احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
1860ء تا 1867ء
سیالکوٹ کا زمانہ
…… …… …… …… …… …… …… …… …… …… …… …… ……
عبادت وتلاوت قرآن کریم
اگردیکھاجائےتو سیالکوٹ میں آپؑ کی اصل مصروفیت اور شغل اپنے خالق رب العالمین کی عبادت ہی تھی اور اس عبادت میں شامل ایک اہم کام جو تھا وہ اس شعرکا عملی اظہار تھا کہ ؎
دل میں یہی ہے ہردم تیراصحیفہ چوموں
قرآں کے گردگھوموں کعبہ مرایہی ہے
’’آپؑ جب کچہری سے واپس تشریف لاتے تھےتودروازہ میں داخل ہونے کےبعد دروازہ کو پیچھے مڑکربندنہیں کرتے تھے تاکہ گلی میں اچانک کسی نامحرم عورت پر نظرنہ پڑے بلکہ دروازہ میں داخل ہوتے ہی دونوں ہاتھ پیچھے کرکے پہلے دروازہ بند کرلیتے تھے اور پھرپیچھے مڑکر زنجیرلگایاکرتے تھے۔‘‘
(حیات طیبہ ازشیخ عبدالقادرسابق سوداگرمل، ص20)
اور گھرمیں داخل ہونے کے بعدکسی سے بھی نہ ملتے۔ معلوم ہوتاہے کہ بعض متجسس نگاہوں کو خیال آیاہواہوگا کہ یہ کیاماجراہے۔ اور اس میں بھی حکمت الٰہی تھی کہ تاآج ہمیں اپنے پیارے آقا کی سوانح کی ان پوشیدہ گھڑیوں کے روشن لمحات پر اطلاع ہوسکے جواگرایسے متجسسانہ طبع لوگوں کی کوشش نہ ہوتی تو شایدہمیشہ ہم سے پوشیدہ ہی رہتے۔
سیالکوٹ کی ان گھڑیوں اور’’سراغرسانی‘‘کی مہم کا ذکر کرتے ہوئے حضرت عرفانی صاحبؓ بیان فرماتے ہیں:
’’حضرت مسیح موعودؑ کی ہمیشہ سے عادت تھی کہ جب وہ اپنے کمرے یا حجرے میں بیٹھتے۔ تو دروازہ بند کر لیا کرتے تھے۔ یہی طرز عمل آپؑ کا سیالکوٹ میں تھا لوگوں سے ملتے نہیں تھے۔ جب کچہری سے فارغ ہو کر آتے تو دروازہ بند کر کے اپنے شغل اور ذکر الٰہی میں مصروف ہو جاتے۔ عام طور پر انسان کی عادت متجسس واقع ہوئی ہے۔ بعض لوگوں کو یہ ٹوہ لگی۔ کہ یہ دروازہ بند کر کے کیا کرتے رہتے ہیں۔ ایک دن ان ٹوہ لگانے والوں کو حضرت مسیح موعودؑ کی اس مخفی کارروائی کا سراغ مل گیا۔ اور وہ یہ تھا کہ آپ مصلّیٰ پر بیٹھے ہوئے قرآن مجید ہاتھ میں لئے دعا کر رہے ہیں کہ
’’یا الله تیرا کلام ہے۔ مجھے توتُو ہی سمجھائے گا تو میں سمجھ سکتا ہوں۔‘‘
(حیاتِ احمدؑ، ازعرفانی صاحبؓ، جلداول ص175)
جس گھرمیں آپؑ نے رہائش رکھی ان مکینوں کی اپنی چشمدید روایت ملاحظہ ہو۔ [یہ روایت مکمل گذشتہ اقساط میں درج ہوچکی ہے اس کا یہ اقتباس دوبارہ ہم پڑھتے ہیں جس میں راویہ بتلاتی ہیں :]
’’مرزا صاحب کا زیادہ تر ہمارے والد صاحب کے ساتھ ہی اُٹھنا بیٹھنا تھا۔ ان کا کھانا بھی ہمارے ہاں ہی پکتا تھا۔ میرے والد ہی مرزا صاحب کو کھانا پہنچایا کرتے تھے۔ مرزا صاحب اندر جاتے اور دروازہ بند کر لیتے اور اندر صحن میں جا کر قرآن پڑھتے رہتے تھے۔ میرے والد صاحب بتلایا کرتے تھے کہ مرزا صاحب قرآن مجید پڑھتے پڑھتے بعض وقت سجدہ میں گر جاتے ہیں اور لمبے لمبے سجدے کرتے ہیں۔ اور یہاں تک روتے ہیں کہ زمین تر ہو جاتی ہے۔‘‘
(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 625)
اسی طرح ایک اَور روایت مؤرخ احمدیت مولانا دوست محمدشاہدصاحب نے تاریخ احمدیت میں درج کی ہے۔ آپ لکھتے ہیں :
’’اسی طرح میاں بوٹاصاحب کشمیری کی شہادت ہے کہ جب حضرت مرزاصاحب ہمارے مکان میں رہتے تھے تومکان کے صحن میں ٹہلتے رہتے اورقرآن شریف پڑھتے رہتے تھے۔‘‘
(تاریخ احمدیت جلداول ص 85، الفضل 8 اکتوبر1925ء ص6/جلد13نمبر41)
خدمت خلق اور درس وتدریس غرباء اور حاجت مندوں کی مدد
سیالکوٹ میں قیام کے دوران بھی آپ نے خدمت خلق کے پہلوکو نظراندازنہیں فرمایا۔ قادیان کی طرح یہاں بھی یہی معمول رہا کہ جس طرح بھی ممکن ہوسکے غرباء اور حاجت مندوں کا خیال رکھاجائے۔ اس زمانے کے چشمدید راویوں نے جو آپؑ کے معمولات کے گواہ تھے ان میں سے محترمہ مائی حیات بی بی صاحبہ اوران کے والد بزرگوارہیں جو آپؑ کاکھانا لے کرجاتے اور گھرکے روزمرہ کے کام بھی کرتے تھے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ
“جو تنخواہ مرزا صاحب لاتے۔ محلہ کی بیوگان اور محتاجوں کو تقسیم کر دیتے۔ کپڑے بنوا دیتے یا نقد دے دیتے تھے۔ اور صرف کھانے کا خرچ رکھ لیتے۔”
آپؑ کے والدبزرگوار بھی آپؑ کو قادیان سے رقم بھیجاکرتے تھے جو کہ آپؑ اسی مصرف میں لے آتے۔
آپؑ کی انگریزی میں لکھی جانے والی سوانحی کتاب Life of Ahmad کے مصنف لکھتے ہیں :
“WHILE Ahmad was at Sialkot, he used to entertain the poor and look after them and, as a result of this, whatever he earned did not meet all his expenses. His father used, therefore, to send him regular extra amounts.”
(Life of Ahmad by A.R.Dard page : 42)
آپؑ کی والدہ ماجدہؒ کو آپؑ سے بہت ہی زیادہ محبت تھی۔ وہ قادیان سے اپنے اس جگرگوشے کے لئے ضرورت کی اشیاء اور لباس وغیرہ تیارکرواکے بھیجاکرتی تھیں۔ ایک بار قادیان سے چار جوڑے کپڑوں کے تیارکرواکے سیالکوٹ بھیجے جو کہ حیات حجام لے کر گیا۔ آپؑ کی طبیعت میں خدمت خلق اور فیاضی کا جو دریاموجزن تھا اس کا اظہاریوں ہوتاہے کہ آپؑ نےکپڑوں کاایک جوڑا اس حیات نامی حجام کو دے دیا۔
پرانا مستعمل جوڑانہیں، ان نئے جوڑوں میں سے جو آپؑ کی والدہ ماجدہ نے نہایت اہتمام کے ساتھ اعلیٰ درجہ کے تیارکرواکے اسی حجام کے ہاتھ بھیجے تھے۔
(ماخوذازحیات احمدؑ جلداول ص272، 273)
درس وتدریس اورعلاج معالجہ
درس وتدریس کی بابت ایک روایت سلسلہ کے لٹریچرمیں محفوظ ہے جس کے مطابق لالہ بھیم سین صاحب اور ایک اَورشخص مرزانظام الدین صاحب کوقرآن کریم پڑھاتے رہے۔ چنانچہ روایت ہے کہ
“مرزاغلام اللہ صاحب انصار ساکن قادیان فرماتے ہیں میرے بھائی مرزانظام الدین صاحب نے ذکرکیاکہ جن دنوں حضرت صاحبؑ سیالکوٹ میں نوکرتھے میں بھی آپ کے ساتھ تھا۔ مجھے حضرت صاحبؑ پڑھایابھی کرتے تھے۔ آپؑ وہاں بھیم سین وکیل کوجوہندوتھاقرآن شریف پڑھایاکرتے تھے اوراس نے تقریباً 14 پارہ تک قرآن حضرت صاحبؑ سے پڑھاتھا۔ ایک دن حضرت صاحبؑ نے صبح اٹھ کربھیم سین کومخاطب کرکے یہ خواب سنایا کہ آج رات میں نے رسول اکرمﷺ کوخواب میں دیکھا۔ آپؐ مجھ کوبارگاہ ِایزدی میں لے گئے اوروہاں سے مجھے ایک چیزملی جس کے متعلق ارشادہواکہ یہ سارے جہان کوتقسیم کردو۔”
(تذکرہ ص 694، ایڈیشن چہارم2004ء بحوالہ سیرت احمدؑ مصنفہ مولوی قدرت اللہ سنوری صاحبؓ ص 182.- 183)
علم طب جو خاندانی ورثہ کے طورپر آپ کے حصہ میں بھی آئی آپؑ کو اس میں کافی درک تھا۔ اس کے ذریعہ بھی خدمت خلق کا کام جاری تھا۔ سیالکوٹ میں قیام کے دوران جب آپؑ کی رہائش اس بیٹھک میں تھی کہ جس کے ساتھ حضرت حکیم حسام الدین صاحبؓکا مطب تھا۔ تو ان کی درخواست پر آپؑ نے انہیں طب کی مشہورکتابیں قانونچہ اور موجزکا کچھ حصہ بھی پڑھایا۔ چنانچہ سیدمیرحسن صاحب جن کی تفصیلی روایت مضمون کے آخر پر درج ہے اس میں وہ بیان فرماتے ہیں :
“چونکہ جس بیٹھک میں مرزا صاحب مع حکیم منصب علی کے جو اس زمانہ میں وثیقہ نویس تھے رہتے تھے اور وہ سربازار تھی اور اس دکان کے بہت قریب تھی جس میں حکیم حسام الدین صاحب مرحوم سامان دوا سازی اور دوا فروشی اور مطب رکھتے تھے اس سبب سے حکیم صاحب اور مرزا صاحب میں تعارف ہو گیا۔ چنانچہ حکیم صاحب نے مرزا صاحب سے قانونچہ اور موجز کا بھی کچھ حصہ پڑھا۔‘‘
(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 150)
علم طب کی درس وتدریس کے علاوہ علاج کے ذریعہ بھی بنی نوع کو فائدہ پہنچاتے۔ دوا دارو بھی کرتے اور دعابھی۔ چنانچہ میاں بوٹاکشمیری جن کے گھرمیں حضورؑ کی رہائش تھی بیان کرتے ہیں کہ
“میں تو ان کو ولی اللہ جانتاہوں۔ ایک دفعہ میرے والدصاحب بیمار ہوگئے تمام ڈاکٹر اورحکیم جواب دے چکے کہ اب یہ نہیں بچے گا اورعلاج کرنا فضول ہے لیکن ہم نے حضرت مرزاصاحب کو بلایا آپ نے دعا فرمائی اور کچھ علاج بھی بتایا۔ اللہ تعالیٰ نے آپؑ کی دعا سے میرے والدصاحب کوشفا دی اور بہت سی ان کی دعائیں ہمارے حق میں قبول ہوئیں۔”
(تاریخ احمدیت جلداول ص85-86، الفضل 8؍اکتوبر 1925ء ص6/جلد13نمبر41)
(باقی آئندہ)