھر گورنمنٹ کے بعض ملازم شرارتیں کرتے رہتے ہیں اور بعض دفعہ نہریں کاٹ دیتے ہیں جس سے سارا علاقہ تباہ ہو جاتا ہے۔ اسی طرح زمیندار اگر نہر کاٹ کر پانی لیں تو سال دو سال کے لئے قید کر دیئے جاتے ہیں۔ یہ تو دنیا کی نہروں کا حال ہے لیکن اُن نہروں کے متعلق فرماتا ہے کہ وہ ان باغوں کے ساتھ ہوں گی۔ یعنی وہ جنتیوں کے ہاتھ میں ہوں گی کوئی اور ان کا حاکم اور مالک نہیں ہوگا۔ وہ جس وقت چاہیں گے پانی ان کو مل جائے گا۔ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا اور پھر وہ اس میں بستے چلے جائیں گے۔ وہ لوگ جنہوں نے سرگودہا اور لائلپور بسایا وہ آج کہاں ہیں؟ وہ جنہوں نے درخت لگائے بڑی بڑی مصیبتوں کے بعد زمین کی کاشت کی، ہل چلائے اور تکالیف کا مقابلہ کیا ان میں سے کوئی دو سال زندہ رہا، کوئی چار سال زندہ رہا اور آخر ایک ایک کرکے سب فوت ہو گئے۔ وہ اب یہ نہیں جانتے کہ ہماری زمینیں کہاں گئیں اور ہماری اولاد نے کیا پھل کھایا؟ کئی ایسے ہیں جن کی اولادیں آج شرابیں پی رہی ہیں۔ کئی ایسے ہیں جن کی اولادیں آج جؤا کھیل رہی ہیں کئی ایسے ہیں جن کی اولادیں آج سینما میں اپناوقت ضائع کر رہی ہیں گویا ان کی محنتیں اکارت گئیں۔ مگر فرمایا خٰلِدِیْنَ فِیْھَا جنتیوں کی محنتیں ضائع نہیں ہوں گی بلکہ جس نے جو کچھ بویا وہی کچھ کاٹے گا اور پھر کاٹتا ہی چلا جائے گا۔
پھر ایک اَور فرق دنیا کی نہروں، باغوں اور زمینوں اور اگلے جہان کی زمینوں، باغوں اور نہروں میں یہ ہے کہ یہاں تو کئی لوگوں کے پاس حرام مال ہوتے ہیں۔ چنانچہ مربعوں میں سے اکثر جانگلیوں کے تھے جو گورنمنٹ نے زبردستی چھین لئے اور دوسرے لوگوں کو دے دیئے۔ جن کی زمینیں تھیں وہ بھوکے مر گئے اور دوسرے لوگ عیش و آرام سے رہنے لگے۔
مگر فرمایا بِاِذْنِ رَبِّھَا وہ زمینیں لوگوں کی چھینی ہوئی نہیں ہوں گی بلکہ جائز مال ہوگا جو خدا کی طرف سے ملے گا۔ دنیا میں تو کتنے گھر اس لئے برباد ہو گئے کہ ماں باپ نے محنت سے مال جمع کیا مگر ان کی اولادوں نے لغو باتوں میں اسے ضائع کر دیا۔ مگر وہاں جو کچھ ملے گا خدا کی طرف سے ملے گا اور اس کی برکت قائم رہے گی۔ تَحِیَّتُھُمْ فِیْھَا سَلٰـمٌ ہمارے ملک میں لوگ کہا کرتے ہیں کہ جتنی لڑائیاں ہوتی ہیں وہ زمین، روپیہ یا عورت کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ یہاں بھی چونکہ نہروں اور زمینوں کا ذکر تھا اس لئے قدرتی طور پر سوال پیدا ہوتا تھا کہ کیا جنت میں بھی لڑائیاں ہوں گی؟ اور کیا وہاں جاکر بھی یہی جھگڑا رہے گا کہ ایک جنّتی کہے گا میری پَیلی ہے اوردوسرا کہے گا میری؟ اس لئے فرمایا کہ نہیں ہر آدمی جو جنت میں دوسرے سے ملے گا کہے گا میری طرف سے تم اپنا دل صاف رکھو۔ میری طرف سے تم کو کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی اور دعا کرے گا کہ تم پر خدا کی طرف سے سلامتی نازل ہو۔
پھر فرماتاہے اَلَمۡ تَرَ کَیۡفَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا کَلِمَۃً طَیِّبَۃً کَشَجَرَۃٍ طَیِّبَۃٍ اَصۡلُہَا ثَابِتٌ وَّ فَرۡعُہَا فِی السَّمَآءِ۔تُؤۡتِیۡۤ اُکُلَہَا کُلَّ حِیۡنٍۭ بِاِذۡنِ رَبِّہَا ؕ وَ یَضۡرِبُ اللّٰہُ الۡاَمۡثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمۡ یَتَذَکَّرُوۡن
ان آیات کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے بتایا تھا کہ جنت میں ایمان لانے والے اور اعمال صالحہ کرنے والے جائیں گے۔ اب کہنے کو تو سارے ہی اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں اور جس کو پوچھو وہ کہتا ہے میں خدا کے فضل سے مسلمان ہوں۔ مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے محض زبان سے اپنے آپ کو مومن کہہ لینے سے کوئی شخص مومن نہیں ہوجاتا۔ تمہیں یاد رکھنا چاہئے کہ ایمان بِاللہ اور اعمال صالحہ کی مثال اچھے درخت کی سی ہے جس طرح دنیا میں پھل دار درخت توجہ چاہتے ہیں اور کوئی شجرۂ طیّبہ نہیں پھلتا جب تک کہ اسے پانی نہ ملے اور جب تک اس کی نگرانی نہ کی جائے۔ سوائے جنگلی درختوں کے۔ اسی طرح صرف منہ سے ایمان اور اعمال صالحہ کا دعویٰ کرنا ٹھیک نہیں ہوتا۔ یہ کبھی نہیں ہوتا کہ جنگلی درختوں میں اعلیٰ قسم کے پھل لگے ہوں۔ اعلیٰ قسم کے پھل ہمیشہ اعلیٰ درختوں پر لگتے ہیں اور اعلیٰ درخت انسانی کوشش سے پھل لاتے ہیں۔ پس ایمان اور اعمال صالحہ کی مثال شجرۂ طیّبہ یعنی اعلیٰ قسم کے درختوں کی سی ہے جنگلی درختوں کی نہیں۔ اور یہ شجرۂ طیّبہ اعمال کے پانی کے بغیر پھل نہیں دیتا۔ جس طرح درخت بونے کے بعد اگر اسے پانی نہ دیا جائے تو وہ خراب ہو جاتا ہے لیکن اگر اسے پانی ملتا رہے تو وہ عمدہ پھل دیتا ہے اور اس کی عمر بھی لمبی ہوتی ہے۔ اسی طرح خالی ایمان پر خوش نہ ہو جائو بلکہ سمجھ لو کہ شجرۂ طیّبہ پانی چاہتا ہے جب تک اسے اعمالِ صالحہ کا پانی نہ ملے گا وہ شجرۂ طیّبہ نہ بن سکے گا۔
پس صرف کلمہ پڑھ کر تمہیں خوش نہیں ہو جانا چاہئے۔ جب تک تم لَا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ کے درخت کو اعمالِ صالحہ کا پانی نہ دوگی تمہارا درخت پھل نہیں لائے گا بلکہ خشک ہو جائے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ جس طرح درخت کئی قسم کے ہوتے ہیں اسی طرح لَا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ بھی کئی قسم کے ہوتے ہیں۔ کوئی اچھے ہوتے ہیں اور کوئی سڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ قرآن شریف میں سڑے ہوئے کلمہ کی مثال اس طرح دی گئی ہے کہ
اِذَا جَآءَکَ الۡمُنٰفِقُوۡنَ قَالُوۡا نَشۡہَدُ اِنَّکَ لَرَسُوۡلُ اللّٰہِ ۘ وَ اللّٰہُ یَعۡلَمُ اِنَّکَ لَرَسُوۡلُہٗ ؕ وَ اللّٰہُ یَشۡہَدُ اِنَّ الۡمُنٰفِقِیۡنَ لَکٰذِبُوۡنَ(المنافقون:2)
یعنی اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! تیرے پاس منافق آتے ہیں اور کہتے ہیں نَشْھَدُ اِنَّکَ لَرَسُوْلُ اللّٰہِکہ یقینی اور قطعی بات ہے کہ خدا موجود ہے اورتو اس کا رسول ہے مگر اس پر بجائے اس کے کہ خدا خوش ہو کہ آخر انہوں نے صداقت کا اقرار کر لیا، فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ تُو اللہ کا رسول ہے۔ وہ کہتے ہیں ہم بھی گواہی دیتے ہیں کہ تُو اللہ کا رسول ہے۔ اب اگر اللہ تعالیٰ کہے اور وہ نہ کہیں تو جھوٹ ہو۔ مگر جب انہوں نے بھی کہہ دیا اور اللہ تعالیٰ نے بھی گواہی دےدی کہ تو ہمارا رسول ہے تو پھر کہنا تو یہ چاہئے تھا کہ وہ بڑے سچے ہیں کہ انہوں نے وہ بات کہی جو خدا نے کہی۔ مگر فرماتا ہے یہ منافق بڑے جھوٹے ہیں۔ باوجود اس کے کہ تو اللہ کا رسول ہے اور باوجود اس کے کہ انہوں نے کہا کہ تو اس کا رسول ہے پھر بھی وہ جھوٹے ہیں اور ان کا کلمہ، کلمہ طیّبہ نہیں بلکہ کلمہ خبیثہ ہے۔ کیونکہ وہ دل سے نہیں کہہ رہے بلکہ منافقت سے کہہ رہے ہیں۔
پھر بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جو گو سچے دل سے ایمان لاتے ہیں مگر ان کا ایمان ناقص ہوتا ہے۔ ان کی مثال ایسی ہی ہوتی ہے جیسے کوئی شخص آم تو بوئے مگر اُسے پانی نہ دے اور نہ اس کی نگرانی کرے نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ ہوگا تو آم ہی مگر پھل ناقص دے گا، کھٹّا دے گا اور تھوڑا دے گا۔ ایسے درخت کے آموں کو گدھے بھی سونگھ کر پھینک دیتے ہیں اور جب بازار میں جاتے ہیں تو ردّی کی ٹوکری میں پڑے رہتے ہیں اور کوئی ان کو نہیں خریدتا۔ اس کے مقابلہ میں اعلیٰ قسم کےآموں کو کاغذ کا لباس پہنایا جاتا ہے اور اوپر لکھا جاتاہے کہ فلاں قسم کا آم۔ اور رئیسوں کے آرڈر پر آرڈر آتے ہیں اور بڑے بڑے امیر ان کو خریدتے ہیں۔ مگر ناقص آم میلی اور گندی ٹوکری میں پڑے ہوتے ہیں اور پیسے پیسے وٹّی پیسے پیسے وٹّی(وٹّی : دو سیر کا باٹ)کہہ کر دُکاندار آواز دے رہا ہوتا ہے اور پھر بھی انہیں کوئی نہیں خریدتا۔ پھر ایک آم ایسا ہوتا ہے کہ پاس سے گزرنے پر سر سے لے کر پیر تک اس کی خوشبو برقی رَو کی طرح اثر کر جاتی ہے۔ اور ایک آم ایسا ہوتا ہے کہ اسے دیکھنے تک کو جی نہیں چاہتا۔ یہی حال دوسرے پھلوں کا ہے۔ ایک وقت خربوزے روپے روپے وٹّی تک بکتے ہیں اور دوسرے وقت ان میں کیڑے پڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ تو فرمایا تم ہمیشہ کلمہ کلمہ پکارتے ہو تمہیں سوچنا چاہئے کہ کیا کلمہ پڑھتے ہو؟ کلمہ طیّبہ تو ابوبکرؓ بھی پڑھتا تھا، عمرؓ بھی پڑھتا تھا، عثمانؓ بھی پڑھتا تھا، علیؓ بھی پڑھتا تھا۔ اگر تم کہو کہ تم بھی وہی کلمہ پڑھتے ہو جو ابوبکرؓ اور عمرؓ پڑھتے تھے تو یہ درست نہیں کیونکہ ان کا کلمہ کلمہ طیّبہ تھا۔ اور طیّبہ کے معنے عربی زبان میں خوش شکل، خوشبودار، لذیذ اور شیریں کے ہیں۔ طیّبہ کے اَور بھی معنے ہیں لیکن یہ چاروں معنے خاص طور پر طیّب میں پائے جاتے ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ جو چیز خوش شکل ہو خوشبودار بھی ہو۔ انسانوں میں کئی ایسے ہوتے ہیں جن کی شکل اچھی ہوتی ہے مگر انہیںبغل گند ہوتا ہے اور کئی لوگوں سے بدبُو تو نہیں آتی مگر شکل دیکھ کر کراہت آتی ہے، پھر کئی ایسے ہوتے ہیں کہ ان کو کوئی بیماری تو نہیں ہوتی مگر وہ جاہل اور اُجڈ ہوتے ہیں اور بعض ایسے ہوتے ہیں جو خوبصورت بھی ہوتے ہیں، خوشبو بھی اُن میں سے آتی ہے، عالم بھی ہوتے ہیں مگر شیریں نہیں ہوتے یعنی اُن کی باتوں میں مزہ نہیں آتا۔ پس طیّب وہ ہے جس میں یہ چاروں باتیں پائی جائیں یعنی خوش شکل بھی ہو، خوشبودار بھی ہو، خوش ذائقہ بھی ہو، اورشیریں بھی ہو۔
(جاری ہے)