عربی زبان میں خدا داد فصاحت و بلاغت کا عظیم الشان نشان (قسط اوّل)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام كا فصیح وبلیغ عربی زبان سیكھنے كا دعویٰ اس كے دلائل اور ممكنہ اعتراضات كا علمی ردّ
تمہید
خدا تعالیٰ كی سنت ہے كہ وه اپنے انبیاء كو حق كے ساتھ بھیجتا ہے اورپھر روحانی علوم اورحقائق ومعارف كے علاوه نشانات اور معجزات كے ذریعہ ان كی تائید فرماتا ہے۔ چنانچہ اس زمانے میں خدا تعالیٰ نے جب قرآن كریم میں مذكور پیشگوئیوں اور اپنے پیارے نبی كریم صلی اللہ علیہ وسلم كی دی ہوئی خبروں كے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام كو مبعوث فرمایا تو جہاں آپ كی بے شمار نشانات وروحانی معارف سے تائید فرمائی وہاں آپ پر ربّانی علوم كے دروازے بھی كھولے۔ ان آسمانی علوم میں سے ایك كے بارے میں آپ علیہ السلام نے اپنی كتب میں تفصیلی اعلان فرمایا كہ عربی زبان ام الالسنہ یعنی تمام زبانوں كی ماں ہے اور یہی وه پہلی زبان ہے جو الله تعالیٰ نے الہامی طور پر سكھائی اور باقی تمام زبانیں اسی سے نكلی ہیں۔ آپ علیہ السلام نے اس كے بارے میں متعدد دلائل دیتے ہوئے فرمایا كہ الله تعالیٰ نے تمام نبیوں كے سردار اور خاتم النبیینﷺ كو ام القریٰ میں مبعوث فرمایا اور اس كے ساتھ ام الالسنہ میں كلام فرمایا اور اسے ام الكتاب یعنی قرآن كریم عطا فرمائی جسے ہمیشہ كے لیے تمام دنیا كے واسطے ہدایت كا ذریعہ قرار دیا۔ اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے منن الرحمٰن كے نام سے ایك عظیم الشان كتاب بھی تالیف فرمائی۔ آپ نے اس كتاب میں ایك جگہ فرمایا:
’’وَتَفْصيلُ ذٰلِكَ أَنَّهُ صَرفَ قَلْبِي إِلَى تَحْقيقِ الأَلْسِنَةِ، وَأَعَانَ نَظَري فِي تَنْقيدِ اللُّغَاتِ المُتَفَرِّقَةِ، وَعَلَّمَنِي أَنَّ العَرَبيَّةَ أُمّها، وَجامِع كَيْفِها وَكمِّها، وَأَنَّهَا لِسانٌ أصليٌّ لِنَوْعِ الإِنْسانِ، وَلُغَةٌ إِلْهاميَّةٌ مِنْ حَضْرَةِ الرَّحْمٰنِ، وَتَتِمَّة لِخِلْقَةِ البَشَرِ مِنْ أَحْسَنِ اَلْخالِقينَ.‘‘
(مِنَنُ الرحمٰن، روحانی خزائن جلد9صفحہ166)
’’اور اس مجمل کی تفصیل یہ ہے کہ اس (الله تعالیٰ) نے زبانوں كی تحقیق کی طرف میرے دل کو پھیر دیا، اور میری نظر كی متفرق زبانوں كے پركھنے كے لئے مدد کی۔ اور مجھ كو سكھلایا کہ عربی تمام زبانوں کی ماں ہے اور ان كی كیفیت كمیت كی جامع ہے اور وه نوع انسان كے لئے ایك اصلی زبان اور الله تعالیٰ كی طرف سے ایك الہامی لغت ہے اور انسانی پیدائش كا تتمہ ہے جو احسن الخالقین نے ظاہر كیا ہے۔ ‘‘(ترجمہ از منن الرحمن)
یہی نہیں بلكہ آپ نے دیگر نشانات ومعجزات كے علاوه یہ بھی ذكر فرمایا كہ خدا تعالیٰ كی خاص منت وعطا سے آپ كو اعلیٰ درجہ كی فصیح وبلیغ عربی زبان سیكھنے كا معجزه عطا ہوا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے اس دعویٰ كے اعلان كے بعد اس كے ثبوت كے طور پر عربی زبان میں 22كتب تحریر فرمائیں جو تا قیامت اس معجزے كی حقانیت اور آپ کی صداقت كے زنده ثبوت كے طور پر محفوظ رہیں گی۔ ان عربی كتب میں ایك كتاب كانام خطبہ الہامیہ ہے جس میں اعلیٰ درجہ كی فصیح وبلیغ اور مسجع ومقفیٰ عربی عبارات سے معمور اور اعلیٰ روحانی نكات اور معارف ودقائق پر مشتمل ایك خطبہ بھی ہے جو آپ نے خدا تعالیٰ كے الہام سے عید الاضحی كے موقع پر فی البدیہہ ارشاد فرمایا جسے صحابہؓ كی ایك بڑی تعداد نے دیكھا اور سنا اور اس عظیم الشان نشان كے گواه بن گئے۔
ان عربی کتب کے کل صفحات 2200سے زائد ہیں اوران ميں موجود عربی قصائد كے کل اشعار كی تعداد 3500سے زائد ہے۔
لیكن جیسا كہ انبیاء كے مخالفین كا شیوه ہے كہ وه یا توانبیاء كے نشانات ومعجزات كو مشكوك بنانے كے درپے ہو جاتے ہیں یا پھر ان كا سرے سے ہی انكار كردیتے ہیں۔ یہی سلوك انہوں نے سیّد الكونین خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم سے كیا۔ باوجود اس كے كہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا میں آنے والے ہر نبی سے زیاده نشانات دكھائے پھر بھی مخالفین نےآپ كو بار بار یہی كہا كہ
لَوْلَا نُزِّلَ عَلَيْهِ آيَةٌ مِّنْ رَبِّهٖ(الانعام :38)، لَوْلَٓا أُنْزِلَ عَلَيْهِ آيَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ (الرعد :28)، لَوْلَا يَأْتِينَا بِآيَةٍ مِّنْ رَّبِّهٖ(طه :134)۔
یعنی یہ كوئی نشان كیوں نہیں لے كر آتا؟ اور اس پر اس كے ربّ كی طرف سے كوئی نشان كیوں نہیں نازل كیا جاتا؟ یہ اپنے خدا كی طرف سے كوئی نشان تو لا كے دكھائے، پھر ایمان لانے كا سوچیں گے۔ لیكن حقیقت یہی تھی اور آج تك یہی ہے جس كا ذكر الله تعالیٰ نے یوں فرمایا كہ
وَ مَا تَاۡتِیۡہِمۡ مِّنۡ اٰیَۃٍ مِّنۡ اٰیٰتِ رَبِّہِمۡ اِلَّا کَانُوۡا عَنۡہَا مُعۡرِضِیۡنَ (الانعام :5)
یعنی نشانات تو آتے ہیں لیكن منكرین كا وتیره یہی ہے كہ جب بھی خدا تعالیٰ كی طرف سے كوئی نشان دكھایا جاتا ہے تو یہ اس سے منہ پھیر كر فورًا انكار كردیتے ہیں۔
بالكل ایسے ہی مخالفین نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام كے اس مذكوره بالا عظیم نشان اور معجزه كو بھی ماننے سے انكار كردیا اور اس كے بارے میں شكوك وشبہات پیدا كرنے كی كوشش كی۔ چنانچہ كبھی كہا كہ اس كو تو عام عربی زبان بھی نہیں آتی كجا یہ كہ اعلیٰ درجہ كی زبان كا دعویٰ كیا جائے۔ كبھی حضور علیہ السلام كی عربی تحریرات میں سے اپنی دانست میں صرف ونحو كی غلطیاں نكال كر تمسخر كا نشانہ بنایا۔ اور جہاں حضور علیہ السلام كی عربی سے مرعوب ہوئے بغیر كوئی چاره نہ رہا،وہاں آپ علیہ السلام كی تحریر فرموده مسجع ومقفیٰ عبارات كو مختلف پرانی عربى كتب سے سرقہ كرنے كا الزام لگا دیا۔
چونكہ عربی زبان كے معجزے كے بار ے میں ان الزامات اور اعتراضات كا یہ سلسلہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام كے زمانے سے ہی شروع ہو گیا تھا اس لیے آپ نےجہاں مخالفین كو بالمقابل عربی زبان میں لكھنے كا چیلنج دیا وہاں خود اپنی كتب میں مخالفین كے اعتراضات كے جواب بھی دیے۔ لیكن مخالفین وقفہ وقفہ سے وہی اعتراضات دوباره دہراتے رہتے ہیں اور افراد جماعت كی طرف سے مختلف اوقات میں ان تمام اعتراضات كے جوابات دیے جاتے رہے ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔
مخالفین كے اعتراضات پر یكجائی نظر ڈالنے سے دو باتیں بڑی شدت كے ساتھ ابھر كر سامنے آتی ہیں :
1۔ مخالفین كے اكثر اعتراضات حضور علیہ السلام كے اس دعویٰ كو نہ سمجھنے اور اس كی حقیقت نہ جاننے كا نتیجہ ہیں۔ چنانچہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام كے عربی زبان كے خدا داد علم كے بارے میں دعویٰ كو آپ كی مختلف كتب سے اكٹھا كر كے ایك جگہ مفصل طور پر درج كر دیا جائے تو اس كو ایك دفعہ پڑھنے سے ہی بہت سے اعتراضات ختم ہو جائیں گے۔
2۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے زمانے میں اس دعویٰ پر اعتراض كرنے والوں كو جو جوابات دیے ہیں ان كا گہرائی سے مطالعہ كرنے كی ضرورت ہے كیونكہ آپ نے محض ایك ایك جملہ میں یا چند الفاظ میں اپنے اس دعویٰ كی مختلف جزئیات اور اس پر ہونے والے تمام اعتراضات كی كنہ، اور ان اعتراضات كے ردّ كے طریق كو بھی بیان فرما دیا ہے۔
چنانچہ اگر حضور علیہ السلام كے ان جوابات كو كسی قدر وضاحت كے ساتھ ایك جگہ درج كر دیا جائے تو جہاں باقی مانده اعتراضات كا بھی خاتمہ ہو جائے گا وہاں حضور علیہ السلام كے دعویٰ كی شوكت، عظمت اور شان بھی نمایاں ہو کر سامنے آجائے گی۔
یہ بھی شاید خدا تعالیٰ كا قانون ہے كہ جس چیز كو ابھار كر پیش كرنا مقصود ہو تا ہے اس كے پیچھے معترضین كو لگا دیتا ہے اور وه بار بار اعتراض كر كے اہل ایمان كو اس بارے میں سوچنےاور تحقیق كرنے پر مجبور كردیتے ہیں نتیجةً ان كے اس اعتراض كے مقام پر چھپے ہوئے بے شمار خزانے باہر آجاتے ہیں۔
عجیب بات یہ ہے كہ مخالفین كے اعتراضات كے نتیجے میں حضور علیہ السلام كے اس دعویٰ سے متعلق جس نقطے كے بارے میں بھی عرب وغیر عرب علمائے جماعت نے تحقیق كی اور پھر دسیوں كتب كھنگال كرجس نتیجے پر پہنچے اسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تقریباً سواسو سال پہلے محض ایك ایك دو دو جملوں میں ہی بیان فرما دیا تھا لیكن اعتراضات كے رد كی غرض سےاس بارے میں تحقیق سے قبل ہم ان مختصر جملوں كی تفصیل اور حقیقت کے ادراک سے قاصر تھے۔
یہ مضمون حضور علیہ السلام كے عربی دانی كے بارے میں دعویٰ اوردلائل اور اعتراضات كے جوابات وغیره كے تذكره كو یكجائی صورت میں پیش كرنے كی ایك كوشش ہے۔ واللّٰه ولیّ التوفیق۔
عربی زبان میں كمال حاصل كرنے كے بارے میں حضور علیہ السلام كا دعویٰ
آئیےہم حضور علیہ السلام كے اپنے اقوال سے آپ كے اس دعویٰ كو سمجھنے كی كوشش كرتے ہیں۔
ایك مقام پر اجمالی رنگ میں آپ علیہ السلام نے فرمایا:
’’إنَّ كَمَالِيْ فِيْ اللِّسَانِ الْعَرَبِيّ، مَعَ قِلَّةِ جُهْدِيْ وَقُصُورِ طَلَبِيْ، آيَةٌ وَاضِحَةٌ مِنْ رَبِّيْ، لِيُظهِرَ عَلَى النَّاسِ عِلْمِيْ وَأَدَبِيْ، فَهَلْ مِنْ مُعَارِضٍ فِيْ جُمُوعِ المُخَالِفِيْن؟‘‘
(مكتوب احمد، روحانی خزائن جلد 11 صفحہ234)
یعنی عربی زبان میں قلت جہد اور معمولی جستجو كے باوجود میر ا كما ل حاصل كرنا میرے رب كی طرف سے واضح نشان ہے،تا كہ وه لوگوں پر میرا علم اورادب ظاہر فرمائے۔ پس مخالفین كے گروه میں كوئی ہے جو اس امر میں میرا مقابلہ كرسكے؟
اس دعویٰ كی تفصیل حضورعلیہ السلام نے مختلف مقامات پر مختلف الفاظ میں بیان فرمائی۔
٭…ایك جگہ فرمایا:
’’وأُعْطِيتُ بَسْطَةً كَامِلَةً فِيْ الْعُلُومِ الأَدَبِيَّةِ.‘‘
(مكتوب احمد، روحانی خزائن جلد 11 صفحہ234)
مجھےعربی زبان كے علوم ادبیہ میں كامل وسعت عطا كی گئی ہے۔
٭…ایك اورمقام پر فرمایا:
’’وَقَدْ فُقْتُ فِي النَّظْمِ وَالنَّثْرِ‘‘
(مكتوب احمد، روحانی خزائن جلد 11 صفحہ235)
میں نظم ونثر میں سب پر فوقیت ركھتا ہوں۔
٭…ایك مقام پر فرمایا:
’’وَمِنْ آيَاتِي أَنّه تَعَالَى وَهَبَ لِي مَلَكةً خَارِقَةً لِلْعَادَةِ فِي اللِّسَانِ الْعَرَبِيّةِ.‘‘
(نجم الهدىٰ، روحانی خزائن جلد14صفحہ 107)
میرے نشانات میں سے ایك نشان یہ بھی ہے كہ الله تعالیٰ نے مجھے لسان عربی میں خارق عادت ملكہ عطا فرمایا ہے۔
٭…ایك اور مقام پر فرمایا:
’’وَمِنْ آيَاتِهِ أَنَّهُ عَلَّمَنِي لِسانًا عَرَبيَّةً، وَأَعْطَانِي نِكاتًا أَدَبِيَّةً، وَفَضَّلَنِي عَلَى العالَمِيْنَ المُعَاصِرِيْنَ.‘‘
(مكتوب احمد، روحانی خزائن جلد 11 صفحہ247)
اس (خدا) كے نشانات میں سے ایك نشان یہ ہے كہ اس نے مجھے لسان عربی سكھائی ہے اور مجھے ادبی نكات عطا فرمائے ہیں اور مجھے میرے ہم عصر تمام علماء پر فضیلت دی ہے۔
٭…ایك اور مقام پر فرمایا:
’’سَأَلْتُ اللّٰهَ أَنْ یُكَمِّلَنِي فِي هَذِهِ اللَّهْجَةِ، وَيَجْعَلَنِيْ وَاحِدَ الدَّهْرِ فِي مَناهِجِ البَلاغَةِ. وَأَلْحَحْتُ عَلَيْهِ بِالْاِبْتِهَالِ وَالْضَّراعَةِ، وَكَثُرَ اِطِّراحِي بَيْنَ يَدَيْ حَضْرَةِ العِزَّةِ، وَتَوَالَى سُؤَالِي بِجُهْدِ العَزيمَةِ وَصِدْقِ الهِمَّةِ وَإِخْلاصِ الْمُهْجَةِ. فَأُجيبَ الدُّعاءُ وَأوتِيْتُ مَا كُنْتُ أَشَاءُ.‘‘
(نجم الهدىٰ، روحانی خزائن جلد 14صفحہ 108)
میں نے الله تعالیٰ سے دعا كی كہ وه مجھےاس عربی زبان كے لہجے میں مكمل فرمائے اورمجھے بلاغت كے راستوں كا یكتائے روزگار بنا دے………پس میری دعاقبول ہوئی اورمجھے میری من پسند مراد مل گئی۔
٭…ایك اور مقام پر فرمایا:
’’وَعَلَّمَنِيْ رَبِّيْ مِنْ لَّدُنْهُ بِالْفَضْلِ والرَّحْمَةِ، فَأَصْبَحْتُ أَدِيبًا وَمِن الْمُتَفَرِّدِيْنَ.‘‘
(نجم الهدىٰ، روحانی خزائن جلد14صفحہ111)
مجھے میرے ربّ نے اپنی جناب سے اپنے فضل اور رحمت سے علم سكھایاچنانچہ میں ادیب اور یكتائے روزگار لوگوں میں سے ہو گیا۔
٭…ایك اورمقام پر فرمایا:
’’جَعَلَنِي أَفْصَحَ المُتَكَلِّمِينَ.‘‘
(مكتوب احمد،روحانی خزائن جلد11صفحہ34تا35)
الله تعالیٰ نے مجھے افصح المتكلمین بنایا ہے۔
٭…ایك اور مقام پر اپنی عربی زبان كے بارے میں فرمایا:
’’وَوَاللّٰهِ إِنَّهُ ظِلُّ فَصَاحَةِ الْقُرْآنِ، لِيَكُوْنَ آيَةً لِقَوْمٍ يَتَدَبَّرُوْنَ.‘‘
(الاستفتاء،روحانی خزائن جلد22صفحہ629-630)
خدا كی قسم یہ (میری عربی تحریر) قرآن كریم كی فصاحت كا ظل ہے تا كہ تدبر كرنے والی قوم كے لیے نشان ثابت ہو۔
ایك اورمقام پر فرمایا:
’’ہمارا تو یہ دعویٰ ہے کہ معجزہ کے طور پر خدا تعالیٰ کی تائید سے اس انشاء پردازی کی ہمیں طاقت ملی ہے۔ ‘‘
(نزول المسیح،روحانی خزائن جلد 18صفحہ437)
دعویٰ كا خلاصہ
مندرجہ بالا تحریرات حضور علیہ السلام كی كتب نجم الہدیٰ، مكتوب احمد، الاستفتاء اور نزول المسیح سے لی گئی ہیں۔ ان كا خلاصہ مندرجہ ذیل دس نكات پر مشتمل ہے:
1۔ حضور علیہ السلام كو خدا تعالیٰ كی طرف سے عربی زبان میں كما ل حاصل كرنے كا واضح نشان عطا ہوا۔
2۔ آپؑ كوعربی زبان كے علوم ادبیہ میں كامل وسعت عطا كی گئی ہے۔
3۔ آپؑ عربی زبان كی نظم و نثر میں سب ہم عصروں پر فوقیت یافتہ ہیں۔
4۔ الله تعالیٰ نے آپ كو لسان عربی میں خارق عادت ملكہ عطا فرمایا ہے۔
5۔ آپؑ كو عربی زبان كےاپنے تمام ہم عصر علماء پر فضیلت دی گئی۔
6۔ الله تعالیٰ نے آپؑ كی دعا سنی اور آپ كو عربی زبان كی بلاغت كے راستوں كا یكتائے روزگار بنا دیا۔
7۔ آپؑ كو الله تعالیٰ نے اپنے فضل اور رحمت سے عربی زبان كا علم سكھایا۔ چنانچہ آپؑ ادیب اور یكتائے روزگار لوگوں میں سے ہو گئے۔
8۔ الله تعالیٰ نے آپ كو افصح المتكلمین بنایا۔
9۔ آپؑ كی عربی تحریر قرآن كریم كی فصاحت كا ظل ہے۔
10۔ آپؑ كو معجزے کے طور پر خدا تعالیٰ کی تائید سے اس زبان میں انشاء پردازی کی طاقت ملی ہے۔
یہی نہیں بلكہ اس زبان كے خدا داد علم كے بارے میں حضور علیہ السلام نے كچھ اور بھی دعاوی فرمائے ہیں جن كا بیان بعض امور كی وضاحت كے بعداگلی سطور میں كیا جائے گا۔
حضور علیہ السلام كا دعوئ وسعت علمی اور اس كی تعریف
حضور علیہ السلام كی عربی كتب میں مذكوراعلیٰ علمی دقائق ومعارف كےعلاوه،لغات ومحاوراتِ عرب،ادبی نكات اور تراكیب واسالیب وغیره آپ كےخدا تعالیٰ كی طرف سے عربی زبان میں كامل وسعت علمی عطا ہونے كی ایك جھلك ہیں۔ حضور علیہ السلام فرماتے ہیں :
’’اس قدر تصانيف عربیہ جو مضامین دقیقہ علمیہ حکمیہ پرمشتمل ہیں بغیر كامل وسعت علمی كے كیونكر انسان ان كو انجام دے سكتا ہے۔ ‘‘
(نزول المسیح،روحانی خزائن،جلد18صفحہ440)
اس تحریر سے ثابت ہوتا ہے كہ آپ كی تحریرات وسعت علمی كی عكاس ہیں اور آپ علیہ السلام كی عربی زبان كی حقیقت جاننے كے لیے گہرے علمی ذوق اور بہت ساری كتب كے مطالعہ كی ضرورت ہے۔
كامل وسعت علمی كیا ہے؟
آپ علیہ السلام نے خود ہی اس كی تعریف فرما ئی ہوئی ہے۔ فرمایا:
’’جب تک (1) زبان عرب میں پورا پورا توغل نہ ہو اور (2)جاہلیت کے تمام اشعار نظر سے نہ گذر جائیں اور (3) کتب قدیمہ مبسوطہ لغت جو محاورات عرب پر مشتمل ہیں غور سے نہ پڑھے جائیں اور وسعت علمی کا دائرہ کمال تک نہ پہنچ جائے، تب تک عربی محاورات کا کچھ بھی پتہ نہیں لگتا اور نہ اُن کی صرف اور نحو کا باستیفاء علم ہو سکتا ہے۔ ‘‘
(نزول المسیح،روحانی خزائن جلد18صفحہ436)
چنانچہ اگر كسی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام كی زبان كوسمجھنا ہے اور اس پر تحقیق كرنی ہے یا كسی كو اعتراض كرنے كا شوق ہے تو اسے ان تمام امور كا علم حاصل كرنا ہو گا ورنہ اس كا اعتراض خود اس كی جہالت پر دلالت كرے گا۔ اگلے صفحات كا مطالعہ اس دعویٰ كی صداقت كا یقین دلانے كے لیے كافی ہوگا۔
اگر كوئی اتنا علم حاصل كر لے گا تو اسے لغات ولہجاتِ عرب سے واقفیت ہو جائے گی اور خود بخود اس كے اعتراضات كا جواب مل جائے گا۔ لیكن اگر كسی كو لغاتِ عرب كادقیق علم ہی نہیں یا مختلف محاوروں اور استعمالات كا پتہ نہیں تو ایسے شخص كا اعتراض خود اس كی جہالت كی دلیل ہو گا۔
عربی زبان پر ہر یك پہلو سے قدرت معجزاتِ انبیاء سے ہے
كامل وسعتِ علمی كے حصول كے لیے جن ضروری امور كا ذكر حضور علیہ السلام نے فرمایا ہے۔ شاید بعض لوگ ذاتی كوشش سے ان تمام مراحل كو طے بھی كرلیں لیكن اس كا پورا احاطہ كرنا ان كے بس كی بات نہیں ہے۔ كیونكہ عربی زبان پر پُورا احاطہ کرنا معجزات انبیاء علیہم السلام سے ہے۔ اس بارے میں حضور علیہ السلام نےحضرت امام شافعی رحمہ الله كا قول درج فرمایا ہے جو ایك پیشگوئی كا رنگ اپنے اندر ركھتا ہے۔ فرمایا:
’’لغتِ عرب جو صرف نحو کی اصل کنجی ہے وہ ایک ایسا ناپیدا کنار دریا ہے جو اس کی نسبت امام شافعی رحمۃ اﷲ کا یہ مقولہ بالکل صحیح ہے کہ لایعلمہ الا نبیّ یعنی اس زبان کو اوراس کے انواع اقسام کے محاورات کو بجز نبی کے اور کوئی شخص کامل طور پر معلوم ہی نہیں کرسکتا۔ اس قول سے بھی ثابت ہوا کہ اس زبان پر ہر یک پہلو سے قدرت حاصل کرنا ہر ایک کا کام نہیں بلکہ اس پر پُورا احاطہ کرنا معجزات انبیاء علیہم السلام سے ہے۔ ‘‘
(نزول المسیح،روحانی خزائن جلد 18صفحہ437)
گویا ایك طر ف تو امام شافعی رحمہ الله كہتے ہیں كہ اس بان كا كامل احاطہ نبی ہی كرسكتا ہے اور دوسری طرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام اعلان فرماتے ہیں كہ الله تعالیٰ نے مجھے یہ معجزه عطا فرمایا ہے۔ سو اس زمانے میں كامل احاطہ ایك شخص نے ہی كرنا تھا اور وه اس زمانے كے امام كے حصے میں آیا جسے الله تعالیٰ نے نبی بنا كر بھیجا۔
عربی لغات كے علم كا دعویٰ
٭…علاوه ازیں حضور علیہ السلام نے عربی زبان كے بارے میں ایك اور منفرد اور عظیم الشان دعوی فرمایا ہے كہ
’’عُلِّمُتْ أَرْبَعِيْنَ أَلْفًا مِنَ اللُّغَاتِ العَرَبِيَّةِ.‘‘
(مكتوب احمد، روحانی خزائن جلد11صفحہ234)
یعنی مجھے چالیس ہزار عربی لغات سكھائے گئے ہیں۔
اس فقره كی تشریح اوروضاحت كی بہت ضرورت ہے۔ عربی لغت كی عام معروف كتاب المنجد میں لكھا ہے كہ لغت كا لفظ ہر قوم میں معروف كلام پر بولا جاتا ہے۔ اورعلم اللغہ، عربی كے علوم كی تمام اقسام پر بھی بولا جاتا ہے۔ (المنجد)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام كے قول:
’’عُلِّمُتْ أَرْبَعِينَ أَلْفًا مِنَ اللُّغَاتِ العَرَبيَّةِ‘‘
كا ترجمہ عموماًچالیس ہزرا مادے كیا جاتا ہے جو درست ہے۔ لیكن كیا اس سے صرف یہی مراد ہے؟ اگر اس فقره كو اس كے سیاق میں پڑھیں تو معلوم ہوتا ہے كہ اس سے مراد اور بہت كچھ ہے۔ اصل نص كچھ یوں ہے:
’’إنَّ كَمَالِيْ فِيْ اللِّسَانِ الْعَرَبِيّ، مَعَ قِلَّةِ جُهْدِيْ وَقُصُورِ طَلَبِيْ، آيَةٌ وَاضِحَةٌ مِنْ رَبِّيْ، لِيُظهِرَ عَلَى النَّاسِ عِلْمِيْ وَأَدَبِيْ، فَهَلْ مِنْ مُعَارِضٍ فِيْ جُمُوعِ المُخَالِفِيْن؟ وَإِنِّي مَعَ ذٰلِكَ عُلِّمتُ أَرْبَعِيْنَ أَلْفًا مِنَ اللُّغَاتِ الْعَرَبِيَّةِ، وَأُعْطِيْتُ بَسْطَةً كَامِلَةً فِيْ الْعُلُومِ الأَدَبِيَّة.‘‘
(مكتوب احمد، روحانی خزائن جلد11صفحہ234)
قلت جہد اور معمولی جستجوكے باوجود عربی زبان میں میر ا كما ل میرے رب كی طرف سے ایك واضح نشان ہےتا كہ وہ خدا لوگوں پر میرا علم اورادب ظاہر فرمائے۔ پس مخالفین كے گروه میں كوئی ہے جو اس امر میں میرے ساتھ مقابلہ كرسكے؟ اور اس معمولی كوشش كے باوجود مجھے چالیس ہزار عربی لغات سكھائے گئے ہیں اورمجھےعلوم ادبیہ میں كامل وسعت عطا كی گئی ہے۔
چالیس ہزار عربی لغات سے مراد اگر محض چالیس ہزار مادے سمجھا جائے تو یہ كامل وسعت علمی كا ہی حصہ سمجھا جائے گا۔ اس سےثابت ہوا كہ چالیس ہزار لغات سے مراد كچھ اور بھی ہے جسے سمجھنے كے لیے ہمیں لغات عربیہ كے بارے میں مزید جاننے كی ضرورت ہے۔
اب سوال یہ ہے كہ یہ لغات كیا ہیں ؟
یہ لغات،مختلف الفاظ،مفردات، تراكیب ومحاورات اور اسالیب واستعمالاتِ عرب ہیں جو مختلف قبائل عرب میں مختلف اشكال میں استعمال ہوتے تھے۔ كبھی ان لغات میں اختلاف، قبائل كے لہجوں میں ان الفاظ كی مختلف حركات سے ہوتا تھا،تو كبھی قلبِ حروف سے۔ كبھی كوئی قبیلہ بعض حروف كا اضافہ كركے مختلف كلمات بنا لیتا تھا تو كبھی تذكیر وتأنیث میں اختلاف كی وجہ سے مختلف لغات تشكیل پاتی تھیں۔ كبھی بعض حروف كو قریبی حرف میں مدغم كرنے سے مختلف لغات جنم لیتی تھیں تو كبھی ایك ہی لفظ كو متضاد معانی میں استعمال كرنے سے نئی لغت بن جاتی تھی۔ علاوه ازیں مختلف استعمالات وتراكیب ومحاورے بھی ان لغات كا حصہ ہیں جو ایك ہی صورت حال كے بیان كے لیے مختلف قبائل كے ہاں مختلف صورتوں میں رائج تھے۔ ان كا مفصل بیان آگے آئے گا۔
ایسے لغات العرب میں سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام كو چالیس ہزار الفاظ و تراكیب واستعمالات واسالیب ومحاورے وغیره سكھائے گئے۔
٭…لغات كےان مذكوره بالا معانی كی توثیق خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام كے كلام سے بھی ہوتی ہے۔ حضورؑ فرماتے ہیں :
فَاعْلَمْ أَنَّ وَفاةَ عِيسَى ثابِتٌ بِالْآيَاتِ الَّتِيْ هِيَ قَطْعِيَّةُ الدَّلالَةِ، لِأَنَّ القُرْآنَ مَا اسْتَعْمَلَ لَفْظَ التَّوَفِّي إِلَّا لِلْإِمَاتَةِ وَالْإِهْلَاكِ، وَصَدَّقَ ذٰلِكَ المَعْنَى رَسولُ اللّٰهِ وَشَهِدَ عَلَيْهِ رَجُلٌ مِنَ الصَّحابَةِ الَّذِي كَانَ أَعْلَمُ بِلُغَاتِ قَوْمِهِ .
(حمامة البشرىٰ، روحانی خزائن جلد7صفحہ311)
یعنی جان لے كہ عیسیٰ علیہ السلام كی وفات قطعیۃ الدلالت آیات سے ثابت ہے كیونكہ قرآن نے لفظ توفیكو صرف موت دینے اور ہلاك كرنے كے معانی میں ہی استعمال كیا ہے۔ اور ان معنوں كی رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے بھی تصدیق فرمائی ہے اور اس پر صحابہ میں سے ایك ایسے شخص نے شہادت بھی دی ہے جو اپنی قوم كی لغات كا سب سے زیاده علم ركھتا تھا۔
یعنی اس كو الفاظ كے مختلف استعمالات اورمحاورات واسالیب ومعانی كا زیاده علم تھا كہ توفیكا لفظ جب اس طرح كے استعمال میں آئے تو اس كا معنی سوائے موت كے اور كچھ نہیں۔ ایسے استعمالات یا اسالیب كو بھی لغات كہا گیا ہے۔
٭…لغات كی مزید وضاحت كے لیے ذیل میں ہم لغت كی بعض كتب سے چند امور پیش كرتے ہیں۔
- لغت كی كتاب (اَلْمُزْهِرُ) میں لكھا ہے:
’’قَالَ الفَرّاءُ: كَانَت العَرَبُ تَحْضُرُ المَوْسِمَ فِي كُلِّ عَامٍ، وَتَحُجُّ البَيْتَ فِي الجَاهِلِيَّةِ، وَقُرَيْشٌ يَسْمَعُونَ لُغَات العَرَبِ، فَمَا اسْتَحْسَنُوهُ مِنْ لُغَاتِهِمْ تَكَلَّمُوا بِهِ؛ فَصَارُوا أَفْصَحَ العَرَبِ.‘‘
(اَلْمُزْهِرُ، اَلنَّوْعُ الْحَادِي عَشَرَ: مَعْرِفَةُ الرَّديءِ المَذْمومِ مِنْ اللُّغَاتِ)
الفراء كہتے ہیں كہ عرب لوگ زمانۂ جاہلیت میں ہر سال حج كے ایام میں اكٹھے ہوتے اور حج بیت الله كرتے۔ اور قریش (جو مكہ میں رہتے تھے وه عربوں كے اس اجتماع كی بدولت) مختلف لغات عرب كو سنتےاور پھر ان كی زبانوں میں سے جو جو (محاوره،استعمال، تركیب یا لفظ وغیره) انہیں اچھا لگتا اسے خو د بھی بولنے لگتے۔ اس طرح قریش افصح العرب ہو گئے۔
اس سے بھی ثابت ہوا كہ لغات عرب سے مراد مختلف استعمالات اور محاورے وغیره بھی ہیں جو مختلف قبائل میں مختلف تھے یا بعض قبائل میں زیاده اور بعض میں كم تھے۔ لیكن چونكہ حج كی غرض سے سب عرب قریش كے پاس مكہ میں آتے تھے اس لیے قریش نے سب كی زبان سن سن كر اس میں سے اچھے اچھے محاورے اور استعمالات اپنی زبان میں جمع كرلیے تھے، اس لیے قریش افصح العرب كہلائے۔
٭…مزید وضاحت كے لیے لسان العرب كی یہ عبارت ملاحظہ ہو:
’’ نَزَلَ القُرْآنُ عَلَى سَبْعَةِ أَحْرُفٍ كُلُّها شَافٍ كَافٍ، أَرَادَ بِالْحَرْفِ اللُّغَةَ قَالَ أَبُو عُبَيْدٍ وَأَبُو العَبّاسِ: نَزَلَ عَلَى سَبْعِ لُغاتٍ مِنْ لُغاتِ العَرَبِ.‘‘
(لِسانُ العَرَبِ، تَحْتَ كَلِمَةِ ’’حَرْف‘‘)
یعنی قرآن کریم سات حروف پرنازل کیا گیا ہے جن میں سے ہرایک شافی اور کافی ہے۔ اس قول میں نبی كریم صلی الله علیہ وسلم نے حرف سے مراد لغت لی ہے۔ اس لیے ابو عبید اور ابو العباس نے كہا ہے كہ قرآن عربوں كی لغات میں سے سات لغات میں نازل ہوا۔
٭…حافظ ابن جریر طبریؒ كہتے ہیں ’احرف سبعہ‘سے مرادقبائل عرب کی سات لغات ہیں۔
(تَفْسير ابْن جَرير، القَوْلُ فِي اللُّغَةِ الَّتِي نَزَلَ بِهَا القُرْآنُ مِنْ لُغاتِ العَرَبِ)
سات لغات سے یہ مراد نہیں ہے كہ وه سات بالكل مختلف زبانیں تھیں بلكہ یہ سات قبائل ایسے تھے جن كی عربی زبان میں بعض مقامات پر استعمال ہونے والے الفاظ ومحاورات واستعمالات وغیره میں اختلاف تھا۔ اور یہی وه امر ہے جسے لغات عرب كا نام دیا گیا ہے۔
٭…لغات كی مزید وضاحت كے لیے لسان العرب كی یہ تحریر ملاحظہ ہوجس میں ابن منظور مؤلف لسان العرب، لیث كا قول درج كرتے ہوئے لكھتا ہے:
’’وَيَكُونُ أَمْ بِمَعْنَى بَلْ، وَيَكُونُ أَمْ بِمَعْنَى أَلف الِاسْتِفْهامِ كَقَوْلِكَ: أَمْ عِنْدَكَ غَداءٌ حاضِرٌ؟ وَأَنْتَ تُرِيدُ: أَعِنْدَكَ غَداءٌ حاضِرٌ؟ وَهِيَ لُغَةٌ حَسَنَةٌ مِنْ لُغاتِ العَرَبِ.‘‘
(لِسانُ العَرَبِ حَرْفُ المِيمِ تَحْتَ كَلِمَةِ ’’أمم‘‘)
یعنی أمْكبھی بَلْكے معنوں میں آتا ہے اور أمْ كبھی استفہام والے الف (أ) كے معنے میں استعمال ہوتا ہے جیسےكہا جاتا ہے كہأَمْ عِنْدك غَداءٌ حاضِرٌ؟ اور اس سے مراد ہوتا ہے أَعِندَك غداء حاضِرٌ؟ اوریہ لغات عرب میں سے ایك اچھی لغت ہے۔
یہاں محض ایك لفظ كے عام مشہور مفہوم سے ہٹ كر ایك اور مفہوم میں استعمال كو ایك علیحده لغت قرار دیا گیا ہے۔
٭…لسان العرب كی یہ عبارت بھی ہمارے اس موضوع پر روشنی ڈالتی ہے:
’’وَطه قَالَ: وَقَوْلُ الشّافِعيِّ نَفْسُهُ حُجَّةٌ لِأَنَّهُ – رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ – عَرَبيّ اللِّسانِ فَصيحُ اللَّهْجَةِ. قَالَ: وَقَدْ اعْتَرَضَ عَلَيْهِ بَعْضُ المُتَحَذْلِقينَ فَخَطَّأَهُ وَقَدْ عَجلَ وَلَمْ يَتَثَبَّتْ فِيمَا قَالَ. وَلَا يَجُوزُ لِلْحَضَرِيِّ أَنْ يعجلَ إِلَى إِنْكارِ مَا لَا يَعْرِفُهُ مِنْ لُغاتِ العَرَبِ.‘‘
(لِسانُ العَرَبِ، حَرْفُ اللّامِ، تَحْتَ كَلِمَةِ’’عول‘‘)
یعنی اور طہ نے كہا كہ شافعی كا قول تو بذات خود حجت ہے كیونكہ شافعی رضی اللہ عنہ عربی اللسان اور فصیح اللہجہ ہیں۔ ایك جلد بازنيم عالم نے آپ پر اعتراض كرتے ہوئے آپ كے كلام میں بغیر ثبوت اورتوثیق كے غلطی نكالی حالانكہ شہر میں رہنے والے كسی شخص كے لیے جائز نہیں كہ جلد بازی كا مظاہره كرتے ہوئے ہر ایسی لغات عرب كا انكار كر دے جسے وه نہیں جانتا۔
اس قول سے بھی ثابت ہوتا ہے كہ لغات عرب كا مضمون بہت وسیع ہے اور ذاتی كوشش سے اس كا احاطہ كرنا ناممكن ہے كیونكہ تمام عربی لغات محفوظ نہیں رہیں۔ اس لیے محض عدم علم كی بنا پر كسی لفظ یا محاورے یا استعمال وغیره كو غلط كہنا جہالت ہے۔
٭…قرآن كریم تو سات قبائل كی لغات یعنی سبعة أحرف میں نازل كیا گیا۔ لیكن كیا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی دیگر لغات عرب كو استعمال كیا؟
اس سلسلہ میں لسان العرب میں آنے والی ایك روایت ملاحظہ ہو۔
’’وَرَدَ فِي حَديثِ عائِشَةَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهَا: اسْتَأْذَنْت النَّبيَّ فِي دُخولِ أَبِي الْقُعَيْسِ عَلَيْهَا، فَقَالَ: اِئْذِنِي لَهُ فَإِنَّهُ عَمُّجِ. فَإِنَّهُ يُرِيدُ: عَمُّكِ مِنْ الرَّضاعَةِ. فَأَبْدَلَ كَاف الخِطابِ جِيمًا، وَهِيَ لُغَةُ قَوْمٍ مِنْ اليَمَنِ. قَالَ الخَطّابيُّ: إِنَّمَا جَاءَ هَذَا مِنْ بَعْضِ النَّقلَةِ، فَإِنَّ رَسولَ اللّٰهِ كَانَ لَا يَتَكَلَّمُ إِلَّا بِاللُّغَةِ العالِيَةِ. قَالَ ابْنُ الأَثِيرِ: وَلَيْسَ كَذَلِكَ، فَإِنَّهُ قَدْ تَكَلَّمَ بِكَثِيرٍ مِنْ لُغاتِ العَرَبِ، مِنْهَا قَوْلُهُ: لَيْسَ مِن امْبِرِّ امْصِيَام فِي امْسَفَرِ، وَغَيْر ذَلِكَ.‘‘
(لِسانُ العَرَبِ، حَرْفُ المِيمِ، تَحْتَ كَلِمَةِ’’عمم‘‘)
حضرت عائشہ رضی الله عنہا كی روایت ہے كہ انہوں نے نبی كریم صلی اللہ علیہ وسلم سےابو قعیس كے اپنے پاس آنے كی اجازت مانگی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اسے آنے دیں كیونكہ وه آپ كا رضاعی چچا ہے۔ آپ نے عَمُّكِكی بجائے عَمُّجِ فرمایایعنی كاف كو جیم سے بدل دیا جو كہ یمن كی ایك قوم كی لغت ہے۔ خطابی نے كہا كہ یہ بات صرف بعض راویوں نے نقل كردی (اور اس میں كوئی حقیقت نہیں ) كیونكہ نبی كریم (صلی اللہ علیہ وسلم) تو صرف اعلیٰ وافصح زبان ہی بولتے تھے۔ ابن اثیر نے كہا كہ(خطابی كی) یہ بات درست نہیں ہےكیونكہ نبی كریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے بہت سی لغاتِ عرب میں كلام فرمایا ہے، ان میں سے آپ كا یہ قول بھی ہے كہ
لَيْسَ مِنَ امْبِرّ امْصِيامُ في امْسَفَرِ
وغیره۔ جو اصل میں :
لَيْسَ مِنَ البِرّ الصِيامُ في السَفَرِ
ہے۔ یعنی سفر میں روزہ ركھنا اعلیٰ درجہ كی نیكی نہیں ہے۔
ا س جملے میں تین الفاظ میں لام كو میم سے بدل دیا گیا ہے اس لیے اس كی یہ صورت بن گئی ہے۔ اوریہ لغات عرب میں سے ایك لغت ہے۔
لغات عرب میں اختلاف كی صورتیں اور اس كے اسباب
مذكوره بالا وضاحت سے يہ تو ثابت ہو گیا كہ عربوں كی بے شمار لغات ہیں۔ لیكن سوال یہ پیدا ہوتا ہے كہ اس اختلافِ لغات كے آخر اسباب كیا ہیں ؟ گو بادی النظر میں یہ حصہ ہمارے مضمون سے براہ راست تعلق نہیں ركھتا لیكن ان اسباب كو جاننے كے بعد پتہ چلے گا كہ ان سے ہمارے مضمون كے بہت سے مخفی پہلوؤں پر روشنی پڑتی ہے۔ اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے كہ اس كی بھی كچھ وضاحت كردی جائے۔
اختلافِ لغات كے اسباب كے بارے میں لسان العرب اور دیگر لغت كی كتب میں مختلف بیانات موجود ہیں۔
اختلافِ لغات كے اسباب میں سرفہرست مختلف قبائل كا ایك ہی بات كو بیان كرنے كے لیے مختلف الفاظ وتراكیب استعمال كرنا ہے۔ اس اختلاف كے اسباب كے بارے میں محققین نے بہت كچھ لكھا ہےاور اس كی متعدد وجوہات بیان كی ہیں۔ ابن فارس نے اپنی كتاب فقہ اللغہ میں لغات عرب كے اختلاف كے اسباب ووجوہات كا ذكر كيا ہے جسے علامہ سیوطی نے اپنی كتاب المزهرمیں درج كیا ہے جس كا خلاصہ یہ ہے:
1۔ ایك وجہ حركات (یعنی زیر زبر پیش اور جزم وغیره) كا اختلاف ہے۔ مثلاً قریش نَسْتَعِيْن نون كی زبر كے ساتھ پڑھتے تھے جبكہ قبیلہ اسد وغیره میں اسے نون كی زیر كے ساتھ نِسْتَعِيْن پڑھا جاتا تھا۔
٭…اسی طرح بعض قبائل میں مَعَكمكو مَعْكم یعنی عین كی جزم كے ساتھ پڑھا جاتا ہے۔
اب یہ محض ایك حرف كی حركت كی تبدیلی سے مختلف لغت بن جاتی ہے۔
٭…اسی طرح بعض قبائل كے ہاں أَنَّ زَيْدًاكو عنّ زيدًا لكھا یا پڑھا جاتا ہے۔ بظاہر أَنَّكو عَنَّ سے بدلنابہت بڑا اختلاف ہے لیكن یہ موجود ہے اور جسے عربی لغات كا علم دیا گیا ہےاس كے كلام میں اگر ایسے استعمال كا كہیں نہ كہیں اظہار ہوگا تو ان امور سے جاہل شخص ضرور اسے غلطی قرار دے گا حالانكہ یہ استعمال لغات عرب میں سے ہیں اور درست لغت ہے۔
٭…اسی طرح بعض قبائل بعض حروف كو تبدیل كر كے استعمال كرتے تھے مثلاً أولئك كو بعض أُولالِكَ یعنی همزه كو لام سے بدل كر پڑھتے تھے۔ لغات عرب كے علم سے بےبہره شخص اس استعمال پر نقطہ چینی كرے گا جو اس كی جہالت كا ثبوت ہوگا۔
2۔ ان اسباب میں سے ایك، ہمزه ظاہره كو تخفیف كے ساتھ لكھنا یا پڑھنا ہے۔ مثلاًبعض كے ہاں مُسْتهزئون كو مُسْتهزُوْن لكھا جاتا ہے۔ اس كی مثالیں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام كے كلام میں بكثرت پائی جاتی ہیں۔
3۔ ان اسباب میں سےایك سبب بعض حروف كی تقدیم و تاخیر ہے۔ مثلاً بعض لفظ صاعِقة كو صاقِعةٌ پڑھتے یا لكھتے ہیں۔
4۔ ان اسباب میں ایك سبب حذف واثبات بھی ہے مثلاً بعض اسْتَحْيَيْتُ میں دو یاء كو قائم ركھتے ہیں اور بعض ایك یاء حذف كر كے اسْتَحَيْتُ لكھنا یا پڑھنا كافی سمجھتے ہیں۔
5۔ ان اسباب میں سے ایك سبب تذكیر وتانیث میں اختلاف بھی ہے۔ بعض عرب هَذِهِ الْبَقَر، اور هَذِهِ النَّخْل، كہتے ہیں اور بعض: هذا الْبَقَر، اور هذا النَّخْل كہتے ہیں۔ اب عام فہم قواعد كو جاننے والا اور لغات عرب كے علم سے بےبہره شخص مذكر كے لیے هَذِهِ اور مؤنث كے لیے هذا كے استعمال پرضرور اعتراض كرے گا اور اسے غلط كہے گا۔ لیكن جس كالغات عرب كا خداداد علم پانے كا دعویٰ ہے اس كے كلام میں ان لغات كی جھلك نظر آئے گی اور اس پر اعتراض كرنے والا اپنی جہالت كا ثبوت دے رہا ہوگا۔
6۔ اسی طرح ایك وجہ ادغام ہے۔ مثلاًبعض مُهتَدون كو مُهَدُّون لكھتے ہیں یعنی تاء اور دال كے ادغام كے ساتھ۔ يہ بھی لغات عرب میں سے ایك لغت ہے۔
7۔ ایك وجہ اعراب كا اختلاف ہے۔ مثلاً بعض مَا زيدٌ قائمًاكو مَا زيدٌ قائمٌ لكھتے ہیں اور بعض إنَّ هذَين كو إنّ هذان لكھتے ہیں۔ اور یہ بنی حارث بن كعب كی لغت ہے۔
8۔ ایك وجہ یہ ہے كہ كسی لفظ كے آخر پر گول تاء آئے تو اس پر وقف كرتے ہوئے بعض اسے ہاء پڑھتے ہیں اور بعض اسے تاء ہی پڑھتے ہیں مثلا ًبعض هَذِهِ أُمَّة كو وقف كی صورت میں هَذِهِ أُمَّهْ پڑھتے ہیں اور بعض اسے هَذِهِ أُمَّتْ پڑھتے ہیں۔ اور يہ دونوں الگ الگ لغات ہیں۔
9۔ یہ تمام لغاتِ عرب ان لوگوں یا قبائل كے نام سے منسوب ہیں جو انہیں استعمال كرتے تھے۔ گو یہ لغات مختلف اقوام وقبائل كی تھیں اور دیگر قبائل ان كو استعمال نہیں كرتے تھے۔ تاہم جب یہ لوگوں میں كثرت سے پھیل گئیں توپھر ایك دوسرے كی جگہ پربھی استعمال ہونا شروع ہو گئیں۔
10۔ ان اسباب میں سے ایك بڑا سبب مختلف كلمات كے متضاد معانی اخذ كرنے كا ہے۔
مثلاً حِمْيَر قبیلہ كی زبان میں ثَبْ كا مطلب ہے بیٹھ جا۔ ایك روایت میں آتا ہے كہ عامر بن طفیل رسول كریم صلی اللہ علیہ وسلم كے پاس آئے تو ذكر ہے كہ فَوَثَّبَهُ وِسادة یعنی آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان كے لیے تكیہ وغیره لگا كر بیٹھنے كی جگہ تیار كی اور انہیں اس پر بٹھایا۔ اسی لیے حمیر قبیلہ كی لغت میں الوِثاب چٹائی وغیره كو كہتے ہیں جسے بچھا كر اس پر لوگ بیٹھتے ہیں۔
لیكن اس كے برعكس بعض دوسرے قبائل میں یہ لفظ چھلانگ لگانے كے معنے میں استعمال ہوتا تھا۔
زید بن عبد الله بن دارم كے بارے میں آتا ہے كہ وه حمیر كے ایك بادشاه سے ملنے كے لیے گیا جبكہ وه ایك پہاڑ پر قیام پذیر تھا۔ بادشاه نے اسے كہا ثَبْ یعنی بیٹھ جا۔ جبكہ زید نے یہ سمجھا كہ بادشاه اسےپہاڑ سے چھلانگ لگانے كا كہہ رہا ہے۔ چنانچہ اس نے كہا كہ اے بادشاه تو مجھے اطاعت گزاروں میں پائے گا۔ یہ كہہ كر اس نے پہاڑ سے چھلانگ لگا دی اور ہلاك ہو گیا۔
(تلخیص از المزهر للسیوطی النوع السادس عشر معرفة مختلف اللغة)
(جاری ہے)